بھارت میں تعلیم کی تجارت کاری کا مسئلہ اور پس پردہ حقائق

مساویانہ تعلیم کی عدم فراہمی ریاست اور نظام کی ایک بڑی خامی

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بے تحاشا فیس حاصل کرنے والے تعلیمی ادارے غریب و متوسط طبقہ کو سود کے جال میں پھانس رہے ہیں
مہنگی تعلیم کے باعث بینکوں سے ’ایجوکیشن لون‘ کا حصول۔ سرمایہ داروں اور حکومت کا فائدہ
تعلیم ایک ایسا ذریعہ معاش ہے جسے اختیار کرنے والا ہمیشہ سے عزت وتکریم حاصل کرتا آیا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جو لوگ بھی اس پیشہ کو اختیار کرتے ہیں ان کی حیثیت کچھ دینے کی ہوتی ہے لینے کی نہیں۔یعنی تعلیم کے ذریعہ بچوں کی،نوجوانوں کی اور زندگی کے مختلف مراحل سے گزرنے والے افراد کی تربیت کی جاتی ہے، ان کے علم میں اضافہ کیا جاتا ہے،حقائق سے واقفیت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو وسائل فراہم کیے ہیں، انہیں انسانیت کی فلاح و بہود کے لیے اس کے استعمال کاصحیح طریقہ سکھایا جاتا ہے اور ایک بہترین نسل تیار کی جاتی ہے جو آگے چل کر دنیا میں امن و امان اور تعمیر و ترقی میں اہم کردار اداکرسکے۔ ساتھ ہی خود شناسی اور خدا شناسی کا اہم کردار بھی اسی تعلیمی نظام کے ذریعہ سے انجام دیا جاتا ہے۔برخلاف اس کے اگر تعلیم کا مقصد اعلیٰ اقدار دینے کی بجائے مالی منافع کا حصول بن جائے تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو فوائد درج کیے ہیں وہ حاصل نہیں ہوتے بلکہ منفی نتائج سامنے آتے ہیں جن میں آج اکثریت مبتلا اور پریشان ہے۔یعنی جب تعلیم کا کمرشلائزیشن ہوجائے تو پھر منافع و نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام بھی ایک تجارت بن جاتاہے، اور اس تجارت کو اختیار کرنے والے کے سامنے صرف منافع باقی رہ جاتا ہے ۔مزید پریشانی اس وقت کھڑی ہوتی ہے جب منافع کے حصول میں بھی حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا فرق ختم ہوجائے۔اور چونکہ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا تعلق عقیدہ سے ہے اس لیے ایک بد عقیدہ انسان یا انسانوں کا گروہ بآسانی اس جال میں پھنستا چلاجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج انسانوں کی اکثریت عقیدہ کے اعتبار سے حددرجہ کمزور اور پستی میں مبتلا ہے جس کے عکس اور شواہد مختلف شکلوں میں وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں تعلیم کی تجارت کاری کا بدترین واقعہ اس وقت توجہ طلب بن گیا جب دہلی میں 14جولائی2024 کی شام تیزبارش کی وجہ سے اولڈ راجندر نگر علاقے میں آر اے یو ایس ،آئی اے ایس کوچنگ سنٹر کے تہہ خانے میں پانی بھر جانے سے المناک حادثہ پیش آیا۔ تہہ خانے میں اتنی تیزی سے پانی بھر گیا کہ طلباء کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ پانی بھرنے کے باعث تین طلباء ڈوب کر مر گئے۔ حادثے کی تحقیقات جاری ہیں اور پولیس نے کوچنگ سنٹر کے مالک ابھیشیک گپتا اور کوآرڈینیٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔ دونوں ملزمین کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق حادثے کے بعد دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی)نے تہہ خانوں میں غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے 13 کوچنگ سنٹروں کو سیل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ کوچنگ سنٹروں پر نوٹس بھی چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ مہم پوری دہلی میں چلائی جائے گی، جہاں کہیں بھی ضرورت ہوگی، کوئی بھی کوچنگ سینٹر ایم سی ڈی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔طلباء کے سخت احتجاج کے بعدوزارت داخلہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی وجوہات کی جانچ کرے گی، ذمہ داری کا تعین کرے گی، اور سفارش کردہ اقدامات کرے گی۔ کمیٹی پالیسی میں تبدیلیوں کی تجویز اور سفارش بھی کرے گی۔ کمیٹی ایڈیشنل سکریٹری (ہوم) اسپیشل سی پی، دہلی پولیس اور وزارت داخلہ کے جوائنٹ سکریٹری پر مشتمل ہوگی اور30 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔اگرچہ فی الوقت تشکیل کردہ کمیٹی کی تحقیقات اور رپورٹ کا انتظار ہے لیکن تعلیمی نظام ، تعلیمی اداروں نیز کوچنگ سنٹروں کے پھیلے جال میں بدنظمی کے واقعات وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں،کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں، تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جاتی ہیں، پالیسی میں تبدیلیوں کے تعلق سے سفارشات بھی کی جاتی ہیں،اس کے باوجود تعلیمی نظام میں گھن کی طرح موجود کرپشن کی مختلف شکلیں ان حادثات اور مسائل کو ختم کرنے میں ناکام ہیں۔
لیگل سروس انڈیا ای جرنل ویب سائٹ پر نشکا پرجاپتی کا مضمون بعنوان ‘سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے تعلیم کے کمرشلائیزیشن کی روک تھام ‘میں ہندوستان میں رائج تعلیمی نظام، اس کی کمزوریوں اور تعلیم کے کمرشلائزیشن پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "پچھلے پندرہ سالوں میں کیپٹیشن فیس کے معاملے پر عدالت کے سخت سے لبرل انداز میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ موہنی جین سے T.MA پائی فاؤنڈیشن تک کا سفر عدالتی لبرلائزیشن کی عکاسی کرتی ہے، لیکن یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کیپٹیشن فیس امیروں کو داخلہ لینے کے قابل بناتی ہے جب کہ غریبوں کو مالی کمزوری کی وجہ سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔بہتر میرٹ والا غریب طالب علم داخلہ نہیں لے سکتا کیونکہ اس کے پاس داخلہ لینے کے لیے پیسے نہیں ہیں جبکہ امیر داخلہ ’خرید‘ سکتے ہیں۔ لہٰذا، اس نتیجے سے کوئی نہیں بچ سکتا کہ تعلیمی اداروں میں داخلوں پر کیپیٹیشن فیس (کیپٹیشن فیس سے مراد وہ لین دین ہے جس میں تعلیمی خدمات فراہم کرنے والی تنظیم ریگولیٹری اصولوں کے ذریعہ منظور شدہ فیس سے زیادہ فیس وصول کرتی ہے)وصول کرنا ہمارے آئینی دفعات کی سراسر خلاف ورزی ہے‘‘۔یہ اصول کہ کیپٹیشن فیس یا منافع خوری نہیں ہونی چاہیے درست ہے۔ کیونکہ منافع خوری میں سہولیات کی فراہمی اور اضافہ کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے معقول اضافی رقم شامل نہیں ہے۔ اس لیے عدالت کا فیصلہ پیشہ ورانہ تعلیم کی کمرشلائزیشن کو روکنے میں بہت اہم ثابت ہوگا۔ اس صورت میں صرف میرٹ ہی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی بنیاد ہونی چاہیے۔ گو کہ پرائیویٹ کالج گورنمنٹ کالج سے زیادہ فیس لے سکتے ہیں لیکن میرٹ کی بنیاد پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ عدالت نے نجی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے کیا کِیا ہے تاکہ سب کے لیے برابری کے مواقع کو یقینی بنایا جا سکے؟ NALSAR University of Lawکے انوشا مسرا کے ایک دیگر تحقیقی مضمون بعنوان ‘ہندوستان میں رائج تعلیم کا کمرشلائزیشن ‘میں ہندوستان میں تعلیم کو تجارتی بنانے کی وجوہات پر گفتگو کرتے ہوئے روشنی ڈالی گئی ہے۔