بھارت کے شمال مشرق میں کشیدگی، منی پور سے ناگالینڈ تک مسلح بغاوت کا خطرہ
شمال مشرقی ثقافتی تنوع بحران کا شکار؛ حکومت کی پالیسی اور قبائلی شناخت کا مسئلہ زیر بحث
نور اللہ جاوید
این ایس سی این کی جانب سے دی گئی مسلح تشدد کی دھمکی نظر انداز نہیں کی جاسکتی!
میزورم اور آسام میں بھی حالات تشویش ناک: خونریزی اور نسلی تصادم پر وزیر اعظم کی خاموشی پرسوالات
وزیر اعظم مودی 16 نومبر کو دہلی میں پہلے بوڈو لینڈ مہوتسو سے خطاب کرتے ہوئے دعوے کر رہے تھے کہ ’’میرے لیے آسام سمیت پورا شمال مشرق بھارت کی اشت لکشمی ہے۔ اب ترقی کا سورج مشرقی بھارت سے طلوع ہوگا جو نئی توانائی دے گا۔ ترقی یافتہ بھارت کے عزم کے لیے ہم شمال مشرقی ریاستوں کے سرحدی تنازعات کے پرامن حل کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں‘‘ شمالی مشرقی ریاستوں کے معاملے کے وزیر جیوتری راجے سندھیا بھی شمال مشرقی ریاستوں کے چار روزہ دورے پر ہیں اور وہ مودی کے دور حکومت میں شمال مشرقی ریاستوں میں ترقیاتی کاموں کی تعریف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، مگر یہ سب جب ہو رہا تھا تو اس وقت شمال مشرق علاقے کی اہم ریاست منی پور میں ایک بار پھر تشدد کا دور بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا ہے۔ المیہ دیکھیے ان دونوں کی نگاہوں سے منی پور میں جاری خلفشار اور خون خرابے کے مناظر غائب تھے۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ گزشتہ اٹھارہ مہینوں سے منی پور جل رہا ہے، اغوا، قتل اور لوٹ مار جاری ہے۔نسلی بنیاد پر منی پور کئی حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔قانون کی حکم رانی ختم ہوچکی ہے۔ شمال مشرق بھارت کو اپنے دل کے قریب قرار دینے والے وزیر اعظم مودی نے اس دوران ایک مرتبہ بھی منی پور کا دورہ کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی اور حالت یہ ہے کہ اپنی تقاریر اور بیانات میں وہ برابر منی پور کا ذکر کرتے ہیں۔ اپوزیشن کے زیر انتظام ریاستوں میں عصمت دری اور قتل کے ایک واقعے پر ہنگامہ برپا کرنے والی بی جے پی اور اس کے لیڈروں کی زبانوں پر قفل پڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہر چھوٹے بڑے واقعے پر صدر راج کی دھمکی دینے والے منی پور میں خود کے وزیر اعلیٰ کو اس کی ناکامی پر صدر راج کی دھمکی نہیں دیتے۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف منی پور جل رہا ہے بلکہ یہ آگ میزورم تک پھیلنے لگی ہے ۔میزورم میں بی جے پی کے سابق اتحادی میزو نیشنل فرنٹ نے ہمار براردری کے مشتبہ عسکریت پسندوں کی سی آر پی ایف کی فائرنگ میں اموات پر سخت تبصرہ کیا ہے۔ ان اموات کو ’’ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے مرکزی فورسیس کے متعصبانہ رویے پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ میزو قبیلہ اور منی پور کی ہما برادری کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔ دونوں کی جڑیں ایک ہیں۔یہ بیان بتاتا ہے کہ منی پور میں جلنے والی آگ کی تپش میزورم تک محسوس کی جا رہی ہے۔ ناگالینڈ میں بھی حالات خراب ہونے کے اشارے مل رہے ہیں ۔عسکریت پسند تنظیم نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف ناگالینڈ کے جنرل سکریٹری تھونگلینگ میووا نے مرکزی حکومت پر اگست 2015 کے فریم ورک معاہدے کے ’’مواد اور روح‘‘ کے ساتھ دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ناگالیڈ کو خود مختاری اور اپنا الگ جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ دوبارہ مسلح جدو جہد کر سکتے ہیں۔ 2015 میں مرکزی حکومت اور این ایس سی این آئی ایم کے درمیان ایک ’تاریخی‘ فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ ناگالینڈ کی مسلح تنظیموں کی شکایت ہے کہ اس فریم ورک میں مرکزی حکومت نے جو وعدے کیے تھے ان پر ایک دہائی بعد بھی عمل درآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اس لیے اب ہم 1997 کے جنگ بندی معاہدے سے دستبردار ہونے پر غور کریں گے۔
