بھارت اور برطانیہ تجارت کے نئے عہد میں

آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) طے، 95 فیصد سے زائد درآمداتی ٹیکس ختم، کسانوں کو راست فائدہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

2030 تک زرعی برآمدات میں 50 فیصد اضافہ اور عالمی منڈی تک آسان رسائی متوقع
گزشتہ ہفتے بھارت اور برطانیہ کے درمیان آزاد تجارتی سمجھوتہ بڑی کامیابی کے ساتھ طے پایا جو صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے بعد ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ امریکی ٹیرف وار کا اثر بھارت اور برطانیہ دونوں پر پڑ رہا تھا اور دونوں ممالک کو خدشہ تھا کہ امریکی منڈیوں کی بندش کے باعث اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا پڑیں گی۔ اسی لیے دونوں ممالک نے مل کر ان رکاوٹوں کو دور کیا جن پر گزشتہ تین برسوں سے گفت و شنید جاری تھی۔ اب بھارت سے برطانیہ کو برآمد ہونے والی 99 فیصد اشیاء پر کوئی ٹیرف نہیں لگے گا۔ اس کے بدلے میں بھارت بھی برطانیہ سے درآمد ہونے والی اشیاء پر اپنے محصولات میں 90 فیصد تک کمی کرے گا۔ اسکاچ وہسکی جیسے برطانوی مشروبات پر آئندہ دس برسوں میں بتدریج ٹیکس میں کمی کی جائے گی۔
اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت سے برآمد ہونے والے کپڑے، جوتے، گاڑیاں اور ان کے پرزے، کیمیکل، ادویات، زیورات، بحری مصنوعات، کھلونے اور کھیل کا سامان برطانیہ میں سستے داموں دستیاب ہوں گے۔ دوسری طرف، برطانیہ سے درآمد ہونے والی دھاتیں، وہسکی، چاکلیٹ، بسکٹ، اونی کپڑا، گوشت، مچھلی، طبی آلات اور مہنگی گاڑیاں بھی سستے داموں دستیاب ہوں گی۔ تاہم، ان اشیاء کی قیمتوں پر آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کے اثرات آئندہ سال سے نظر آئیں گے۔ اس معاہدے سے بھارتی برآمدکنندگان کو سالانہ تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے اور برطانوی برآمدکنندگان کو تقریباً 3,500 کروڑ روپے کی بچت متوقع ہے۔ بھارت سے درآمد ہونے والی اشیاء پاکستان، سری لنکا، ویتنام، بنگلہ دیش اور چین جیسے ممالک کی مصنوعات کا بہتر مقابلہ کر سکیں گی اور عالمی منڈی میں بھارت کا حصہ بڑھے گا۔
تجارتی فائدوں کے علاوہ اس معاہدے کی دفاعی اہمیت بھی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شراکت مزید مضبوط ہوگی۔ یہ تعاون اقتصادی ترقی، تکنیکی اختراعات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ہوگا۔
درحقیقت بھارت کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ برطانیہ بھارتی طلبہ اور پیشہ وروں کے لیے امیگریشن کے قوانین میں نرمی کرے۔ تاہم، برطانیہ کو موجودہ داخلی سیاسی صورتحال اور نقل مکانی مخالف جذبات کے باعث اپنی امیگریشن پالیسی میں تبدیلی مشکل نظر آئی اس لیے بھارت کو اس مطالبے میں کچھ حد تک سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ویزا کے عمل میں قدرے نرمی لانے کے وعدے کے تحت اب بھارتی موسیقاروں، یوگا اساتذہ اور باورچیوں کے لیے سالانہ 800 ویزے مختص کیے جائیں گے لیکن اس سے زیادہ رعایت حاصل نہیں ہو سکی۔ نیز، اس معاہدے میں ان دو پیٹنٹس (patents) کا ذکر نہیں کیا گیا جن سے بھارت میں سستی جینرک ادویات کی تیاری متاثر ہو سکتی تھی اور برطانیہ کے قومی صحت کے نظام کو سستی دوائیں مہیا کرنا مشکل ہو جاتا۔ اس معاہدے کی ایک اہم کامیابی یہ ہے کہ برطانیہ میں کاروبار کرنے والی بھارتی کمپنیوں اور وہاں مستقل طور پر کام کرنے والے افراد کو برطانوی نیشنل سیکیورٹی سرچارج کی مد میں تین لاکھ روپے سالانہ دینے سے رعایت ملے گی جس سے ہر ملازم کے لیے تقریباً 20 فیصد کی بچت ممکن ہو سکے گی۔
مزید برآں، دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر بھی کام جاری ہے۔ اس سے بھارتی کمپنیوں کو برطانیہ میں سرکاری ٹھیکوں کے لیے بولی لگانے، کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے اور کاروبار قائم کرنے کی سہولت حاصل ہوگی۔ دوسری طرف برطانوی کمپنیاں بھی بھارت میں یہی سہولیات حاصل کر سکیں گی۔ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے سے دونوں ممالک میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور معیشت کو رفتار ملے گی۔ 2022 سے جاری بھارت-برطانیہ FTA مذاکرات اب مکمل ہو چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ موجودہ 60 ارب ڈالر کی تجارت 2030 تک 120 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ برطانیہ بھارتی درآمدات میں سے 99 فیصد پر ٹیرف ختم کر دے گا جبکہ بھارت بھی درآمدی ٹیکس میں کمی کرے گا، تاہم بھارتی زرعی اور دوہری نوعیت کی مصنوعات کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ نتیجتاً اس معاہدے سے بھارت کی جی ڈی پی اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم مودی نے اس FTA کو تجارت، سرمایہ کاری اور ترقی کی راہ کھولنے والا قدم قرار دیا ہے۔
برطانیہ اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی سمجھوتہ (FTA) ایک دور اندیش فیصلے کی علامت ہے۔ یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور عالمی تجارتی نظام میں جاری اتھل پتھل کے دوران خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کو معاشی اور لاجسٹک سطح پر قابلِ قدر فوائد فراہم کرے گا۔ بھارت کے لیے یہ معاہدہ عالمی تجارت میں اس کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرتا ہے اور برگزٹ کے بعد برطانیہ کے ساتھ نئے مواقع پیدا کرتا ہے۔ یہ سمجھوتہ صدر ٹرمپ کی من مانی تجارتی پالیسیوںکے اثرات پر قابو پانے کی سمت میں ایک عملی قدم ہے۔
برطانیہ-بھارت ایف ٹی اے کے ذریعے بھارتی برآمدات میں اضافہ ہوگا جبکہ روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ درآمداتی سطح پر 90 فیصد اشیاء پر ٹیرف میں بتدریج کمی کی جائے گی جن میں سے 85 فیصد اشیاء آئندہ ایک دہائی میں صفر ٹیرف کی سطح تک پہنچ جائیں گی۔ یہ پیش رفت تجارتی صلاحیت میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اس طرح کے یکمشت اقدامات بھارتی تاجروں کو مسابقتی برتری فراہم کرتے ہیں اور باہمی فوائد پر مبنی تجارتی ڈھانچے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ واقعی، یہ ایک تاریخی معاہدہ ہے کیونکہ یہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان طے پایا ہے۔ اگر بھارت کو عالمی سطح پر بڑا کردار ادا کرنا ہے تو اسے بین الاقوامی سپلائی چینز سے مؤثر انداز میں جڑنا ہوگا۔
بھارت کے مرکزی وزیرِ صنعت و تجارت، پیوش گوئل نے اس معاہدے کو ’’دو بڑی معیشتوں کے درمیان منصفانہ اور متوازن تجارت کے لیے ایک نیا معیار‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ سمجھوتہ بھارتی کسانوں، ماہی گیروں، محنت کشوں، صنعت کاروں، اسٹارٹ اپس اور سرمایہ کاروں کے لیے وسیع فوائد کا باعث بنے گا۔
واضح رہے کہ بھارت اور برطانیہ کے درمیان آزاد تجارتی سمجھوتے (FTA) پر بات چیت کا آغاز 13 جنوری 2022 کو ہوا تھا جو تقریباً ساڑھے تین سال کے بعد مکمل ہوئی۔ نومبر 2024 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں منعقدہ G20 کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان اس سمجھوتے کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد فروری 2024 میں بھارت کے وزیرِ صنعت و تجارت پیوش گوئل اور برطانیہ کے سکریٹری برائے تجارت جوناتھن رینالڈز نے مجوزہ FTA پر باضابطہ گفت و شنید کے آغاز کا اعلان کیا۔ مسلسل مذاکرات اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر اس سمجھوتے کو حتمی شکل دے دی گئی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارت نے سوشل سیکیورٹی سے متعلق پہلے بھی کئی ممالک کے ساتھ معاہدے کیے ہیں جن میں بیلجیئم، جرمنی، فرانس، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، جنوبی کوریا اور نیدرلینڈز شامل ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت بھارتی شہریوں کو ان ممالک میں سماجی تحفظ کے لیے علیحدہ سے کوئی رقم ادا نہیں کرنی پڑتی۔ اب ایف ٹی اے کے تحت برطانیہ سے بھی بھارتی شہریوں کو اسی نوعیت کی سماجی سلامتی حاصل ہوگی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ’’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ نارتھ آئرلینڈ‘‘، جسے عام طور پر یو کے کہا جاتا ہے، اس میں چار ممالک شامل ہیں: انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ۔ معاشی لحاظ سے اس آزاد تجارتی سمجھوتے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ یہ معاہدہ 2047 تک بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے وژن میں معاون ثابت ہوگا۔
