
بھارت چوتھی بڑی معیشت ۔ حقیقت یا فسانہ؟
غیر منظم شعبے کی حالت پست۔ بیرونی سرمایہ کاری میں گراوٹ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
اعدادوشمار کا فریب! معاشی ترقی کی چمک دمک کے پیچھے کی اصل حقیقت
نیتی آیوگ کے سی ای او بی وی آر سبرامنیم نے کہا کہ بھارت، جاپان کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ انہوں نے گورننگ کونسل کی دسویں میٹنگ کے بعد ایک پریس رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اور معاشی ماحول مجموعی طور پر بھارت کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا’’جب میں یہ بات کر رہا ہوں، اس وقت ہم دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکے ہیں۔ آج ہم چار ہزار ارب ڈالر (4 ٹریلین ڈالر) کی معیشت ہیں۔‘‘انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج بھارت کی معیشت جاپان سے بڑی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت صرف امریکہ، چین اور جرمنی ہی بھارت سے آگے ہیں۔‘‘اگر ہم اپنے منصوبوں اور حکمتِ عملی پر قائم رہیں تو آئندہ ڈھائی سے تین برسوں میں ہم دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن سکتے ہیں۔‘‘انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے اپریل میں جاری کردہ عالمی اقتصادی منظرنامے (WEO) کی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت 2025 میں 4190 ارب امریکی ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ جاپان کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم پچھلے سال سے ہی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بننے کا بہت چرچا کرتے آ رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم بھی دنیا کے مختلف فورموں پر بلند آواز میں بھارت کی معاشی برتری کا اعلان کرتے ہیں مگر فی کس آمدنی کا ذکر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔یہ دراصل اس بیانیے کا حصہ ہے جس میں عوامی آمدنی یا غربت جیسے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر صرف بڑی معیشت کے خواب دکھائے جاتے ہیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں یہ نقش ہو جائے کہ مودی حکومت کے دور میں بھارت کا عالمی سطح پر طوطی بول رہا ہے۔
لیکن کیا واقعی معیشت اتنی بلندی پر پہنچ گئی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ فی کس آمدنی جو کسی بھی معیشت کی حقیقی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے، اس کے لحاظ سے بھارت کا مقام بہت نیچے ہے۔عالمی درجہ بندی میں بھارت فی کس آمدنی کے لحاظ سے 194 ممالک میں 143ویں نمبر پر ہے۔امریکہ، جس کی معیشت کا کل حجم تقریباً 29 ٹریلین ڈالر ہے فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ وہاں کی فی کس آمدنی تقریباً 85 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔چین جو دوسری بڑی معیشت ہے وہاں فی کس آمدنی 13 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔جرمنی جو تیسری بڑی معیشت ہے اور جس کی آبادی بھارت سے کہیں کم ہے اس کی فی کس آمدنی 54 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔جبکہ بھارت جو پانچویں نمبر پر ہے اور جہاں کی آبادی 146 کروڑ ہے اس کی فی کس آمدنی محض 2700 تا 2800 ڈالر سالانہ ہے۔اس لحاظ سے امریکہ کی فی کس آمدنی بھارت کے مقابلے چالیس گنا زیادہ ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فی کس آمدنی اتنی کم ہے تو پھر بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کیسے کہلا سکتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت میں معاشی نابرابری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ چند افراد کے پاس اتنی دولت ہے کہ مجموعی معیشت کا حجم مصنوعی طور پر بڑا نظر آتا ہے مگر عام آدمی کی معاشی حیثیت نہایت کمزور ہے۔
آکسفام کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں بھارت کے صرف 21 ارب پتیوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی 70 کروڑ بھارتیوں کے پاس بھی نہیں۔ اگر ان ارب پتیوں کی دولت کو ملک کی معیشت سے نکال دیا جائے تو باقی 140 کروڑ افراد کی غربت ایک کھلی حقیقت بن کر سامنے آ جائے گی جس پر ماضی اور حال کی تمام حکومتیں شرمسار ہونے پر مجبور ہوں گی۔
قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کے مطابق مالی سال 2024-25 میں بھارت کی جی ڈی پی (نامیاتی شرح پر) 95 لاکھ کروڑ روپے کے قریب ہوگی، جبکہ حقیقی جی ڈی پی 187 لاکھ کروڑ روپے کے آس پاس متوقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی کا تقریباً 37 فیصد حصہ صرف مہنگائی کی وجہ سے بڑھا ہوا ہے، نہ کہ حقیقی پیداوار یا بہتری کی بنیاد پر؟
نیشنل اکاؤنٹس اسٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار کی روشنی میں ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گراس ویلیو ایڈیڈ (GVA) میں مزدوروں اور ملازمین کی حصہ داری 2022-23 میں پانچ سال قبل کے مقابلے میں کچھ حد تک کم ہوئی ہے جبکہ صنعت کاروں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے خزانوں میں اضافہ ہو رہا ہے مگر ان کے اداروں میں کام کرنے والوں کی اجرتیں جوں کی توں ہیں۔ نتیجتاً ملک میں صارفین کی وہ درمیانی جماعت (Consumer Class) ترقی نہیں کر رہی جو کسی بھی معیشت کی اصل قوت ہوتی ہے۔
