بھارت کے باہر ہندوتوا پر تنگ ہوتی زمین

برطانیہ میں انسدادِ انتہا پسندی پالیسی: ہندوتوا اور سکھ انتہا پسندی پر توجہ مرکوز

ایم اے بیگ ، نئی دلی

لیسٹر فسادات؛ پہلی بار ہندوتوا کو انتہا پسندی کے دائرے میں شامل کیا گیا
گزشتہ سال کیر اسٹارمر کی قیادت میں برطانیہ میں لیبر پارٹی کی نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ نئی حکومت سابقہ کنزرویٹو حکومتوں کی کچھ کلیدی پالیسیوں کو کالعدم کر سکتی ہے اور ساتھ ہی دیگراہم اور متنازعہ پالیسیوں اور پروگراموں پر نظر ثانی بھی کرسکتی ہے جس میں متنازعہ پریوینٹ پروگرام بھی شامل تھا۔ تاہم، جنوری کے آخری ہفتے میں برطانیہ کی حکومت کی انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی کے مستقبل کی نئی سمت کے بارے میں ابہام کا مشاہدہ دیکھنے میں آیا کیونکہ ہوم آفس کے وزراء کو ایک لیک ہونے والے داخلی جائزے کے نتائج کو مسترد کرنے پر مجبور ہونا پڑا جس میں ’’تشویش کے رویے اور سرگرمی‘‘ پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ رپورٹ ابھی تک عام نہیں کی گئی ہے لیکن رپورٹ کے مختلف حصوں کا ایک تجزیہ جس میں انسداد انتہا پسندی کے کام کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ ہندوتوا (ہندو قوم پرستی) سکھ انتہا پسندی،خواتین کے خلاف انتہائی بدتمیزی اور تشدد کا جذبہ سمیت متعدد وجوہات اور سرگرمیوں کا احاطہ کیا جائے، وہ منظرِ عام پر آیاہے۔یہ تجزیہ ایک دائیں بازو کا تھنک ٹینک پالیسی ایکسچینج نے شائع کیا ہے اور یہ تنازعہ کا شکار ہوگیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہوم سکریٹری Yvette Cooper نے اپنے ہی محکمے کے جائزے کی سفارشات سے اتفاق نہیں کیا ہے اور اس طرح وہ کسی نئی پالیسی کو اسلام پسند اور انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کی طرف مرکوز رکھنے کا حکم دے سکتی ہیں۔ سیکیورٹی کے وزیر ڈین جارویس نے بھی کہا کہ یہ جائزہ پالیسی نہیں ہے اور حکومت کا انتہا پسندی کی تعریف کو بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
پریوینٹ(Prevent) یعنی روک تھام کی پالیسی 2003 میں برطانیہ میں 11/9 کے بعد انسداد دہشت گردی کے ایک مجموعی نقطہ نظر کے حصے کے طور پر متعارف کرائی گئی تھی جسے CONTEST پالیسی کے ایک اہم حصے کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کا مقصد برطانوی شہریوں کو دہشت گردی یا بنیاد پرستی کے اثر میں آنے سے روکنا تھا۔ 2015 تک پریوینٹ پالیسی مختلف وزارتوں کے لیے ایک قانونی فریضہ بن گئی تھی، اور اس طرح اس کی رسائی معاشرے میں بہت گہرائی تک پھیل گئی تھی۔
لیکن یکے بعد دیگرے برطانوی حکومتیں طویل عرصے سے انتہا پسندی کی قانونی تعریف کو واضح کرنے سے قاصر رہیں اور اسے انسانی حقوق کے گروپوں نے آزادیِ اظہار رائے اور عقیدہ کی آزادی کے لیے ایک سنگین خطرہ بھی قرار دیا تھا۔
مبینہ طور پر نئے جائزے میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’’انتہا پسندی کی تنگ تعریفیں ماضی کے حالات کے پیش نظر قائم کی گئیں تھیں یا جن کی نظریاتی جہت بہت زیادہ ہے، اس طریقے کی سوچ اور اس سے متعلق پرتشدد کارروائیاں روکنے کی غرض سے یہ نئی جہت کی گئی ہے۔
بہر حال یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی حکومتی پالیسی دستاویز یا حکومت کے جائزے میں ہندوتوا پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ انتہا پسندانہ عقائد کی مثالوں میں اب ہندوتوا کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس نے 2022 میں لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس کے ساتھ ہی خالصتان کی حامی انتہا پسند جو ایک آزاد سکھ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں بھی نئے دائرۂ کار میں شامل کیا گیا ہے۔
اس نئے جائزے میں زور دیا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست انتہا پسندی نے 2022 میں کثیر الثقافتی مڈلینڈز کے شہر لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے تشدد کے غیر معمولی طریقے سے بڑھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ کسی سرکاری دستاویز میں ہندو قوم پرستی کو لیسٹر فسادات سے جوڑا گیا ہے، حالانکہ مئی 2023 میں اخبار ڈیلی میل کی ایک رپورٹ میں نامعلوم سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ تشدد کو ہندوستان کی حکم راں جماعت بی جے پی سے منسلک کارکنوں نے بھڑکایا تھا۔
