بھارت – امریکہ تعلقات ۔۔۔
امریکی قوانین کے تحت اڈانی کے خلاف مقدمہ؛ کیا گرفتاری عمل میں آئے گی؟
زعیم الدین احمد حیدرآباد
اریسٹ وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد ’ایکسٹراڈیشن ٹریٹی‘ کو نظرانداز کرنا آسان نہیں
امریکی محکمہ انصاف اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے گوتم اڈانی، ساگر اڈانی اور اڈانی گروپ کے دیگر ایگزیکٹوز پر بڑے پیمانے پر رشوت اور دھوکہ دہی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ انہوں نے شمسی توانائی یعنی سولار انرجی کے معاہدے کے لیے سرکاری اہلکاروں کو تقریباً 265 ملین ڈالر کی رشوت دی ہے۔
دراصل یہ معاملہ اڈانی گرین انرجی لیمٹڈ اور ایزور پاور پر رشوت ستانی سے جڑا ہوا ہے، جس سے آئندہ بیس سال میں اس گروپ کو دو ارب ڈالر سے زائد منافع ملنے کا تخمینہ لگایا جا رہا تھا۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس نے بدعنوانی میں ملوث رہنے کے باوجود انسداد رشوت ستانی کے قوانین کی تعمیل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے امریکی سرمایہ کاروں کو گمراہ کیا ہے۔ اڈانی کی کمپنی نے مبینہ طور پر 750 ملین ڈالر بانڈز کی پیشکش کرتے ہوئے امریکی سرمایہ کاروں سے 175 ملین ڈالر اکٹھے کیے۔
اسی بد عنوانی کے کیس میں گوتم اڈانی اور ساگر اڈانی کے ساتھ دیگر آٹھ افراد پر بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے اور گرفتاری کا حکم نامہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی ہندوستانی شہری کو امریکی قانون کے مطابق گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ امریکہ میں فارین کرپشن فریونشن ایکٹ یا فارین کرپٹ پریکٹسیس ایکٹ 1970 سے قائم ہے، اس ایکٹ میں یہ ہے کہ اگر کوئی کمپنی کسی دوسرے ملک میں رشوت یا بدعنوانیوں میں ملوث پائی جاتی ہے تو اس پر امریکہ میں مقدمہ چلایا جائے گا، اسی طرح کوئی غیر ملکی کمپنی امریکی بینکوں کو انویسٹمنٹ کمپنیوں کو یا انویسٹروں کو دھوکہ دیتی ہے تو اس پر امریکہ میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اڈانی کی کمپنی گرین انرجی لمیٹڈ اور آزور پاور نے ہندوستان میں اپنے سولار پاؤر کو بیچنے کے لیے حکومت سے معاہدہ کیا ہے، حکومت سے معاہدہ کرنے کے لیے ہندوستان میں ایک قانون ہے اسے پاؤر سیلس ایگریمنٹ (پی ایس اے) کہا جاتا ہے۔ الزام یہ ہے کہ سولار انرجی کو بیچنے کی اجازت کے لیے اس نے حکومت میں موجود افراد کو بھاری رشوت دی، آزور پاؤر امریکی اسٹاک ایکسچینج میں لسٹ شدہ کمپنی ہے، آزور پاؤر اور اڈانی گرین انرجی نے بانڈز کی شکل میں بین الاقوامی انویسٹروں سے امریکی سرمایہ کاروں سے انوسٹمنٹ لیا، اسی وجہ سے فارین کرپٹ پریکٹسیس ایکٹ کے مطابق ان کا تعلق امریکی بینکوں سے، امریکی سرمایہ کاروں سے جڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر جرم کہیں بھی ہوتا ہو چاہے ہندوستان میں ہو یا پھر کسی اور ملک میں اس ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسی کو امریکہ کی قانونی حیثیت میں انڈیکٹرمنٹ کہا جاتا ہے، جیسا ہمارے ہاں چارج شیٹ ہوتی ہے، بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چارج شیٹ سے بھی زیادہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسٹس سنجے ہیگڑے انڈیا ٹوڈے میں کہتے ہیں کہ یہ چارج شیٹ سے بڑھ کر ہے۔ بہر حال ان الزامات نے صنعتی دنیا میں ایک لرزہ طاری کر دیا ہے، بڑے پیمانے پر ردعمل بھی ظاہر کر رہے ہیں، اسٹیک ہولڈرز فکر مند ہیں، ان سب کے بیچ ٹینڈرنگ پراجیکٹس میں سولر انرجی کارپوریشن آف انڈیا (یس ای سی آئی) کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ بارہ گیگا واٹ کے سولر پاور پراجیکٹ کی نیلامی میں اڈانی گرین اور آزور پاؤر کے علاؤہ کسی دوسری کمپنی نے حصہ ہی نہیں لیا، اسی لیے ایس ای سی آئی اور نیو اینڈ ریونیو ائبل انرجی کی وزارت تنازعہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اور ایک خاص بات یہ ہے کہ اڈانی گرین اور ایزور پاؤر نے اس پروجیکٹ کی بولی 2.92 روپے فی یونٹ لگائی تھی۔ جب ایس ای سی آئی کو کوئی خریدار نہیں مل سکا تو اس نے مبینہ طور پر آندھرا پردیش سمیت کئی ریاستوں کو رشوت کی پیشکش کی جنہوں نے 2.49 روپے فی یونٹ کی کم قیمت پر بجلی خریدنے پر رضامندی ظاہر کی۔
