بھارت کی سب سے ’طاقت ور أقلیت‘ کی خوشنودی کے حصول کا باضابطہ آغاز

معاشی طور پر کمزور افراد کے لئے ریزرویشن یا حقداروں کی حق تلفی؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

سپریم کورٹ کے EWS پر مہر ثبت کرنے سے سماجی تانے بانے پر کاری ضرب کا خدشہ
دلت، پس ماندہ نے برہمن کوٹے کو کیوں کہا ‘‘سوداما کوٹا’’؟
گزشتہ ستر سالوں سے ریزرویشن اور اس سے مستفیض ہونے والے ’کمتر‘ ’سرکاری داماد‘ اور تعلیمی اداروں میں گرتے ہوئے معیار کے لیے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے۔اسی تناظر میں بھارت کی سب بڑی اقلیت (اعلی ذات) کی جانب سے مسلسل ریزرویشن کے خاتمے اور اس پر نظرثانی کے مطالبات کے حق میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ برہمن اجارہ داری کے حامی ریزرویشن کے خلاف مسلسل ایک بیانیہ آگے بڑھانے میں کوشاں رہے۔ مگر حسن اتفاق دیکھیے کہ منڈل کمیشن کے دور میں سڑکوں پر تانڈو مچانے اور تعلیمی اداروں میں او بی سی کوٹہ نافذ کیے جانے کے خلاف کیمپس کو آگ میں جھونک دینے والی یہ ’’طاقتور اقلیت‘‘ 7 نومبر کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے پانچ رکنی آئینی بنچ کے، تاریخی تو نہیں مگر یادگار فیصلے کی وجہ سے اب خود ریزرویشن کے زمرہ میں آگئی۔ شاید اب ریزرویشن سے مستفیض ہونے والوں کو ’سرکاری داماد‘ اور تعلیمی نظام پر بوجھ ہونے کا طعنہ سننا نہیں پڑے گا۔ رخصت پذیر چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کی زیر قیادت بنچ کے فیصلے پر ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں خاموش ہیں بالخصوص او بی سی اور دلتوں کی سیاست کرنے والی شمالی ہند کی جماعتیں جنتا دل یو، راشٹریہ جنتادل، بہوجن سماج پارٹی، سماجوادی پارٹی اگر خاموش ہیں تو اس کا واضح پیغام ہے کہ یہ فیصلہ ملک سے امبیڈکر اور بہوجن سماج کی سیاست کے خاتمے کا آغاز ہے۔ بہار میں او بی سی سیاست کے نئے چیمپین تیجسوی یادو کا یہ بیان کہ سماجی انصاف سے زیادہ اب معاشی انصاف کی ضرورت ہے، اپنے آپ میں ہندوستانی سیاست کے بدلتے ہوئے حالات کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ فرقہ واریت کے زہر سے آلودہ شمالی ہند کی سیاست اپنی جگہ مگر جنوبی ہند بالخصوص تمل ناڈو میں وزیر اعلیٰ اسٹالن نے جس طریقے سے رد عمل ظاہر کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ جنوبی ہند کی مٹی میں اب بھی دراوڑ تحریک کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور وہ برہمنی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے آج بھی تیار نہیں ہیں۔ سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے ماورا سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے 3:2 کی اکثریت پر مبنی اس فیصلے پر جس طریقے سے ماہرین قوانین اور سوشل سائنس کے ماہرین تبصرے کر رہے ہیں اور قانونی خامیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اس کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور عین ممکن ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی اور 9 رکنی لارجر بنچ کے سامنے سماعت کی لیے جلد سے جلد سے درخواست دائر کردی جائے۔ گویا جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ابھی کئی اور موڑ اور لمحے آنے والے ہیں اور ہر ایک موڑ اور لمحہ ملک کی تاریخ کا یادگار اور نازک ترین لمحہ ثابت ہو گا۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات سے عین قبل جنوری 2019 میں آناً فاناً مودی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے محض تین دن میں آئین میں 103ویں ترمیم کے ذریعہ اقتصادی طور پر کمزور افراد جو ریزرویشن کے زمرہ میں نہیں تھے ان کے لیے دس فیصد ریزرویشن والا بل پاس کردیا۔ ویسے بھی وزیر اعظم مودی کو بھارتی جمہوریت میں کئی تبدیلیوں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ان کے دور اقتدار کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ قانون سازی کے پارلیمانی طریقے کار کو ان کے دور میں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ ان کے دور اقتدار میں جتنے بھی بل پاس ہوئے ہیں ان میں سے کوئی بھی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔اس بل کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ نہ تو کسی پارلیمانی کمیٹی نے 103ویں ترمیم پر بحث کی اور نہ ہی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس کی دفعات پر غور وخوض کیا۔ اس اہم نکتے کو پوری طرح درکنار کر دیا گیا کہ آیا ’’سماجی اور تعلیمی پسماندگی‘‘ کے زمرے کو بغیر کسی سائنسی بنیاد کے یا کسی ایسے مواد کے بغیر جو سماجی حالات میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہو ’’معاشی پسماندگی‘‘ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
ریزرویشن کی ضرورت اور تقاضے کی تعبیر و تشریح کو تبدیل کر دینے والے اس بل پر پارلیمنٹ میں غوروفکر اور اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی رائے اور ان کے مشوروں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پارلیمانی انتخابات میں سیاسی نفع و نقصان کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں نے خاموشی سے اس بل کی حمایت کردی۔اس بل کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے 40 سے زائد عرضیاں جنہت ابھیان کے تحت دائر کی گئیں۔ان عرضیوں کے ذریعہ سپریم کورٹ کے سامنے تین اہم سوال رکھے گئے :
(1)کیا ریزرویشن صرف ’’معاشی معیار‘‘کی بنیاد پر دیے جا سکتے ہیں؟
(2)کیا معاشی طور پر کمزور افراد کے لیے ’ریزرویشن‘ سے درج فہرست ذاتوں،درج فہرست قبائل اور اوبی سی کو خارج رکھنا قانونی ہے؟
(3) کیاسپریم کورٹ کے ذریعہ ریزرویشن کی حد کا 49.5 فیصد کی حد سے تجاوز اختیار کرجانا قانونی طور سے درست ہے؟
ان تین سوالوں پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے 7نومبر کو 2019 میں مودی حکومت کے ذریعہ متعارف کرائے گئے جنرل کوٹے کے معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں دس فیصد ریزرویشن کی توثیق 3:2 سے کردی۔ تین ججوں نے کہا کہ جنرل کوٹے سے تعلق رکھنے والے معاشی طور پر کمزور افراد کے لیے دس فیصد ریزرویشن آئینی طور پر درست ہے۔ چیف جسٹس کے بشمول دو ججوں نے اس سے اختلافات کرتے ہوئے اس ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا۔ دونوں ججوں نے معاشی طور پر کمزور افراد کے لیے دس فیصد ریزرویشن سے درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور اوبی سی سے تعلق رکھنے والوں کو خارج کیے جانے کو امتیازی قدم قرار دیا ۔اس کے علاوہ 49.5فیصدکی حد سے تجاوز پر بھی سوال کھڑا کیا۔جب کہ تین ججوں نے کہا کہ مساوات فراہم کرنا غیر آئینی نہیں ہے۔چوں کہ درج فہرست، درج فہرست قبائل اور اوبی سی کو پہلے سے ہی ریزرویشن کے فوائد مل رہے ہیں اس لیے ان کی عدم شمولیت کو امتیاز ی قانون قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کا فیصلہ
یہ بنچ ان چند آئینی بنچوں میں سے ایک تھی جسے جسٹس یو یو للت نے چیف جسٹس آف انڈیا کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد تشکیل دی تھی اور ان کے سبکدوش ہونے سے عین قبل ساڑھے چھ دنوں کی سماعت کے بعد اس پر فیصلہ سنایا گیا۔ پانچ ججوں کی بنچ نے چار فیصلے سنائے۔ جہاں جسٹس دنیش مہیشور، جسٹس بیلا ایم ترویدی اور جسٹس جے بی پاردی والا نے ریزرویشن کے فیصلے کو برقرار رکھا وہیں جسٹس رویندر بھٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس للت نے ریزرویشن کی مخالفت کی۔جسٹس دنیش مہیشوری نے اکثریتی فیصلے کو تحریر کیا ہے۔ فیصلہ کے اپنے حصے کو پڑھتے ہوئے جسٹس مہیشوری نے کہا کہ ’’یہ (ترمیم) کسی بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی یا اسے نقصان نہیں پہنچاتی ہے۔ ریزرویشن ریاست کی طرف سے مثبت کارروائی کا ایک آلہ ہے تاکہ مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی جا سکے۔
