بھارت میں مسلم شناخت کا مسئلہ اور اکثریتی طبقہ میں پروان چڑھتا تعصب

2014 کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے لیے خصوصی سلوک کے بارے میں مفروضے

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

کرسٹوف جیفرلوٹ کی تحقیق: بھارتی مسلمانوں کے خلاف غیر مرئی تعصب کی حقیقت اور تجزیہ
آج پوری دنیا میں خصوصاً ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں،مختلف ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور اسکالرز بدلتے زمانے میں اسلام، مسلمان،اسلامی تعلیمات اوراکثریتی طبقہ کے ذریعہ مسلمانوں کے ساتھ درپیش معاملات اور رویوں پر نہ صرف تحقیقی مقالے اور مضامین لکھ رہے ہیں بلکہ عوام کے درمیان جاکر اکثریتی طبقہ کے خیالات وتاثرات پر مبنی سروے اور جائزے بھی پیش کررہے ہیں۔غالباًاس کی ایک وجہ یہ ہوگی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ عصر حاضر میں رائے عامہ،اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہے یا نہیں؟ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر اکثریتی طبقات مسلم اقلیتوں کے ساتھ جارحانہ سلوک وامتیازات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں یا اضافہ کے اسباب کیا ہیں؟تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا بھر میں مسلم حکومتوں کے ذریعہ مسلمان اہل اقتدار اور ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں موجود مسلمان قیادت،خود مسلمانوں کے درمیان کس حیثیت میں ہے؟آیا عالمی سطح پر یا ملکی یا علاقائی سطح پر مسلمانوں کی قیادت خود مسلمانوں کے لیے قابل اعتمادہےیا نہیں؟ اور اگر چند نام ایسے کہیں بھی پائے جاتے ہیں تو وہ کون ہیں؟ان کے نظریات کیا ہیں؟ کن اصولوں پر وہ گامزن ہیں؟مستقبل قریب میں یہ ابھرتے ہوئے چند ہی سہی، قائدین موجود رہتے ہیں تو وہ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟اور کس طرح مسلم امت کو منظم و مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں؟ اسی میں ایک مفروضہ یہ بھی قائم ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ ایسے ہیں جن پر امت کا اعتماد بحال ہوتا نظر آرہا ہےتو ان کی فکر و نظریہ اور بڑھتے قد کو کس طرح چھوٹا کیا جاسکتا ہے؟اِن ابھرتے قائدین اور مسلمانوں کے درمیان کس طرح غلط فہمیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اور کس طرح ان کے عزائم کو کمزور کیا جاسکتا ہے؟ اگرچہ ہم نے اس منفی سوچ کو ایک مفروضہ کے طور پرہی لیا ہے لیکن اس منفی مفروضہ کو بھی ان تحقیقی مضامین،مقالے،سروے اور جائزوں میں تلاش کرنا چاہیے یعنی یکسر نظر انداز نہیں کردینا چاہیے۔
معروف فرانسیسی ماہر سیاسیات اور ماہر ہند کرسٹوف جیفرلوٹ جو جنوبی ایشیاء بالخصوص ہندوستان اور پاکستان کے معاملات میں مہارت رکھتے ہیں۔ Centre d’études et de recherches internationales (CERI) (پیرس) میں ساؤتھ ایشین سیاست اور تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ساتھ ہی کنگز انڈیا انسٹیٹیوٹ (لندن) میں انڈین پولیٹکس اینڈ سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں۔نیز سنٹر نیشنل ڈی لا ریچرچ سائنٹیفیک (CNRS)کےریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔ان کا ایک تفصیلی جائزہ دا وائر نامی معروف نیوز ویب سائٹ پر 18نومبر2024 میں شائع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے”ہندوستان اپنی مسلم آبادی کو کیسے دیکھتا ہے”یہ مضمون سروے پر مبنی جائزہ کی شکل میں ہے۔ جائزہ لیتے ہوئےبہت تفصیل سے ہندوؤں کے درمیان مسلم مخالفت اور تعصب کے اسباب کا انکشاف کیا گیا ہے جس کی روشنی میں اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں2014 سے پہلے اوربعدمیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جس نفرت کی فضا کو پروان چڑھانے کی منظم و منصوبہ بند کوششیں کی گئیں، اس کے نتائج کیا ظاہر ہورہے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد لوک سبھا کے انتخابات ہندوستان کی پارلیمنٹ میں مسلم اقلیت کی نمائندگی کا تجزیہ پیش کرنے کاموقع فراہم کرتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے 2024 کے انتخابات نے اس رجحان کی تصدیق کی ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کا حصہ مزید کم ہواہے، 2019میں 4.6 فیصدمسلم نمائندگی تھی جو کم ہو کر 4.4فیصد رہ گئی ہے۔