لندن میں قائم انسٹیٹیوٹ مڈل ایسٹ آئی (MEE) کے مطابق، پالیسی ایکسچینج کو پچھلی قدامت پسند حکومتوں کی جانب سے انسداد انتہا پسندی کی پالیسی تشکیل دینے کا کام دیا گیا تھا اور اس پر برطانوی مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے کا الزام بھی لگایا جاچکا ہے، جس کی پالیسی ایکسچینج تردید کرتا ہے۔
درحقیقت پالیسی ایکسچینج جو کہ ایک دائیں بازو کا تھنک ٹینک ہے، اس نے متنبہ کیا ہے کہ عمومی طور پر نظریہ اور خاص طور پر اسلام پسندی کو روکنا زیادہ ضروری ہے۔ پالیسی ایکسچینج کے تجزیے کے مطابق، حکومتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ انسداد انتہا پسندی کی ایک مکمل حکمت عملی اگلے سال شائع کی جائے گی۔
مزید، پالیسی ایکسچینج نے انسداد انتہا پسندی کے کام کو پریوینٹ ڈائریکٹوریٹ کے اندر ایک نئی ٹیم کے ذریعے انجام دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس کا نام بدل کر انسداد انتہا پسندی ڈائریکٹوریٹ رکھا جاسکتا ہے۔
اس میں انسداد انتہا پسندی کے وزارتی بورڈ کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جس میں وزراء ، سکیورٹی حکام اور MI5 اور GCHQ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے نمائندے شریک ہوں گے۔ پالیسی ایکسچینج کی رپورٹ کے مطابق بورڈ کے دیگر ارکان میں انسداد انتہا پسندی کمیشن کے سربراہ رابن سم کوکس بھی شامل ہوسکتے ہیں جوکہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں اور انہیں اسلام مخالف مانا جاتا ہے۔
ایک جائزے کے مطابق یو کے حکومت کا پریونٹ پروگرام ہمیشہ متنازعہ رہا ہے، کیونکہ زمینی سطح پر اس کے تحت کام کرنے کی ذمہ داری کئی وزارتوں بشمول DCLG، ہوم آفس اور FCDO یعنی وزارتِ خارجہ کے حوالے کی گئی تھی۔
برطانیہ میں مقیم مسلم تنظیموں نے ماضی میں اسے اپنے کام میں بے جا دخل اندازی اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ ایک نازیبا سلوک کو بڑھاوا دینے کے طور پر بیان کیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف واضح طور پر مختلف وزارتوں کے درمیان کوئی آپسی تال میل نہ ہونے اور ڈیٹا شیئرنگ یا وسائل کا اشتراک نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ٹھوس کام سامنے نہیں آیا۔تاہم پالیسی ایکسچینج نے اپنے تجزیے میں یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں پریوینٹ کے تحت مختلف پروگراموں کی کمان DCLG کو سونپی جانی چاہیے جو کہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے اور یہ بات عجیب اس لیے لگ رہی ہے کہ یہ دائیں بازو کے حامی کسی ادارے کی جانب سے آئی ہے۔ درحقیقت زمینی سطح پر مسلم کمیونٹی کے ساتھ اعتمادبحال کرنے اور تعلقات استوار کرنے کا کام برطانیہ میں DCLG کو سونپا جانا چاہیے تھا کیونکہ یہی ایک ایسی وزارت ہے جس کے برطانیہ میں مختلف کمیونٹیوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں اور اس کے کارکنان کے لیے ان کمیونٹیوں کے خدشات اور خواہشات کو اچھی طرح سمجھنا زیادہ آسان ہے۔لیکن ماضی میں پریونٹ کی اصل ذمہ داری ہوم آفس کو سونپی گئی تھی اور DCLG کو اس کا ایک معاون بنایا گیا تھا اور عالمی سطح پر پریونٹ کے پروگراموں کو وزارتِ خارجہ یا FCDO ذریعہ پھیلانا تھا۔
لیکن ماضی کے تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تینوں وزارتوں میں کسی بھی کام کرنے کے تئیں کوئی ہم آہنگی قائم نہیں کی گئی تھی، نہ ہی کوئی ایسا حکومتی ادارہ تھا جو کہ ان تینوں پر نگاہ رکھ سکے اور ان سے خاطر خواہ کام لے سکے۔اس سلسلے میں FCDO نے اپنے کام کرنے کے متزلزل انداز میں ہندوستان کے بجائے عرب دنیا سے اعتدال پسند عناصر کو لانے پر زیادہ توجہ مرکوز کی تاکہ بیرون ملک مختلف حکومتی اقدامات کے ذریعے حمایت یافتہ برطانوی مسلمانوں کی ایک مثبت تصویر پیش کی جاسکے لیکن اس کام میں وہ بہت حد تک ناکام رہا۔کیونکہ اس نے ان غیر ملکی عناصرسے برطانیہ میں موجود مسلم کمیونیٹی کے اکابرین اور عوام الناس کے درمیان کام کرنے کو ترجیح نہیں دی بلکہ برطانوی وفود کو مختلف ممالک بھیجنے کا کام زیادہ کیا، جس سے کہ درحقیقت کچھ بھی خاطر خواہ حاصل نہیں ہوسکا۔ اس سلسلے میں FCDO نے ہندوستانی مسلم اکابرین کو برطانیہ لاکر ان سے تعاون حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اب اگر FCDO ایک مرتبہ پھر ہندوستان کے سیکولر ہندو اور لبرل ہندوؤں کے ساتھ اشتراک نہیں کرتا ہے تو اس سے برطانیہ میں ہندوتوا کے اپنی جڑیں جمانے کے زیادہ امکان ہوسکتے ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025