بھارت میں مسلمان بوجھ نہیں، بوجھ ہلکا کرنے والے ہیں

مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کا فیض عام۔ غیر مسلم طلبا کی اکثریت قابل تعریف

دعوت نیوز بیورو

تعصب و نفرت سے پاک مسلمانوں کے تعلیمی ادارے اعلیٰ معیارکی وجہ سے غیر مسلم طلبا کے لیے توجہ کا مرکز
اعلیٰ تعلیم کے میدانوں میں مسلم طلباء کی تعداد میں اضافے کی کوشش کرنا ہر فرد کی ملی ذمہ داری
تھنک ٹینک سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (CSR) اور NOUS نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ کی مشترکہ تحقیق
بھارت میں مرکزی انتخابات اختتام پذیر ہیں لیکن اس دوران متعدد انتخابی مہمات میں بی جے پی لیڈران بشمول وزیر اعظم نریندر مودی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اس ملک کے لیے بوجھ ہیں۔چنانچہ آبادی میں اضافہ اور در اندازی کے نام پر مسلمانوں کو ملعون کیا جاتا رہا ہے۔تاہم، پچھلے دنوں دلی میں قائم تھنک ٹینک سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (CSR) اور NOUS نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ کی مشترکہ تحقیق سامنے آئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان اس ملک کے لیے بوجھ نہیں بلکہ بوجھ ہلکا کرنے والے ہیں۔دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کے دروازے تمام طبقات کے لیے یکساں طور پر کھلے ہوئے ہیں۔
A Survey of Muslim-managed Public and Private Institutions of Higher Education in India
(ہندوستان میں مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اور نجی اداروں کا سروے) کے عنوان سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں میں مسلم طلباء کے مقابلے میں ہندو طلباء کی تعداد 13 فیصد زائد ہے۔ یعنی ہندو طلبا کی شرح تقریباً 55 فیصد ہے جب کہ 42 فیصد مسلم طلباء ہیں۔ اس سروے میں اس موضوع پر خاموشی اختیار کی گئی ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں مسلم طلباء کے مقابلے ہندو طلباء کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟ مگر اس رپورٹ سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں مذہبی بنیاد پر تعصب نہیں برتا جاتا اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کا معیار بہتر اور اعلیٰ ہے اسی لیے بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء بھی یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ملک کے تعلیمی اداروں میں مذہبی تعصب کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔اس معاملے میں ملک کے آئی آئی ٹی ادارے تک محفوظ نہیں ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ چند مہینے قبل ہی گجرات میں غیر ملکی مسلم طلباء کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات پیش آئے تھے، لیکن مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والے تعلیمی اداروں میں سے کسی بھی ادارے میں اب تک اس طرح کے واقعات سامنے نہیں آئے۔ یہ امر مسلمانوں کی اعلیٰ ظرفی اور ذہنی وسعت کی نشان دہی کرتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ پر دائیں بازو کی جماعتوں اور ان کے حامی میڈیا نے اس قسم کے تعصبات کی کہانی اور بیانیہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے زیر انتظام چلنےوالے یونیورسٹیوں میں ہندو طلباء کی تعداد 52.7 فیصد ہے جبکہ مسلم طلبا کی تعداد42.1 فیصد ہے۔ یہی حال مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے کالجوں کا بھی ہے جہاں ہندو طلباءکی تعداد 55.1 فیصد ہے جبکہ مسلم طلبا 42فیصد ہیں۔ ابھی ہمارے سامنے ملک کے مشہور تعلیمی اداروں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،عالیہ یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد جیسے اداروں میں طلباء کی تعداد سے متعلق کوئی واضح رپورٹ نہیں ہے۔ شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں قائم یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی میگھالیہ جسے محبوب الحق نے قائم کیا تھا۔اس میں 80 فیصد سے زائد میگھالیہ کی مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والے طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی گنگا جمنی تہذیب کا سنگم ہے۔ فیکلٹی ممبران سے لے کر انتظامی امور تک میں ہر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نظر آتے ہیں۔کیرالا، کرناٹک اور جنوبی ہند کی دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے ایسے بے شمار تعلیمی ادارے مل جائیں گے جہاں مسلم طلباء کے ساتھ بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔نیز، ان اداروں کا تعلیمی معیار بھی بہتر ہے۔ بتا دیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں اس طرح کے سروے انتہائی ضروری ہیں کیونکہ اس سے جہاں خود احتسابی کی راہ ہموار ہوتی ہیں وہیں غلط فہمیوں اور پروپیگنڈوں کا بھی ازالہ ہوتا ہے۔
