بھارت میں جمہوریت خطرات کے گھیرے میں

مذہب کے سیاسی استعمال پر دیگر پارٹیاں کیوں خاموش تماشائی ہیں؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

لفظ ’سیکولر ریاست‘ کے وجود کی بحث سے ہٹ کر اسکی روح سمجھنا اشد ضروری ہے
مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کا مذہب کے نام پر عوام کا پیسہ بہانا جمہوریت کے عین خلاف ہے
بلاشبہ 26؍ جنوری 1950 کو دستور ساز اسمبلی نے جو آئین منظور کیا تھا اس میں’’سیکولر‘‘ کا لفظ شامل نہیں تھا بلکہ 1976میں 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ سیکولر کا لفظ آئین میں اضافہ کیا گیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آئین میں سیکولر کا واضح ذکر نہ ہونے کے باوجود بھارت کا آئین بنیادی طور پر سیکولر ہی ہے۔ درحقیقت بھارت کا آئین ایک دستاویز ہے جس کی جدید آئینی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔اس کی جامعیت سیکولرازم ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک 1947 میں تقسیم کے دل دہلا دینے والے تشدد سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔بھارت آسانی سے رجعت اختیار کر سکتا تھا۔ ’’اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے جواب میں خود کو ہندو قوم قرار دے سکتا تھا، کیونکہ اس وقت ایشیائی براعظم کے مغربی کنارے پر بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا جارہا تھا۔فلسطینیوں کی زمین غصب اور دھوکہ دہی سے حاصل کرکے یہودی ریاست اسرائیل کو وجود میں لایا جا رہا تھا۔اس گھناؤنے اور قابل نفرت جرم میں ترقی یافتہ، نام نہاد حقوق انسانی کے علم بردار مغربی طاقتیں شامل تھیں۔ان حالات میں مجاہدین آزادی نے بھارت کے آئین کو سیکولرازم کے نئے تصور کے ساتھ اپنے بنیادی ڈھانچہ کے طور پر منتخب کیا تھا۔دستور ساز اسمبلی کا اس پراتفاق قائم ہونا اپنے آپ میں ایک بڑا واقعہ ہے ۔اس کا سہرا دستور ساز اسمبلی میں شامل ممبران، بالخصوص قائدین جس میں امبیڈکر، پنڈت نہرو، مولانا آزاد اور سردار پٹیل وغیرہ کو جاتاہے ۔مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کی سوندھی مٹی کی یہی خصوصیت رہی ہے کہ 700 سالوں تک مسلم حکم رانوں نے یہاں حکومت کی مگر مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچایا۔انفرادی اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر طویل تاریخ میں مسلم حکم رانوں نے مذہبی آزادی اور مذہبی مقامات کو نقصان نہیں پہنچایا۔چنانچہ بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کے حوالے کرنے والی سپریم کورٹ کی بڑی بنچ نے یہ تسلیم کیا کہ اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر مندر کو توڑ کر کی گئی تھی۔آج جب رام مندر کا افتتاح کیا جارہا ہے تو احساس جرم کو کم کرنے اور تاریخی بیانیہ مرتب کرنے کے لیے دائیں بازو نظریات کے حاملین کتابیں لکھ رہے ہیں کہ اگرچہ دستاویزی ثبوت نہیں ہے مگر یہ شعوری تاریخ کا حصہ رہاہے۔ حال ہی میں بی جے پی کے سابق راجیہ سبھا رکن بلویر بنچ نے اپنی کتاب Tryst with Ayodhya :Decolonization of India میں بابری مسجد کی شہادت کا ملبہ گاندھی کے سر پھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ بلویر بنچ نے کتاب کے رسم اجرا میں کہا کہ’’ 6؍ دسمبر 1992 میں ہندتو نظریات کے حاملین کی بھیڑ جس کی قیادت سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کررہے تھے، انہوں نے گاندھیائی حل سے متاثر ہوکر بابری مسجد کو شہید کیا‘‘۔دراصل بلویر بنچ کا یہ احساس جرم ہے ۔