ظاہر ہے کہ یہ صورت حال کوئی بہتر نہیں ہے۔ اگر فوری طور پر ناگا قبائلیوں سے بات چیت نہیں کی گئی تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ کشمیر میں دفعہ 370 کے سوال کو ہندتوا اور بھارتی قومیت کے وجود کا سوال بنانے والے کے لیے ناگالینڈ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے کیوں کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کو اس کے پرچم اور آئین کی اجازت نہیں ہے۔ اگر مرکزی حکومت اور این ایس سی این کے درمیان 2015 میں ہونے والے معاہدے کے مطابق ناگاوں کو اپنا جھنڈا اور آئین کی اجازت دیتا ہے مگر دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کسی بھی صورت میں مرکزی حکومت اس کی اجازت نہیں دے گی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت جھنڈا اور آئین نہیں دے سکتی تو یہ بات براہ راست انہیں کیوں نہیں بتائی جاتی ہے۔ مسئلہ بات چیت کے ذریعہ ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ ناگا سیدھی باتیں پسند کرتے ہیں۔ انہیں براہ راست بتانے کی ضرورت ہے کہ اپنا آئین، جھنڈا اور خود مختاری کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
ناگا امن مذاکرات یکم اگست 1997 کو شروع ہوئے تھے۔ فریم ورک معاہدہ جس پر میووا اور راوی نے دستخط کیے تھے اور اس کی کاپیوں کا تبادلہ نئی دہلی میں 3 اگست 2015 کو وزیر اعظم نریندر مودی اور اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں کیا گیا تھا۔ دونوں فریقوں نے فریم ورک معاہدے کو تاریخی قرار دیا تھا۔ معاہدے پر دستخط کے بعد مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’’دونوں فریقوں کے درمیان پائیدار بات چیت جو برابری، احترام اور اعتماد کے جذبے کے ساتھ کی گئی، ان کی باہمی افہام و تفہیم اور اعتماد کو گہرا کیا ہے اور دونوں فریقوں کو اس قابل بنایا کہ وہ ایک معاہدے تک پہنچ سکیں۔ مساوی معاہدہ حکومت ہند نے ناگاوں کی منفرد تاریخ، ثقافت، مقام اور ان کے جذبات اور خواہشات کو تسلیم کیا ہے۔ NSCN نے ہندوستانی سیاسی نظام اور حکم رانی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر دس سال بعد یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی اور کیا ان کی دھمکیوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
آسام میں این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ نے غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ مہینے اکتوبر میں راجیو گاندھی اور آسامی تنظیموں کے درمیان آسام معاہدہ کی توثیق اور آئین کے آرٹیکل 6a کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے جہاں لاکھوں افراد کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑا دی ہے وہیں دوسری طرف این آر سی کے حتمی فہرست سے رہ جانے والے انیس لاکھ افراد کے سامنے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔سپریم کورٹ نے غیر قانونی شہریوں کو ملک بدر کرنے کی واضح ہدایت دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مرکزی حکومت غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت شہریت دیتی ہے تو 1974 میں ہونے والے مرکز اور طلبا تنظیموں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ اگر مرکزی حکومت بنگالی ہندؤوں کو شہریت دیتی ہے تو آسام ایک بار پھر نسلی تشدد کے لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اگرچہ آسام میں ہمنتا بسوا سرما کی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ لسانی تنازع کو مذہبی تنازع میں تبدیل کر دیا جائے مگر صورت حال اس قدر آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ این آر سی سے باہر رہ جانے والے تیرہ لاکھ ہندو بنگالیوں کو شہریت دینے کا عمل اگر شروع کیا گیا تو آسام ایک بار پھر لسانی آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ستر سال بعد بھی حکومت اس مسئلے سلجھانے کے بجائے مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ صورت حال بتاتی ہے کہ شمال مشرق کی ریاستوں سے متعلق مودی اور بی جے پی چاہے لاکھ دعویٰ کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستیں آتش فشاں کے دہانے پر ہیں۔ معمولی چنگاری اس پورے خطے کے امن و امان کو جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ شمال مشرق بھارت کو دل کے قریب بتانے والے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی قیادت خاموش کیوں ہے اور یہ حالات کیوں پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر منی پور کے بعد ناگالینڈ میں حالات خراب ہوتے ہیں تو کیا مرکزی حکومت اس صورت حال کو سنبھال لے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ شمال مشرقی بھارت میں عوام اور مرکز کے درمیان تعلقات خراب کیوں ہو رہے ہیں۔ مرکزی فورسیس حالات کو بہتر کرنے میں ناکام کیوں ثابت ہو رہی ہیں؟ ضلع جیری بام میں ہمار برادری کے مبینہ عسکریت پسندوں اور سی آر پی ایف کے درمیان کراس فائرنگ کے نتیجے میں دس مشتبہ عسکریت پسندوں کی موت کے بعد حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ہمار برادری کے تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ سی آر پی ایف کے ہاتھوں مارے گئے افراد عسکریت پسند نہیں تھے بلکہ گاؤں کے رضاکار تھے جنہیں گھات لگا کر گولی مار دی گئی۔ کوکی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے سی آر پی ایف کے ساتھ عدم تعاون کا اعلان کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ سی آر پی ایف کا کوئی بھی اہلکار اپنے کیمپوں سے باہر نکلنے والا اپنے خطرے اور ذمہ داری پر آگے بڑھے گا۔اس کے علاوہ چھ مغوی میتیوں کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد امپھال اور آس پاس کے علاقے میں حالات انتہائی خراب ہوگئے ہیں۔وزیر اعلیٰ اور ممبران اسمبلی کے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں ۔2023میں منی پور میں کوکیوں اور میتیوں کے درمیان تنازع شروع ہونے سے قبل حکومت نے منی پور کے سات اضلاع کے انیس تھانوں سے ایکٹ کو ہٹا دیا تھا جسے اب منی پور کے چھ اضلاع میں دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ منی پور میں حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ ہی محفوظ نہیں ہے تو منی پور میں کون محفوظ ہو گا؟
2023 انٹرنیٹ کی بندش کے اعتبار سے بدترین سال کے طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ایک سال میں بھارت ریکارڈ 116 شٹ ڈاؤن کے ساتھ دوسرے تمام ممالک میں سرفہرست تھا۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ بھارت لگاتار چھ سالوں سے انٹر نیٹ کی بندش کرنے والے ممالک میں سر فہرست چلا آ رہا ہے۔ اور ملک میں منی پور میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کی بندش کی گئی۔منی پور میں سب سے طویل انٹرنیٹ کی بندش 212 دن تک جاری رہی۔2023 میں بھارت نے انٹرنیٹ بند ہونے کی جو قیمت چکائی ہے وہ 585.4 ملین ڈالر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا راست اثر منی پور کی معیشت پر پڑا ہے۔جولائی 2024 میں دیہی منی پور نے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوردہ افراط زر کا تجربہ کیا، جو دس فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں تشدد شروع ہونے کے بعد سے منی پور میں ہر ماہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 2023 تک ریاست کے دیہاتوں میں صارفین کی قیمتوں کے اشاریہ (CPI) پر مبنی افراط زر کی شرح مئی میں 12.32 فیصد، جون میں 12.98 فیصد اور جولائی میں 12.6 فیصد تک بڑھی ہے۔ ایک ایسی ریاست کے لیے جہاں کی ستر فیصد سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، مہنگائی ہر خاندان کا خون چوس رہی ہے، چاہے ان کی نسلی شناخت کچھ بھی ہو، مرکزی حکومت کو اقدامات کرنے چاہیے۔
مرکزی حکومت کی اپنی انوسٹ انڈیا ویب سائٹ میں منی پور کو ’’گیٹ وے ٹو دی ایسٹ‘‘ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ مورے، بھارت میانمار اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت کے لیے واحد قابل رسائی زمینی راستہ ہے۔ جو جنوب مشرقی ایشیا کے تمام رابطوں کے لیے داخلی نقطہ ہے، چاہے وہ سہ فریقی ہائی وے ہو یا ٹرانس ایشین ریلوے۔ اب راکٹ حملوں اور دیہاتوں پر اڑتے ہوئے ڈرونز اس علاقے کی حقیقت بن گئے ہیں۔ گیٹ وے دم توڑ چکا ہے۔ دیہات اندھیرے میں بدل چکے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔رات بھر ڈرون اڑتے ہیں ۔