دوسری جانب اس معاہدے کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے: برگزٹ کے بعد برطانیہ ایسے بین الاقوامی تجارتی ضابطوں کی تلاش میں تھا جن کے ذریعے وہ نئے اقتصادی مواقع حاصل کر سکے۔ ہند-پیسفک خطے میں جس طرح نیا جغرافیائی و سیاسی توازن قائم ہو رہا ہے اس میں بھارت برطانیہ کے لیے ایک مضبوط، قابلِ اعتماد اور موزوں شراکت دار ثابت ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورۂ برطانیہ کے دوران نہ صرف معاشی معاہدہ طے پایا بلکہ ٹیکنالوجی، دفاع، سلامتی اور دیگر اہم شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات کی بنیاد پر اس رشتے کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی ضرورت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے تاکہ یہ تعلقات موجودہ عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔
برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے 24 جولائی 2025 کو آزاد تجارتی سمجھوتے (ایف ٹی اے) پر رسمی طور پر دستخط کیے۔ اس موقع پر جاری سرکاری بیان میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’یہ بھارت اور برطانیہ کے درمیان ایک مکمل اسٹریٹجک شراکت داری ہے جو حالیہ برسوں میں نمایاں طور پر ترقی کر چکی ہے۔ ہماری باہمی تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، اختراعات، دفاع، تعلیم، تحقیق، صحت اور عوامی سطح پر تعلقات — یہ سب مختلف شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘
اس موقع پر وزیرِ صنعت و تجارت پیوش گوئل اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ اس تاریخی معاہدے کے ساتھ ہی آئندہ تین برسوں میں بھارت کی زرعی برآمدات میں 50 فیصد سے زیادہ اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ چونکہ سمجھوتے کے تحت 95 فیصد سے زائد درآمداتی ٹیکس ختم کر دیے جائیں گے، اس لیے بھارتی کسانوں کو اپنی زرعی پیداوار براہِ راست برآمد کرنے کا بہتر موقع ملے گا۔
اس مقصد کے لیے حکومت ’’کسان پیداوار انجمنوں‘‘ (FPOs) کو وسعت دینے پر کام کرے گی تاکہ کسان ان تنظیموں کے ذریعے نہ صرف برطانیہ بلکہ دیگر ممالک میں بھی اپنی زرعی مصنوعات مناسب قیمت پر فروخت کر سکیں۔ اس وقت ملک میں متعدد ایف پی او فعال ہیں اور حکومت ان کی تعداد میں مزید اضافہ کی تیاری کر رہی ہے۔
وزارتِ تجارت کے افسران کا ماننا ہے کہ برطانیہ میں بھارتی زرعی مصنوعات پر درآمداتی ٹیکس کے خاتمے سے کسانوں کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا۔ خاص طور پر آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں سے برآمد ہونے والے آم، پپیتا، ہری سبزیاں، مصالحے اور دالوں کی برآمدات میں 2030 تک تقریباً 50 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ اس سے زرعی برآمدات کی کل مالیت میں ایک سے 5 ارب امریکی ڈالر تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

 

***

 بھارت اور برطانیہ نے 24 جولائی 2025 کو تاریخی آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) طے کیا جس کے تحت 95 فیصد سے زائد درآمداتی ٹیکس ختم ہو جائیں گے۔ اس سے بھارت کی زرعی و صنعتی برآمدات اور روزگار کے مواقع میں نمایاں اضافہ ہوگا، خاص طور پر آم، سبزیاں، مصالحے اور دالیں عالمی منڈی میں آسانی سے فروخت ہوں گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ 2047 تک بھارت کو ترقی یافتہ معیشت بنانے کے وژن میں اہم کردار ادا کرے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025