بھارت کے کثیر الثقافتی تصور کو سنگین خطرات لاحق

عوامی بیداری، اتحاد اور شعور کے ذریعے ’آئیڈیا آف انڈیا‘کو بچانے کی ضرورت

نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)

دستور کے چار بنیادی اقدار مساوات، آزادی، انصاف اور بھائی چارہ پر حملے آئی ایس آر ڈی کے سیمپوزیم میں دانش وروں کا اظہار خیال
انسٹیٹوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (ISRD) نے جماعت اسلامی ہند کے ہیڈ کوارٹرز میں “آئیڈیا آف انڈیا اور موجودہ منظرنامہ” کے موضوع پر سیمپوزیم کا انعقاد کیا جس میں ماہرین، میڈیا پروفیشنلز، اسکالرز، سِول سوسائٹی کے رہنما اور عام شہریوں نے شرکت کی۔ سیمینار میں ملک میں اتحاد و یکجہتی، مشترکہ ثقافتوں، متنوع شناختوں اور دستور میں شامل مساوات، انصاف، بھائی چارہ اور یکجہتی کو درپیش خطرات اور چیلنجوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔
سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا”ہم نے دو سو سال برطانوی سامراج کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی، حالانکہ ہم مختلف مذاہب، زبانوں، نسلی شناختوں، ثقافتوں اور روایات کے حامل تھے لیکن ہم نے اپنے عقائد اور ایمان پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر آزادی کی جنگ میں قربانیاں دیں اور ملک کو آزاد کروایا۔ یہی ہے اصل ‘آئیڈیا آف انڈیا’۔”
پروفیسر سلیم نے خبردار کرتے ہوئے کہا”آج کا خطرہ اس سامراجی دور سے کم نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ غلام بنانے والے اب باہر سے نہیں آئے بلکہ ہمارے اپنے لوگ ہیں اور ان کے پاس ایک الگ آئیڈیا ہے جو کہ ہندوستان کے دستور سے بالکل مختلف بلکہ برعکس ہے۔”
انہوں نے بالواسطہ طور پر آر ایس ایس کا ذکر کرتے ہوئے کہا”اس تنظیم کو قائم ہوئے سو سال ہو چکے ہیں جب کہ ان کا نظریہ دستور کی روح کے خلاف ہے۔ ہمارے دستور کا بنیادی اصول شمولیت، تنوع اور تکثیری ہے جہاں نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی اعلیٰ ہے اور نہ کوئی حقیر، اور تمام مذاہب، ذات یا نسل سے تعلق رکھنے والے اور تمام طبقات برابر ہیں، کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔”
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ دستور کے چار بنیادی اقدار "مساوات، آزادی، انصاف اور بھائی چارہ پر گزشتہ دس سالوں میں سخت حملے ہوئے ہیں۔ پہلے بھی حکومتوں نے حملے کیے مگر اِس وقت شدت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ سب سے پہلے ان اقدار پر حملہ گاندھی جی کے قتل کے ذریعے کیا گیا، پھر فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ، ایمرجنسی کا نفاذ، سکھوں پر مظالم، بابری مسجد کا انہدام اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات جیسے حملے ہوتے رہے۔ یہ حملے افراد یا عمارتوں پر نہیں بلکہ اس ملک کے دستور کے آئیڈیا آف انڈیا پر ہیں مگر خوش قسمتی سے عوام نے متحد ہو کر ان حملوں کا مقابلہ کیا اور آئندہ بھی کریں گے۔”
انہوں نے عوام میں اتحاد پیدا کرنے اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا”ہماری اصل قوت یہ ہے کہ ہم عوام میں اتحاد پیدا کریں، خاص طور پر کمزور طبقات، خواتین اور نوجوانوں میں شعور پیدا کریں کہ وہ اپنی طاقت کو جانیں کہ وہ حکومت بنا سکتے ہیں، اس سے سوالات کر سکتے ہیں، حساب مانگ سکتے ہیں اور جب چاہیں حکومت کو بدل سکتے ہیں۔”
پروفیسر سلیم نے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا”موجودہ کمیونل حکومت تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی اپنا کر عوام کو مذہب، ذات اور نسل کی بنیاد پر بانٹ رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اتحاد کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ایجنسیز اور بیوروکریسی اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے ڈری ہوئی ہیں، انہیں بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ تم سرکار کے غلام نہیں ہو بلکہ تم آزاد ہو لہٰذا قانون کے مطابق کام کرو۔”
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا”آئیڈیا آف انڈیا کیا ہے اور پچھلے ستر سالوں میں ہم اسے کس حد تک حاصل کر پائے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے آزادی سے پہلے کی کانسٹیچوئنٹ اسمبلی اور دستور ساز کمیٹیوں کے مباحث کو پڑھنا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس وقت دستور میں کس قسم کا ہندوستان پیش کیا گیا تھا اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کس طرح کے اقدامات کیے گئے۔”
ڈاکٹر الیاس نے کہا”آزادی کے وقت دستور نے ایک آزاد و خود مختار ملک کا تصور پیش کیا تھا جہاں کوئی بیرونی مداخلت نہ ہو، ہر شہری کو برابری کا حق حاصل ہو، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات، زبان یا ثقافت سے ہو اور ہر فرد اپنے ووٹ سے حکومت بنانے کا حق رکھتا ہو۔ اس ملک میں بادشاہت یا کسی خاص خاندان یا مذہب کے ماننے والوں کی حکم رانی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔”
