بھارت میں مردم شماری کی آہٹ اورچند توجہ طلب پہلو

مسلمانوں میں بھی مختلف ذاتوں اور طبقات کے اعدادوشمار ضروری کیوں؟

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

کسی مخصوص طبقے کی تعداد کی بنیاد پر، نمائندگی، حصہ داری اور سہولیات متوقع!
کافی انتظار کے بعد ملک میں ایک بار پھر مردم شماری کی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔خبروں کے مطابق 2025 میں مردم شماری کا آغاز ہو سکتا ہے اگرچہ کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ 2025میں مردم شماری مکمل ہونے کے بعد امکان ہے کہ لوک سبھا سیٹوں کی نئی حد بندی کی جائے گی۔انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق ملک کی آبادی کا سرکاری سروے 2025 میں شروع ہو سکتا ہے جو سال 2026 تک مکمل کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق مردم شماری کے بعد لوک سبھا سیٹوں کی نئی حد بندی شروع ہوگی۔ یہ عمل 2028 تک مکمل ہوسکتا ہے۔ نیوز 18 کے مطابق مردم شماری کی رپورٹ 2026 میں دستیاب ہوگی۔ مردم شماری دو ادوار 2025 سے 2035 اور 2035 سے 2045 میں مکمل ہوگی۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں لگاتار ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں کیا اقدم کرتی ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر مرتیونجے کمار نارائن کے سنٹرل ڈیپوٹیشن کو اگست 2026 تک بڑھا دیا گیا ہے۔ مرتیونجے کمار کو 2020 میں مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت اہم عہدہ رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر کے طور پر تقرر کیا گیا تھا۔خبرکے مطابق رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر کے دفترنے مردم شماری کے عمل کے دوران شہریوں سے پوچھے جانے والے 31 سوالات تیار کیے ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار شائع ہونے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ حکومت حلقہ بندیوں کے عمل کو آگے بڑھائے گی، یہ عمل 2026 میں ہونا ہے۔اس تعلق سے جنوبی ہند کی ریاستوں کے سیاسی لیڈروں نے لوک سبھا نشستوں سے محروم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کیونکہ شمالی ہند کی ریاستوں کے برعکس جنوبی ہند کی آبادی کا تناسب کم ہے جس سے یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ سیاسی طور پر نقصان کے امکانات زیادہ ہیں۔اگر نئے اعداد و شمار کے ساتھ حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو جنوبی ریاستوں کو موجودہ حلقوں کی تعداد کے مقابلے میں کم پارلیمانی نشتیں مل سکتی ہیں۔دوسری جانب آئین کے آرٹیکل 82 میں کہا گیا ہے کہ جب تک سال 2026 کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کے متعلقہ اعدادشمار شائع نہیں ہوجاتے اس وقت تک 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر ریاستوں کو ایوان نمائندگان میں نشستوں کی تقسیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ذرائع کے مطابق آئندہ ہونے والی مردم شماری میں ہر خاندان سے پوچھے جانے والے 31 سوالات میں عام طور پر گھر میں رہنے والے افراد کی کل تعداد، کیا گھر کی سربراہ عورت ہے،گھر میں کمروں کی تعداد، گھر میں رہنے والے شادی شدہ جوڑوں کی تعداد وغیرہ شامل ہیں۔سوالات میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا کسی خاندان کے پاس ٹیلی فون، انٹرنیٹ کنکشن، موبائل یا اسمارٹ فون، سائیکل، اسکوٹر یا موٹر سائیکل یا موپیڈ ہے اور کیا ان کے پاس کار، جیپ یا وین ہے۔شہریوں سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ وہ گھر میں کون سااناج استعمال کرتے ہیں، پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ، روشنی کا بنیادی ذریعہ، بیت الخلا تک رسائی، بیت الخلا کی قسم، گندے پانی کے نکاس، نہانے کی سہولت کی دستیابی، باورچی خانے اور ایل پی جی/پین این جی کنکشن کی دستیابی، کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والا مرکزی ایندھن، ریڈیو، ٹرانزسٹر اور ٹیلی ویژن کی دستیابی وغیرہ جیسے سوالات شامل ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں پہلی مردم شماری 1872 میں لارڈ میو کی نگرانی میں ہوئی تھی اور آزادی کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی۔ یہ عمل ہر دس سال بعد جاری رہا،آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی۔ قاعدہ کی رو سے 2021میں مردم شماری ہو جانی چاہیے تھی لیکن کووڈ-19 کی وجہ سے 2021 میں یہ ملتوی ہوئی۔ حالانکہ 2022 تک ممکن تھا کہ مردم شماری کرالی جائے لیکن حکومت نے یہ کام نہیں کیا،جس کی وجہ سے آج حکومت کے پاس کورونا سے مرنے والوں یا بے روزگار افراد کی تعداد کا کوئی درست ڈیٹا نہیں ہے اور حکومت بھی روزگار پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں اقرار کرتی ہے کہ اس کے پاس اس کے اعداد و شمار نہیں ہیں۔مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے تمام جاری اسکیموں میں استفادہ کنندگان یا ضرورت مندوں سے متعلق اعداد و شمار مشکوک ہیں، جس کی وجہ سے سائنسی بنیادوں پر کوئی پروگرام نہیں چل رہا ہے۔ مرکزی حکومت نے 20-2019 میں اقتصادی مردم شماری کرائی تھی لیکن اس کی بنیاد 2011 کا پرانا ڈیٹا تھا۔حالیہ برسوں میں مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑتا رہا اس میں اس وقت شدت آئی جب کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا ہے۔مطالبے کی حمایت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی کی۔ اس کے ساتھ ہی این ڈی اے میں شامل لوک جن شکتی پارٹی بھی ذات پر مبنی ریزرویشن کے حق میں سامنے آگئی، صورتحال اتنی بگڑی کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا اور سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنادیا کہ مردم شماری میں ذات کا کالم صرف او بی سی اور ایس سی، ایس ٹی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کی ذیلی ذاتوں کو بھی مردم شماری میں درج کیا جانا چاہیے تاکہ اگر کوئی ریاست ان میں سے کسی ایک ذات اورمخصوص طبقہ کے لیے علیحدہ اقتصادی پروگرام بنانا چاہے یا کوٹہ کے اندر کوٹہ دینا چاہے تو اسے علیحدہ مردم شماری کروانے کی ضرورت نہ پڑے۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مردم شماری کا مقصد ملک کے معاشی ڈھانچے کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ملک کے معاشی اداروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جو مرکزی اورریاستی حکومتوں کی مختلف اسکیمیں بنانے میں مددگار ثابت ہوتاہے۔مردم شماری سماجی ترقی کے بڑے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔یہ عمل حکومت کو یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ آبادی میں تبدیلیاں کیسے ہو رہی ہیں۔اس کے توسط سے ہجرت، نقل مکانی، عمر و جنس کا تناسب اور تعلیم کی سطح میں ہونے والی تبدیلیوں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پرعوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ چونکہ اقتصادی ترقی کے لیے درست اعداد و شمار بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اس لیے مردم شماری سے حاصل کردہ معلومات بجٹ کی تقسیم، سرمایہ کاری کے شعبوں اور سماجی بہبود کی اسکیموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ساتھ ہی مردم شماری کے نتائج کا اثر انتخابات پر بھی پڑتا ہے۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی حد بندی میں یہ اعداد و شمار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مردم شماری کی مدد سے حکومت مختلف ذاتوں اور طبقات کی آبادی کا درست تخمینہ لگا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ریزرویشن، سماجی انصاف اور دیگر متعلقہ اسکیموں کے لیے بہتر فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ یہ معلومات ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مختلف طبقات کو ان کے حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان سب کے علاوہ قومی اہمیت کا یہ کام عالمی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔دنیا بھر کے ممالک مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر مختلف عالمی ادارے مختلف پروگرامز، فنڈز اور امدادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔مجموعی طور پر مردم شماری کی معلومات صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ یہ کسی ملک کی ترقی، معیشت، سماجی انصاف اور سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ ایک شفاف اور درست مردم شماری ملکی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے اور حکومت کو ایک مضبوط اور متوازن معاشرے کی تشکیل میں مدد فراہم کرتی ہے۔