جب صارفین کی یہ کلاس نہیں بڑھتی تو طلب میں اضافہ نہیں ہوتا، صنعتیں ترقی نہیں کرتیں، روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوتے اور اجرتوں میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار بہرحال منافع کما کر اپنی تجوریاں بھر لیتا ہے مگر ملک کی معیشت کی گاڑی اس یکطرفہ ڈھانچے میں ڈھنگ سے نہیں چل پاتی۔
معاشی تجزیہ نگار ایم کے وینو لکھتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں ملک کی سب سے نچلی 80 فیصد آبادی کی حقیقی اجرت میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا، حالانکہ مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
100 روپے کا سامان 130 روپے کا ہو گیا، لیکن 80 فیصد لوگوں کی آمدنی اس رفتار سے نہیں بڑھی جس کے باعث ان کی قوتِ خرید مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ آج بھی 80 کروڑ سے زیادہ افراد حکومت کے دیے گئے راشن پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف نیتی آیوگ کے سی ای او بی وی آر سبرامنیم کا دعویٰ ہے کہ بھارت چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے، وہیں نیتی آیوگ کے ممبر ڈاکٹر اروند ورمانی کہتے ہیں کہ 2027 یا 2028 تک بھارت جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ کر تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔انہوں نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ 2025 کے آخر تک بھارت جاپان کو پچھاڑ کر چوتھی بڑی معیشت بننے کے لیے تیار ہے۔ورمانی نے مزید کہا کہ اگر ہماری معیشت آئندہ 25 برسوں تک 6 یا 6.5 فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کرے تو بھارت چین کے برابر پہنچ سکتا ہے۔سبرامنیم کے ’’چوتھی بڑی معیشت‘‘ بننے کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ورمانی نے کہا کہ جب ہم معیشت کے حجم پر سرکاری طور پر (Publicly) بات کرتے ہیں، تو عموماً امریکی ڈالر کی موجودہ قیمت کے حساب سے کرتے ہیں اور سالانہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو بنیاد بناتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے اپنی اپریل کی رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ 2025 کے پورے سال کے لیے بھارت کی جی ڈی پی جاپان سے زیادہ ہو جائے گی۔لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے: کیا محض آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کی بنیاد پر بھارت واقعی چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے؟
کیا یہ ڈیٹا حقیقت کا آئینہ دار ہے یا محض جشن منانے کا بہانہ؟
ماہرِ اقتصادیات پروفیسر ارون کمار حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف خود کوئی آزاد تحقیقی ادارہ نہیں، نہ ہی یہ خود سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔ بلکہ یہ متعلقہ حکومتوں سے ملے ہوئے اعداد و شمار کو معمولی تبدیلی کے ساتھ جاری کرتا ہے۔جب خود بھارت کی جی ڈی پی کا سرکاری ڈیٹا ہی شکوک و شبہات کے دائرے میں ہے تو آئی ایم ایف کی رپورٹ پر بھروسا کس طرح کیا جا سکتا ہے؟پروفیسر ارون کمار کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر غیر یقینی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے۔ چین کی معاشی نمو سست ہو چکی ہے، امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف ٹیرف وار شروع کر رکھی ہے اور بے روزگاری و مہنگائی عالمی سطح پر عروج پر ہیں۔پروفیسر مزید کہتے ہیں کہ بھارت آج دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے لیکن ارب پتیوں کی تعداد کے لحاظ سے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں معاشی عدم مساوات شدید تر ہو چکی ہے۔ امیر، مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں اور غریبوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔ملک کی فی کس آمدنی کے اعتبار سے بھارت 143ویں نمبر پر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ معیشت کا فائدہ عام آدمی تک نہیں پہنچ رہا ہے۔پروفیسر ارون کمار کی رائے میں آئی ایم ایف کا یہ کہنا کہ بھارت دو سال میں جاپان کو پیچھے چھوڑ دے گا، محض ایک اندازہ ہے نہ کہ مصدقہ حقیقت؟ جی ڈی پی کے اعداد و شمار عموماً تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور حقیقی اعداد و شمار اکثر دو سال بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا جو ڈیٹا اس وقت دستیاب ہے وہ صرف ابتدائی اور عبوری اندازے پر مبنی ہے جس میں آئندہ تبدیلی ناگزیر ہے۔
چوتھی بڑی وجہ:
2016 کے بعد بھارتی معیشت کو چار شدید جھٹکے برداشت کرنے پڑے — نوٹ بندی، جی ایس ٹی، این بی ایف سی بحران اور عجلت میں نافذ کردہ لاک ڈاؤن۔ان چاروں اقدامات نے غیر منظم شعبے (Unorganised Sector) کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
