بھارت میں راست اور بالواسطہ ٹیکس نظام میں فوری اصلاح کی ضرورت
کارپوریٹ گھرانوں کے مفاد کی پالیسی، اقتصادی عدم مساوات میں اضافے کا باعث
شہاب فضل، لکھنؤ
غیر مراعات یافتہ اور متوسط طبقہ کی ضروریات کو حکومت نظرانداز نہیں کرسکتی۔۔۔
عمدہ ترین ٹیکس نظام وہ ہوتا ہے جو سادہ، معقول اور سماج کے ہر طبقہ کی اقتصادی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہو۔ بھارت میں گڈس اینڈ سروسیز ٹیکس (جی ایس ٹی) یکم جولائی 2017 کو نافذ کیا گیا جو ملک کے لیے رفتہ رفتہ پیچیدہ اور پریشان کن ہوتا جارہا ہے۔ اس کا ایک نمونہ حال ہی تب دیکھنے کو ملا جب 21 دسمبر کو جی ایس ٹی کونسل کی 55ویں میٹنگ میں کچھ ایسے فیصلے کیے گئے جو نکتہ چینی اور مذاق کا نشانہ بنے۔ پاپ کارن (مکئی) کی الگ الگ اقسام پر تین الگ الگ ٹیکس شرح لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نمکین پاپ کارن پر پانچ فیصد، برانڈیڈ پر بارہ فیصد اور دودھ یا کریم، شکر، گلوکوز، مکھن اور وینیلا کو ملاکر بنائے گئے کارمیل پاپ کورن پر اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر تنقیدوں کی باڑھ آ گئی اور خاص طور پر وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کے طنزیہ میمیز بنائے گئے، جوصرف بھارت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی موضوع گفتگو بنے۔ حکومت کے دو سابق چیف اقتصادی مشیروں نے بھی اس ٹیکس پر نکتہ چینی کی۔ بعد میں جی ایس ٹی کونسل نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہاکہ پاپ کورن پر بارہ فیصد اور اٹھارہ فیصد کی ٹیکس شرح رہے گی اور ٹیکس شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
جی ایس ٹی کونسل کی اسی میٹنگ میں استعمال شدہ کاروں کی فروخت پر جی ایس ٹی بارہ فیصد سے بڑھاکر اٹھارہ فیصد کردی گئی۔ ان تمام فیصلوں پر تنقید ہوئی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک کا بھاری بھرکم ٹیکس نظام متوسط اور غریب طبقہ کے لیے کسی بڑی زحمت سے کم نہیں۔ چونکہ مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے اس لیے بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ سے عوام کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔
بزنس مین موہن داس پائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر مالیات کو ٹیگ کرتے ہوئے اپنی تنقید میں لکھا ‘‘یہ حماقت ہے، پیچیدہ ہے، اس سے ٹیکس دہشت گردی کی راہ ہموار ہوگی۔ یہ ایک غلط پالیسی ہے۔ ٹیکس کو آسان کرنے کی ضرورت ہے’’۔ سابق چیف اقتصادی مشیر پروفیسر کے وی سبرامنین نے لکھا ‘‘پیچیدگی ایک بیوروکریٹ کی خوشی اور شہریوں کے لیے زحمت ہوتی ہے’’۔ ایک دیگر سابق چیف اقتصادی مشیر اروند سبرامنین نے تنقید کرتے ہوئے کہاکہ جی ایس ٹی، ٹیکس کو آسان کرنے کے بجائے اسے پیچیدہ اور تکلیف دہ بناتا جارہا ہے۔
ملک میں اوسط جی ڈی پی کے نیچے جانے، کھپت میں کمی، مینوفیکچرنگ شعبہ کی کم زور رفتار اور مہنگائی نے حکومت کے لیے ریونیو بڑھانے کا دباؤ پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے جی ایس ٹی جیسا بالواسطہ ٹیکس نظام شہریوں کو راحت دینے کے بجائے ان کے لیے باعث زحمت بن رہا ہے۔