آزادی کے بعد اگرچہ مسلمانوں کے لیے حالات ناخوش گوار رہے، شمالی ہند میں پے درپے فرقہ وارانہ فسادات اور تعصبات نے مسلم طبقے میں مظلومیت کے احساس کو پیدا کردیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جس قدر ترقی ہونی چاہیے تھی نہیں ہو سکی مگر اس کے باوجود کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں مسلمانوں نے بہترین کارکردگی نہیں دکھائی ہے۔ آسام ملک کا وہ صوبہ ہے جہاں گزشتہ پچاس سالوں سے مقامی مسلمان اپنے وجود پر ہی سوالیہ نشان لیے جی رہے ہیں۔ نیلی قتل عام نے وہاں کے مسلمانوں کے دل و دماغ کو شدید نقصان پہنچایا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نیلی قتل عام کے بعد مسلمانوں میں خود کفیل ہونے کا شعور پیدا ہوا اور بڑے پیمانے پر عصری درس گاہیں قائم کی گئیں لہٰذا آج آسامی مسلمانوں میں تعلیمی قابلیت پائی جاتی ہے اس میں انہی تعلیمی اداروں کا بڑا کردار ہے۔اجمل فاؤنڈیشن کے تحت آسام میں مختلف سطحوں پر تعلیمی نظام چل رہا ہے جس میں میڈیکل اور سیول سروسز کی تیاریاں تک شامل ہیں، اس میں بڑی تعداد غیر مسلم طلبا کی ہے۔ بنگال کا مشہور تعلیمی ادارہ الامین مشن جہاں سے سیکڑوں طلباء میڈیکل کوالیفائی کرتے ہیں اس میں بھی بڑی تعداد غیر مسلم طلباءکی ہوتی ہے۔
سی ایس آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان زیر بحث رپورٹ کے تناظر میں کہتے ہیں کہ ’یہ بات صد فیصد دررست ہے کہ آج تک اس طرح کا کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ مسلم اقلیتی اداروں کی تعداد کے بارے میں بھی کوئی واضح اعداد و شمار نہیں ہیں۔تاہم، اس رپورٹ کے مطالعے سے مسلمانوں میں تعلیم کے حوالے سے بہتر نتائج کی نشان دہی نہیں ہوتی ہے۔ دراصل تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں حکومتوں نے اپنی اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی ہے۔ تعلیم کے خانگیانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، اس لپے تعلیم کے شعبے میں بڑی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کررہی ہیں اور تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہیں۔دوسری طرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والی یونیورسٹیوں میں صورت حال خراب ہو رہی ہے۔ فنڈز میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ مرکز سے لے کر ریاستی حکومتوں تک سب ایک ہی راہ پر گامزن ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بجٹ کا 6 فیصد خرچ کرنے کا وعدہ کرنے والی مودی حکومت یو پی اے حکومت کے مقابلے میں 0.2 فیصد کم خرچ کر رہی ہے کیونکہ سابقہ حکومت بجٹ کا 0.6 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی تھی مگر گزشتہ دس سالوں میں مودی حکومت نے تعلیم پر محض 0.4 فیصد ہی خرچ کیا ہے۔
وزارت تعلیم کے ذریعہ ہر سال جاری ہونے والے سالانہ ہائر ایجوکیشن رپورٹ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن (این آئی ای پی اے) میں ایجوکیشنل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس) کے سربراہ سابق پروفیسر ارون سی مہتا کے ذریعہ مرتب کردہ رپورٹ ’’بھارت میں مسلم تعلیم ‘‘میں کہا گیا ہے کہ شمالی ہندوستان کے مقابلے میں جنوبی ہندوستان میں مسلم طلبا کے انرولمنٹ کی شرح بہتر ہے۔جنوبی ہندوستان کی سات ریاستوں میں کرناٹک میں 15 فیصد مسلم، کیرالا میں 20 فیصد، دونوں تیلگو ریاستوں میں 34 فیصد، تمل ناڈو میں 28 فیصد، پانڈیچیری میں 25 فیصد اور لکشدیپ میں محض 4 فیصد مسلم طلبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مگر جب شمالی ہند کی ریاستوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جھارکھنڈ میں 15 فیصد اور اتر اکھنڈ میں 13 فیصد مسلم طلبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں باقی ہندی بیلٹ کی دیگر ریاستوں میں کم و بیش دس فیصد مسلم طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ جب ملک کے سرکاری اعلیٰ اداروں میں مسلم طلباء کی تعداد 5 فیصد سے کم ہے اور اب اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلباء کی تعداد کم ہے۔ یہ صورت حال غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ دراصل ہمارے درمیان یہ فکر گہری ہوتی جا رہی ہے کہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعہ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، کسی حدتک صحیح بھی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی اکثریت کے پاس پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں بھاری فیس دے کر تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے؟ بالخصوص بنگال، آسام، بہار اور جھارکھنڈ جیسی ریاستیں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے وہاں کی اکثریت غربت اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی ہے۔ امرتیہ سین کی این جی او پراتیچی کی رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال میں 85 فیصد مسلمانوں کی آبادی محض پانچ ہزار روپے ماہانہ کماتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ انتہائی کم ہے۔چنانچہ اگر ہمیں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ کرنا ہے تو ہماری توجہ صرف پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے قیام پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملک کے اعلیٰ و سرکاری تعلیمی اداروں تک مسلم بچوں کی رسائی اور اس کے لیے ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