شمال مشرقی بھارت میں جاری تنازع پر ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفیٰ اور دھیرج مورتی نے اپنے ایک مشترکہ مضمون The Manipur crisis, the issue of managing diversityکے عنوان سے لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین کے تنوع کو برقرار رکھنے کی ناکامی کانتیجہ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ تنوع آئین کی ایک منفرد خصوصیت ہے۔ مختلف ریاستوں کے منفرد مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے، نہ صرف سابقہ جموں و کشمیر بلکہ کئی دیگر ریاستیں جیسے مہاراشٹر، گجرات، ناگالینڈ، آسام، منی پور، آندھرا پردیش، سکم، میزورم، اروناچل پردیش، جھارکھنڈ اور کرناٹک کو خصوصی دفعات کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ یہ خصوصی دفعات کی ضمانت منصفانہ ترقی یا ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے شامل کیے گئے ہیں۔ چوں کہ بھارت کثیرالآبادی، متنوع تہذیب وثقافت اور مختلف بولیاں بولنے والوں کا ملک ہے اس لیے آئین میں تنوع اس کی وفاقیت پسندی سے کہیں زیادہ مجبوری ہے۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ شمال مشرقی ریاستوں کی بظاہر متضاد اور متصادم شناخت کے درمیان مفاہمت اور اتفاق رائے کو برقرار کھنے کے لیے مختلف خصوصی دفعات آئین میں شامل کی گئی ہیں مگر حالیہ برسوں میں حکومتی سطح پر تو نہیں مگر ایک ملک، ایک زبان اور ایک کلچر کے پاسداروں نے شمال مشرق ریاستوں کے سماجی تانے بانے کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح میتیوں اور کوکیوں کے درمیان نفرت کی شدت کے پیچھے بھی اسی گروپ کی ذہنیت کارفرما ہے۔ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی نے شمال مشرق ریاست میں آباد قبائلیوں کے درمیان عدم تحفظ کے احساس کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے کہ کہیں ان کی شناخت خطرے میں نہ پڑجائے ۔صورت حال یہ ہے کہ کوکی جو چاہتے ہیں، میتی دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور میتی جو چاہتے ہیں وہ کوکیوں کو منظور نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ منی پور میں کوکی اور میتی تنازع سے صرف یہ دونوں قبائل متاثر ہو رہے ہیں بلکہ منی پور کے پنگل مسلم جو آبادی کے دس فیصد ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی امپھال میں آباد ہیں۔ ان کے لیے دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل ہے۔ پنگل مسلمانوں کو بے شمار سماجی اور معاشرہ مشکلات کا سامنا ہے۔کم وبیش یہی صورت حال ناگا قبائلیوں کا ہے۔ ماضی میں پنگل مسلمانوں اور میتیوں کے درمیان خونریز تصادم ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ناگا قبائلیوں اور کوکیوں کے درمیان بھی خونریزی ہوچکی ہے۔مگر حالات کی مجبوری یہ ہے کہ اس وقت پنگل مسلمانوں کو میتیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور اپنا پلڑا اس جانب رکھنے کی مجبوری ہے کیوں کہ پنگل مسلمان بھی قبائلی درجہ چاہتے ہیں۔ اسی طرح ناگا قبائلیوں اور کوکیوں کے درمیان متضاد شناخت کے باوجود دونوں اس وقت ساتھ رہنے پر مجبور ہیں کیوں کہ دونوں کو قبائلی درجہ حاصل ہے اور پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں۔ دونوں کو خوف ہے کہ اگر میتیوں کو قبائلی درجہ مل جائے تو وہ زمین سے محروم ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ شمال مشرق ریاستوں کو تباہی سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کا منصفانہ کردار ہی شمال مشرق ریاستوں کو آتش فشاں میں جل کر خاکستر ہونے سے بچا سکتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت جن کے اہلکار ہندتوا کے حامل ہیں وہ افہام و تفہیم، مختلف تہذیب وثقافت کا احترام اور متنوع تہذیب کے تحفظ کو آئینی ذمہ داری گرداننے سے عاری ہیں۔وہ تکثیریت کے بجائے صرف اپنے تہذیبی غلبے پر یقین رکھتے ہیں۔منی پور اس وقت جن حالات سے دو چار ہے وہ دو گروہوں کے درمیان کوئی اتفاقی یا حادثاتی اختلافات کا نتیجہ نہیں بلکہ ان اختلافات کی آگ کو منظم طریقے سے بھڑکایا گیا ہے۔ مختلف تہذیب و ثقافت کے حاملین کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے۔ چناں چہ جب گزشتہ سال منی پور میں حالات خراب ہوئے تو دونوں گروہوں میں سیاسی مفاہمت کرانے کے بجائے منی پور کو ہی سیکیورٹی فورسیز کے حوالے کر دیا گیا اور حکومت کی اسی حکمت عملی نے غم و غصہ اور ناراضگی کو بڑھا دیا ہے۔اکثریت پسندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ متنوع تہذیب و ثقافت کو جوڑنے والی کڑیاں تلاش کریں اور منصفانہ سلوک و احترام کی پالیسی اختیار کریں اور اسی کے ساتھ انہیں قیام امن کے لیے تہذیبی و ثقافتی غلبے کی خواہش سے بھی دست بردار ہونا پڑے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024