مصنف لکھتا ہے کہ تعلیم کے کمرشلائزیشن کی بنیادی وجہ تعلیم پر صرف کی گئی رقم سے اس کا موازنہ کیا جانا ہے۔ یعنی یہ فرض کیا جاتا ہے کہ کسی اسکول کی جتنی زیادہ مقبولیت ہوگی اتنی ہی بہتر تعلیم ہوگی۔ یہ ذہنیت ہندوستان میں بہت عام ہے۔ اس طرح کے اسکولوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے فیسوں میں اضافے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اورچونکہ حکومت کے بجٹ میں تعلیم کے لیے فنڈز کی کمی ہے اس لیے وہ پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بددیانتی کوقابو میں نہیں کرپارہی ہے۔ وہیں غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے جن کا واحد مقصد منافع کمانا ہے، ہندوستانی یونیورسٹیوں پر اپنی فیسوں میں اضافے کے لیے مزید دباؤ ڈالتے ہیں۔ ہندوستان میں تعلیم کے تجارتی ہونے کی ایک اور وجہ آبادی میں اضافے کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہے۔ ہندوستان میں ثانوی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں ہر سال زبردست اضافہ ہو رہا ہے اس طرح یہ منافع کمانے کے ایجنڈے کے ساتھ تعلیمی اداروں کے لیے ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔وہیں تعلیم کے کمرشلائزیشن کے نقصانات کے سلسلے میں وہ لکھتا ہے کہ (i)طلباء کی ہمہ جہت ترقی کے برخلاف زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔نتیجہ میں والدین کمرشل اور ووکیشنل اسٹڈیز کے فریب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ (ii)تعلیم کاکمرشلائزیشن مساوات کی حکم رانی کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ عام طور پرسماج میں معاشی اعتبار سے تین قسم کے افراد ہوتے ہیں ، معاشرے کے اعلیٰ افراد، محنت کش افراد، اور حددرجہ پست افراد۔ اسکولنگ فریم ورک کے تجارتی ہونے کی وجہ سے ان تین طبقات کے افراد میں محنت کش اور حددرجہ پست طبقات کے افراد تعلیم پر آنے والے اخراجات کی تیز رفتاری کی وجہ سے مساویانہ تعلیم حاصل کرنے کے اختیار سے محروم ہوجاتے ہیں جو ریاست اور نظام کی ایک بہت بڑی خامی ہے۔(iii)تعلیم کی تجارتی کاری چونکہ تعلیمی شعبے کے منافع کمانے کی صلاحیت پر مرکوز ہے، لہٰذا یہ تعلیم کے شعبے کو کاروبار میں بدل دیتا ہے۔ (iv)تعلیم کے کمرشلائزیشن کا اثر تعلیم کو بہت مہنگا بنا دیتا ہے۔ بہت سے پرائیویٹ اداروں میں فیس حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل رسائی بن جاتا ہے۔ تعلیمی شعبے کے کمرشلائزیشن کی آمد کے بعد طلباء کو محض صارف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ (v) تعلیم کی تجارتی کاری نے والدین اورطلباء میں مادیت پسندانہ نقطہ نظر کو فروغ دیا ہے۔ اس طرح کی تعلیم حاصل کرنے کے بعدطلباء سماج کی فلاح و بہود،ملک کی ترقی اور مدد و ہمدری کے جذبہ سے نالاں ہوتے ہیں برخلاف اس کے ان کی پوری توجہ خود غرضانہ رویہ پر منحصر ہوجاتی ہے۔
ہندوستان میں تعلیم کے کمرشلائزینش کے نتیجہ میں یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھائی کا معیار سرکاری اسکولوں سے بہتر ہے۔ اس طرح پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد بڑھانے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں پر عوامی اخراجات کو محدود کرنے کا شور مچایا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے معیار پر دعویٰ بحث کا موقع فرہم کرتا ہے کیونکہ ان اسکولوں میں یکساں تفاوت ہے۔انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن، لندن میں تعلیم اور بین الاقوامی ترقی کی پروفیسر گیتا گاندھی کنگڈن کا تحقیقی مقالہ، ہندوستان میں پرائیویٹ پبلک اسکول کی تعلیم کے بارے اہم نکات پیش کرتا ہے۔مقالے میں بتایا گیا ہے کہ2010-11 اور 2015-16 کے درمیان، سرکاری اسکولوں میں اوسطاً داخلہ فی اسکول 122 سے کم ہو کر 108 ہو گیا، جب کہ نجی اسکولوں میں یہ 202 سے بڑھ کر 208 ہو گیا۔اس کے باوجود، ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (DISE) کے مطابق، اسکول جانے والے تمام بچوں میں سے 65 فیصد باالفاظ دیگر 113 ملین سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔مطالعہ بتاتا ہے کہ نجی اسکولوں کی طرف ہجرت والدین کے اس یقین کی وجہ سے بنی ہے کہ یہ اسکول معیاری ہونے کے لحاظ سے زیادہ فیس لیتے ہیں۔انڈیا اسپینڈ نے 2016 میں رپورٹ پیش کی تھی کہ ایس ایس اے پر 1.16 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود، 2009 اور 2014 کے درمیان سیکھنے کا معیار گرا ہے۔ یہ رپورٹ بھی بتاتی ہے کہ ہندوستان میں پانچ میں سے ایک ایلیمنٹری اسکول کے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ نیز، کنٹریکٹ پر اساتذہ جن کی تعداد سرکاری اسکولوں میں زیادہ ہے،ان کی حوصلہ افزائی کم کی جاتی ہے نتیجتاً ان میں جواب دہی کا فقدان ہوتا ہے۔وہیں اسکولوں کا معیار بھی ریاستوں کے درمیان مختلف ہوتا ہے۔ 2016 میں، کیرالا میں پرائمری سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کا تناسب 2014 میں 40.6 فیصد سے بڑھ کر ASER 2016 کے مطابق 49.9%م فیصد ہو گیا۔2010-11 اور2015-16 کے درمیان، پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد 35 فیصد اضافہ کے ساتھ 0.30 ملین ہو گئی۔ دوسری جانب سرکاری اسکولوں کی تعداد صرف ایک فیصد فیصد اضافہ کے ساتھ 1.04 ملین ہوئی۔ ہندوستان میں سرکاری اساتذہ چین کے مقابلے میں چار گنا زیادہ کماتے ہیں لیکن کارکردگی اچھی نہیں دکھاتے۔ تعلیم پر ہندوستان کے عوامی اخراجات کا 80 فیصد تک اساتذہ پر خرچ ہوتا ہے۔ اساتذہ کی تنخواہوں کو ان کی جواب دہی سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔تاہم پرائیویٹ اساتذہ کی تنخواہ سرکاری اساتذہ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی کم تنخواہ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر ڈیمانڈ اور سپلائی کے مارکیٹ عوامل کی بنیاد پر تنخواہیں پیش کرتا ہے۔ چونکہ ہندوستان میں 29 فیصد گریجویٹس بے روزگار ہیں اس لیے اساتذہ کی سپلائی، ڈیمانڈ کے مقابلے میں زیادہ ہونے کی وجہ سے تنخواہیں بھی کم ہیں۔
ابھی حال ہی میں لوک سبھا میں پیش کیا جانا والے بجٹ برائے سال 2024-25میں حکومت نے "نیکسٹ جنریشن ریفارمز” کے تھیم پر زور دیتے ہوئے چار کلیدی گروپوں پر روشنی ڈالی تھی۔جس میں نوجوان (یووا) خواتین (مہیلائیں) کسان (اناداتا) اور غریب شامل ہیں۔ اس پس منظر میں مستقبل کی فکر کرتے ہوئے حکومت نے تعلیم کے لیے کتنا بجٹ مختص کیا؟یہ سوال اور اس کا جواب ہی حکومت کی فکرمندی اور اس کے اقدامات کی پول کھول دیتا ہے ۔NEP2020 دستاویز کے تحت تعلیم کے لیے GDP کا چھ فیصد مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتیں فی الحال GDP کے تین فیصد سے بھی کم خرچ کرتی ہیں۔ وزیر خزانہ نے 2024-25 میں ہندوستان کی برائے نام جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) 326.4 لاکھ کروڑ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا صرف 0.36 فیصد مختص کرے گی۔وہیں اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، جی ڈی پی میں سماجی اخراجات کا حصہ2017-18 میں 6.7 فیصد سے بڑھ کر2023-24 (BE) میں 7.8 فیصد ہو گیا۔ تاہم، تعلیمی اخراجات سے GDP کے تناسب میں کوئی تبدیلی نہیںآئی بلکہ 2.8 فیصد سے مزید کم ہوکے اب یہ صرف2.7 فیصد رہ گیاہے۔اس پس منظر میں حکومت وقت کا موجودہ تعلیمی نظام، اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