جی ایس ٹی میں فی الحال چار ٹیکس سلیب ہیں۔ نفاذ کے وقت جی ایس ٹی کو سمپل یعنی آسان ٹیکس کہا گیا تھا مگر یہ قطعی آسان نہیں ہے۔ چار ٹیکس سلیب اور اونچی شرح اسے پیچیدہ بناتے ہیں۔ یہ آسان کب بنے گا کہا نہیں جاسکتا۔ اس کا دوسرا پہلو ریاستوں کو ملنا والا حصہ ہے، جو توقع سے کم ہوتا ہے۔ دراصل جی ایس ٹی کے علاوہ اشیاء اور خدمات پر جو سیس یا اسپیشل ٹیکس لگایا جاتا ہے اس میں ریاستوں کا حصہ نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ مرکز کی متعدد فلاحی اسکیمیں ان شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں جو ریاستوں کے دائرہ کار یا مرکز و ریاست کے مشترکہ دائرہ کار میں آتی ہیں۔ اس سے ہو یہ رہا ہے کہ چونکہ ریاستی حکومتوں کو بھی اپنی فلاحی اسکیموں کے لیے رقم درکار ہوتی ہے اس لیے وہ اشیاء و خدمات پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتیں، جس کے باعث جی ایس ٹی کا نظام نہ صرف پیچیدہ ہورہا ہے بلکہ عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
دولت کا ارتکاز اور کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کا رجحان
ٹیکس کی زیادہ مار عام لوگوں پر پڑتی ہے جن کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور مہنگائی ان کی زندگی کو مزید مشکل بناتی ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں مجموعی قومی دولت کا 77 فیصد حصہ ملک کی دس فیصد آبادی کے پاس ہے۔ سال 2017 میں جو دولت ملک میں پیدا ہوئی اس کا 73 فیصد حصہ فقط ایک فیصد متمول ترین لوگوں تک پہنچا جب کہ 670 ملین ہندوستانی جو غریب ہیں ان کی دولت میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہوا۔
آکسفیم کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق بھارت میں سال 2022 میں ارب پتیوں کی تعداد بڑھ کر 166 ہوگئی جو 2020 میں 102 تھی۔
ایک اور ڈاٹا غریبوں اور متوسط طبقہ کی ابتر صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے مطابق بھارت میں زیادہ تر شہریوں کے لیے مہنگے علاج اور مہنگی تعلیم کا خرچ برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مہنگے علاج کی وجہ سے بہت سے کنبے غریبی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔
سال 2000 سے بھارت میں معاشی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک دیگر رپورٹ بعنوان ‘‘بھارت میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات: دی رائز آف بلینیئر راج’’ کے مطابق ایک فیصد لوگ ملک کی چالیس فیصد دولت کے مالک ہیں۔ دولت کا یہ ارتکاز غریب اور متوسط طبقہ کے لیے مشکلات کھڑی کرتا ہے جو ٹیکس تو ادا کرتے ہیں چاہے وہ راست شکل میں ہو یا بالواسطہ مگر انہیں بنیادی سہولتیں اور حکومت کی فلاحی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملتا۔ بنیادی سہولتوں میں صحت و علاج اور تعلیم کو اولیت ملنی چاہیے مگر ان دونوں ہی شعبوں پر حکومت زیادہ سرمایہ نہیں لگارہی ہے، چنانچہ پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی بھرمار ہوتی جارہی ہے جہاں فیس زیادہ ہوتی ہے اور عام لوگوں کی جیب پر کافی بار پڑتا ہے۔
انسانی ترقی پر یواین ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں جی ڈی پی بڑھنے کے ساتھ عدم مساوات میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ اِن ایکویلٹی ڈاٹا (ڈبلیو آئی ڈی) کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اقتصادی نرم کاری کے بعد ملک کی قومی آمدنی میں ایک فیصد آبادی کا حصہ تیزی سے بڑھا جب کہ پچاس فیصد آبادی کا حصہ کم ہوا۔
ٹیکس نظام میں اصلاح اور توازن کی فوری ضرورت