اسی طرح گیانواپی کی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ جو ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے وہاں سے متعلق بھی دائیں بازو کے مفکرین کوئی بھی تاریخی دستاویز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ دونوں عبادت گاہیں مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیکولرازم کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں اور کیا ریاست آئینی تقاضےْ کی تکمیل کر پا رہی ہے؟ سیکولرازم کا خاتمہ جمہوریت اور آئینی بحران کے مترادف کیوں ہے؟ یہ سوالات اس لیے بھی اہم ہیں کہ 22؍ جنوری 2024 کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو بھارت میں ہندو راشٹر قیام کے لیے سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔آج ملک کی سیاست میں سیکولرازم مذاق بن کررہ گیا ہے۔مختلف دعوے کیے جارہے ہیں ۔یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ 1976میں 42ویں ترمیم کے ذریعہ بھارت کے آئین کی تمہید میں سیکولر کے لفظ کو شامل کیا گیا ہے جس کا یہ مطلب نکالا جارہا ہے کہ سیکولرازم کا بنیادی آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہندتو اور دائیں بازو کے حاملین کے دعوے اپنی جگہ مگر آئینی ماہرین کی رائے اور سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگرچہ سیکولر کا لفظ 42ویں ترمیم کے ذریعہ اضافہ کیا گیا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ بھارت کا آئین بنیادی طور پر سیکولرازم پر مبنی ہے۔ آئینی دفعات آرٹیکل 14، 15، 16 اور 25 وغیرہ واضح کرتے ہیں کہ 42ویں ترمیمی ایکٹ 1976 سے قبل آئین میں سیکولرازم کا تصور موجود تھا۔مذکورہ ترمیم کو نافذ کرنے سے قبل سپریم کورٹ نے ایک مشہور کیس کیسوانندا بھارتی بمقابلہ ریاست کیرالا (1973) میں ایک نظریہ پیش کیا تھا کہ اس کے بنیادی ڈھانچے یا اس کی بنیادی خصوصیات میں سے کسی کو تباہ کرنے کے لیے آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے پارلیمنٹ بھی مکلف نہیں ہے۔ ایس آر بومائی بمقابلہ یونین آف انڈیا (1994) میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آئین کے تمہید میں لفظ سیکولر کا اندراج ہندوستان کی سیاست کی نوعیت کو متعین کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور یہ آئین میں بنیادی تبدیلی کے مترادف ہے۔ظاہر ہے کہ اس کے لیے پارلیمنٹ مکلف نہیں ہے۔ اس کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ترمیم کے ذریعہ سیکولر کا اندراج آئین کی مختلف دفعات میں شامل ہے خاص طور پر آرٹیکل 25 سے 30 تک کے آئینی دفعات کو واضح کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔یہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہے۔ڈونالڈ اسمتھ اپنی کتاب ’’انڈیا ایز اے سیکولر اسٹیٹ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کسی ریاست کے سیکولر ہونے کے لیے تین عناصر کا ہونا ضروری ہے۔ وہ ہیں مذہبی آزادی، غیر فرقہ وارانہ مشترکہ شہریت اور ریاست کو مذہب کے ساتھ نہیں الجھانا۔ جہاں تک پہلے دو عناصر کا تعلق ہے، اس میں قطعی طور پر کوئی ابہام نہیں ہے کہ بھارت کا آئین ضمیر کی آزادی کو یقینی بناتا ہے اور آزادانہ طور پر کسی مذہبی عقیدے کا دعویٰ کرنے کا حق جو آرٹیکل 25 میں شامل ہےفراہم کرتا ہے۔ سیکولر ریاست ہونے کا تیسرا عنصر ریاست کا مذہب کے ساتھ نہیں الجھنا ہے یعنی ریاست کسی بھی مذہب کے لیے جانب دار نہیں ہوگی۔ اگر گزشتہ 75 برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ریاست گزشتہ سات دہائیوں کے دوران غیر جانب دارانہ رول ادا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئین کی دھجیاں اڑائی جاتی رہی ہیں۔ اس جرم میں بی جے پی اور دیگر سیکولر جماعتوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے بس فرق اعتراف کا ہے۔ بی جے پی کھلے عام جانب داری کا مظاہرہ کرتی ہے اور دیگر سیکولر ریاستیں خاموشی کے ساتھ آئین کی پامالی کرتی رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال 22؍ جنوری کو رام مندر کی افتتاحی تقریب ہے۔ مرکزی اور اترپردیش کی حکومتیں کھلے عام آئین کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں مگر ہر سیاسی جماعت اس پر سوال کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ سی پی آئی ایم کے سوا کسی نے بھی یہ سوال کھڑا نہیں اٹھایا کہ اجودھیا میں رام مندر کے افتتاح میں مرکزی حکومت کیوں شامل ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے اگرچہ رام مندر کے افتتاحی تقریب سے خود کو دور رکھا ہے اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اپنی یاترا میں سرگرم ہیں مگر کانگریس نے بھی مودی حکومت کے سامنے آئینی اور بنیادی سوالات کھڑا کرنے سے شعوری طور پر کنارہ کشی اختیار کی ہے۔کانگریس نے بھی جو وجوہات بیان کیے ہیں وہ مکمل طور پر سیاسی عذر کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیرا علیٰ ڈگ وجے سنگھ خود کو رام بھکت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ رام مندر کا سارا کریڈٹ کانگریس کو جاتا ہے اور کانگریس کے بغیر رام مندر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ڈگ وجے سنگھ کا شمار آر ایس ایس اور ہندتو نظریات کے سخت نقادوں میں ہوتا ہے مگر یہاں وہ ہندتو وادی لیڈروں کی طرح خود کو رام بھکت ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی 22؍ جنوری کو رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ایودھیا نہیں جا رہی ہیں، انہوں نے شرکت کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ رام مندر کے افتتاح کی تقریب سیاسی پروگرام میں تبدیل ہوچکی ہے اور بی جے پی اس کو میجک کے طور پر استعمال کر رہی ہے اس کو یقین ہے کہ رام مندر اگلے عام انتخابات میں کامیابی کے منزل تک پہنچادے گی۔ممتا بنرجی کی شرکت سے انکار اور اس کی جو وجوہات انہوں نے بیان کیے ہیں وہ مکمل طور پر سیاسی ہیں۔اگرچہ ایک ریاست کی وزیر اعلیٰ اور سیکولر نظریات کی حامل ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے ممتابنرجی کی ذمہ داری تھی کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے آئینی و اخلاقی سوالات کھڑے کرتیں کہ کیا اس ملک کا آئین مودی کو بحیثیت وزیر اعظم رام مندر کا افتتاح کرنے یا اس تقریب میں شرکت کی اجازت دیتا ہے؟ کیا سرکاری خزانے کا استعمال مذہبی عمارتوں کی تعمیرات کے لیے کیا جاسکتا ہے؟ یہ سوالات تھے جس پر گفتگو ہونی چاہیے تھی مگر المیہ یہ ہے کہ سی پی ایم کے علاوہ ملک کی تمام سیکولر سیاسی جماعتیں حکومت کے سامنے آئینی اور بنیادی سوالات کھڑا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر سیاسی جماعتیں بنیادی سوالات پوچھنے سے گریز کیوں کررہی ہیں؟ سیاسی جماعتیں سیکولرازم اور ڈیموکریسی کے سوال پر سیدھی بات کرنے سے گریز کیوں کرتی ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ سیکولرازم اور جمہوریت کی تشریح بھارت کے آئین میں کس طرح سے کی گئی ہے۔ 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ سیکولر کا لفظ آئین میں شامل ہونے بعد ہمارے آئین کی تمہید اب اعلان کرتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، اس کا سادہ لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ ریاست کو تمام مذاہب کے لیے مساوی، غیر جانب دارانہ اور معروضی نقطہ نظر اختیار کرنا ہوگا اور یہ کہ ریاست کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں مذہب نمایاں طور پر ان مفادات میں سے ایک ہے جو حکومت کے حقیقی اور جائز اختیارات سے باہر ہیں۔ آرٹیکل 14 سب کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے، آرٹیکل 15 مذہب، نسل، ذات پات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر پابندی لگا کر سیکولرازم کے تصور کو ممکنہ حد تک وسعت دیتا ہے۔ آرٹیکل 16 (1) سرکاری ملازمت کے معاملات میں تمام شہریوں کو مواقع کی برابری کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش اور رہائش کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ آرٹیکل 25 ’ضمیر کی آزادی‘ فراہم کرتا ہے، یعنی تمام افراد کو ضمیر کی آزادی اور آزادی کے ساتھ مذہب کا اعلان کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق فراہم کرتا ہے۔آرٹیکل 26 کے مطابق ہر مذہبی گروہ یا فرد کو مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے اور برقرار رکھنے اور مذہب کے معاملات میں اپنے معاملات خود چلانے کا حق ہے۔آرٹیکل 27 کے مطابق ریاست کسی بھی شہری کو کسی خاص مذہب یا مذہبی ادارے کی ترویج یا دیکھ بھال کے لیے کوئی ٹیکس ادا کرنے پر مجبور نہیں کرے گی۔ آرٹیکل 28 مختلف مذہبی گروہوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کو مذہبی تعلیم دینے کی اجازت دیتا ہے۔آرٹیکل 29 اور آرٹیکل 30 اقلیتوں کو ثقافتی اور تعلیمی حقوق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 51A یعنی بنیادی فرائض تمام شہریوں کو ہم آہنگی اور مشترکہ بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دینے اور ہماری جامع ثقافت کے بھرپور ورثے کی قدر اور تحفظ کا پابند بناتا ہے۔
آئین کے مذکورہ دفعات اور تقاضوں کے تناظر میں گزشتہ 75 برسوں میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں مذہب کے تئیں اپنی غیر جانب داری برتنے میں ناکام رہی ہیں۔آج بی جے پی جو کچھ کررہی ہے اور ریاست کا مکمل جھکاؤ ہندوازم کی طرف کردیا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔مگر اس معاملے میں کانگریس اور دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں کا ریکارڈ بھی کوئی خاص بہتر نہیں ہے۔بلکہ آج ایودھیا میں جوکچھ ہورہا ہے اور بابری مسجد میں مورتی رکھنے سے لے کر مسجد کی شہادت تک ہر جگہ کانگریس اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے ناکام نظرآتی ہے۔ آئینی اور اخلاقی تقاضے کو پامال کرنے والوں میں سے ایک ملک کے اولین صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد بھی ہیں جو پنڈت نہرو کی شدید مخالفت کے باوجود سومناتھ مندر کا افتتاح کرنے کے لیے گئے تھے۔ نہرو نے سومناتھ مندر کی تزئین کاری کے لیے سرکاری گرانٹ کی شدید مخالفت کی تھی۔حالیہ برسوں میں آئین کے آرٹیکل 27 کی خلاف ورزی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش کی حکومت نے فروری 2021 میں، ریاستی مقننہ میں اپنا بجٹ 2000 روپے کے اخراجات کے ساتھ پیش کیا۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے 5,50,270 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیاگیا۔ریاستی حکومتوں کے لیے یاترا یا دیگر مذہبی تقریبات کے حق میں سبسڈی مختص کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چھتیس گڑھ، دہلی، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ مانسروور یاترا پر جانے والے یاتریوں کو اخراجات کا ایک حصہ پورا کرنے کے لیے رقم فراہم کی جاتی ہے۔
کانگریسی آئیڈیالوجی مکتب سے سیاسی تربیت حاصل کرنے والی ممتا بنرجی گزشتہ 13 سالوں سے بنگال میں حکم رانی کر رہی ہیں ۔سیکولرازم اور ہندتو کی تاریخ کے اعتبار سے بنگال کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔آزادی کے بعد اگرچہ بنگال میں فرقہ پرست قوتیں سر ابھار نہیں سکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندتو کے نظریہ کی پرورش یہیں ہوئی ہے۔ بنگال کی سرزمین میں ہندتو کی چنگاریاں ہمیشہ دبی رہی ہیں۔ ہلکی سی ہوا اس کو شعلہ جوالہ میں تبدیل کرسکتی ہے۔اگر ممتا بنرجی کے اس طویل دور اقتدار کو دیکھا جائے تو وہ بھی ملک کے سیکولر آئین کی پامالی کرتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار کے ابتدائی برسوں میں مسلم سیاست کی جس میں مساجد کے ائمہ و موذنین کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دینے کا اعلان، مسلمانوں کے لیے الگ ہسپتال بنانے اور الگ اسکول کی تعمیر کا اعلان وغیر۔ 2014 کے بعد انہوں نے بہت ہی ہوشیاری سے نرم ہندتو کی طرف رخ کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ مغربی بنگال میں حکومت کے خزانے سے ریاست میں دو مندروں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ ریاست کے ساحلی شہر دیگھا جہاں بڑی تعداد میں ریاست اور بیرون ریاست سے بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں وہاں کئی سو ایکڑ زمین پر بنگال حکومت کے خرچ سے جگن ناتھ مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ پچھلے دنوں ہی ممتا بنرجی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جگن ناتھ مندر کی تعمیر کے لیے 250 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کولکاتا میں واقع کالی مندر کی تزئین اور تجدید کاری کے لیے 250 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ریلائنس کمپنی کے اشتراک سے ریاستی حکومت اپنی نگرانی میں کالی مندر کی تزئین کاری کر رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں درگا پوجا کو فروغ دینے کے لیے ممتا حکومت نے جس طرح سے فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔انہوں نے یہ سب بنگالی ثقافت و کلچر کو فروغ دینے کے نام پر کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں انہوں نے بنگال کو ہندو تہذیب ثقافت کا مرکز بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جس میں دریائے ہگلی کے کنارے تروینی میں کمبھ میلہ کا آغاز کیا گیا۔ اس کے لیے ماضی کی تاریخ میں تحریف اور مسلم حکم رانوں کی شبیہ داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس تاریخی تحریف کاری کا یہ بھانڈا بر وقت پھوٹ گیا۔ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور ترنمول کانگریس کا ناپاک گٹھ جوڑ بے نقاب ہوگیا۔ بنگال میں برسہا برس گنگا ساگر میلہ کا انعقاد ہوتا ہے۔ مکر سنکرانتی کے موقع پر ملک بھر سے ہندو شیدائی جنوبی 24 پرگنہ کے گنگا ساگر میلہ میں مقدس غسل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ممتا بنرجی نے حالیہ برسوں میں گنگا ساگر میلہ کے سیاسی کرن کی بھی بھر پور کوشش کی ہے۔ جنوبی 24 پرگنہ کے کئی علاقے آئی لینڈ کے مماثل ہیں۔ جہاں سیاحت کے بہت سارے امکانات ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ گنگا ساگر، پائوکھالی جیسے سمندری بیچ محض 119 کلومیٹر دور ہونے کے باوجود یہ مسافت طے کرنے میں پانچ سے 6 گھنٹے لگتے ہیں۔ شہر کولکاتا ختم ہونے کے ساتھ ہی تنگ سڑکیں ہیں جس کی وجہ سے ہر طرف ٹریفک جام رہتا ہے۔ حکومت نے سڑکوں کی توسیع کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ جب کہ سڑک کی تعمیر اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر ممتا بنرجی گنگا ساگر میں مندر کی تزئین پر سرکاری خزانے لٹارہی ہیں۔ سڑک کی توسیع اور بنیادی ڈھانچے سے صَرف نظر ان کا مقصد مذہبی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
