بھگوا لَو ٹریپ یا فتنہ ارتداد؟

ملت کی بیٹیاں اغیار کے نشانے پر اور ناقابل تلافی نقصانات کا خمیازہ

عرفان الٰہی ندوی

شادیوں میں تاخیر اور مخلوط نظام تعلیم جیسے عوامل پر قابو پانے سے مسئلے کا حل ممکن
بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ بین مذہبی شادیوں کا مسئلہ انہی میں سے ایک ہے۔ پہلے ’لو جہاد‘ کے نام پر ان مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا جو اسلامی تعلیم کے خلاف غیر مذہب کی لڑکیوں سے محبت کی شادیاں رچا رہے تھے۔ لو جہاد کے فرضی پروپیگنڈے کے بہانے کئی ریاستوں میں اس کے خلاف قانون بھی بنا دیے گئے ۔کیرالا جیسی تعلیم یافتہ ریاست میں این آئی اے جیسی قومی ایجنسی سے اس کی تفتیش کرائی گئی لیکن جب کوئی ثبوت نہیں ملا تو ایک نیا پروپیگنڈا شروع کیا گیا بھگوا لو ٹریپ؟
کیرالا کی ایک مسلم تنظیم نے وہاں کی حکم راں کمیونسٹ پارٹی پر مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کرانے کی سازش رچنے کا الزام عائد کیا ہے۔ شمالی ریاست اتر پردیش میں بھی ایک زمانے سے پولیس انتظامیہ پر بین مذہبی شادیوں میں بھیدبھاؤ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی غیر مذہب کی لڑکی سے محبت کی شادی کر لے تو جبراً تبدیلی مذہب سمیت مختلف دفعات میں اس کے خلاف مقدمہ درج ہو جاتا ہے لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا یعنی لڑکی مسلمان ہوئی تو اس کے والدین کی مدد تو دور ان کی سننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ہے۔
بریلی میں پچھلے چند ماہ میں مسلم لڑکیوں کی غیر مذہب کے لڑکوں کے ساتھ شادی رچانے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں، ان میں سے ایک دینی ادارے کی طالبہ کی غیر مذہب کے لڑکے کے ساتھ شادی اور تبدیلی مذہب کی خبر نے سب کو چونکا دیا ہے۔ تازہ معاملہ بریلی کے قلعہ تھانے کا ہے۔ اس علاقے کے محلے صالح نگر کی ایک کمسن طالبہ افراء جو اسی علاقے میں واقع امام احمد رضا اکیڈمی سے منسلک مدرسہ زہرہ میں پڑھ رہی تھی ایک ہندو لڑکے کے بہکاوے میں آگئی۔ لڑکی کے گھر والوں نے قلعہ تھانے میں اس کی اطلاع دی۔ افراء کی ماں نسرین کی جانب سے تھانے میں درج شکایت کے مطابق لڑکی کی عمر صرف 16 برس ہے جو قانون کی نظر میں نابالغ ہے، اس کے باوجود اس کا مذہب تبدیل کرا کر ہندو رسومات کے ساتھ اس کی شادی کروا دی گئی۔ لڑکی کی ماں نے مونا ولد بھگوان داس پر نابالغ لڑکی کو بھگانے اور فرضی میڈیکل سرٹیفیٹ کی بنیاد پر جبراً شادی کرانے کا الزام عائد کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق یہ شادی بریلی کے آگستیہ منی آشرم میں انجام دی گئی۔ جماعت رضا مصطفیٰ کے پی آر او معین خان نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکی کے گھر والوں نے ان کی تنظیم سے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک وفد کے ساتھ ایس ایس پی بریلی سے ملاقات کی ہے اور پولیس کپتان سے لڑکی کی تعلیمی اسناد میں درج تاریخ پیدائش کی بنیاد پر پھر سے جانچ کرانے اور لڑکی کو اس کے گھر والوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پولیس نے دوبارہ جانچ کا یقین دلایا ہے۔جماعت رضائے مصطفیٰ نے غیر قانونی طریقے سے شادی کرانے اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے والے افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ بریلی کے آگستیہ منی آشرم کے پنڈت کے کے شنکھدھار مسلم اور عیسائی لڑکیوں کو ہندو بنا کر شادی کرانے کا دعویٰ کر چکے ہیں ۔ان کے مطابق پچھلے نو سال میں وہ ایسی درجنوں شادیاں کروا چکے ہیں۔وہ بین مذہبی شادیوں کی سنچری بنانے کی فراق میں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