ریزرویشن کے خلاف درخواست گزاروں نے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریزرویشن معاشی معیار کی درجہ بندی کی بنیاد پر نہیں دیا جاسکتا۔ تمل ناڈو حکومت اقتصادی ریزرویشن پر اعتراض کرنے والی جماعتوں میں سے ایک تھی۔ اس نے بنچ کے سامنے عرض کیا کہ اگر اعلیٰ عدالت اس طرح کی درجہ بندی کو برقرار رکھتی ہے تو اسے اندرا ساہنی یا منڈل کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہو گی جس نے سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات (SEBC) کے لیے ریزرویشن کی توثیق کی تھی۔جب کہ مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا کہ 103ویں ترمیم کے ذریعہ فراہم کردہ ریزرویشن مختلف ہے اور SEBC کے لیے 50 فیصد کوٹے کو متاثر کیے بغیر اس ریزیرویشن کو فراہم کیا گیا ہے۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ جنرل کوٹے سےتعلق رکھنے والے اقتصادی طور پر کمزور افراد کےلیے دس فیصد ریزرویشن کا سماجی مساوات کو فروغ دینے کے لیے دیا گیا ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں اقتصادی پسماندگی کے باوجود اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے لیے مساوی مواقع نہیں ملتے ہیں۔دوسری طرف مخالفین کی دلیل تھی کہ ریزرویشن پسماندہ گروہوں کی نمائندگی کا ایک ذریعہ ہے لیکن اقتصادی بدحالی کوٹہ نے اسے مالی ترقی کی اسکیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ریزرویشن صرف امتیازی سلوک کی بنیاد پر دیے گئے تھے نہ کہ’’اینٹی ڈیپریویشن کی بنیاد پر‘‘ درخواست گزاروں نے استدلال کیا کہ یہ ترمیم آئین میں بیان کردہ ریزرویشن کے اصول کی خلاف ورزی ہے اور عدالت عظمیٰ کے مختلف فیصلوں کو بطور نظیر پیش بھی کیا گیا ہے۔
جسٹس مہیشوری نے اپنے فیصلے میں واضح لفظوں میں کہا کہ پچاس فیصد سے زائد ریزرویشن آئینی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود لچکدار ہے اور صرف ذات پر مبنی ریزرویشن پر نافذ ہوتا ہے۔ جسٹس پاردی والا نے رائے دی کہ ریزرویشن اختتام نہیں ہے بلکہ سماجی اور معاشی انصاف کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسے خاص طبقات کے لیے مخصوص نہیں کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ریزرویشن غیر معینہ مدت کے لیے جاری نہیں رہنا چاہیے۔ترمیم کے جواز کو برقرار رکھتے ہوئے جسٹس ترویدی نے تاہم زور دیا کہ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر سماج کے وسیع تر مفادات میں ریزرویشن کے نظام پر نظرثانی کرنے کا وقت آگیا ہے۔جسٹس دنیش مہیشوری نے معاشی معیار کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’آرٹیکل 15(4) اور 16(4) کے تحت آنے والی کلاسوں کو معاشی طور پر کمزور طبقوں کےلیے ریزرویشن سے خارج کرنے کا مقصد ریزرویشن کے نظام کو متوازن کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ امتیازی سلوک اور معاوضہ کا امتیاز مساوات کے ضابطہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اور کسی بھی طرح سے بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔جسٹس پاردی والا نے کہا کہ اگر درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور اوبی سی کوٹے میں کریمی لیئر کو خارج کیا جاسکتا ہے تو پھر اقتصادی طور پر بدحال افراد کے ریزرویشن سے پہلے ریزرویشن پانے والوں کو خارج کرنا کوئی غیر آئینی قدم نہیں ہوگا۔
جسٹس رویندر بھٹ اور سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا نے ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ اس فیصلے کو جسٹس رویندر بھٹ نے تحریر کیا ہے۔سو صفحات پر مبنی جسٹس رویندر بھٹ کے اختلافی فیصلے میں آئین میں ریزرویشن کی گنجائش اور اس کے مقاصد سے متعلق کئی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ماہرین قانون کے مطابق اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ کی لارجر بنچ کے پاس جاتا ہے تو جسٹس رویندر بھٹ کے تبصرے اور ان کے دلائل ایک نظیر بن سکتے ہیں۔