25 نومبر 1949 کو امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی کو ذات پات اور مذہبی تعصبات کی پرانی دشمنیوں سے خبر دار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ذات پات کی تفریق اور مذہبی تعصبات نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ذات پات اور مذہبی تعصبات سے ملک کو اوپر رکھا جائے۔اگر حکومت اور سیاسی جماعتیں مذہب اور نظریات کو ملک سے بالاتر رکھتی ہیں تو ہماری آزادی دوسری بار خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ سوال یہ بھی ہے کہ بھارت میں امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج کیوں بڑھتی جارہی ہے۔ہزار دعوؤں کے باوجود ملکی معیشت کی رفتار اور سمت دونوں غلط کیوں ہیں۔دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے ایسے میں کیا ریاست عوامی فلاح وبہبود کے بجائے مذہبی مقامات پر خرچ کر سکتی ہے؟ اور اس کے خلاف کیوں آواز بلند نہیں ہورہی ہے؟یاد رہے کہ جمہوریت میں سوالات کا غائب ہوجانا اور ایگزیکٹیوز کو جواب دہ بنانے والے اداروں کا خاموش ہوجانا ہی جمہوریت کے زوال کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔ ایم ناگراج بمقابلہ یونین آف انڈیا (2006) میں، سپریم کورٹ نے آئین اور سیکولرازم کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیکولرازم وہ اصول ہے جو آئین کے تحت کئی حقوق اور اقدار کا حامل ہے۔لہٰذا سیکولرازم، جمہوریت، معقولیت، سماجی انصاف وغیرہ جیسے محور بنیادی اصول ہیں جو آرٹیکل 14 اور 19 جیسے بنیادی حقوق کے اصول کو جوڑنے کا عنصر فراہم کرتے ہیں اور یہ اصول پارلیمنٹ کی ترمیمی طاقت سے باہر ہیں۔
اگلے چند مہینوں میں ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور انتخابات کو ہی جمہوریت کی صحت مندی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جمہوریت کے اعضاء صرف انتخابات نہیں ہیں بلکہ جمہوریت جو کہ ایک جسم ہے اس کے دیگر اعضا کی صورت حال کیا ہے، اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت، پارلیمنٹ، میڈیا اور پولیس سے لے کر سیاست دانوں اور پارٹیوں تک مہم کے مالیات اور قانون سازی کے میکانزم تک، ہندوستانی جمہوریت کی ہڈیاں، نالی اور اعضاء تشویش ناک حد تک خراب نظر آتے ہیں۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی طرف سے تیار کردہ ڈیموکریسی انڈیکس کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہندوستان سیاسی شرکت کے علاوہ ہر اقدام پر پھسل گیا یا ساکت رہا ہے۔جمہوریت کا اہم ادارہ پارلیمنٹ عضو معطل ہوتا جا رہا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاسوں کی تعداد 1950 کی دہائی میں 100 سے کم ہو کر 2014-19 کی مدت کے درمیان 66 رہ گئی ہے اور کوویڈ-19 کے دوران مزید کم ہوئی ہے۔ قوانین پاس ہورہے ہیں، لیکن ان کی جانچ پڑتال کم ہوتی ہے۔ ایوان زیریں، لوک سبھا میں قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے جانے والے بلوں کا تناسب پچھلی حکومت کے دوران تقریباً 60-70 فیصد سے کم ہو کر نریندر مودی کے پہلے دور میں 27 فیصد اور دوسری مدت میں صرف 13 فیصد رہ گیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کےدوران دونوں ایوانوں میں کمیٹی کے اجلاسوں میں حاضری کا ریکارڈ 46 فیصد کا معمولی اوسط ظاہر کرتا ہے۔گزشتہ سرمائی اجلاس میں ٹیلی کام سے متعلق کئی اہم بلس مختصر بحث کے بعد اور اپوزیشن کی غیر موجودگی میں پاس کردیے گئے۔عدلیہ کی صورت حال بھی کوئی بہتر نہیں ہے۔ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کس طرح آئین کے تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے اس پر ہم گزشتہ شماروں میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔
جون 1975 سے مارچ 1977 یعنی 21 ماہ ملک میں ایمرجنسی نافذ رہی مگر جمہوریت پر نظر رکھنے والے عالمی اداروں کی رپورٹیں کہتی ہیں کہ مودی کے دور حکومت میں جس طرح جمہوریت کا زوال ہورہا ہے وہ ایمرجنسی سے بالکل مختلف ہے۔ ایمرجنسی میں تمام ادارے معطل ہو گئے تھے جبکہ مودی کے دور میں اہم جمہوری ادارے اگرچہ رسمی طور پر اپنی جگہ پر قائم ہیں مگر جمہوریت کی بنیاد رکھنے والے اصول اور طرز عمل کافی حد تک بگڑ چکے ہیں۔ عصری ہندوستان میں یہ غیر رسمی جمہوری زوال ایمرجنسی کے بالکل بر عکس ہے۔ اندرا گاندھی نے تقریباً تمام جمہوری اداروں کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ انتخابات پر پابندی لگانا، سیاسی اپوزیشن کو گرفتار کرنا، شہری آزادیوں کو ختم کرنا، آزاد میڈیا کو مسخر کرنا اور تین آئینی ترامیم منظور کرنا جن سے ان کی طاقت کو نقصان پہنچایا گیا، اس کے باوجود جمہوریت کے نگراں اس بات پر متفق ہیں کہ آج بھی ہندوستان مکمل جمہوریت اور مکمل خود مختاری کے درمیان جھول رہا ہے۔ جمہوریت پر نظر رکھنے والی تنظیمیں جمہوریتوں کی مختلف درجہ بندی کرتے ہوئے بھارت کی ایک ’’ہائبرڈ حکومت‘‘ کے طور پر درجہ بندی کرتی ہیں۔ یعنی نہ تو مکمل جمہوریت ہے اور نہ ہی مکمل ڈکٹیٹر شپ‘‘ جمہوریت کے نگراں اداروں کی شکایت ہے کہ جمہوریت کے بنیادی عناصر کو بتدریج ناکارہ کیا جا رہا ہے۔پارلیمنٹ موجود ہے مگر کام کاج نہیں کر رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ہیں اور انتخابات بھی ہورہے ہیں مگر انتخابی عمل اور اپوزیشن کی آواز کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ عدالتی نظام پر ایگزیکٹیو حاوی ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔جمہوریت کا آخری اور لازمی عنصر اظہار رائے کی آزادی ہے مگر آج مودی حکومت اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے دو طرح کے قوانین کو تیزی سے استعمال کر رہی ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بغاوت کے قوانین اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا قانون (UAPA)۔ پوسٹرز، سوشل میڈیا پوسٹس، نعروں، ذاتی گفتگو اور ایک کیس میں پاکستانی کرکٹ کی جیت کے لیے جشن منانے والے پیغامات کی شکل میں اختلاف رائے کے لیے بغاوت کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 2010 اور 2021 کے درمیان بغاوت کے مقدمات میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے پر شہریوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات میں سے 96 فیصد 2014 میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد دائر کیے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران دس ہزار ایک ہی ضلع میں قبائلی کارکنوں پر ان کے زمین کے حقوق کی حمایت کرنے پر بغاوت کا الزام لگایا گیا تھا۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ میں 2019 میں ترمیم کی گئی تھی تاکہ حکومت کسی دہشت گرد تنظیم سے مخصوص تعلق کے بغیر افراد کو دہشت گرد قرار دے سکے۔ اس درجہ بندی کو چیلنج کرنے کے لیے عدالتی تدارک کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اس کا استعمال ان افراد کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی فعل کا ارتکاب کرنے والے خطرے کا یا لوگوں میں دہشت پھیلانے کا امکان رکھتے ہیں۔ 2015 اور 2019 کے درمیان UAPA کے تحت گرفتاریوں میں 72 فیصد اضافہ ہوا، گرفتار کیے گئے افراد میں سے 98 فیصد بغیر ضمانت کے جیل میں ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس میں مزید تیزی آئی ہے۔ بڑے پیمانے پر حکومتی پالیسی پر تنقید کو قومی مفاد کے منافی یا ملک دشمنی کا لیبل لگا کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔
ان حالات میں سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟ اس کا جواب پچھلے دنوں نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین اور وشو بھارتی میں معاشیات اور سیاست کے پروفیسر سدیپتا بھٹا چاریہ نے ای میل کے ذریعہ دیا ہے۔ وہ سیکولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ریاست کو مذہب اور غیر جانب دارانہ سیاست کی طاقت سے محروم ہونے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ آج سب سے بڑا مسئلہ سیکولرازم کے لیے کھڑا ہونا ہے، جسے مضبوط دفاع کی ضرورت ہے۔ ملک اور بنگال کو ایک ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو مذہبی فرقہ واریت سے آزاد ہو۔مذہب کی غیر جانب دارانہ سیاست کی طاقت کو ضائع ہونے دینا ایک غلطی ہوگی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں متحدہ شناخت کو نہیں کھونا چاہیے‘‘۔ ہندتو کے اس دور میں متاثر ہونے کے بجائے پوری قوت کے ساتھ سیکولرازم اور جمہوریت کے لیے ملک کی سول سوسائٹی، سیکولر سیاسی جماعتیں اور تمام انصاف پسند طبقے کو مل کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی منافقانہ پالیسیوں کے خلاف کھل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔اگر بی جے پی مذہبی بنیادوں پر جمہوریت اور آئین کی پامالی کرتی ہے تو اس کے خلاف زور دار آواز بلند ہوتی ہے مگر سیکولر جماعتیں منافقانہ روش اختیار کرتے ہوئے ہندتو کی سیاست کی راہ اختیار کرتی ہے تو ہم خاموش ہوجاتے ہیں کہ اس خوف سے بی جے پی مضبوط ہوجائے گی۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی صورت میں اظہار رائے کی آزادی اور سیکولرازم سے دست برداری چاہے وہ رضاکارانہ ہو یا پھر جبراً ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے، نقصان دہ ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی جمہوریت کے تحفظ کے لیے قربانیاں دی ہیں اور مستقبل میں بھی جمہوریت کے تحفظ کے لیے نئی حکمت عملی اور صف بندی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کے لیے بیداری اور تمام طبقات کو متحد کرنا لازمی ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 سوال یہ ہے کہ بھارت میں امیر اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔ہزار دعوئوں کے باوجود ملک کی معیشت کی رفتار اور سمت دونوں غلط ہیں ۔دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے تو کیا ان حالات میں ریاست ، عوامی فلاح وبہبود کے بجائے مذہبی مقامات پر خرچ کرسکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں ہورہی ہے۔25 نومبر 1949 کو امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی کو ذات پات اورمذہبی تعصبات کی پرانی دشمنیوںسے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ذات پات کی تفریق اور مذہبی تعصابات نے ہمیں بہت پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ذات پات اور مذہبی تعصبات سے ملک کو اوپر رکھا جائے ۔اگر حکومت اور سیاسی جماعتیں مذہب اور نظریات کو ملک سے بالاتر رکھتی ہیں تو ہماری آزادی دوسری بار خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ جمہوریت میں سوالات کا غائب ہوجانا اور ایگزیکٹیو کو جواب دہ بنانے والے اداروں کا خاموش ہوجانا ہی جمہوریت کے زوال کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024