2011کی مردم شماری میں مسلمان ہندوستانی آبادی کا 14.5 فیصد حصہ تھے،برخلاف اس کے 2019 میں پارلیمنٹ میں ان کی حصہ داری 4.4فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔
ٹھیک یہی بات اعداد و شمار بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اٹھارویں لوک سبھا میں چھ دہائیوں میں سب سے کم مسلم ممبران پارلیمنٹ 2024 کی لوک سبھا میں ہیں۔ the hindu انگریزی اخبار میں نیتیکا فرانسس اور وگنیش رادھا کرشنن کی رپورٹ بتاریخ 18جون 2024 واضح کرتی ہے کہ 1990 کی دہائی وہ دہائی رہی ہے جوکامیاب ہونے والےمسلم ممبران پارلیمنٹ کے زوال کی کہانی بیان کرتی ہے۔1980میں لوک سبھا میں مسلمانوں کا حصہ 8.3 فیصد تک پہنچ گیا تھا ۔لیکن اس کے بعد یہ تعداد لگاتار کم ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 2024 میں لوک سبھا میں کامیاب ہونے والے مسلم ممبران پارلیمنٹ کا فیصد حد درجہ کم ہوگیا۔اور اگر برسراقتدار حکومت میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی بات کی جائے تو 2019 میں بی جے پی نے ایک مسلمان، مختار عباس نقوی کو راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا تھا جبکہ 2024 میں ایک بھی مسلم ممبر آف پارلیمنٹ نہیں ہے۔
کرسٹوف جیفرلوٹ نے سروے پر مبنی جائزے میں یہ سوال بھی شامل کیا ہے کہ ہندو اکثریت کے ذریعہ اقلیت کے بارے میں جو تاثر قائم کیا گیا ہے، اس غیر مرئی تاثر کےموجود ہونے کی کہاں تک وضاحت کی جاسکتی ہے؟ ‘غیر مرئی تاثر’ یعنی وہ تاثر جو آنکھوں سے دکھائی نہ دے، خیالی، نظریاتی، فکری، محسوساتی یا وہ تاثر جس کا وجود توہو لیکن بظاہر نظر نہ آئے، اس کی وضاحت کیسے اور کہاں تک کی جاسکتی ہے۔ اور یہ سوال بھی کیا کہ مسلمان خود اپنے حالات کا اندازہ کیسے لگارہے ہیں نیز، اپنی قوم یا ملت اور اس کے لیڈروں کے سلسلے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟یہ دونوں ہی سوالات ہندوستانی سیاست، سماجی تانے بانے ،معاشرتی نظام اوراس کے استحکام اور ملک میں مسلمانوں کی حیثیت، ملت کے مسائل ،ملت میں موجود لیڈرشپ(سیاسی،مذہبی اور سماجی لیڈرشپ) پر اعتماد بحالی یا بے اعتمادی،دونوں طرح کی سمجھ پیدا کرنے میں معاون ہیں۔ ساتھ ہی مسلمان اور دیگر اقوام یا باالفاظ دیگر اکثریتی طبقہ کے درمیان رابطوں کو بیان کرنے میں مددگار ہیں۔یہ وہ سوالات ہیں جو اس کالم میں ہنری لوس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے چلنے والے ‘انڈین مسلمز پروجیکٹ’ کے فریم ورک میں کیے گئے سروے کی بنیاد پر پوچھے گئے ۔ سائنس پو، پرنسٹن یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی کے اسکالروں کے ذریعہ 2020 میں شروع کیے گئے اس پروجیکٹ میں ہندوستان، امریکہ اور یورپ کے تقریباً پچاس محققین شامل ہیں۔ یہ مطالعہ CSDS کے ذریعے 28 مارچ سے 8 اپریل 2024 تک قومی انتخابی مطالعہ کے حصے کے طور پر سو پارلیمانی حلقوں کے سو اسمبلی حلقوں میں پھیلے چار سو پولنگ اسٹیشنوں میں کیا گیا۔ اس نے ہندوستان کی انیس ریاستوں،آندھرا پردیش، آسام، بہار، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، کیرالا، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڈیشہ ، پنجاب، راجستھان، تمل ناڈو، اتر پردیش، مغربی بنگال اور دہلی میں دس ہزار انیس جواب دہندگان کے نمونہ حاصل کیے۔ جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں نمونے لینے کا جو ڈیزائن اپنایا گیا وہ ملٹی اسٹیج رینڈم سیمپلنگ تھا۔ساتھ اس طریقہ کار نے اس بات کو یقینی بنایا کہ منتخب کردہ نمونہ ملک میں ووٹروں کے کراس سیکشن کا مکمل نمائندہ تھا۔