پانچویں بڑی وجہ:
پروفیسر ارون کمار کے مطابق غیر منظم شعبوں کی مسلسل گرتی ہوئی حالت بھی معیشت کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔بھارت کی تقریباً 90 فیصد آبادی انہی غیر منظم شعبوں سے وابستہ ہے — جیسے چھوٹے کسان، مزدور، ریہڑی والے، دستکار، چھوٹے دکاندار وغیرہ۔بدقسمتی سے ان شعبوں کا ڈیٹا جی ڈی پی میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ حکومت صرف منظم شعبوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر جی ڈی پی کا تخمینہ لگاتی ہے حالانکہ دونوں شعبوں کی مشترکہ کارکردگی ہی معیشت کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ارون کمار طنزیہ کہتے ہیں کہ آج کا بھارت گویا ایک "ڈیٹا مکت بھارت” (Data-less India) بن چکا ہے۔منظم شعبوں میں اگرچہ کچھ ترقی دیکھی جا رہی ہے مگر ٹیکنالوجی، آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت (AI) کی وجہ سے روزگار کے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف غیر منظم شعبے بدحالی، غیر یقینی اور نفرت کی فضا کا سامنا کر رہے ہیں۔
چھٹی بڑی علامت:
فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (FDI) میں ریکارڈ گراوٹ۔ پچھلے پانچ سالوں سے FDI میں مسلسل کمی دیکھنے کو ملی ہے۔جب معیشت مضبوط نہ ہو تو نہ سرمایہ آتا ہے نہ کھپت بڑھتی ہے اور نہ ہی مارکیٹ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔2024-25 میں گراس FDI محض 8.1 بلین ڈالر رہا جو مزید گھٹ کر صرف 353 ملین ڈالر پر آ گیا — یعنی 96 فیصد کی سنگین گراوٹ! یہ تنزلی اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔گزشتہ چند برسوں میں ملک کے مختلف صنعتی شعبے جیسے سیمنٹ، آٹو موبائل وغیرہ یا تو بند ہو چکے ہیں یا غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اپنی موجودگی ختم کر دی ہے۔نتیجہ؟ FDI کا نیٹ آؤٹ فلو بڑھ گیا ہے — یعنی سرمایہ کم آرہا ہے اور باہر زیادہ جا رہا ہے۔ملک میں مجموعی جی ڈی پی کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹ ایف ڈی آئی گھٹ کر 353 ملین ڈالر رہ گئی ہے۔اس کے مقابلے میں چین کی نیٹ ایف ڈی آئی اب بھی 40 تا 45 بلین ڈالر کے درمیان ہے جب کہ اس کی مجموعی راست بیرونی سرمایہ کاری 145 بلین ڈالر ہے۔مگر اس کے باوجود بھارتی حکومت اور خوشامدی میڈیا مسلسل دعویٰ کرتے ہیں کہ چین سے کمپنیاں نکل کر بھارت آ رہی ہیں۔جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ کمپنیاں درحقیقت میکسیکو اور ویتنام جیسے ممالک کا رخ کر رہی ہیں جہاں سرمایہ کاری زیادہ منافع بخش اور محفوظ سمجھی جا رہی ہے۔معاشی تجزیہ نگار روچی شرما کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں کا بھارت پر اعتماد نہیں ہے، خاص طور پر انڈین ایجنسیز، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) اور انکم ٹیکس محکمے کی کارروائیوں پر۔ یہ فضا غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے تشویشناک ہے۔اگرچہ بھارت کی جی ڈی پی کا مجموعی حجم بظاہر بڑا ہے لیکن فی کس آمدنی، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر جیسے دیگر اہم اشاریے ابھی بہت پیچھے ہیں۔درآمدات پر انحصار کم کرنا اور سماجی فلاح و بہبود کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس کے لیے انتظامی اصلاحات، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تعلیم و صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری اور طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی ضروری ہے، تبھی بھارت سچ مچ ایک مضبوط معاشی قوت بن سکتا ہے — محض اعداد و شمار کا جشن منا کر نہیں۔
***
***
بھارت کی معیشت کا سب سے کمزور اور نظر انداز شدہ پہلو غیر منظم شعبہ ہے جہاں ملک کی تقریباً 90 فیصد آبادی روزگار سے وابستہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی معاشی سرگرمیوں کو نہ صرف سرکاری جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا جاتا بلکہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، NBFC بحران اور جلد بازی میں کیے گئے لاک ڈاؤن جیسے حکومتی فیصلوں نے ان شعبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف روزگار کے مواقع گھٹے ہیں بلکہ کنزیومر کلاس کی قوت خرید بھی متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف، غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں بھی مسلسل گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ 2024-25 میں بھارت کی نیٹ FDI گھٹ کر صرف 353 ملین ڈالر رہ گئی ہے جب کہ چین میں یہی اثاثہ 40 تا 45 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔ متعدد بڑی کمپنیاں بھارت سے اپنا کاروبار سمیٹ کر میکسیکو، ویتنام یا دیگر منڈیوں کی طرف رخ کر چکی ہیں، جس سے بھارت میں سرمایہ کاری کا ماحول مزید غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025