بھارت کو مینو فکچرنگ اور روزگار میں مزید اقدامات کی ضرورت

2047 تک بھارت کے ترقی یافتہ ملک بننے کی راہ میں چیلنجز: رگھو رام راجن

0

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

عالمی معیشت کے تغیر پذیر حالات میں بھارت کو اپنی ترقی کی رفتار کو مزید تیز کرنا ہوگا
چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے پس پشت مینوفیکچرنگ اور اس کی جی ڈی پی ہے۔ امریکہ کے بعد اس کی جی ڈی پی کا حجم سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ کئی ممالک کو اپنے قرض کے جال اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) میں پھنسا کر ہر طرح سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ابھی ہمارا ملک خاموش تماشائی بنا کھڑا ہے اور امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ ہمیں اس حصار سے نکل کر ایک متبادل سپلائی سسٹم اور مینوفیکچرنگ ھب تیار کرنا ہوگا۔ ہم محض خود کفیل بھارت کا نعرہ پیش کر رہے ہیں لیکن ہمیں ملک کو ایک عالمی مینوفیکچرنگ ھب بنانے کے لیے ایک پختہ نقطہ نظر اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے جسے بسرعت نافذ کرنے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا کر ہنر مند ورک فورس کو اس عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو عالمی طور پر مینوفیکچرنگ ھب تیار کر سکتے ہیں۔ آج سے تقریباً پانچ دہائی قبل چین میں معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی گئی جس کی وجہ سے وہ ہر میدان میں ایک مینوفیکچرنگ قوت بن کر بن کر ابھرا۔ اصلاً چین نے اپنے سستے ورک فورس کے ذریعے مینوفیکچرنگ کو بڑی قوت سے آگے بڑھایا۔ اس وقت چین کی نوجوان آبادی نے اسے کافی بلندی تک پہنچایا۔ جب چین نے کھلا پن اپنایا تو امریکی تاجروں نے سستے محنت کشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منافع کے مارجن میں اضافہ کے لیے پیداوار کو آؤٹ سورس کرنا شروع کیا جس سے چین کو خوب فائدہ ہوا۔
ہمیں چینی معاشی ترقی کا بغور تجزیہ کرتے ہوئے مینوفیکچرنگ پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور تجارتی تعلقات اور سپلائی چین کو مستحکم و مضبوط بنانا ہوگا۔ ہمارا مقصد ’’میک اِن انڈیا‘‘ اسٹریٹیجی کے تحت اصلاحات مثلاً اراضی اور لیبر قوانین میں نرمی کرتے ہوئے چین سے نکلنے کی خواہشمند کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کا آغاز ہوچکا ہے اور ہمیں ملک کو ایک مستحکم جمہوری متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے چین کے متبادل کی تلاش میں صنعتکاروں کو اپنی جانب راغب کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی مینوفیکچرنگ کے لیے عالمی معیار کے مطابق حمل و نقل، توانائی اور لاجسٹک بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو بڑھانا ضروری ہے۔ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کے بہتر استعمال سے یہ کام بحسن و خوبی کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، انہیں تجارتی اور صنعتی تربیت دے کر اصلاحات کے ذریعے انٹرپرینیورشپ میں ورک فورس کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بھارت ٹیکس میں حوصلہ افزائی دیتے ہوئے تمام طرز عمل کو سہل بناتے ہوئے اور غیر ملکی کمپنیوں کو قانونی سلامتی فراہم کرکے ایف ڈی آئی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین کے حصول (Land Acquisition) کے قوانین میں بھی بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبے میں ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی، خصوصاً الیکٹرانکس، آٹوموٹیو اور فارماسیوٹیکل سیکٹرز میں۔ امریکہ، بھارت کا ایک مضبوط شراکت دار ہے، لہٰذا امریکہ کے ساتھ مل کر ایک لچکدار سپلائی چین بنانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جس سے ہمسایہ ملک پر ہمارا انحصار کم ہوسکے۔
ملک میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو جتنی توجہ ملنی چاہیے تھی، نہیں مل رہی ہے جس کے باعث ستمبر میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کی ترقی کی شرح آٹھ ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ فیکٹری کی پیداوار، فروخت اور نئے برآمداتی آرڈرز میں سست روی بتائی گئی ہے۔ یہ حقائق ماہانہ سروے کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔ موسمی طور پر ایڈجسٹ شدہ ایچ ایس بی سی (انڈیا) مینوفیکچرنگ پرچیزنگ مینیجر انڈیکس (پی ایم آئی) ستمبر میں 56.5 پر تھا جبکہ اگست میں یہ 57.5 تھا۔ پی ایم آئی کے ذریعے 50 سے اوپر کا انڈیکس پیداواری سرگرمیوں میں وسعت ظاہر کرتا ہے جبکہ 50 سے نیچے کے اعداد و شمار کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ایچ ایس بی سی کے چیف اکانومسٹ (انڈیا) پرنجول بھنڈاری نے کہا کہ بھارت کا مینوفیکچرنگ شعبہ ستمبر میں گرمی کے موسم میں مضبوط ترقی کے بعد سست روی کا شکار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداوار اور نئے آرڈروں میں سست رفتاری اور برآمداتی طلب میں کمی واضح طور پر دکھائی دی، کیونکہ نئے برآمدی آرڈرز مارچ 2023 کے بعد سے کم سطح پر ہیں۔ ستمبر کے پی ایم آئی ڈیٹا کے مطابق ملک بھر میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کی ترقی میں معمولی کمی ہوئی ہے جبکہ فیکٹری کی پیداوار اور فروخت میں مسلسل تیسرے ماہ بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی آرڈروں میں ڈیڑھ سال میں سب سے کم رفتار سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
