بھارت کا چین کے ساتھ بڑھتا تجارتی خسارہ ایک بڑا چیلنج

2024 کی پہلی ششماہی میں 41.6 ارب ڈالر کا خسارہ ۔چینی برآمدات میں 50.1 ارب ڈالر کا نمایاں اضافہ

ابو محمد

عالمی کمپنیاں چین چھوڑ رہی ہیں، بھارت کو بڑی سرمایہ کاری کے مواقع: نومورا رپورٹ
وزیر فائنانس کا سو صنعتی پارکوں کا اعلان۔ دیسی مصنوعات کے استعمال کی ترغیب
ہمارا ملک فی الحال چین کے معاملے میں ایک بڑے معمہ میں الجھا ہوا ہے۔ ملک کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ چین، بھارت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہاں سے کاروبار اور اس کے ساتھ بہتر تعلقات کا تجزیہ ضروری ہے۔ حالیہ دنوں میں گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹیو (GTRI) کی رپورٹ کے مطابق 2024کے پہلے ششماہی یعنی جنوری سے جون کے درمیان بھارت کا چین کے ساتھ اب تک کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ سامنے آیا ہے جس کا حجم 41.6 ارب امریکی ڈالر ہے۔ اس مدت میں چین سے برآمدات بڑھ کر 50.1 ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ چین کو بھارت سے 8.5 ارب ڈالر کا اکسپورٹ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال 2023-24 میں چین کے ساتھ بھارتی تجارت میں چینی برآمدات 101.75 ارب ڈالر کے ہوئے تھے جبکہ ہمارے ملک نے چین کو 116.06 ارب ڈالر کا سامان اکسپورٹ کیا تھا۔ گزشتہ مالی سال میں ملک کا تجارتی خسارہ 85.09 ارب ڈالر کا رہا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ مسلسل بڑھتا تجارتی خسارہ ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسے حالات میں مرکزی وزیر صنعت و تجارت پیوش گوئل کے مطابق ہمت افزائی کی بنیاد پر پیداوار (PLI) منصوبے کے تحت ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس (API) کی پیداوار بڑھا کر چین سے بڑے پیمانے پر ہونے والے درآمدات میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ مرکزی وزیر زراعت اور دیہی ترقی شیو راج سنگھ چوہان نے کہا کہ بھارت میں زراعت کو بڑھانے اور پروسیسڈ غذائی پیداوار کے برآمدات کو ترقی دینے کی کوشش ہو رہی ہیں۔ جس سے توقع ہے کہ برآمدات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ عالمی مالی کمپنی نومورا نے اپنے حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چین سے عالمی کمپنیاں باہر جارہی ہیں جس کا بڑا فائدہ پڑوسی ملک بھارت کو ملتا نظر آرہا ہے۔ نومورا کے ذریعہ چین پلس ون اسٹرٹیجی پالیسی کو لے کر 130 فارموں کے ساتھ سروے کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ سے واضح ہوا ہے کہ بہت ساری کمپنیاں بھارت کے دروازے پر دستک دینے جا رہی ہے۔ اس میں آٹو موبائل، کیپٹل گڈس، الکٹرانکس سیمی کنڈکٹر (اسمبلنگ و ٹسٹنگ) اور شمسی توانائی کے علاوہ فارماسیوٹیکلس کمپنیوں کا بھارت میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہوئے استقبال کرنا ہوگا۔ جی-‌20 ممالک کے ذریعے ہمارا ملک نئی توانائی کے ساتھ عالمی سپلائر ملک کے رول سامنے آیا ہے۔ ایسے حالات میں بھارت اچھے لائحہ عمل سے گھریلو بازار، صنعت و تجارت، برآمدات و سرمایہ کاری کے مواقع کو کام میں لگا سکتا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ عالمی بازار میں چین کے دبدبہ کو کم کرنے کے لیے یوروپی ممالک، امریکہ و دیگر کئی ممالک سے درآمدات کے بڑھتے خطرات کے مدنظر چینی درآمدات پر غیر معمولی پابندی لگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ 12جون کو یوروپی کمیشن نے چین میں تیار کردہ الکٹرو وہیکلس پر اڑتالیس فیصد تک درآمداتی ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں یوروپی ممالک کی چین سے درآمدات پر ڈیوٹی کی شرحیں دس فیصد تک محدود رہتی تھیں۔ اب مختلف ممالک کے ذریعے چین سے درآمد پیداواروں پر مسلسل بڑھتی ڈیوٹی چین کے درآمدات کی ہمت شکنی کی ناگزیر کوششں ہے۔ ایسے حالات میں ان ممالک میں بھارت سے برآمد اشیا کے امکانات بڑھے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ چین سے درآمدات کم کریں جیسا کہ عالمی برآمدات میں بھارت کی شمولیت کے امکانات روشن ہیں۔ ان امکانات کو یقینی بنانے کی چار بنیادیں ہیں۔ اول چین سے باہر ہوتی بڑی صنعتوں اور کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لیے بھارت کی طرف آنے کے روشن امکانات ہیں۔ ایسا ہونے پر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو قوت ملے گی۔ دوسری امید یہ ہے کہ ملک سے چین کو زرعی اشیا اور فوڈ پروسیسنگ درآمدات میں تیزی آئے گی۔ دوسری یہ کہ ون پلس ون لائحہ عمل کے تحت بھارت دنیا کے ساتھ امریکہ و دیگر یوروپی ترقی یافتہ ممالک چین سے درآمدات کم کرنے کے لیے چینی پیداوار پر جس طرح غیر معمولی درآمداتی پابندیاں لگارہے ہیں اس سے ان ممالک میں ہمارے ملک کی پیداوار کے برآمدات کے امکانات روشن ہوں گے اور چوتھے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں کیے گئے انتظام (Provision) سے بھارت کا درآمدات کم ہونے اور برآمدات بڑھنے کے امکانات ہیں۔ واضح رہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر ملک سے برآمدات اور روزگار بڑھانے میں اہم رول ادا کرتا ہے جس کی ہمت افزائی کے لیے مرکزی بجٹ میں بھرپور توجہ دی گئی ہے۔ وزیر مالیات نے ملک کے سو شہروں میں پلک اینڈ پلے صنعتی پارک بنانے کا اعلان کیا ہے جس سے کروڑوں لوگوں کو چینی پیداوار کی جگہ دیسی پیداوار کے استعمال کے لیے آگے آنا ہوگا۔ آج چین کے ساتھ ہمیں غیر متوازن تجارت کا جو چیلنج درپیش ہے اس کے لیے ہم حکومت کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھیراسکتے۔ انگریڈینٹس چین سے آسانی سے آجاتے ہیں۔ آج اختراعیت کے نئے وسائل کو تلاش کرنا ہوگا اور اس بات کا بھی اہتمام کرنا ہوگا کہ جس طرح مغربی ترقی یافتہ ممالک چین سے درآمدات و برآمدات کے لیے غیر ٹیریف رکاوٹوں کے ساتھ درآمداتی پابندیوں کو غیر معمولی طور سے بڑھا رہا ہے اسی طرح تحفظات کے طریقے اپنا کر چین کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی درآمدات اور تجارتی خسارہ کو قابو میں کرنے کے لیے موثر ذریعہ استعمال کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم مودی کی نعرہ بازی سے ملک کی معاشی صحت کبھی بہتر نہیں ہوگی۔ ہمارا ملک مسلسل برآمدات کے شعبہ میں پچھڑتا جا رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ چرمرایا ہوا ہے۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہم اپنے ملک میں تیار کردہ اشیا کو دنیا کے بازار میں اکسپورٹ کر سکیں۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہونے کے باوجود ہماری برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں اضافہ درج ہو رہا ہے۔ چین سے برآمدات میں پانچویں ماہ اضافہ درج کیا گیا ہے جو غیر ملکوں میں بڑھتی طلب کا عندیہ ہے حالانکہ دھیمی ہوتی ہوئی چینی معیشت کے درمیان درآمدات میں تنزلی آئی ہے چین کے کسٹم آفس کے ذریعہ جاری تازہ ایک ڈیٹا کے مطابق اگست میں برآمدات گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے 8.7 فیصد بڑھ کر 308.65 ارب امریکی ڈالر ہوگیا۔ یہ اقتصادی ماہرین کے 6.5 فیصد کے اندازہ سے زائد ہے۔ جولائی میں برآمدات سات فیصد کی شرح بڑھا ۔ اگست میں یہ ڈیٹا اٹھارہ ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ ایک سال پہلے کے مقابلے درآمدات میں محض 0.5 فیصد کا اضافہ درج ہوا ہے۔ کیپیٹل اکانومکس کے جیجون ہوانگ نے کہا ہے کہ برآمدات گزشتہ سترہ ماہ میں تیز رفتاری سے بڑھا ہے۔ چین برآمدات کی ریکارڈ اونچائی پر پہنچ گیا ہے ہمیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں برآمدات مضبوط رہے گا جس سے چین کا حقیقی موثر تبادلہ کی شرح میں گراوٹ سے تعاون مل رہا ہے۔ چین کی کل تجارت اگست میں بڑھ کر 91.02 ارب ڈالر ہوگئی جو جولائی میں 84.65 ارب امریکی ڈالر تھی۔ چینی برآمدات کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی اپنی گھریلو طلب پر بھی بھر پور توجہ ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق صارف قیمت اشاریہ (سی پی آئی) اگست میں 0.6 فیصد بڑھی ہے جو گزشتہ اندازوں سے بہت کم ہے ۔ ذمہ دار خراب موسم کو غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کو اس کی اصل وجہ قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ اصل سی پی آئی (جس میں غذا اور توانائی کی قیمتیں شامل نہیں ہوتی ہیں) اگست میں محض 0.3 بڑھی ہے جو تین سالوں میں سب سے کم ہے۔ فیکٹری مینیجروں کے ایک آفیشل سروے کے مطابق ماہ اگست میں چین کی مینوفیکچرنگ سرگرمیاں نچلی سطح پر آگئی۔ تب بھی وہ ہم سے بہت بہتر حالت میں ہے۔
***

 

***

 چین کے ساتھ ہمیں غیر متوازن تجارت کا جو چیلنج درپیش ہے اس کے لیے ہم حکومت کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھیراسکتے۔ انگریڈینٹس چین سے آسانی سے آجاتے ہیں۔ آج اختراعیت کے نئے وسائل کو تلاش کرنا ہوگا اور اس بات کا بھی اہتمام کرنا ہوگا کہ جس طرح مغربی ترقی یافتہ ممالک چین سے درآمدات و برآمدات کے لیے غیر ٹیریف رکاوٹوں کے ساتھ درآمداتی پابندیوں کو غیر معمولی طور سے بڑھا رہا ہے اسی طرح تحفظات کے طریقے اپنا کر چین کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی درآمدات اور تجارتی خسارہ کو قابو میں کرنے کے لیے موثر ذریعہ استعمال کرنا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024