جسٹس رویندر بھٹ نے پہلا نکتہ یہ پیش کیا کہ 103ویں آئینی ترمیم غیر آئینی ہے۔گزشتہ سات دہائیوں میں سپریم کورٹ پہلی مرتبہ امتیازی سلوک کو آئینی جواز بخش رہی ہے۔ آئین اخراج کی زبان نہیں بولتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میری رائے کے مطابق یہ ترمیم جس میں آرٹیکل 15(4) اور 16(4) کے تحت آنے والی کلاسوں کو مستثنی کردیا گیا ہے سماجی انصاف کے تانے بانے اور اسی طرح بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے والی ہے۔تاہم یہ بات میں واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غربت کی وجہ سے محرومی کا سامنا کرنے والی آبادی کی حالت کو مثبت کارروائی اور بہتر پالیسیوں کے ذریعہ بہتر کرنے کی سمت اقدامات کیے جانے چاہئیں مگر اس کےلیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے۔ریزرویشن کے ذریعہ ان کی حالت کو بہتر بنانے کی کوششوں کی مزید جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔جسٹس بھٹ نے آرٹیکل 17کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذہب یا برادری کی تخصیص کئے بغیر ہر قسم کے اچھوت کو غیر قانونی قرار دینے میں آئین سازوں کی بے چینی کا نتیجہ آرٹیکل 17 کے طور پر ظاہر ہوا۔آئین ساز اسمبلی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اچھوت پن کیا ہے۔ کیا یہ صرف ہندو مذہب میں موجود ہے یا پھر دیگر مذاہب اور طبقات میں بھی موجود ہیں؟ ڈاکٹر امبیڈکر، کے ایم منشی، سردار پٹیل، اور بی این راؤ نے ان تمام مباحث میں حصہ لیا۔ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ’’اس شق کا مقصد اچھوت کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنا تھا، چاہے وہ کسی کمیونیٹی کے اندر ہو یا مختلف برادریوں کے درمیان ہو‘‘۔
جسٹس رویندر بھٹ نے اپنے اختلافی فیصلے میں ریزرویش کی حد کی خلاف ورزی پر بھی سوال اٹھائے ہیں ۔انہوں نے مختلف کمیٹیوں اور رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر غربت معیار ہے تو اس میں وہ تمام افراد شامل ہونے چاہئیں جو غربت کے شکار ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو۔ ملک کی 85فیصد آبادی جو دلت، قبائل اور اوبی سی پر مشتمل ہے ان کی بیشتر آبادی غربت کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’دوسرے‘‘ کی اصطلاح آئین کے بنیادی تقاضے کی مخالف ہے۔ اس لیے ریزرویشن کےلیے نئی تشریح کرنے سے قبل ان تمام پہلوؤں پر کافی غور وخوض کرنے کی ضرورت تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلے کا متن کا جائزہ لینے سے قبل اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا کوئی ’’معاشی پسماندگی‘‘ کی وجہ سے سماجی پسماندگی کا بھی شکار ہوتا ہے؟ کیا معاشی پسماندگی کی وجہ سے بدسلوکی اور سماجی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ علاوہ ازیں کیا معاشی پسماندگی کوئی دائمی شئے ہے؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے اراکین نے جن بنیادوں اور مقاصد کے تحت دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کی سفارش کی تھی جنرل کوٹے والوں کے لیے دس فیصد ریزرویشن اس مقاصد کی تکمیل کرتی ہے؟ماہرین بشریات کا نظریہ ہے کہ معاشی پسماندگی کسی بھی کمیونیٹی کی مستقل سماجی پسماندگی کی وجوہات نہیں ہوتی ہے۔
ییل یونیورسٹی کے پروفیسر اوون ایم فِس کہتے ہیں کہ ’’معاشی پسماندگی‘‘ کی وجہ سے سماجی زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس کے پروفیسر ولیم ای فورباتھ کہتے ہیں کہ ’’آئینی مساوات‘‘ سماج کے اعلیٰ طبقے کے ساتھ کھڑے ہونے کی برابری اور احترام کے مواقع فراہم کرتا ہے۔نسل درنسل اعلیٰ طبقات کہلائے جانے والے افراد کو آئینی تحفظ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔پروفیسر اوون ایم فس کے مطابق معاشی پسماندگی کوئی مستقل چیز نہیں ہوتی۔پیدائش کے وقت غریب پیدا ہونے والا شخص چند سالوں کی جدو جہد کے بعد اپنی اقتصادیات کو بہتر کرسکتا ہے۔دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریزرویشن ذات کے لیے نہیں تھا، یہ نمائندگی کی عدم مساوات کو ختم کرنے کا انتظام تھا۔ یہ غربت کے خاتمے کا پروگرام نہیں ہے۔
