بھارت میں اسلاموفوبیا: ایک منظم سازش یا محض اتفاق؟

تعلیم، معیشت اور میڈیا میں اصلاحات سے مسلمانوں کے لیے مؤثر حکمت عملی ممکن

ساجدہ پروین، بھساول

بھارت میں اسلاموفوبیا ایک خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ کبھی مساجد پر حملے، کبھی ٹرینوں میں مسافروں کی مار پیٹ، اور کبھی میڈیا میں زہر آلود بیانیہ— سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب محض اتفاق ہے یا مسلمانوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے؟
ملک بھر میں مساجد، درگاہوں اور وقف جائیدادوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کہیں انہیں شہید کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، تو کہیں اذان پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ مسلم شناخت پر بھی حملے جاری ہیں— حجاب پر پابندی، ڈاڑھی رکھنے والوں پر شک اور ٹوپی پہننے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسلمانوں پر حملے اب صرف مخصوص علاقوں تک محدود نہیں رہے۔ ٹرینوں میں سفر کرنے والے مسلم مسافروں کو زدوکوب کیا جا رہا ہے، بازاروں میں ان کی دکانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اور کہیں گائے کے نام پر موب لنچنگ کی جا رہی ہے۔ یہ واقعات صرف مشتعل ہجوم کی کارستانیاں نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، جنہیں روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا اور اسلاموفوبیا:
ملک کے کئی بڑے نیوز چینلز مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنے میں مصروف ہیں۔ کسی بیماری کے پھیلنے کا الزام ہو یا کسی حادثے کا— میڈیا ہمیشہ مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دینے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ فلموں اور ویب سیریزوں میں مسلمانوں کو شدت پسند اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔
سیاسی استحصال:چند سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے سیاسی چالیں چلی جا رہی ہیں، ووٹر لسٹوں سے نام ہٹائے جا رہے ہیں اور بعض حلقوں میں ان کا تناسب کم کرنے کے لیے انتخابی حلقہ بندیوں میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو سیاسی بیداری کے ساتھ اپنی قیادت اور نمائندگی پر بھی غور کرنا ہوگا تاکہ وہ ہمیشہ دوسروں کے رحم و کرم پر نہ رہیں۔
مسلم پرسنل لا اور مذہبی آزادی:مسلمانوں کو اپنے خاندانی، سماجی اور شرعی قوانین کے تحفظ کے لیے منظم کوشش کرنی ہوگی۔ یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code) جیسے مسائل پر مضبوط قانونی مؤقف اپنانا ہوگا تاکہ مذہبی آزادی متاثر نہ ہو۔
ہندوستانی آئین اور مسلمانوں کے حقوق:بھارتی آئین نے تمام شہریوں کو برابری اور مذہبی آزادی کے حقوق دیے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق سے واقف ہونا ضروری ہے، خاص طور پر آرٹیکل 25، 26، 29، 30 جیسے دفعات، جو مذہبی آزادی، تعلیمی اداروں کے قیام اور ثقافتی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ کسی بھی زیادتی پر قانونی چارہ جوئی ہی اس کا مؤثر حل ہے۔
اسلاموفوبیا کے خلاف کیا کیا جائے؟
مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق سے واقف ہونا چاہیے۔ کسی بھی حملے، زبردستی، یا نفرت انگیز تقریر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی چاہیے۔ مسلم وکلا اور تنظیمیں قانونی مدد کے لیے ہیلپ لائنز اور ریلیف فنڈز قائم کریں۔ عدلیہ اور پالیسی میکنگ میں مسلمانوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے تاکہ قانون سازی میں ان کی رائے بھی شامل ہو۔
تعلیم اور فکری بیداری:مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول پر توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر قانون، میڈیا اور پبلک پالیسی جیسے شعبوں میں۔مدارس اور دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا امتزاج پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ نوجوان زمانے کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔عدلیہ، سِول سروس اور انتظامیہ میں مسلم نمائندگی بڑھانے کے لیے خصوصی اسکالرشپس اور کوچنگ سنٹرز کا قیام ضروری ہے۔
