بھارت : نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

چینی صدر کا دورہ واشنگٹن،امریکہ سے تناو کم کرنے کے اشارے

ڈاکٹر سلیم خان

مودی سرکار نے روس ، یوکرین ، فلسطین ، اسرائیل ، چین اور امریکہ سبھی کا اعتماد گنوادیا
ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) بحرالکاہل کے ارد گرد کی معیشتوں کا ایک گروپ ہے۔ اس کا مقصد خطے میں تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہ بلاک ایشیا پیسیفک کے بڑھتے ہوئے باہمی انحصار سے فائدہ اٹھانے اور علاقائی اقتصادی انضمام کے ذریعے خطے کے لوگوں کے لیے زیادہ خوش حالی پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اے پی ای سی کا آغاز 1989 میں بارہ ارکان کے ساتھ ہوا تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ تعداد اکیس تک پہنچ گئی۔ اس گروپ میں امریکہ، چین، روس، جاپان، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، کینیڈا، میکسیکو، پیرو، چلی، ملائیشیا، اور آسٹریلیا جیسے بڑے ممالک کے علاوہ برونائی، ہانگ کانگ، نیوزی لینڈ، پاپوا نیوگنی، فلپائن، ویت نام، سنگاپور، تھائی لینڈ اور تائیوان جیسے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں لیکن ان میں ہندوستان نہیں ہے۔ 1991 میں رکنیت حاصل کرنے کی کوشش اکثریت کی حمایت کے باوجود ناکام ہوگئی کیونکہ اقتصادی پالیسیوں کےحوالے سے کچھ خدشات اور تحفظ پسندانہ رجحانات شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ 1997 میں نئے ارکان کے داخلہ پر روک لگی جو 2012 میں اٹھی مگر پھر بھی دال نہیں گلی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ اجلاس میں ناظر کی حیثیت سے پیوش گوئل نے شرکت کی وزیر اعظم خود نہیں جاسکے۔
ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کانفرنس میں ہندوستان کی عدم موجودگی جس قدر حیرت انگیز ہے اتنی ہی تعجب خیز سرزمینِ امریکہ پر امریکی صدر جو بائیڈن کی ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات ہے۔ جی ٹوینٹی کے اجلاس میں جو لیڈر اپنے پڑوسی ملک ہندوستان نہیں آسکا وہ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے امریکہ پہنچ گیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بیجنگ کے ان دونوں پروگراموں کی اہمیت میں کتنا فرق ہے۔ جہاں تک وشوگرو بننے کا خواب دیکھنے والے ہندوستان کا سوال ہے اس کے لیے اپنے ہی علاقہ کے سلامتی اور تجارتی مباحث سے دور رہنا کس قدر اذیت ناک ہوگا اس کا اندازہ لگانے کے لیے وزیر اعظم مودی کی روح کو ٹٹول کر دیکھنا ہوگا۔ امریکی اور چینی سربراہ ایک سال بعد ایسے وقت میں ایک دوسرے سے ملے جبکہ دونوں عالمی بحرانوں فلسطین و اسرائیل اور یوکرین و روس پر ان کے درمیان شدید اختلاف ہے۔ بیجنگ نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کر رکھا ہے اور روس کے معاملے میں چین کی مخالفت واشنگٹن کر رہا ہے۔ ادھر مودی نے بائیڈن کی خوشنودی کے لیے چین سے پنگا لے لیا، اُدھر شی جن پنگ نے امریکہ سے ہاتھ ملا لیا۔ ایسے میں عطاءاللہ کا یہ مشہور نغمہ یاد آتا ہے؎
اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا
یار نے ہی لوٹ لیا گھر یار کیا
ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ مذکورہ بالا دونوں تنازعات میں نہ وہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے کوئی ایک بھی فریق مطمئن نہیں ہے۔ مودی سرکار نے روس، یوکرین، فلسطین، اسرائیل، چین اور امریکہ سبھی کا اعتماد گنوا دیا ہے۔ اس کے برعکس شی جن پنگ نے امریکہ کی سرزمین پر جا کر کمال کی ڈھٹائی سے اعلان کر دیا کہ چین نے نہ کسی پر کبھی حملہ کیا اور نہ کسی کی ایک انچ زمین لی۔ یہ بات اگر درست ہے تو کیا گلوان اور ڈوکلام میں ہندوستان نے چین پر حملہ کیا تھا یا اروناچل پردیش میں در اندازی کسی خلائی مخلوق نے کی تھی؟ عالمی سطح پر اس تنہائی اور سبکی کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی نے اسی دوران وائس آف گلوبل ساوتھ سمٹ کا انعقاد کر دیا۔ اس کا ورچول افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جغرافیائی طور پر گلوبل ساؤتھ تو ہمیشہ سے رہا ہے لیکن اسے اس طرح سے وائس پہلی بار مل رہی ہے۔ ویسے سو سے زیادہ ممالک کے اس فورم کی اس آواز کو کوئی سنتا نہیں جن کے مفاد اور ترجیحات یکساں ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مغربی ایشیا کے واقعات سے نئے چیلنجز ابھر رہے ہیں۔ بس اتنا کہہ کر اگر وہ رک جاتے تو اچھا تھا۔ اس کے بعد 7؍ اکتوبر کے حملے کو دہشت گردی، شہریوں کی موت پر افسوس اور صدر محمود عباس سے بات کرکے فلسطین کے لوگوں کی انسانی امداد کا ذکر کرکے انہوں نے ایک ایسی کھچڑی پکائی کہ جس نے منہ کا ذائقہ بگاڑ دیا۔ الیکشن باز مودی کو ایسا لگتا ہے کہ سب کی بات کرو سب ووٹ دیں گے لیکن عالمی سفارتکاری میں ایک موقف اختیار کرنا پڑتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو ورنہ اچھا خاصا مذاق بن جاتا ہے اور ایسے ممالک کی حالت ’ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘ کی سی ہو جاتی ہے۔ فی الحال ایس جئے شنکر کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں جب بھی کوئی قرار داد پیش ہوتی ہے اس بابت پیشن گوئی مشکل ہوجاتی ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی تو یہ صحرا میں بگٹٹ دوڑتا ہے اور کبھی دھول میں لوٹنے لگتا ہے۔
چین اور امریکہ فی الحال دو سوپر پاور ہیں۔ دنیا کی تقریباً چالیس فیصد اشیاء اور خدمات کا کاروبار انہیں کے قبضے میں ہے۔ ان کے درمیان دو طرفہ تعلقات وزیر اعظم نریندر مودی کے چہیتے دوست سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں خراب ہوگئے تھے۔انہوں نے چین کے حق میں بھاری تجارتی خسارے پر ٹیکس لگایا جسے بائیڈن انتظامیہ نے چینی ٹیک کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرکے جاری رکھا۔ اس معاشی جنگ پر قابو پانے کے لیے چینی صدر چھ سال میں اپنے پہلے دورے پر امریکہ پہنچ گئے تاکہ تجارت کے ساتھ جنوبی چین کے سمندر میں عسکری غلبہ اور تائیوان کے مسئلہ پر گفتگو کر سکیں۔ امریکہ نے کواڈ نامی اتحاد بناکر ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور فرانس کو بحیرہ جنوبی چین میں اپنی نقل و حرکت بڑھا دی جس سے بیجنگ امریکہ سمیت اس کے سارے حلیفوں سے ناراض ہوگیا۔ امریکہ اور چین کا عسکری مفاد تائیوان سے بھی وابستہ ہے۔ تائیوان چونکہ امریکہ کے لیے مائیکرو چپس کا بڑا سپلائر ہے اس لیے واشنگٹن سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی کے باوجود اس جزیرے کی تحفظ و سلامتی کے لیے ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ اگست میں امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو چین نے اسے اپنی خود مختاری میں خلل اندازی قرار دے کر امریکہ کے ساتھ فوج سے فوج کے مواصلات کا معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ امریکی انتظامیہ اس کو دوبارہ بحال کرنے اور اسرائیل-غزہ یا روس-یوکرین جنگوں کی توسیع کو روکنے کی خواہشمند ہے۔