جسٹس بیلا ترویدی اور جسٹس پاردی والا نے اپنے فیصلے میں ریزرویشن کی پالیسی کو جاری رکھنے پر سوال کیا ہے کہ آخر یہ کب تک جاری رہے گا؟کب ہندوستانی سماج ذات پات اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوگا؟ جسٹس پاردی والا نے یہاں تک کہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں ریزرویشن کی وجہ سے بہت حد تک سماجی پسماندگی کا خاتمہ ہوا ہے اور تعلیمی و معاشی یکسانیت آئی ہے۔ان دونوں جج صاحبان نے جنہوں نے ریزرویشن کے حق میں فیصلہ سنایا ہے، ایک نئی بحث شروع کی ہے۔ سیاسی شور و غل میں شاید ان کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالوں پر غور و فکر نہ کیا جائے مگر یہ دونوں سوالات کافی اہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریزرویشن کی پالیسی محض دس سالوں کےلیے شروع کی گئی تھی مگر سوال یہ ہے کہ جن مقاصد کے تحت ریزرویشن آئین میں متعارف کرایا گیا تھا کیا اس کی تکمیل ہوئی ہے؟ کیا ہندوستان سے چھوت چھات اور سماجی پسماندگی کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے؟ ان سوالوں پر غور کرنے کے علاوہ ان واقعات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے مثلا ملک کے نائب وزیر اعظم ہونے کے باوجود 1978 میں بابو جگجیون رام کو بنارس میں ایک مجسمہ کا افتتاح کرنے نہیں دیا گیا، صرف اس بنیاد پر ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا کہ ان کا تعلق دلت سماج سے تھا۔ ملک کے سب سے باوقار عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود ایک دلت صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو صرف اس بنیاد پر مندر میں پوجا کی اجازت نہیں دی گئی کہ ان کا تعلق درج فہرست ذات سے ہے۔ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود ذلت آمیز توہین کا سامنا کرنا پڑا۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ نسلوں سے سماجی پسماندگی کے شکار طبقات کے بعض افراد کے باوقار عہدہ پر پہنچنے کے باوجود انہیں ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر تفریق، نفرت آمیز سلوک اور بدسلوکی کی طویل فہرست ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے تین ہفتے قبل کے شمارے میں جنوب ہند میں دلت خواتین کو داسی بنائے جانے کے سلسلے پر ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی گئی تھی کہ ’’نوآبادیاتی دور میں مندروں میں دلت خواتین کو داسی بنائے جانے پر پابندی عائد کیے جانے کے باوجود آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ دلت خواتین کو داسی بنا کر ان کے ساتھ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے پنڈت اور مندروں کی انتظامیہ کے عہدیدار جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود یہ کہنا کہ ریزرویشن کی وجہ سے سماجی پسماندگی اور نسلوں سے بدسلوکی کا سامنا کرنے والے افراد کی سماجی حالت میں تبدیل آئی ہے کسی مضحکہ خیزی سے کم نہیں ہے۔یہ سیاہ شب میں سورج کے طلوع ہونے کے اعلان کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں نے فیصلہ کرتے وقت سرکاری ملازمتوں اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ذات کی بنیاد پر نمائندگی کے حقائق کو نظر انداز کیا ہے۔ انہیں دور جانے کی ضرورت نہیں تھی صرف سپریم کورٹ کے عملے پر ہی نظر ڈال لی جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوجاتی کہ ملک کی اعلیٰ ذاتیں جن کی کل آبادی میں حصہ داری محض دس فیصد سے پندرہ فیصد کے درمیان ہے۔ ان کی تعلیمی اداروں، اعلیٰ عہدوں اور دیگر انتظامی امور میں نمائندگی ساٹھ فیصد سے زائد ہے یعنی پندرہ فیصد آبادی سرکاری ملازمت، تعلیمی اداروں میں ساٹھ فیصد عہدوں پر فائز ہیں۔بقیہ پچاسی فیصد آبادی کی سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں نمائندگی محض چالیس فیصد ہے۔ گزشتہ مہینے ہفت روزہ دعوت میں ’’دلت مسلم و دلت عیسائیوں‘‘ کے ریزرویشن کے حوالے سے ایک کور اسٹوری شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ’’ملک کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کا غلبہ ہے‘‘ دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں ریاضی کی پروفیسر اور امبیڈکر مشن سے وابستہ پروفیسر نندیتا نارائن بتاتی ہیں کہ 2010 کے بعد دہلی یونیورسٹی اور اس کے ماتحت کالجوں میں اوبی سی کوٹے کے تحت اساتذہ کی تقرری عمل میں نہیں آئی ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ تین دن قبل ہی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہوئے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ ’’دلتوں کے اسلام یا پھر عیسائیت قبول کر لینے کے بعد درج فہرست ذات سے خارج کیا جانا درست ہے۔ انہیں ریزرویشن اس لیے دیا جا رہا تھا کہ وہ نسلوں سے ذات پات کی تفریق کا سامنا کر رہے تھے۔ چوں کہ اسلام اور عیسائیت میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے اس لیے ان کے مذہب تبدیل کرلینے کی وجہ سے ان کی سماجی حیثیت تبدیل ہو گئی ہے اس لیے انہیں ریزرویشن نہیں دیا جانا چاہیے‘‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا محض مذہب تبدیل کر لینے سے اقتصادی اور معاشی صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے؟ اگر اقتصادی طور پر بدحال اعلیٰ ذات کے ہندووں کو ریزرویشن دیا جاسکتا ہے تو دلت مسلم اور دلت عیسائیوں کو اقتصادی بدحالی کی بنیاد پر ریزرویشن کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ اگر ریزرویشن سماجی تفریق اور ذات پات کی تفریق کی بنیاد پر ہی دیا جاسکتا ہے تو پھر جنرل کوٹے سے تعلق رکھنے والے افراد محض اقتصادی پسماندگی کے طور پر ریزرویشن کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں؟ پارلیمنٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک اس پورے معاملے میں قانونی تضادات اور حکومت کے دلائل میں سقم واضح ہے۔ ایسے میں اگر دلت تنظیمیں اس اقتصادی پسماندگی ریزرویشن کو’’سوداما‘‘ ریزرویشن قرار دے رہی تو اس میں توہین آمیز بات کیا ہے؟
ایک نیا پنڈورا باکس کھلنے کی راہ ہموار
1993 میں اندرا ساہنی کیس میں سپریم کورٹ کے ذریعہ ریزرویشن کی حد پچاس فیصد مقرر کیے جانے کو نظر انداز کیے جانے اور لچکدار قررا دیے جانے کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔اب آبادی کے لحاظ سے ریزرویشن کی حد میں اضافہ کرنے کا مطالبہ شروع ہوجائے گا۔چناں چہ فیصلہ کے محض چند دنوں بعد ہی جھارکھنڈ اسمبلی نے اسی ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں سرکاری ملازمت میں درج فہرست ذاتوں (ایس سی) درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے کل ریزرویشن کو 77 فیصد تک بڑھانے کے لیے ایک بل پاس کیا۔ اقتصادی طور پر کمزور سیکشن کیس میں بنچ کے اکثریتی فیصلہ نے جس میں کہا گیا ہے کہ ریزرویشن پر پچاس کی حد کوئی ضروری نہیں ہے، سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن بڑھانے کے لیے لڑنے والی کئی ریاستوں کے لیے نئی راہ ہموار کر دی ہے۔اگرچہ جسٹس رویندر بھٹ نے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا ہےکہ اس کی اجازت دینے سے تمل ناڈو کے ریزرویشن قانون (69 فیصد کوٹے کی اجازت) جیسے قوانین کی ’’قسمت پر مہر لگ جائے گی‘‘ جو سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