 

***

 بھارت میں مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے کالجز
AISHE-2020-21کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کل 43ہزار 7سو 96کالجوں میں ایک ہزار 155 کالجوں کا انتظام مسلم اقلیتی برادری کے زیر انتظام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم زیر انتظام کالجوں کا حصہ محض 2 .6 فیصد ہے۔
ایک ہزار 155 کالجوں میں سے، 141 (12.2فیصد)تکنیکی کالج ہیں جو آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔
تمام اقلیتی گروپوں کا 73.4 فیصد ٹیکنیکل کالجز ہونے کے باوجود مسلم اقلیتی برادریوں کا ٹیکنیکل کالجوں میں صرف 16.6حصہ ہے۔ اس کے برعکس دیگر اقلیتی گروپس جو کہ آبادی کا 26.6 فیصد ہیں، ٹیکنیکی کالجوں میں 83.4 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
ہندوستان میں 6.4 فیصد مسلم کالجز صرف لڑکیوں کے لیے ہیں۔
ہندوستان میں کالجوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست دس ریاستیں کیرالا، اتر پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، مغربی بنگال، بہار اور جموں و کشمیر ہیں۔ ان ریاستوں میں ملک کے کل کالجوں کا 90.46 فیصد ہے۔
ایک ہزار 155 مسلم اقلیتی کالجوں میں سے 85.5 فیصد پرائیویٹ (غیر امدادی) 10.6 فیصد پرائیویٹ (امداد یافتہ) اور 3.9 فیصد سرکاری کالج ہیں۔
کیرالا میں فی لاکھ آبادی میں 24.9 فیصد کالجز ہیں جبکہ یو پی میں 4.9فیصد کالجز ہیں اور مغربی بنگال میں فی لاکھ آبادی میں محض 1.8فیصد کالجز ہیں۔ فی لاکھ آبادی پر کالجوں کا قومی اوسط 6.4 فیصد ہے۔
تقریباً 57.8 فیصد مسلم اقلیتی کالجز دیہی علاقوں میں واقع ہیں۔
کالجوں کی اکثریت 16.93فیصد انڈرگریجویٹ سطح کے پروگرام پیش کرتے ہیں، جبکہ صرف 6.32 فیصد پی ایچ ڈی سطح کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔
کیرالا میں پی ایچ ڈی پروگرام پیش کرنے والے کالجوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، اس کے بعد تمل ناڈو اور مہاراشٹرمیں ہیں۔
تقریباً 51فیصد کالج صرف انڈرگریجویٹ سطح کے پروگرام فراہم کرتے ہیں۔
تعلیمی سال 2021-22 میں داخلہ لینے والے کل 5لاکھ 24 ہزار 4سو 41طلباء میں سے42.1 فیصد مسلمان، 55.1 فیصد ہندو اور 8 .2 فیصد کا تعلق دیگر اقلیتی گروپوں سے ہے۔
مسلم طلباء کے لحاظ سے ایک لاکھ 4ہزار ایک سو 63 یعنی (47.18فیصد) طلباء اور
ایک لاکھ 16ہزار 6سو 22یعنی (52.82فیصد) طالبات نے اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لیا۔ NIRF 2023 کالج رینکنگ میں 100میں سے کسی بھی کالج نے ٹاپ 100میں پوزیشن حاصل نہیں کی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024