امریکہ میں چین کے تعلق سے جاسوسی اور منشیات کی فراہمی پر بھی شدید اختلافات ہیں۔ TikTok اور Huawei جیسی چینی کمپنیوں پر واشنگٹن جاسوسی کا الزام لگا چکا ہے۔ امسال فروری میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کا الزام لگا کر امریکہ نے چینی غبارے گرا دیے جبکہ چین نے غباروں کو نگرانی کے مقاصد سے اڑانے کی تردید کی تھی۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں میں چینی ٹیک کمپنیوں کے خلاف شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ واشنگٹن چونکہ فوجی ایپلیکیشنز والی ٹیکنالوجیز کو نشانہ بنانا چاہتا ہے اس لیے وہ چینی چپ فرموں پر پابندیاں نہیں اٹھا سکتا۔ اس کے علاوہ فینٹینائل نامی نشہ آور دوا نے امریکہ کے اندر بحران پیدا کر رکھا ہے۔ اس بابت واشنگٹن نے بیجنگ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی سپلائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پچھلے مہینے بائیڈن انتظامیہ نے منشیات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث چینی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں بڑھا دی تھیں۔ امریکی صدر کے لیے بیجنگ پر نرمی ظاہر کیے بغیر کشیدگی کو کم کرنا بڑی آزمائش ہے کیونکہ انتخابی سال میں بائیڈن کی مخالف ریپبلکن پارٹی چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتاتی ہے۔ چین سے قربت امریکی عوام کے مفاد میں ہو تب بھی بائیڈن کے لیے نقصان دہ ہے۔ چینی سربراہ شی جن پنگ پر اپنی رکی ہوئی معاشی ترقی کی بحالی کے لیے دباؤ ہے۔ انہیں سالانہ APEC فورم سے توقع ہے کہ چینی کمپنیوں کو تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع ملیں گے۔
تائیوان میں دو ماہ کے اندر انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے بیجنگ اور واشنگٹن دونوں کی ان پر گہری نظر ہے۔ انتخابی میدان میں سرکردہ امیدوار اور امریکہ کی پسند موجودہ نائب صدر کو چین نے "علیحدگی پسند” قرار دے دیا ہے جبکہ چین نواز حزب اختلاف کا رہنما تیسرے نمبر پر ہے۔ تائیوان کی ٹیک کمپنی Foxconn کے بانی ٹیری گو آزاد امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات کے لیے میدان میں ہیں۔ ایپل کے اس بڑے سپلائر کی حوصلہ شکنی کے لیے چین نے اس کے خلاف ٹیکس کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ اس طرح امریکہ اور چین آمنے سامنے ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں یہ ناممکن ہے کہ شی اور بائیڈن اسرائیل-غزہ جنگ اور روس-یوکرین تنازع پر بات چیت نہ کریں۔ یوکرین میں جہاں امریکہ کھلے عام روس کا مخالف ہے، چین نے بھی ماسکو کی مذمت نہیں کی۔ فلسطین کے معاملے میں امریکہ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا جبکہ چین فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے پیش نظر جنگ بندی پر زور دے رہا ہے۔ ایران سے چین تیل خریدتا ہے۔ چین کی مدد سے امریکہ اس کے اتحادی تہران کے ذریعہ حزب اللہ کو جنگ میں شمولیت سے روکنا چاہتا ہے۔ اپنے اس مقصد میں امریکی صدر کس قدر کامیاب ہوسکیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کا تجربہ چین سے کہیں زیادہ ہے مگر وہ امریکی خوشنودی کے لیے اپنے علاقائی مفادات کو داو پر لگائے اس کی امید بہت کم ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ ویسے تو ایک دوسرے کے دوست ہیں اور احمد آباد میں ایک ساتھ جھولا بھی جھول چکے ہیں لیکن دونوں کا مزاج بالکل متضاد ہے۔ مودی کی طرح شی جن پنگ کو سرکاری خرچ پر سیر و سیاحت کا شوق نہیں ہے۔ انہوں نے اس سال صرف تین غیر ملکی دورے کیے۔ یوکرین تنازع کے پیش نظر پہلے روس گئے اور پھر برکس اجلاس کے لیے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا۔ اب تیسرا دورہ امریکہ کا کیا۔ مودی جی کی مانند اپنے غیر ملکی دورے پر وہ رقص و سرود کی محفلیں سجا کر غیر مقیم ہندوستانیوں سے خطاب نہیں کرتے۔ ایسا کرنا تو جمہوریت نواز ٹرمپ اور مودی کی مجبوری ہوتی ہے جو کبھی ’ہاوڈی مودی‘ اور کبھی’ نمستے ٹرمپ‘ جیسے ناٹک کرتے ہیں۔ شی چونکہ تقریباً تاحیات سربراہ بن گئے ہیں اس لیے یہ ان کی سیاسی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن کو انہیں ایک ’ڈکٹیٹر‘ کہنا پڑتا ہے۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ ’وہ ایک آمر ہی ہیں کیونکہ وہ ایک کمیونسٹ ملک چلاتے ہیں۔ وہ طرز حکومت ہم سے بہت مختلف ہے۔‘
جن شی پنگ کی اس کو کوئی پروا نہیں ہے۔ ان کو اعتراف ہے کہ ’’ہمارا ملک امریکہ سے مختلف ہے لیکن ہم اس فرق کے باوجود ساتھ رہ سکتے ہیں۔ زمین اتنی بڑی ہے کہ دونوں سوپر پاور یہاں رہ سکتے ہیں۔ چین اور امریکہ جیسے دو بڑے ممالک کا ایک دوسرے سے منہ موڑ کر تصادم کی راہ اختیار کرنا خطرناک نتائج نکال سکتا ہے‘‘۔ جن پنگ کے اس بے باکانہ اظہارِ خیال کا امریکی صدر جو بائیڈن پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کو واضح طور پر سمجھتے ہیں تاکہ کوئی غلط فہمی یا رابطے کا فاصلہ نہ ہو۔اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں مسابقت کو تصادم میں بدلنے سے روکنے کو یقینی بنانا ہو گا۔ دنیا کی دو بڑی طاقتیں اس طرح اختلاف پر اتفاق کرکے ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ ہو جائیں تو اس سے ایک اچھی فضا بن سکتی ہے۔ فی الحال عالمِ انسانیت کو سرد جنگ کی نہیں امن و سلامتی کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کی ضرورت ہے۔ سان فرانسسکو کے اجلاس اور ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان معاشی مسابقت اور عالمی سلامتی کے لیے خطرات کے حوالے اختلافات ختم تو نہیں ہوئے مگر اس پر اتفاق ہوا کہ اگر دونوں میں سے کسی کو بھی کوئی بات کھٹکے تو وہ ٹیلی فون اٹھائیں اور ایک دوسرے کو کال کریں، باہمی گفت و شنید کے دروازے کھلے رہیں۔ اپنی اخباری کانفرنس میں جو بائیڈن نے اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
خاموش طبع شی جن پنگ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مانند گول مول باتیں بھی نہیں کرتے۔ امریکہ میں جاکر انہوں نے ببانگِ دہل کہہ دیا کہ چین نے کبھی کسی ملک کی ایک انچ زمین پر نہ قبضہ کیا اور نہ ہی ہم نے کبھی کوئی جنگ شروع کی، حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں مگر اس میں کوئی جھجھک یا ابہام نہیں تھا۔ امریکہ اور چین کے درمیان گلے کی ہڈی بنے ہوئے تائیوان پر وہ بغیر کسی رُو و رعایت کے بولے کہ اسے وہ چین کا حصہ بنا کر رہیں گے۔ شی جن پنگ نے سرزمینِ امریکہ پر کہا کہ امریکہ تائیوان کو ہتھیار دینا بند کر دے۔ بائیڈن نے چین کو جنوری میں منعقد ہونے والے تائیوان کے صدارتی انتخابات میں مداخلت نہ کرنے کے لیے کہا تو جواب میں صدر شی نے زور دیا کہ امریکہ کو چاہیے کہ تائیوان کو مسلح کرنے کے بجائے چین کی پُرامن وحدت کی حمایت کرے۔ انہوں نے امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا چین امریکہ کو پیچھے چھوڑنا یا بدلنا نہیں چاہتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ بھی چین کو دبانا بند کرے۔ امریکی انتظامیہ نے اس دوٹوک گفتگو کو سراہتے ہوئے فوجی رابطوں کی بحالی سے امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کے کم ہونے کی نوید سنائی۔ امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر چین کے لہجے میں نرمی کا اعتراف کیا گیا۔
گزشتہ سال نومبر سے دونوں صدور کے درمیان سفارت کاری کا آغاز دفاعی سربراہوں کی بات چیت سے ہوا تھا۔ اب دونوں ملکوں کے کمانڈر فوجی مشقوں اور فورسز کی تعیناتی جیسے اُمور پر بات چیت کر رہے ہیں۔