سروے سے پتاچلتا ہے کہ ہندوؤں میں مسلم مخالف تعصب کافی حد تک موجود ہے۔ان میں سے ستائیس فیصد لوگ پوری طر یا کچھ حد تک مانتے ہیں کہ مسلمان باقی لوگوں کی طرح بھروسہ مند نہیں ہیں۔ہندو دلت اور ہندو آدیواسی جواب دہندگان میں بالترتیب28.7فیصداور 31فیصدان خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم فالٹ لائن سماجی کے بجائے جغرافیائی ہے: جنوبی ہند کے صرف تیرہ فیصدجواب دہندگان مکمل طور پر یا کچھ حد تک اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ مسلمان باقی لوگوں کی طرح قابل اعتماد ہیں، برخلاف اس کے ہندی پٹی میں یہ تعداد ستائیس فیصد اور مغرب میں بیس فیصد ہے۔یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ نفرت کا زہر چہار جانب موجود ہے،یہ الگ بات ہے کہ کہیں کم تو کہیں زیادہ۔وہیں یہ جوابات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ہندی ریاستیں مغلیہ دور سلطنت کے زوال ہی سے اور بعد میں آزاد ہندوستان میں بھی ہندو-مسلم تنازعات اور بے اعتمادی کا شکار رہی ہیں، ان مقامات کو بعد میں بھی لیبارٹری اور تجربہ گاہ کے طور پر مستقل استعمال کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس قدر فسادات آزاد ہندوستان میں ہندی بیلٹ میں ہوئے ہیں، علاقائی زبانوں پر مبنی ریاستوں میں نہیں ہوئے ۔دوسری جانب منووادی نظام کی چاہت رکھنے والے جس قدر شمالی ہند میں ایک کے بعد ایک لیڈر اور تحریکیں برپا ہوئیں ہیں جنوبی ہند کی ریاستوں میں اپنے وجود اور پھیلاؤ میں سماجی اور ذات پات پر مبنی معاشرے میں تقویت حاصل نہیں کرسکیں۔ کیونکہ جس دراوڑ قوم کو ایک زمانے میں ملک کی باگ ڈور سے ہٹایا گیا تھا اس کی اکثریت جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہی پناہ گزیں ہوئی جو آج بھی اکثریت میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے جو بے اعتمادی،مسلم مخالف ماحول اور تعصب کی فضا شمالی ہندوستان میں تیزی کے ساتھ پنپ رہی ہے وہ اگرچہ جنوبی ہندوستان میں اپنے حجم کے لحاظ سے کمتر ہے، اس کے باوجود یہ زہر وہاں بھی نہ صرف پھیل رہا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔چاہے اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے ہوںیا دلت ہوں یا آدیواسی، ہر جگہ نفرت کی آگ پھیلتی جارہی ہے اور رابطوں کو کمزور کرتے ہوئے بے اعتمادی کی فضا ہموار کررہی ہے۔ اسی تعلق سے پبلک پالیسی ریسرچ سنٹر میں ایک فیکٹس شیٹ ترتیب دی گئی جس کا عنوان "ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات پر مبنی ایک فیکٹ شیٹ” رکھا گیاہے۔ جس کے تحت واضح کیا گیا ہے کہ 1967کے بعد وہ فسادات جس میں سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، ان میں کثیر تعداد ان فسادات کی ہے جو شمالی ہندوستان میں ہوئے ہیں۔برخلاف اس کے جنوبی ہندوستان میں بہت کم فسادات ہوئے ہیں۔
یہ تاثر ایک پرانے خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر پسند کیا جاتا ہے ۔ہندو ووٹروں کا ایک بڑا حصہ جن کا انٹرویو کیا گیا ہے، سینتالیس فیصد مکمل طور پر یا کچھ حد تک اس خیال سے متفق ہیں کہ مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر مطمئن یا ان سے لاڈ و پیار کیا جاتا ہے۔حالانکہ تمام دستیاب اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان غربت کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں ملازمت، بازار، ہاؤسنگ مارکیٹ کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام میں بھی وہ حاشیہ پر ہیں (کم از کم شمالی ہندوستان اور مغربی ہندوستان میں تویہ مکمل درست ہے) ایسا لگتا ہے کہ یہاں ذات پات اور برادریوں کے نقطہ نظر سے بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے: دلت اور آدیواسی اس نظریے کو شیئر کرنے کے لیے تھوڑا کم مائل ہیں بالمقابل اعلیٰ ذات یااعلیٰ دیگر پسماندہ طبقات کے ،جن کا فیصد 43.4 اور 43.5 بالمقابل 46.8 اور 49.9 ہے۔ یعنی تقریباً نصف حصہ اس خیال کے آس پاس ہے کہ مسلمانوں کو جتنی اہمیت دینی چاہیے،اس سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، انہیں غیر ضروری طور پر مطمئن اور پسند کیا جاتا ہے۔اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کی حصہ داری کم کی جائے۔ ان کی پسند کا خیال رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان کی حیثیت کو کم کیا جائے یعنی ان کی حصہ داری جس حد تک بھی فی الوقت موجود ہے، اس میں بتدریج کمی لائی جاتی رہے ۔یہاں تک کہ اکثریتی طبقہ مکمل طور پر مسلمانوں کو سماجی،معاشی،معاشرتی اور سیاسی میدان میں ذلت و رسوائی سے دوچار کردے۔