حقیقت کے برخلاف برسراقتدار جماعت پر الزام یہ ہے کہ وہ قومی اہمیت کے اس سب سے بڑے کام میں بھی اپنے سیاسی مفاد کی راہ نکال رہی ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ 2026تک مکمل ہونے والی مردم شماری کا کام غالباً 2028 میں اس وقت پورا ہوگا جب انتخابی حلقوں کی از سر نوحدبندی ہوجائے گی۔گویا یہ فیصلہ عوامی ترقی کے بجائے 2029 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جارہا ہے۔اگر اس کام کی یہی ٹائم لائن مقرر ہے تو اس خدشہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اپنی سیاسی اور انتخابی حکمت عملی کی بنیاد مردم شماری کے نتائج پر ہی رکھے گی۔لہٰذاعوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قومی اہمیت کے اس بڑے کام میں انتہائی ہوشیار اور چوکنا رہیں نیز، درست معلومات فراہم کریں تاکہ نتائج میں کوئی چھیڑ چھاڑ اور من مانی نہ کی جاسکے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس بار گھر گھر مردم شماری کے علاوہ لوگوں کو آن لائن مردم شماری فارم کی تفصیلات خود بھرنے کا اختیار بھی رہے گا۔  اس کے لیے مردم شماری اتھارٹی نے ایک خود شماری پورٹل تیار کیا ہے، لیکن اسے ابھی شروع کرنا باقی ہے۔ خود گنتی کے دوران آدھار اور موبائل نمبر کو لازمی طور پر بھرنا ہوگا لیکن  جو لوگ خود گنتی کرنا چاہتے ہوں انہیں پہلے قومی آبادی کے رجسٹر میں اپنا اندراج کرنا ہوگا۔اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی جہاں مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہے وہیں ذات پات کی بنیادوں پر بھی اس میں دوریاں قائم ہیں۔یہاں تک کہ ذات پات پر مبنی گروہ اپنی مخصوص ذات کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کے اس سماجی تانے بانے کو الیکشن کے وقت خوب استعمال کرتی ہیں۔منڈل تحریک سے نکلنے والی تمام سیاسی جماعتیں جہاں ایک جانب ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں وہیں مسلمان بھی ان کی آواز میں شامل ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کی آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ نامی تنظیم ذات پرمبنی مردم شماری میں ہندوؤں کی او بی سی ذاتوں کی طرح مسلمانوں کے پسماندہ ذاتوں کی بھی گنتی کرانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال بہار کی حکومت نے ذات پات پر مبنی سروے کروایا تھا۔ اس پس منظر میں اب مسلم سماج کے پسماندہ طبقات کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سیاسی تنظیم آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ نے بہار کی حکومت کی جانب سے فلاحی اسکیموں کے لیے مسلم سماج کو او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) اور ای بی سی (معاشی طور پر پسماندہ طبقات) کے طور پر درج کیے جانے کاحوالہ دیتے ہوئے ذات پات پر مبنی مردم شماری میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنے کی مطالبہ رکھ دیا ہے۔ مسلم محاذ کے صدر سابق ممبر پارلیمنٹ علی انور کہتے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں پسماندہ اور دلت گروہ ہیں جن میں کئی ذیلی ذاتیں ہیں۔ ایسے میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی ذاتوں کی گنتی کی جائےتاکہ ان کی پوزیشن کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ اس کےعلاوہ بہار کی طرز پر ملک بھر میں او بی سی کو دو حصوں میں پسماندہ طبقہ ( او بی سی ) اور انتہائی پسماندہ طبقات ( ای بی سی ) میں تقسیم کیاجانا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں بھی او بی سی کے صحیح اعداد وشمار سامنے آنا چاہیے ۔ مسلمانوں کے نام پر تمام سہولتوں کا فائدہ مسلم سماج کی کچھ اعلیٰ ذاتوں کو مل رہا ہے، ایسے میں مسلم او بی سی ذاتوں کی صورت حال ہندوؤں سے بھی خراب ہو گئی ہے۔ہندوستانی مسلمان نسلی اعتبار سے کئی طبقات اور برادریوں میں تقسیم ہیں۔ اعلیٰ درجہ کے مسلمانوں کو اشراف کہاجاتا ہے جس میں سید، شیخ ،مغل،پٹھان، رنگڑ یا مسلم راجپوت اور تیاگی مسلمان آتے ہیں۔ وہیں او بی سی مسلمانوں کو پسماندہ مسلم کہا جا تاہے۔ جن میں کجڑے (راعین) جولاہے (انصاری) دھونیا (منصوری) قصائی (قریشی) فقیر (علوی) حجام (سلمانی) مہتر (حلال خور) گئوالا (گھوسی) دھوبی ( ہواری) لوہار-بڑھئی (سیفی) منہار (صدیقی) درزی ( ادریسی) ون گوجر وغیرہ اور دلت مسلم کو ارذال کہا جاتا ہے ۔مسلم معاشرے میں رائج ذات پات کے حوالے سے ڈاکٹر آر امبیڈکر سے لے کر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور کانشی رام نے بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر لکھتے ہیں کہ”غلامی بھلے ہی دور ہو گئی ہو ذات پات تو بہرحال مسلمانوں میں قائم ہے”۔کانشی رام نے کہاکہ مسلمانوں میں نمائندگی کے نام پر صرف اعلیٰ طبقے کے ہی مسلمانوں کی شراکت داری ہے جبکہ او بی سی مسلمان محروم ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کے درمیان ذاتوں کی گنتی کا مطالبہ کر کے او بی سی مسلمان کے اعداد وشمار کو سب کے سامنے لانے کا ارادہ ہے ۔مسلمانوں میں ذات پات کے نظام اور ذات پات پر مبنی مردم شماری کے تعلق سے معروف اسکالر پدم شری اور سابق وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ "اب جبکہ مردم شماری کا مرحلہ سامنے ہے، ملک کے کونے کونے سے’اسٹ سینسس’ کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری کو مذہبی تناظر میں دیکھیں تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے حق میں ہے بلکہ یہ ملک کی ترقی اور خوشحالی سے جڑا مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود کہ مٹھی بھر اشرافیہ مسلمانوں کا گروہ، کاسٹ سینسس کے خلاف اپنی توانائی لگانے میں مصروف ہو گیا ہے۔ ان کی وہی پرانی رٹی رٹائی دلیل ہے کہ اسلام میں ذات پات، اونچ نیچ اور اچھوت کا کوئی تصور نہیں، تو پھر ذات پات پر مبنی مردم شماری اور مسلمانوں کی درجہ بندی کرانے کی فکر کیوں ہے؟وہ کہتے ہیں کہ ایک بار اس طرح کی مردم شماری ہو جائے گی تو پتہ چل جائے گا کہ کس ذات کے لوگوں کی ملک میں کیا حالت ہے؟ اسے سیاسی نہیں سماجی نظریے سے دیکھا جانا چاہیے”۔ وہیں کچھ مورخین کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں پسماندہ مسلم آبادی، زیادہ تر ان مقامی لوگوں کی نسل ہے جنہوں نے ماضی میں کسی وقت اسلام قبول کیاتھا۔ ان میں سے زیادہ ترلوگوں نے ہندوؤں کی اونچی ذاتوں کے جبر سے بچنے کے لیے مذہب تبدیل کیاتھا۔ مسلمان ان ہی کے لیے ‘ارذل’ (کمتر) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ نچلی ذاتوں نے اسلام اس لیے قبول کیا تھا کہ ان کی سماجی حیثیت میں تبدیلی آئے جبکہ مذہب بدلنے کے ساتھ وہ اپنے پیشے سے بھی وابستہ رہے، ان میں زیادہ تر افراد محنت و مزدوری کرنے والے ہیں، اورسماج ان کو عزت دینے کے لیے راضی نہیں ہے۔ سماج کے یہی مٹھی بھر لوگ ‘اشراف -ارذال’ کیٹگری بناتے ہیں اور ذات پر مبنی مردم شماری پر اعتراض کرتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی ذات پر مبنی سماجی حیثیت جیسے خود مسلمانوں نے ہی تقویت بخشی ہے ایک کڑوی حقیقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں جبکہ ایک جانب آزاد بھارت میں مسلمان اہل اقتدار سے لگاتار اوربتدریج معاشی طور پر منظم و منصوبہ بند طریقوں سے کمزور کیے جاتے رہے ہیں ،دوسری جانب حد درجہ کی جہل اور غفلت نے بحیثیت ‘خیر امت’ انہیں اپنی شناخت سے واقف تک نہیں ہونے دیا اورتیسری جانب ‘اشراف ‘کہنے والے مسلمان ‘ارذال’کہے جانے والے مسلمانوں کی سماجی دائرہ میں تذلیل کرتے آئے ہیں۔ ان حالات میں اگر ذات پات پر مبنی مردم شماری ہوتی ہے تو مسلمان، اگرچہ وہ کوئی بھی سماجی حیثیت رکھتے ہوں، انہیں کیا رخ اختیار کرنا چاہیے، ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب جلد از جلد تلاش کرنا ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024