امسال 10؍ اکتوبر کو چین کے صدر شی جن پنگ نے اعلیٰ امریکی قانون سازوں کے ایک وفد سے بیجنگ میں ملاقات کے بعد کہا تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات ’’انسانی تقدیر‘‘ پر اثر انداز ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”دنیا میں تبدیلی اور انتشار کے اس دور میں چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے بنی نوع انسان کے مستقبل اور اس کی تقدیر کا تعین ہو گا۔” چین اور امریکہ تعلقات کو ”دنیا کا سب سے اہم دو طرفہ رشتہ” قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”میں نے متعدد صدور کے ساتھ کئی بار یہ بات کہی ہے کہ ہمارے پاس چین اور امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے کی ہزاروں وجوہات ہیں، لیکن انہیں خراب کرنے کی ایک بھی وجہ نہیں ہے۔” چھ رکنی امریکی وفد کی قیادت کرنے والے امریکی سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے شی جن پنگ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہمارے ممالک مل کر اس صدی کو تشکیل دیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے تعلقات کو ذمہ داری اور احترام کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل سینیٹ کے وفد نے چین کے اعلیٰ سفارت کار اور وزیر خارجہ وانگ ایی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وانگ ایی نے کہا، ’’مجھے امید ہے کہ اس دورے سے امریکہ کو چین کو زیادہ درست اور قریب سے دیکھنے میں مدد ملے گی اور چین-امریکہ تعلقات کو دوبارہ مضبوط ترقی پر لانے میں مدد ملے گی۔‘‘ وانگ نے کہا تھا کہ اس عمل کا ایک حصہ ’’موجودہ اختلافات کو زیادہ معقول طور پر سنبھالنا‘‘ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں وہ تبدیلی کے ساتھ ہی بہت ہنگامہ خیز ہے، اس لیے اس کی اہمیت پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ ماہ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے واشنگٹن کا تین روزہ دورہ کیا جس میں انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن اور مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان سے ملاقات کرکے سان فرانسسکو میں ہونے والی دو طرفہ ملاقات کا ایجنڈا متعین کرنے کا راستہ ’ہموار‘ کیا۔ اس ٹھوس سفارت کاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ بائیڈن اور شی نے اے آئی (مصنوعی ذہانت) کے محفوظ و بہتر بنانے کی ضرورت کی توثیق کی اور عالمی سطح پر غیرقانونی ادویہ سازی و اسمگلنگ سے نمٹنے کی غرض سے تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ اجلاس چونکہ یوکرین یا فلسطین سے متعلق نہیں تھا اس لیے وہاں امن کی بحالی کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی حالانکہ سان فرانسسکو کے دورانِ اجتماع غزہ کی حمایت میں ایک بہت بڑا مظاہرہ بھی ہوا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پس پردہ چینی سربراہ نے امریکی صدر کو اسرائیل کی اندھی حمایت سے منع کیا ہوگا مگر باہمی اختلاف کے سبب اسے ذرائع ابلاغ میں لانے گریز کیا گیا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے ایشیا پیشیفک اکنامی کوآپریشن کا یہ اجلاس اپنے محدود مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 بائیڈن نے چین کو جنوری میں منعقد ہونے والے تائیوان کے صدارتی انتخابات میں مداخلت نہ کرنے کے لیے کہا تو جواب میں صدر شی نے زور دیا کہ امریکہ کو چاہیے کہ تائیوان کو مسلح کرنے کے بجائے چین کی پُرامن وحدت کی حمایت کرے۔ انہوں نے امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا چین امریکہ کو پیچھے چھوڑنا یا بدلنا نہیں چاہتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ بھی چین کو دبانا بند کرے۔ امریکی انتظامیہ نے اس دوٹوک گفتگو کو سراہتے ہوئے فوجی رابطوں کی بحالی سے امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کے کم ہونے کی نوید سنائی۔ امریکہ کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر چین کے لہجے میں نرمی کا اعتراف کیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023