جھارکھنڈ اسمبلی کے اقدام اور اقتصادی طور پر کمزور سیکشن کیس میں بنچ کے اکثریتی فیصلے کے بعد مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور کرناٹک جیسی ریاستوں کو پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کو پچاس فیصد کی حد سے آگے بڑھانے کے مطالبہ کو ایک نئی تحریک ملنے کا امکان ہے۔مدھیہ پردیش حکومت شروع سے ہی عدالت میں دلیل دیتی رہی ہے کہ اندرا ساہنی کے فیصلے کی حد کوئی حتمی اور مقدس نہیں ہے۔مدھیہ پردیش حکومت نے 2019میں اوبی سی کےلیے 14فیصد ریزرویشن کو بڑھا کر 27فیصد کرتے ہوئے آرڈی نینس جاری کیا تھا۔یہ آرڈی نینس اس وقت مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ چھتیس گڑھ حکومت او بی سی کے لیے ریزرویشن کو 32فیصد تک بڑھانے کے لیے لڑ رہی ہے، جس سے ریاست میں کل ریزرویشن 58فیصد ہو جائے گا۔یہ معاملہ بھی اس وقت زیر سماعت ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ماہرین کی رائے
اقتصادی طور پر کمزور طبقے کےلیے ریزرویشن کےلیے غربت کا جو معیار طے کیا گیا ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ایک طرف تین لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر حکومت انکم ٹیکس کے دائرے میں لے آتی ہے ۔دوسری طرف 8لاکھ تک آمدنی والے خاندان کو اقتصادی طور پر کمزور سیکشن کے ریزرویشن کے دائرے میں شامل کیا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کتنے فیصد خاندانوں کی سالانہ آمدنی 8لاکھ کے قریب ہے؟ اشوکا یونیورسٹی نئی دہلی میں اقتصادیات کی پروفیسر اور سنٹر فار اکنامک ڈیٹا اینڈ اینالیسس کی بانی ڈائریکٹراشونی دیش پانڈے بتاتی ہیں کہ آٹھ لاکھ روپے سالانہ یا پھر اس سے کم آمدنی والے غیر ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی خاندانوں کے لیے کوٹہ مقرر کرتے ہوئےمرکزی حکومت نےمنظم طریقے سے اعلیٰ ذاتوں کے لیے کوٹہ تشکیل دیا ہےجو سماجی حیثیت سے سب سے بہتر ہیں۔
حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوٹہ ذات پات پر مبنی نہیں ہے بلکہ معاشی پسماندگی پرمبنی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ذات پات پر مبنی کوٹہ ہی ہے۔اس کا مقصد ان ذاتوں کو فائدہ پہنچانا ہے جو کسی قسم کے سماجی امتیاز کے شکار نہیں ہیں بلکہ الٹا یہ ذاتیں تمام سماجی پیمانے پر فائق و برتر ہیں۔یہ ایک غیر معمولی المیہ ہے۔ ہندوستان میں پہلی مرتبہ ان افراد کو جو نسل درنسل غربت کے شکار رہے ہیں اور انہیں معاشی و سماجی دونوں محرومیوں کا سامنا ہے، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے کنزیومر پیرامڈز گھریلو سروے کے اعدادو شمار کے حوالے سے مس دیش پانڈے بتاتی ہیں کہ 2019 میں صرف 2.3گھرانوں کی کل گھریلو آمدنی آٹھ لاکھ سے زائد تھی۔ 2015 میں 98فیصد گھرانوں کی آمدنی چھ لاکھ روپے اور اس سے کم تھی۔اس کا مطلب ہے کہ اعلی ذات کے افراد جن کی آبادی شرح دس فیصد اور پندرہ فیصد کے درمیان ہیں وہ صد فیصد ریزرویشن کے دائرے میں ہیں۔اس کے نتیجے میں سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں جہاں پہلے سے ہی اعلیٰ ذات کے ہندووں کا غلبہ تھا ان کی نمائندگی میں اضافہ ہوا ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن غربت کے ازالے کا درست ذریعہ ہیں؟ مس دیش پانڈے کہتی ہیں کہ ظاہر ہے کہ ریزرویشن غربت کے خاتمے کا ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ غربت معاشی اقدامات کے ذریعے ختم کیے جاسکتے ہیں۔1991 کے بعد سے اعلیٰ اقتصادی ترقی نے بہت بڑی تعداد کو غربت سے نکالا ہے۔ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم یا پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم جیسے فلاحی اقدامات نے خط غربت سے نیچے خاندانوں کو امداد فراہم کرتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام کو غربت سے نکالنے کےلیے یہ فلاحی اسکیمیں کافی نہیں ہیں بلکہ مزید اقدمات کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف غربت کے شکار افراد کےلیے ریزرویشن کا انتظام کیا جارہا ہے تو دوسری طرف فلاحی اسکیموں کو ریوڑھی اسکیم قرار دے کر معتوب کیا جارہا ہے۔