جی ایس ٹی آنے کے بعد مرکزی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کم کی تاکہ بزنس گھرانے ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ اس سے کاروباری گھرانوں اور ان کے مالکین کو تو فائدہ ہوا مگر ملک کے ٹیکس ریوینو میں بالواسطہ ٹیکس کا حصہ بڑھنے اور راست ٹیکس کا حصہ کم ہونے سے عام شہریوں کے لیے اشیاء اور خدمات مہنگی ہوگئیں اور عدم مساوات کی خلیج گہری ہوگئی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ بالواسطہ ٹیکس یعنی خریدی اور بیچی جانے والی اشیاء وخدمات پر ٹیکس ہر کسی کو دینا ہوتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر۔ دوسری طرف ڈائرکٹ یا راست ٹیکس وہ ٹیکس ہوتا ہے جو کاروباری گھرانے اپنے منافع پر دیتے ہیں یا شہری اپنی آمدنی پر دیتے ہیں۔ چنانچہ مجموعی ٹیکس ریونیو میں جب بالواسطہ ٹیکس کا حصہ زیادہ ہوتا ہے تو وہ شہری جو پہلے سے ہی اقتصادی عدم مساوات کا شکار ہیں انہیں مزید اقتصادی پریشانی ہوتی ہے اور عدم مساوات گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہے کیوں کہ ان کی قوت خرید پہلے سے ہی کم ہوتی ہے جب کہ متمول ترین طبقہ کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امیر ترین اور غریب دونوں سے یکساں ٹیکس لیا جاتا ہے مگر اس کی مار یکساں نہیں ہوتی۔ جی ایس ٹی نظام اسی لیے متمول ترین لوگوں کے مقابلے میں غریبوں اور متوسط طبقہ کو زیادہ متاثر کررہا ہے۔
آکسفیم کی رپورٹ اس کی تصدیق بھی کرتی ہے۔ سروائیول آف دی رچیسٹ: دی انڈین اسٹوری عنوان والی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں مجموعی جی ایس ٹی کا چونسٹھ فیصد حصہ نیچے کی پچاس فیصد آبادی سے آیا، جب کہ اوپر کے دس فیصد سے صرف چار فیصد جی ایس ٹی جمع ہوئی۔
جہاں تک حکومت کے ریونیو کے خسارے کا معاملہ ہے تو حکومت اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے اگر متمول ترین لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کرے اور غریب ترین لوگوں کے لیے فلاحی اسکیمیں متعارف کرائے تو ایک طرف حکومت کے پاس ریونیو کی کمی نہیں ہوگی اور دوسری طرف عدم مساوات بھی کم ہوگی۔ مگر حکومت اس کے برعکس کررہی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت بڑے قرض داروں کے قرض معاف کردیتی ہے یا کارپوریٹ اداروں کے لیے سبسیڈی کا اعلان کرتی ہے۔ یہ پالیسی عام شہریوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ سادہ لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عوام کی جیبوں سے رقم نکال کر کارپوریٹ گھرانوں کو دی جارہی ہے۔ اس پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
متمول ترین لوگوں سے ٹیکس لے کر انہیں غریبوں اور متوسط طبقہ کے لیے فلاح و بہبود کی پالیسیوں پر خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسے اقتصادی ماہرین ویلتھ ٹیکس کا نام دیتے ہیں۔ ہاں اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ یہ پالیسی معقولیت کے دائرہ میں ہو اور یہ عدم توازن کا شکار نہ ہو، ورنہ متمول ترین لوگ یہ ملک چھوڑ کر ایسی جگہوں کا رخ کرنا پسند کریں گے جو ٹیکس کے حساب سے ان کے لیے زیادہ موزوں ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحت اور تعلیم دو ایسی ضرورتیں ہیں جن کی فراہمی حکومت کی سماجی ذمہ داری ہے۔ تعلیم اور علاج شہریوں کے بنیادی حقوق ہیں۔ حکومت ان سے منھ نہیں موڑ سکتی۔ اگریہ ذمہ داری اور فلاحی ریاست کا تصور حکومت کے پیش نظر ہوگا تو ان اصولوں کو ذہن میں رکھ کر ہی وہ ایک معقول ٹیکس نظام تشکیل دے گی۔
اقتصادی ماہرین غیرمراعات یافتہ طبقات کے لیے تعلیم و صحت اور روزگار کے بنیادی وسائل فراہم کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ چنانچہ عدم مساوات کو کم کرنے اور معیشت کی نمو دونوں کے سلسلہ میں ایک متوازن پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو کارپوریٹ کے تئیں اپنی فراخ دلانہ پالیسی کو ترک کرکے غیرمراعات یافتہ اور متوسط طبقات کی ضرورتوں پر بھی توجہ دینی ہوگی اور ٹیکس کا نظام ایسا بنانا ہوگا جو عام شہریوں پر بوجھ کو کم کرے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024