اس سے پہلے بریلی کے تھانہ بارہ دری کی ایک متمول مسلم کالونی میں رہنے والی نہا عصمت نام کی لڑکی نہا سنگھ بن چکی ہے۔ اس نے اجین کے ایک مندر میں ہندو رسم و رواج سے شادی کرنے کے بعد اسلام ترک کرنے کا بھی اعلان کیا۔ ذرائع ابلاغ میں وائرل ویڈیو کے مطابق اس نے بے میل نکاح اور حلالہ کے چلن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ نیہا کی ماں رانی بیگم نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے کہ موہت سنگھ نامی شخص نے شادی کا جھانسہ دے کر ان کی لڑکی کا مذہب تبدیل کرایا ہے۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے روتے ہوئے بیٹی سے گھر واپس لوٹنے کی اپیل کی، لیکن سب رائیگاں گئیں۔ نیہا کا دل اپنی ماں کے آنسوؤں سے بھی نہیں پسیجا ۔رانی بیگم کے مطابق موہت نے دھوکے سے دوسری شادی رچائی ہے جبکہ ہندو میرج ایکٹ کے مطابق پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کی جا سکتی ہے۔
تاہم ان سب سے زیادہ عبرتناک اور ملت کی بیٹیوں کے لیے سبق آموز کہانی ضلع ہردوئی کی مسکان کی ہے۔ مسکان نے بریلی کے ارجن سے مندر میں شادی رچائی۔دونوں کمرہ لے کر ہردوئی میں کرائے پر رہنے لگے لیکن صرف چند ماہ میں ارجن کا دل مسکان سے بھر گیا اور وہ مسکان کا سامان لے کر کمرے سے چمپت ہو گیا۔ مسکان اس کا پیچھا کرتے ہوئے بریلی آئی اور بریلی کے پولیس کپتان سے مل کر اپنے شوہر کو ڈھونڈنے کی فریاد کی۔
مسکان اور نیہا جیسی لڑکیاں اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت بھی خراب کر رہی ہیں لیکن ارتداد کے اس طوفان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ملت بیضاء کے ذمہ دار اس سیاہی کو کیوں کر مٹا پائیں گے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا سسٹم ہی مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس موقع پر وسیم بریلوی کا ایک شعر نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے
نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے؟
کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے
بریلی کی ان مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک شہر کا یہ حال ہے تو ملک کے طول وعرض میں کیا ہو رہا ہوگا؟ لو جہاد کے خلاف بھگوا ٹریپ کا یہ کھیل کہاں جا کر رکے گا؟ امت کے مخلص علماء و دانشور اس سلسلے میں کافی عرصے سے خبردار کر رہے ہیں لیکن کیا صرف خبردار کرنے سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے؟
سہ ماہی تحقیقات اسلامی کے مدیر مولانا رضی الاسلام ندوی نے اپنے ایک مقالے” نکاح میں تاخیر اسباب اور حل” کے عنوان سے لکھا ہے کہ "گزشتہ کچھ عرصے میں ملک میں بین مذہبی شادیوں کو فروغ ملا ہے۔ مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دیگر مذاہب کی لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ شادی کے واقعات کو میڈیا نے نمایاں کیا ہے۔ ان واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے پر جہاں اس کے مختلف اسباب سامنے آئے ہیں وہیں اس کا ایک سبب شادی میں تاخیر بھی ہے” اسی طرح مخلوط تعلیمی نظام کو بھی اس کا ایک اہم سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بھی کمسن بچیوں اور بچوں کے لیے مضر ہے۔ مسلم امت اگر واقعی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے عملی اقدامات کرتے ہوئے ان اسباب کا تدارک کرنا ہوگا، اس کے علاوہ تعلیم کے ساتھ گھروں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ گھروں میں ملنے والی اسلامی تعلیم و تربیت ہی ارتداد کے اس طوفان کو روک سکتی ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024