بھارت میں چین سے درآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے اور 2023-24 میں یہ رقم سو بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ 2014-15 میں 60 بلین ڈالر تھی۔ یہ صورت حال اس کے باوجود برقرار ہے کہ حکومت درآمدات پر پابندیاں لگا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں چین گلوبل سپلائی چین پر کیسے قابض ہے اور بھارت کے لیے تماشائی بنے رہنا کیوں نقصان دہ ہو سکتا ہے۔؟ ‘گلوبل ٹریڈ ریسرچ انشیٹو’ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے چین کی صنعتی اشیا کے درآمدات میں حصہ داری 21 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گئی ہے۔ چین کا الیکٹرانکس، مشینری اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں بھاری انحصار ہے۔ جبکہ بھارت کی حکومت بھی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے کر درآمدات کو کم کرنا چاہتی ہے، لیکن مینوفیکچرنگ سیکٹر ابھی تک معیشت کو مؤثر طور پر بڑھاوا دینے میں ناکام رہا ہے۔ حکومت کی پروڈکشن لنکڈ انسینٹو (PLI) اسکیم سے کچھ کامیابیاں ملی ہیں لیکن اس شعبے میں مزید ترقی کی ضرورت ہے۔ ایک مؤثر پالیسی وہ ہوگی جو گھریلو مینوفیکچرنگ کو مضبوط کرے، مقابلہ جات کو فروغ دے اور طویل المدتی ساختی ترقی کو ممکن بنائے۔یاد رہے کہ 2000 کی دہائی کے آغاز میں "چینی صدمہ” (China Shock) کی شروعات ہوئی جس کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ چینی اشیاء سے بھر گئی اور صارفین کو کم قیمت پر سامان ملنے لگا۔ مطالعے کے مطابق 2001 سے 2019 کے درمیان امریکہ میں 59.3 فیصد مینوفیکچرنگ شعبے میں روزگار کا خاتمہ ہوا، خاص طور پر لیبر انٹینسیو سیگمنٹ میں جہاں کم ہنر مند افراد کام کرتے تھے۔اب ایک دوسرے "چینی صدمے” کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، کیونکہ چینی معیشت میں تیزی رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی کمزوری اور صارف طلب کی کمی کی وجہ سے ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ چین اپنی صلاحیت سے زیادہ برآمدات کر رہا ہے تاکہ اپنی معیشت کو مستحکم رکھ سکے۔
پروفیسر رگھو رام راجن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کو مینو فکچرنگ اور روزگار پیدا کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں ملک نے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے لیکن گھریلو مینوفیکچرنگ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مزید شعبوں میں کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق آر بی آئی گورنر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ حکومت کا اشیا اور خدمات پر توجہ دینا تو اچھا ہے لیکن اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دینا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔میک ان انڈیا کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے بنیادی ڈھانچے جیسے کچھ شعبوں میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن ہمیں اپنے ناقدین کا احترام کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی کارکردگی میں مزید بہتری لا سکیں۔ انہوں نے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کی وکالت کی اور کہا کہ یہ اقتصادی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ رگھو رام راجن نے کہا کہ حکومت کو کاروباری افراد سے ان کے مسائل کے بارے میں دریافت کرنا چاہیے اور صرف ورلڈ بینک کی کاروباری آسانیوں کے اشاریوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ حکومت کو اپنے ضابطوں کی تنقید کو پوشیدہ ایجنڈے یا مفادات کی بنیاد پر مسترد نہیں کرنا چاہیے۔2047 تک بھارت کے ترقی یافتہ ملک بننے کے سوال پر پروفیسر راجن نے کہا کہ اگر بھارت سات فیصد کی شرح سے ترقی کرتا ہے تو چند سالوں میں جرمنی اور جاپان سے آگے نکل جائے گا۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ بدلتے ہوئے عالمی معاشی حالات میں اس تیز رفتار ترقی کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا۔

 

***

 بھارت کو اپنی مینوفیکچرنگ اور روزگار پیدا کرنے کی پالیسیوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ملک نے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے لیکن مینوفیکچرنگ اور روزگار کے دیگر شعبوں میں مزید کوششیں درکار ہیں اور میک ان انڈیا پروگرام کو مضبوط کرنے کے لیے کاروباری ماحول کو بہتر بنانا ہوگا۔ اسی طرح عالمی معیشت کے تغیر پذیر حالات میں بھارت کو اپنی ترقی کی رفتار کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ 2047 تک ترقی یافتہ ملک بننے کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024