انہوں نے حکومت کی حالیہ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا”پچھلے گیارہ سالوں سے ایک خاص مذہب، خاص ثقافت اور خاص فکر کو سب پر تھوپنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو دستور کے تصور کے بالکل خلاف ہیں۔ گورنروں کے اختیارات کو بڑھا کر ریاستوں کی خود مختاری کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اب ریاستوں کی شکایات سپریم کورٹ میں جا رہی ہیں کہ ان کے بل آگے نہیں بڑھتے اور اس لیے صدر کی منظوری نہیں ملتی۔”
ڈاکٹر الیاس نے ون نیشن ون الیکشن پر بھی تبصرہ کیا کہ”یہ تصور ریاست کے اختیارات کو ختم کرنے اور ایک مرکزی نظام تھوپنے کی کوشش ہے جو ہندوستان کی وفاقی تشکیل سے متصادم ہے۔ اب تو ‘ایک ملک، ایک زبان، ایک شناخت’ جیسے خیالات بھی فروغ دیے جا رہے ہیں جو متنوع ہندوستان کی روح کے خلاف ہیں۔”
انہوں نے نصاب اور تعلیمی اداروں میں مذہب تھوپنے کی پالیسی پر تشویش ظاہر کی”اتر اکھنڈ میں گیتا کو اسکولوں میں لازمی طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔ CAA جیسا قانون بنایا گیا تاکہ ایک خاص مذہب کو اس سے باہر رکھا جائے جو دستور کے برابر حقوق کے تصور کو پامال کرتا ہے۔ TADA، POTA اور اب UAPA جیسے سیاہ قوانین بنیادی آزادیوں کو محدود کرتے ہیں اور لوگوں کو جھوٹے الزامات میں جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔”
سینئر صحافی اسد مرزا نے کہا”اقلیتوں کے خلاف سخت قوانین جیسے POTA اور UAPA کانگریس کے دور میں بنائے گئے تھے اور موجودہ حکومت نے ان قوانین کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کانگریس کے دور میں مسلمانوں کو جو فائدہ ملا وہ صرف اکنامک ریفارمز کے بعد ملا، جب لبرلائزیشن کے ذریعے کارپوریٹ دنیا ہندوستان میں آئی اور کسی کی مذہب یا ذات کی پروا کیے بغیر صرف اہل ہونے کی بنیاد پر نوکریاں دی گئیں۔”
اسد مرزا نے مزید کہا”پولیس اور حکومت کا جو مسلم مخالف رویہ آج دیکھ رہے ہیں، اس کا پس منظر مودی سرکار سے ساٹھ سال پہلے ہی تیار ہو چکا تھا اور موجودہ حکومت صرف اسے بہترین طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔”
ایڈووکیٹ محمد اسلم AOR) سپریم کورٹ( نے تاریخی نقطہ نظر سے کہا”ہمارا دستور صرف 1935 سے 1950 کے حالات تک محدود نہیں بلکہ ہزاروں سال کی تہذیب، ثقافت اور متنوع ورثے کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی تہذیب کا سفر اشوک، گوتم بدھ، رامائن، مہابھارت، صوفیاء، اکبر اور ٹیپو سلطان جیسے مختلف ادوار سے گزرتا ہوا آج یہاں پہنچا ہے اور دستور میں سب کی نمائندگی کا خیال رکھا گیا ہے۔”
ایڈووکیٹ محمد اسلم نے وضاحت کی "سیکولرزم کا مطلب سپریشن آف اسٹیٹ اینڈ چرچ ہے جو یورپ سے آیا اور بھارت میں اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ ریاست کسی مذہب سے دشمنی یا قربت نہ رکھے۔ سیکولر لفظ دستور میں شروع میں نہیں تھا بلکہ 42ویں ترمیم میں شامل کیا گیا۔ پلورل بھارت کا تصور زیادہ مناسب ہے، جس کی مثالیں ملائشیا اور انڈونیشیا میں ملتی ہیں۔”
امیر حلقہ دہلی، سلیم اللہ خان نے افتتاحی کلمات میں کہا”ملک کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کے ذہن میں ملک کا ایک صاف، ہم آہنگ اور مربوط آئیڈیا موجود ہو۔ بچوں کو بھی صحیح آئیڈیاز سکھائے جائیں تاکہ وہ اچھے انسان بنیں جو عقلی سوچ، ہمدردی، حوصلے، تخلیقی سوچ اور اخلاقی اقدار کے حامل ہوں۔”
پروگرام کے کنوینر اور ISRD کے سکریٹری آصف اقبال نے کہا”اس پروگرام کا مقصد بھارت کو ایک تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی تصوّر کے طور پر دریافت کرنا ہے جو صدیوں سے مختلف روایات کے درمیان جاری مکالمے سے تشکیل پایا ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر علما، مفکرین اور رہنماؤں نے بھارت کی فکری، ثقافتی اور سماجی و سیاسی وراثت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔”
مشہور صحافی نوین کمار نے کہا”آئین میں پیش کیے گئے بھارت کے تصور کو ہر سطح پر دبایا جا رہا ہے۔ مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبہ، جیسے عمر خالد وغیرہ بغیر کسی جرم کے گزشتہ پانچ سال سے جیل میں بند ہیں۔ بھارت کا اصل تصور اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور اداروں میں پروان چڑھتا ہے مگر موجودہ حالات میں اسے پروان چڑھانا مشکل ہے۔”
انہوں نے میڈیا پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا”اب دو قسم کا میڈیا ہے: ایک سوشل میڈیا اور دوسرا اینٹی سوشل میڈیا۔”
سیمینار کے اختتام پر واضح ہوا کہ بھارت کا دستور اور "آئیڈیا آف انڈیا” ایک متنوع، کثیر الثقافتی اور جمہوری تصور پر مبنی ہے، جسے عوام کی بیداری، اتحاد اور شعور کے ذریعے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
gamdom |
gamdom giriş |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
gamdom |
gamdom giriş |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |