بےروزگاری بنی حزب ختلاف کا بڑا حربہ

نئی حکومت میں غربت اور روزگار کے مسائل کو درکنار نہ کیا جائے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

مذہب کی سیاست کو ختم کرکے ملک کی ترقی کے بارے میں سوچنا ضروری ہے
بے روزگاری ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اب نئی منتخبہ حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ 72 دنوں کی انتخابی مہم میں ووٹروں نے خاص کر نوجوانوں نے اسے بڑی مشکل بتایا ہے۔ بے روزگاری کے تعلق سے Centre for the Study of Developing Societies (سی ایس ڈی ایس) کے سروے میں یہ مسئلہ ابھر کر سامنے آیا۔ یہ سروے انتخابات سے چند دنوں قبل ہی ہوا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے روزگاری کا مسئلہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس بار فیصلہ حیثیت سے سامنے آرہا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھاجپائیوں نے اپنے پورے انتخاب کے دوران اس مسئلہ کو قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا۔ پارٹی کے مینوفیسٹو میں سوپر ٹرینوں کی خدمات کے لیے ایک ایپ بنانے کا وعدہ اور 2036 میں اولمپک کھیلوں کی میزبانی کا تذکرہ ہے مگر روزگار کے لیے مودی کا ایک جملہ تک نہیں ہے۔ اوپر سے بڑی ڈھٹائی سے وزیر داخلہ نے ملک کے نوجوانوں کے زخم پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے لوگوں نے روزگار کو سرکاری نوکری سے منسلک کر دیا ہے۔140 کروڑ آبادی والے ملک میں حکومت کا سبھی کو نوکریاں دینا ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ روزگار کے متعلق دو کروڑ کی جملہ غلط معاشی پالیسی اس کی ذمہ دار ہے۔ حکومت تمام فائدہ مند چھوٹے اور وسطی نجی شعبوں کی صنعتوں کے ذریعہ ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کشوں کو ورک فورس میں شامل کرکے کروڑوں خواندہ اور نیم خونداہ نوجوانوں کے غموں کا مداوا کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے بڑے صنعتکار اور کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سب کچھ کیا تاکہ اسے الیکشن بانڈز کے ذریعہ انتخابات جیتنے کے لیے بھاری بھرکم چندہ مل سکے۔ ہمارے ملک کے ورک فورس کا بیشتر حصہ ایسے ہی غیر ہنر مند لوگوں پر مشتمل ہے۔ واضح رہے کہ سرکاری نوکریاں معاشی سلامتی اور اپنے رتبے کے اعتبار سے ایک اوسط شہریوں کا ہمیشہ سے خواب رہا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے گزشتہ ایک دہائی میں روزگار کی کمی کو دور کرنے کے لیے وسائل و ذرائع کی تشکیل کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ الٹا جو کچھ بھی روزگار میسر تھا اس میں بھی کٹوتی کردی۔ مثلاً اگنی ویر یوجنا کے ذریعہ چار سالہ روزگار نے ہتھیار بند فورسز میں مستقل نوکری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حکومت نے اپنی جملے بازی میں روزگار کے مسئلے کو ہی غائب کر دیا۔ اب مندر-مسجد، ہندو-مسلمان اور مچھلی، مٹن، بھینس اور منگل سوتر پر باتیں ہونے لگیں۔ ملک میں بہتر حکم رانی کے بجائے مودی رام مندر کے پران پرتشٹھا میں چیف پروہت بن گئے۔ ایس سی۔ایس ٹی اور او بی سی کے دستوری حق کو خارج کرتے ہوئے جو حکومت کے ہاس مختلف شعبہ جات تیس لاکھ آسامیاں خالی پڑی ہیں جسے وہ حق داروں کو دے سکتی تھی مگر سنگھی مائنڈ سیٹ رکھنے والی حکومت نے کمزور طبقوں کو ریزرویشن کے ذریعے پانے والی نوکریوں سے بھی محروم کر دیا ہے۔
اگرچہ کہ حکومت نے 22 کروڑ مزدور خاندانوں کا موثر نیٹ ورک بنایا اور اس کے علاوہ 80 کروڑ لوگوں کو مفت پانچ کلو راشن، مفت رسوئی گیس کنکشن، ٹائلٹ کا نظم اور سبسیڈی کے ساتھ سستے گھر، نقدی ٹرانسفر اور مفت صحت بیمہ وغیرہ جیسے فلاحی کام کیے ہیں۔ جہاں تک گیس کنکشن کا تعلق ہے تو لوگوں کو مہنگائی کی وجہ سے اسے بھروانے کی سکت ہی نہیں رہی۔ پختہ مکان کی منتقلی کے لیے کافی بدعنوانی ہوئی۔ آدھا ادھورا مکان ہی لوگوں کو مل پایا۔ اس طرح نل سے جل فراہم کرنے کی کوشش ضرور ہوئی مگر آدھے سے زائد نلوں میں کبھی پانی نہیں آیا۔ ٹائلٹ کی تعمیر میں دھاندلیاں ہوئی تھیں۔ مفت صحت بیمہ سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ ضرور پہنچا ہے۔ نقدی ٹرانسفر بھی آدھے لوگوں تک ہی پہنچ پائی ہے۔ اب سوال ہے کہ حکومت فلاحی کاموں پر اتنا خرچ کرسکتی ہے تو نوجوانوں کو روزگار فراہم کیوں نہیں کرسکتی؟ درحقیقت ملک میں مفت کی ریوڑیوں کا کلچر پروان چڑھایا جارہا ہے جس سے باشندگان ملک بڑی تعداد میں مفت میں سوغات پاکر اپنی خود داری کو فروخت کرنے لگے ہیں۔ دوسری طرف مالیاتی خسارہ کے دباو کے باوجود حکومت نے اپنے فلاحی منصوبوں کی فہرست میں کمی نہیں کی کیونکہ اس سے سرکار کو انتخابی فائدے ہوں گے اور وہ گویا رشوت دے کر ووٹ خرید سکے گی۔ ویسے پبلک سیکٹرس میں نوکریوں میں کمی اور سرکاری بھرتی کے لیے امتحانات میں مسلسل پیپر آوٹ ہو رہے ہیں اس لیے بہار میں کئی سالوں سے بھرتیاں نہیں ہوئیں۔ تیجسوی یادو نے اس سال کے شروع میں بہار میں چند لاکھ نوجوانوں کو نوکریاں ضرور دی ہیں۔ جہاں تک ملک میں سیلف ایمپلائمنٹ کا مسئلہ ہے اس کو ریڑی اور پٹری وغیرہ کے لیے خوب قرضے فراہم کیے جارہے ہیں۔ مگر اس طرح کے روزگار سے نوجوان خوش نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اب جہاں تک بھارت کے 2047 تک دنیا کی بڑی معیشت بننے کی بات ہے وہ دور کے ڈھول کی طرح ہے۔
اس انتخاب میں اگرچہ بے روزگاری کو حزب مخالف نے اپنا انتخابی موضوع ضرور بنایا ہے۔ اس نے اپنے منشور میں مرکزی حکومت سے منظور شدہ 30 لاکھ خالی آسامیوں کو بھرنے سرکاری محکموں اور غیر مستقل ملازمین کو مستقل کرنے اور اگنی ویر یوجنا کو ختم کرنے کے علاوہ بے روزگار گریجویٹس کو سالانہ ایک لاکھ روپے بھتہ دینے کا عدہ بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ بہار اور یو پی میں گزشتہ چند سالوں میں تسلسل سے امتحانات کے پیپرس لیک ہوجانے سے تشدد کی وارداتیں بھی ہوئیں۔ نوجوان ملازمتوں کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو لے کر نوجوانوں میں غم و غصہ ہے۔ یہ معاملہ ہر جگہ انتہا پر ہے خصوصاً ہندی پٹی میں کچھ زیادہ ہی ہے۔
یاد رہے کہ سی ایس ڈی ایس نامی تھنک ٹینک کے ذریعہ کرایا گیا حالیہ سروے بہت کچھ بیان کر رہا ہے۔ اس کا قیام 60 سال قبل ماہر پالٹیکل سائنس رجنی کوٹھاری، ڈی ایل سیٹ اور اشیش نندی کے ذریعہ عمل میں لایا گیا تھا ۔ اس ادارہ کے سروے کے مطابق ملک میں حقیق مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے نہ کہ ہندتو؟ رام مندر اور بدعنوانی مسائل کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں جبکہ روزگار ستائیس اور مہنگائی تیئیس پر ہے۔ سروے کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ یہ مطالعہ انیس ریاستوں کے سو پارلیمانی حلقوں میں دس ہزار لوگوں سے گفتگو پر مشتمل ہے۔ سروے میں باسٹھ فیصد لوگوں نے کہا کہ نوکری کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ آج کل گاؤں اور قصبوں کے مقابلے میں شہروں کی حالت بدتر ہے۔ کیونکہ روزگار کی دستیابی کسی بھی سماج کی ترقی کا اصل پیمانہ ہوتا ہے۔ غریب اور کمزور طبقات میں کسمپرسی کے حالات بڑھ رہے ہیں۔ اکہتر فیصد لوگوں نے بتایا کہ وہ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ دراصل مہنگائی اور بے روزگاری دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔
سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے مطابق جنوری 2023 میں ہریانہ کی شرح بے روزگاری 37.4 فیصد کے حساب سے سب سے بدتر ہے۔ اس کے بعد راجستھان اور پنجاب وغیرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ حکومت نے چھ ہزار نوجوانوں کو جنگ زدہ ملک اسرائیل میں ملازمت کے لیے بھیج دیا ہے۔ حکومت جس کی بھی ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شہریوں کو دو وقت عزت کی روٹی فراہم کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہر فرد کو کام ملے مفت ریوڑیاں اور خیرات نہیں۔
***

 

***

 روزگار کے متعلق دو کروڑ کی جملہ غلط معاشی پالیسی اس کی ذمہ دار ہے۔ حکومت تمام فائدہ مند چھوٹے اور وسطی نجی شعبوں کی صنعتوں کے ذریعہ ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کشوں کو ورک فورس میں شامل کرکے کروڑوں خواندہ اور نیم خونداہ نوجوانوں کے غموں کا مداوا کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے بڑے صنعتکار اور کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سب کچھ کیا تاکہ اسے الیکشن بانڈز کے ذریعہ انتخابات جیتنے کے لیے بھاری بھرکم چندہ مل سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024