یہاں پر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اڈانی اور ان کے ساتھیوں پر جو کیس درج ہوا ہے وہ کسی فرد نے یا کسی خانگی ادارے نے نہیں کیا ہے بلکہ امریکی ڈپارٹمنٹ آف جسٹس نے کیا ہے، اور کیس بھی دو طرح کے کیس درج ہوئے ہیں، ایک کریمنل کیس اور دوسرا سِول کیس، کریمنل کیس امریکی ڈپارٹمنٹ آف جسٹس نے درج کیا اور سِول کیس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے درج کیا ہے۔
اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا اڈانی کو جیل ہوگی؟ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو جیل تو ہوگی ہی ہے کیوں کہ اریسٹ وارنٹ تو جاری ہوچکا ہے، بلکہ امریکی عدالت نے اسے فارین لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کے حوالے بھی کر دیا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرے اور گرفتاریوں کو یقینی بنائے۔ وہ انٹر پول یعنی انٹرنیشنل پولیس کی مدد بھی لے سکتے ہیں، ہمارا ملک بھی انٹر پول کا دستخطی یعنی سگنیچری ملک ہے، اگر وہ اس کی مدد لیتے ہیں تو پھر گرفتاری ہوگی۔
ہم بھی سالہا سال سے اس کوشش میں ہیں کہ نیرو مودی، للت مودی، میہول چکسی، وجئے مالیا کو واپس لائیں، ہم نے بھی انٹر پول سے مدد مانگی ہوئی ہے لیکن اب تک واپس نہیں لاسکے، گرفتاری کا وارنٹ تو ان کا بھی جاری ہوا ہے لیکن گرفتاری ہوگی یا نہیں یہ تو حکومتوں پر اور ان کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجرم جس ملک میں بسا ہوا ہے اس ملک سے مجرموں کے تبادلے کے معاہدے ہونا ضروری ہے، یعنی ایکسٹراڈیشن ٹریٹی کا ہونا ضروری ہے، ورنہ انٹرپول بھی کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ ہمارے اور امریکہ کے درمیان یہ ایکسٹراڈیشن ٹریٹی یعنی مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ 1997 میں طے کیا ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ملک اڈانی اور اس بدعنوانی میں ملوث افراد کو امریکہ کے حوالے کرے گا؟ کیا پس پردہ سفارتی طور پر گرفتاری کو روکنے کی کوشش کی جائے گی؟ اور کیا امریکہ میں ہمارے ملک کی طرح انفلوئنس کیا جاسکتا ہے؟ ہمارے ملک میں ہر سطح پر انفلوئنس کیا جاتا ہے، کیا امریکہ میں قانونی چارہ جوئی کو انفلوئنس کرنا اتنا آسان ہے؟ یہ بڑے اہم سوالات ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ امریکی قوانین میں فائنانشل مارکیٹ مینوپلیشن، کیپٹل مارکیٹ مینوپلیشن کرنا آسان نہیں ہے، ان معاملات کو وہ بہت سیریس لیتے ہیں، عام جرائم کی طرح نہیں لیتے ہیں، کیوں کہ وہاں فائنانشل معاملات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ہم نے سابق میں دیکھا ہے کہ کس طرح لیمن برادرز بینک، انران، اے آئی جی جیسی بڑی بڑی کمپنیاں جب خسارے کا شکار ہوئیں تو ان پر بھی مقدمات چلے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ایم مودی اپنے پیارے کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں، آیا اڈانی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں یا انصاف کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں؟ اب تک کی صورت حال سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ مودی اڈانی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مودی حکومت میں انڈیا ہی اڈانی ہے اور اڈانی ہی انڈیا ہے والا معاملہ چل رہا ہے، گویا اڈانی پر حملہ انڈیا پر حملے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ اگر ایک طویل وقفے تک یہی معاملہ رہا تو ملک کا بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ اڈانی نے اگر غلطی کی ہے تو انہیں سزا ملنی چاہیے، لیکن ان کو بچانے کے لیے پورے ملک کے کاروباری طبقے کو قربان نہیں کیا جا سکتا، مودی کو یہ اسٹینڈ لینا ہوگا کہ اڈانی انڈیا نہیں ہے، انڈیا میں اور بھی دیانت دار تاجر موجود ہیں، وہ ایک اکیلے تاجر و صنعت کار نہیں ہیں بلکہ اور بھی صنعت کار ہیں، ورنہ ملک کے تجارت پیشہ افراد کو نقصان پہنچے گا۔
***
اڈانی نے اگر غلطی کی ہے تو انہیں سزا ملنی چاہیے، لیکن ان کو بچانے کے لیے پورے ملک کے کاروباری طبقے کو قربان نہیں کیا جا سکتا، مودی کو یہ اسٹینڈ لینا ہوگا کہ اڈانی انڈیا نہیں ہے، انڈیا میں اور بھی دیانت دار تاجر موجود ہیں، وہ ایک اکیلے تاجر و صنعت کار نہیں ہیں بلکہ اور بھی صنعت کار ہیں، ورنہ ملک کے تجارت پیشہ افراد کو نقصان پہنچے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024