معیشت میں مضبوطی:مسلمانوں کو معاشی طور پر خود مختار بننے پر توجہ دینی چاہیے۔اسٹارٹ اپس، فری لانسنگ، اور ای کامرس کے ذریعے نئی معیشتی راہیں تلاش کی جائیں۔باہمی تعاون پر مبنی کاروباری ماڈل اپنائے جائیں تاکہ مسلم کاروبار محفوظ رہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال:
سوشل میڈیا پر فیکٹ چیکنگ اور مثبت بیانیہ قائم کیا جائے۔مسلمانوں کو اپنے میڈیا نیٹ ورک بنانے چاہئیں تاکہ وہ اپنی سچائی دنیا تک پہنچا سکیں۔جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف قانونی اقدامات اٹھائے جائیں اور سائبر ماہرین کو تربیت دی جائے تاکہ وہ نفرت انگیز مواد کے خلاف فوری اقدامات کر سکیں۔
بین الاقوامی سطح پر مؤثر حکمت عملی:
اسلاموفوبیا کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور مسلمانوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ جیسے اداروں پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے، اپنی مؤثر حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔ مسلم ممالک کو مشترکہ پالیسی اپنانے، انسانی حقوق کے لیے مضبوط بیانیہ تشکیل دینے اور متبادل عالمی فورمز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے اٹھایا جائے اور بین الاقوامی میڈیا میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے صحافیوں اور دانشوروں کو تیار کیا جائے۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی اتحاد:
مختلف مذاہب کے افراد کے ساتھ مکالمہ اور تعلقات مضبوط کیے جائیں تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔”سدبھاونا منچ” جیسے پلیٹ فارمز قائم کیے جائیں، جہاں مختلف مذاہب کے رہنما اور دانشور مل کر امن، ہم آہنگی، اور باہمی تعاون کے لیے عملی اقدامات کر سکیں۔مقامی سطح پر بین المذاہب مکالمے اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ مختلف برادریوں میں بہتر تعلقات قائم ہو سکیں۔مسلمان سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسے مفت طبی کیمپ، تعلیمی ورکشاپس، اور رفاہی سرگرمیاں، تاکہ معاشرے میں مثبت تاثر قائم ہو اور ہم آہنگی کو فروغ ملے۔
نفرت انگیز جرائم اور مانیٹرنگ سسٹم:
اسلاموفوبیا پر نظر رکھنے کے لیے ڈیٹا بیس اور رپورٹنگ سسٹم قائم کیا جائے تاکہ ہر واقعے کی تفصیلات درج ہوں۔ہر ریاست میں ایک "کمیونٹی رسپانس ٹیم” ہو جو ایسے واقعات پر فوری ایکشن لے سکے۔
مسلمانوں میں داخلی اصلاحات:
مسلمانوں کو فرقہ واریت اور اندرونی اختلافات سے نکل کر اجتماعی ترقی پر زور دینا ہوگا۔ سوشل میڈیا اور گلی محلوں میں بلاوجہ کے جھگڑوں، جذباتی رد عمل اور انتشار سے بچنا ہوگا۔اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کو صرف شکایت کرنے سے نہیں بلکہ حکمت و دانش کے ساتھ عملی اقدامات سے روکا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو جذباتیت کے بجائے قانونی، معاشی، تعلیمی اور میڈیا کے محاذ پر مضبوط ہونا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مشکلات اور آزمائشیں ہی ہمیشہ اقوام کو مضبوط کرتی ہیں، بشرطیکہ وہ صبر، حکمت اور تدبر کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں۔ بلال حبشیؓ کی مظلومیت، امام احمد بن حنبلؒ کی استقامت اور ہندوستان میں ہی سرسید احمد خانؒ کی تعلیمی تحریک— یہ سب ہمیں سکھاتے ہیں کہ جب ہم علم، اتحاد، اور عمل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، تو حالات پلٹنے لگتے ہیں۔
قرآن مجید ہمیں امید، ثابت قدمی اور بہترین حکمتِ عملی کی تلقین کرتا ہے:
"وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ”
(مت گھبراؤ، نہ غم کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔) (آل عمران: 139)
یہ وقت مایوسی یا پسپائی کا نہیں بلکہ دانشمندی، صبر اور عملی جدوجہد کا ہے۔ اگر ہم متحد ہو کر اور حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھیں تو نہ صرف اس چیلنج کا سامنا کیا جا سکتا ہے بلکہ اپنی حالت کو بہتر بنا کر ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی راہ بھی ہموار کی جا سکتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025