غریب،پسماندہ اور معاشی اعتبار سے درمیانی درجے میں زندگی گزارنے والے افراد کی اکثریت مختلف سطحوں پر حکومت کو ٹیکس کی شکل میں معیشت کے استحکام میں اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہے اس کے باجود وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے محروم ہیں۔لہذا ملک میں 90 فیصد یا اس سے زائد ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھنے والی بنیادی ضروریات کو پس پشت صرف اس غرض سے ڈال دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلائیں گے ۔لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے قدم بڑھاتے ہیں تو فیس کی ادائیگی نہیں کرپاتے۔ایسے موقع پر ایک اور جال میں انہیں پھانسنے کا عمل جاری ہے جسے عرف عام میں ‘ایجوکیشن لون’کے نام سے جانا جاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب کمرشلائزیشن آف ایجوکیشن اور مہنگی فیس حاصل کرنے والے تعلیمی ادارے ہیں تو دوسری جانب کمرشلائزڈ بینک،دونوں ہی چند مخصوص سرمایہ داروں اور حکومت کو فائدہ پہنچانے میں مددگارہیں۔یعنی بلاواسطہ حکومت کی سرپرستی میں کمرشلائزڈ تعلیمی اداروں اور بینکوں کے مالکین عوام کی معاشی کمر توڑنے میں مصروف ہیں۔اس کے باوجوخوبصورت نعرے اور رائج الوقت نفرت کی فضاء اکثریت کی نظروں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہے اور ملک کا تعلیمی نظام اہل ملک کے لیے راستے ہموار کرنے کی بجائے مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔
[email protected]
***

 

***

 غریب،پسماندہ اور معاشی اعتبار سے درمیانی درجے میں زندگی گزارنے والے افراد کی اکثریت مختلف سطحوں پر حکومت کو ٹیکس کی شکل میں معیشت کے استحکام میں اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہے اس کے باجود وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے محروم ہیں۔لہذا ملک میں 90 فیصد یا اس سے زائد ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھنے والی بنیادی ضروریات کو پس پشت صرف اس غرض سے ڈال دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلائیں گے ۔لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے قدم بڑھاتے ہیں تو فیس کی ادائیگی نہیں کرپاتے۔ایسے موقع پر ایک اور جال میں انہیں پھانسنے کا عمل جاری ہے جسے عرف عام میں ‘ایجوکیشن لون’کے نام سے جانا جاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب کمرشلائزیشن آف ایجوکیشن اور مہنگی فیس حاصل کرنے والے تعلیمی ادارے ہیں تو دوسری جانب کمرشلائزڈ بینک،دونوں ہی چند مخصوص سرمایہ داروں اور حکومت کو فائدہ پہنچانے میں مددگارہیں۔یعنی بلاواسطہ حکومت کی سرپرستی میں کمرشلائزڈ تعلیمی اداروں اور بینکوں کے مالکین عوام کی معاشی کمر توڑنے میں مصروف ہیں۔اس کے باوجوخوبصورت نعرے اور رائج الوقت نفرت کی فضاء اکثریت کی نظروں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہے اور ملک کا تعلیمی نظام اہل ملک کے لیے راستے ہموار کرنے کی بجائے مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024