منڈل کمیشن کی سفارشات کے وقت ملک بھر میں احتجاج ہوئے تھے مگر آج اس ریزرویشن کے خلاف مخالفت نہیں ہو رہی ہے کیوں؟ اس سوال کے جواب میں دیش پانڈے بتاتی ہیں کہ دراصل فیصلہ ساز اداروں اور میڈیا میں اعلیٰ ذات کا غلبہ ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے میں ان کا کردار کافی اہم ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتہائی پسماندہ ذاتوں اور قبائلی گروہوں کی کم نمائندگی اور بعض صورتوں میں غیر موجودگی نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ہی ’میرٹ‘ کی کسی موروثی کمی کی وجہ سے ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مراعات یافتہ گھرانوں میں پیدا ہونے والے افراد کو بہترین تعلیم، کتابوں کی فراہمی اور اچھی صحت تک آسان رسائی کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرنے کے مواقع ملتے ہیں ۔
کیا اس فیصلے کا دلت عیسائی اور دلت مسلمانوں کو شیڈول کاسٹ کے زمرے میں شامل کرنے کےلیے قائم ’’حکومتی پینل‘‘ پر بھی اثر پڑے گا؟ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے کل دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کےلیے ریزرویشن کی توسیع کے خلاف دلائل دیے ہیں ۔مرکز نے دعویٰ کیا ہے کہ’’ اسلام اور عیسائیت اختیار کرنے والے دلتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیوں کہ ان مذاہب میں ذات پات کا نظام نہیں ہے اور نہ ہی چھوت چھات ہے‘‘ جو کسی حد تک یہ سچ ہے مگر ایک سچائی یہ بھی ہے کہ نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیا میں ان مذاہب میں ذات پات جیسی تقسیم موجود ہے۔ حکومت کے پاس اس تعلق سے کوئی سروے اور ڈیٹا نہیں ہے اس کے باوجود عدالت میں مرکزی حکومت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر مذہب تبدیل کرنے والوں کو سماجی پسماندگی کے پہلو کی جانچ کیے بغیر من مانی طور پر ریزرویشن کی سہولتیں دی جائیں تو یہ ایک سنگین ناانصافی ہوگی اور قانون کے عمل کا غلط استعمال ہوگا اوراس سے درج فہرست ذاتوں کے حقوق متاثر ہوں گے ۔اعداد و شمار کی منظم تشخیص کے بغیر ان کےلیے ریزرویشن سے انکار بھی اتنی ہی من مانی ہے۔یہ ہمارے لیے ایک اہم لمحہ ہے کہ ہم پیچھے پلٹیں، زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کریں اور مختلف گروہوں کے سماجی و اقتصادی حالات کا جائزہ لیں۔
سینٹ اسٹیفن کالج میں ریاضی کی پروفیسر نندیتا نارائن اس پورے ریزرویشن کو دھوکہ اور فراڈ قرار دیتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اب تک ریزرویشن کی حد کو پچاس فیصد تک محدود کرنا بھی دھوکہ ہے کیوں کہ بیک ورڈ کلاسیس کی آبادی کے لحاظ سے ریزرویشن میں اضافے کی راہ میں روکاوٹ کھڑی کی جاتی تھی۔پچاس فیصد جنرل کوٹے سے ریزرویشن کے مستحق افراد بھی مستفیض ہوتے تھے مگر اب اعلیٰ ذات کے اقتصادی طور پر پسماندہ سیکشن کےلیے دس فیصد ریزرویشن کے ذریعہ دلت، قبائل اور اوبی سی سے تعلق رکھنے والوں کو محدود کردیا گیا ہے۔اس سے بڑھ کر دھوکہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ بلاشبہ یہ امتیازی سلوک ہے۔
***

 

***

 ’’103 وی دستوری ترمیم غیر آئینی ہے۔گزشتہ سات دہائیوں میں سپریم کورٹ پہلی مرتبہ امتیازی سلوک کو آئینی جواز بخش رہی ہے۔ آئین اخراج کی زبان نہیں بولتا ۔میری رائے کے مطابق یہ ترمیم جس میں آرٹیکل 15(4) اور 16(4) کے تحت آنے والی کلاسوں کو مستثنی کردیا گیا ہے سماجی انصاف کے تانے بانے اور اسی طرح بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے والی ہے۔تاہم یہ بات میں واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غربت کی وجہ سے محرومی کا سامنا کرنے والی آبادی کی حالت کو مثبت کارروائی اور بہتر پالیسیوں کے ذریعہ بہتر کرنے کی سمت اقدامات کئے جانے چاہیے۔مگر اس کےلیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے‘‘۔
(جسٹس رویندر بھٹ)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022