کرسٹوف جیفرلوٹ کہتا ہے کہ ایک اور تضاد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے: ہندو جواب دہندگان کا استدلال ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ دوسروں کے بالمقابل الگ طرح کا سلوک نہیں کیا جاتا، وہ غیر محفوظ نہیں ہیں اور انہیں لاڈ و پیار بھی دیا جاتا ہے یا خوش بھی کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ سیاسی میدان میں مسلمانوں کی مناسب نمائندگی نہیں ہے اور اس مسئلے کو وہ مسلم قیادت کی کمزوری مانتے ہیں۔ایسے ہندو جواب دہندگان کی تعداد زیادہ ہے جو مانتے ہیں کہ "مسلمانوں میں سنجیدہ اور پرعزم رہنماؤں کی عدم موجودگی سیاست میں ان کی نمائندگی کو متاثر کرتی ہے”۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے اور مسلمانوں میں بھی 50.2 فیصد ایسا ہی سوچتے ہیں۔ اسی طرح 52 سے 54 فیصد ہندو جواب دہندگان کا خیال ہے کہ "ہندوستان میں بہتر اور واضح موقف رکھنے والی مسلم قیادت کی ضرورت ہے”۔یہ سوال 81.1 فیصد مسلمانوں سے کیا گیا لیکن 61.8 فیصد مسلمانوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے پاس قابل، دیانت دار اور پرعزم رہنما موجود ہیں لیکن سیاسی زمین پر نمائندگی نہیں ہے۔سروے میں حاصل کیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں دس سے سولہ فیصد آبادی کا ماننا ہے کہ "ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے”لیکن ایک بڑی اکثریت۔ 74 سے 80 فیصد کہتے ہیں کہ ملک تمام مذاہب کے شہریوں کا ہے اور دیگر مذاہب کے رہنما بھی مؤثر طریقے سے اپنے مفادات اور خدشات کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر دوباتوں کی وضاحت کرتے ہوئے ہم اپنی بات مکمل کررہے ہیں۔ایک خیال یہ ہے کہ ملک میں سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ پچاس سال پہلے تھا،ہرطرف امن وامان اورسکون ہے،تمام مذاہب،ذات اور برادریوں یا طبقات کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جا رہا ہے یا ان کا حق انہیں دیا جا رہا ہے، لیکن جگ ظاہر ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔اور دوسری بات یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اکثریتی طبقے و مذاہب کے درمیان غلط فہمیاں حد درجہ بڑھتی جارہی ہیں لہٰذا ان دو صورتوں کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے برادران وطن کے ساتھ نہ صرف تعلقات استوار کرنے کی جانب توجہ دیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جن غلط فہمیوں،نفرت اور دوریوں نے جنم لیا ہے اسے بھی حتی الامکان کم کرنے اور بہتر تعلقات استوار کرنے کی جانب متوجہ ہوں۔ اس موقع پر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اسلامی شناخت کو چھپایا نہ جائے اور نہ ہی اسلامی عقائد، تصورات اور تعلیمات سے کسی بھی درجہ سمجھوتہ کیا جائے۔ بالفاظ دیگر پورے حوصلے کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے با عزت زندگی گزاری جائے اور جس طرح انسانوں کے ساتھ بہتر تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے کہیں زیادہ اپنے رب کریم اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق استوار کرنے پر بھی توجہ دی جائے۔اگر ایسا ہوگا تو نہ صرف اللہ تعالیٰ دلوں کو تقویت اور سکون بخشے گا بلکہ دنیا و آخرت میں عزت و تکریم حصہ میں آئے گی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024