بنگال میں سیاسی تشددکے واقعات میں اضافہ
غنڈہ گردی کے خلاف احتجاج پر نوشاد صدیقی کو مقدمات میں الجھانے کی کوشش۔ مسلمانوں میں شدید ناراضگی
کولکاتہ :(دعوت نیوز بیورو)
مغربی بنگال میں سیاسی تشدد کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، بنگال میں انتخابی سیاست قتل و غارت گری، خون ریزی اور بے قصور افراد کے خون سے لہو لہان ہے۔گزشتہ چار دہائیوں میں ہزاروں افراد اس کی نذر ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔2021ءکے اسمبلی انتخابات میں قتل و غارت گری ، عصمت دری، آتشزنی کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی جانچ اور خصوصی جانچ کمیٹی (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی مگر وہ جانچ بھی سیاسی تشدد میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہی ۔قتل اور عصمت دری کے معاملات کی تحقیق کرنے والی سی بی آئی کی پوری جانچ سیاسی اختلافا ت اور الزام تراشیوں کی نذر ہوچکی ہے۔دو چار افراد سے پوچھ تاچھ اور ایک دو گرفتاریوں کے ماسوا جانچ آگے نہیں بڑھ سکی ہے ۔بنگال میں ایک بار پھر پنچایت انتخابات کی دستک ہے اور ریاست میں سیاسی تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ریاست کی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ممتا بنرجی سیاسی تشدد کے واقعات کی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی ہیں۔ ممتا بنرجی کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ہے ۔پولیس ان کے ماتحت کام کرتی ہے ۔ایسے میں سیاسی تشددکے واقعات میں اضافہ اور پولیس پر جانبداری برتنے کے الزامات لگ رہے ہیں تو ممتا بنرجی کو اس کا جواب دیناہی ہوگا۔
علاوہ ازیں سیاسی تشدد کے لیے صرف ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جاسکتا ہے نہ ہی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ سیاسی تشدد میں صرف اور صرف حکمراں جماعت کے کارکنان اور ورکرس ملوث ہیں۔بنگالی سیاسی تشدد کے کلچر میں اپوزیشن جماعتیں اور ان کے ورکرس بھی کسی حدتک ذمہ دار ہیں ۔تاہم حالیہ برسوں میں جس طریقے سے ترنمول کانگریس کے کارکنان اور پارٹی لیڈروں سے متعلق سیاسی تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات لگے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں جمہوریت اور سیاسی آزادی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔بنگال میں اپوزیشن جماعتوں کےلیے سیاست کتنی دشوار ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بنگال کی نو تشکیل شدہ سیاسی جماعت ’’انڈین سیکولر فرنٹ‘‘(آئی ایس ایف)کے واحد رکن اسمبلی نوشاد صدیقی 2021کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی کئی مہینوں تک اپنے حلقہ انتخاب بھانگرمیں جو کولکاتہ سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے آزادانہ طور پردورہ تک نہیں کرسکتے تھے ۔گزشتہ مہینے 18جنوری کو آئی ایس ایف نے کلکتہ شہر کے دھرم تلہ میں اپنے دوسرے یوم تاسیس کے موقع پر جلسے کا انعقاد کیا تھا مگر جلسے سے قبل نوشاد صدیقی کے اسمبلی حلقہ میں تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ترنمول کانگریس کے سابق ممبر اسمبلی اعراب الاسلام جن کاسیاسی تشدد اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کی وجہ سے خراب ریکارڈ رہا ہے، ان کے حامیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آئی ایس ایف کے ورکروں پر حملہ کیا۔اس حملے میں نوشاد صدیقی بھی زخمی ہوئے ہیں۔18جنوری کو کولکاتہ میں آئی ایس ایف کاجلسہ بھی منعقد ہوااور اس میں بڑی تعداد میں پارٹی ورکروں نے شرکت بھی کی مگر جلسے کے اختتام کے بعد بھانگر میں ترنمول کانگریس کے ورکروں کے حملےاور اعراب الاسلام کی گرفتاری کے مطالبے پر نوشاد صدیقی کی قیادت میں آئی ایس ایف کے ورکروں نے دھرم تلہ میں احتجاج شروع کردیا۔احتجاج شروع ہونے کے نصف گھنٹے بعد ہی پولیس نے پوری قوت کے ساتھ اس احتجاج کو کچل دیا۔لاٹھی چارج سے قبل مظاہرین کو کوئی وارننگ نہیں دی گئی۔ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی اور ان کے 17حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔بعد میں آئی ایس ایف کے ورکروں نے پولیس پر پتھراو کیا ۔پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس ایف کے ورکروں کے حملے میں کئی پولس اہلکار زخمی ہوئے ہیں ۔اس کے بعد ممبر اسمبلی نوشا صدیقی اور آئی ایس ایف کے دیگر 17ممبران کو گرفتار کیا گیا ہے۔یکم فروری کو پولیس تحویل ختم ہونے کے بعد عدالت نے ضمانت کی عرضی خارج کرتے ہوئے 15دنو ں کےلیے عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے۔عدالت کے یکم فروری کے فیصلے کے محض دو دن بعد 3فروری کو جنوبی چوبیس پرگنہ کے ایک اور پولیس اسٹیشن نے نوشاد صدیق کو گرفتار کرکے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
نوشاد صدیقی کی گرفتاری اور ان کے خلاف جس طرح سے دفعات لگائے گئے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس سیاسی دباو میں ہے ۔احتجاج کے دوران پتھراو اور لاٹھی چارج کوئی غیر معمولی نہیں ہے بلکہ چند مہینے قبل بی جے پی کے احتجاج کے دوران ایک سینئرآئی پی ایس آفیسر بھی شدید زخمی ہوئے تھے ۔بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگادی گئی اس کے باوجود کسی بھی بی جے پی لیڈر یا پھر کسی بھی ممبر اسمبلی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔آخر ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہے؟ بی جے پی لیڈروں کے ساتھ علیحدہ سلوک کیوں ہے؟ جس طریقے سے اس پورے مقدمے کو پولیس ہینڈل کررہی ہے اور نوشاد صدیقی اور آئی ایس ایف کے خلاف مختلف پولس اسٹیشنوں میں مقدمات قائم کیے جارہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ نوشاد صدیقی اور ان کی پارٹی کو آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔شاید نوشاد صدیقی کے خلاف مقدمات کاطویل سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔بی جے پی جن کے پاس 70ممبران اسمبلی ہیں مگر ایک سیٹ والی پارٹی کے خلاف ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کا رویہ اتنا سخت کیوں ہے؟ کیا30فیصدمسلم آبادی والی ریاست میں کوئی بھی مسلم سیاسی جماعت کو ممتا بنرجی پنپنے دینا نہیں چاہتی ہے؟ کیا محض دو سال قبل تشکیل پانے والی آئی ایس ایف ممتا بنرجی کےلیے خطرہ بن سکتی ہے۔
28 سالہ محمد نوشاد صدیقی کا تعلق مغربی بنگال کے مشہور و معروف خانوادے ضلع ہگلی کے ’فرفرہ شریف‘ کے پیر ابوبکر صدیق ہے۔ پیر ابوبکر صدیق اپنے سیاسی ، سماجی اور تعلیمی خدمات کی وجہ سے بنگال، آسام اور بنگلہ دیش میں کافی مقبول ہیں۔لاکھوں افراد ان کے عقیدت مند ہیں ۔ان کے انتقال کے ایک صدی گزر جانے کے باوجود پیر ابوبکر صدیق کا بنگال کے مختلف اضلاع ، بنگلہ دیش اور آسام میں پر گہرا اثر ہے۔بالخصوص دیہی علاقوں کے مسلمان ان کے عقیدت مند ہیں ۔دراصل پیر ابوبکر صدیق نے 20ویں صدی کے آغاز میں بنگال کے دیہی علاقوں میں کسانوں ، کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے درمیا ن بڑے پیمانے پر اصلاحی و تعلیمی کام کیا۔پیر ابوبکر صدیق 1919میں جمعیت علمائے ہند کے قیام کے بعد جمعیت علماسے وابستہ ہوئے۔ بعد میں انہوں نے اہل سنت و الجماعت کے نام سے تنظیم بنائی ۔انہوں نے بنگال کے دیہی علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کیے ۔پیر ابوبکر صدیقی کے انتقال کے بعد ان کی اولاد نے یہ سلسلہ قائم رکھا ، دیہی علاقوں میں جلسے جلوس کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2021سے قبل تک فرفرہ شریف کے پیرزادے نے عموماً سیاست سے دور خود کو دینی جلسے تک محدود کررکھا تھا۔صرف پیر زادہ طہ صدیقی سیاسی جماعتوں کی حمایت و مخالفت میں بیان دیتے رہے ہیں مگر ان کی براہ راست کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈر فرفرہ شریف کا دورہ کرتے رہے ہیں تاہم 2021کے اسمبلی انتخابات سےعین قبل فرفرہ شریف کے پیر ابوبکر صدیق کے ایک اورپڑ پوتے عباس صدیقی نے جوطہ صدیقی کے بھتیجے ہیں، ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کا استحصال اور ان کے بنیادی مسائل سے چشم پوشی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان کیا۔فرفرہ شریف جو اب تک سیاسی سرگرمیوں سے دور رہا ہے اس نے براہ راست سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوکر سب کو چونکا دیا۔ بنگال کی سیاست میں حاشیہ پر پہنچ چکی بائیں محاذ نے آگے بڑھ کر اس نو تشکیل شدہ سیاسی جماعت کا خیرمقدم کیا۔مذہبی شناخت اور مذہبی سیاست سے دور رہنے والی سی پی آئی ایم نے بھی ایک ایسی سیاسی جماعت سے جس کا مذہبی پس منظر ہے، اتحاد کرکے سب کو چونکادیا۔در اصل آئی ایس ایف نے روایتی مسلم سیاسی جماعت کے برخلاف مسلم ، دلت اور قبائلیوں کو ساتھ لے کر بی جے پی اور ترنمول کانگریس سے یکساں دوری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔اسی وجہ سے سی پی ایم اور کانگریس دونوں نے اس نوزائیدہ سیاسی جماعت سے اتحاد کیا۔کانگریس اور سی پی ایم کو یہ امید تھی کہ پولرائزیشن کی وجہ سے مسلم ووٹ انہیں ملنا مشکل ہے مگر فرفرہ شریف سے وابستگان جو بنگال کے کئی اضلاع میں ووٹنگ کے لحاظ سے اثرو رسوخ رکھتے ہیں، ان سے فائدہ ملے گا۔
چنانچہ 2021ءکے اسمبلی انتخابات میں کانگریس، بائیں محاذ اور آئی ایس ایف کے درمیان اتحاد ہوا۔مگر2021ءکے اسمبلی انتخابات میں پولرائزیشن کی وجہ سے پورا انتخاب دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔27فیصد مسلم ووٹ بی جے پی کو روکنے کے نام پر بی جے پی کے خلاف یکطرفہ ترنمول کانگریس کے خیمے میں چلاگیا۔چنانچہ کانگریس اور سی پی آئی ایم ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہیں جبکہ چند مہینے قبل تشکیل پانے والی آئی ایس ایف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔یہاں سے عباس صدیقی کے چھوٹے بھائی نوشاد صدیقی نے جیت درج کی۔علاوہ ازیں شمالی چوبیس پرگنہ اور جنوبی چوبیس پرگنہ کے مزید چار حلقوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی جو بڑی اکثریت سے جیت حاصل کرنے والی ترنمول کانگریس کےلیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔اگر2021کے اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیا جائے توممتا بنرجی کو جو 48.4فیصد ووٹ ملے ہیں جن میں25فیصد مسلمانوں کے شامل ہے۔ 70 فیصد غیر مسلم ووٹوں میں ممتا بنرجی کو محض23فیصد ووٹ ملے ہیں، یعنی ممتا بنرجی کو غیر مسلم ووٹ سے زیادہ مسلمانوں کے ووٹ ملے ہیں، جب کہ بی جے پی کو 36فیصد ووٹ ملے۔ان میں مسلمانوں کے 0.2فیصد ووٹ شامل ہیں۔اگر مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں تو ممتا بنرجی کی واپسی مشکل ہے۔یہی وہ سیاسی انجینئرنگ ہے جو ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کےلیے آئی ایس ایف کی موجودگی پریشانی کا سبب ہے۔چنانچہ گزشتہ دو سالوں میں آئی ایس ایف کے ورکروں پربڑے پیمانے حملے کیے گئے ہیں ۔آئی ایس ایف کے دعوے کے مطابق گزشتہ دس دنوں میں دو سو پارٹی ورکروں کی اندھا دھند گرفتاری کی گئی ہے۔چونکہ بی جے پی کے ممبران اسمبلی میں کوئی بھی مسلم ممبر نہیں ہے ۔بنگال اسمبلی میں نوشاد صدیقی کے علاوہ تمام مسلم ممبران اسمبلی کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے۔نوشادصدیقی نے گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں اسمبلی سیشن میں اقلیت اور مسلمانوں کے حوالوں سے کئی ایسے سوالات اسمبلی میں اٹھائے ہیں جو حکمراں جماعت کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہیں مثلا اردو اسکولوں میں اساتذہ کی قلت، عالیہ یونیورسٹی کی بدحالی ، مسلم علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا فقدان جیسے سوالات جس کے جوابات حکمراں جماعت کے پاس نہیں ہیں ۔
جماعت اسلامی سمیت مغربی بنگال کی مختلف مسلم تنظیموں نے نوشاد صدیقی کی گرفتاری کی سخت تنقید کی ہے۔جماعت اسلامی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ نوشاد صدیقی کو سیاسی بنیادوں پر ہراساں کیا جارہا ہے اور جس طریقے سے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں وہ قابل مذمت ہیں ۔مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ممتا بنرجی ریاست میں اپوزیشن کو مواقع نہیں دینا چاہتی ہیں۔ نوشاد صدیقی کی گرفتاری سے مسلمانوں میں بھی شدید ناراضگی ہے۔ریاست میں پنچایت انتخابات کی تاریخوں کا اعلان جلد ہی متوقع ہے، ایسے میں اندیشہ ہے کہ ریاست میں سیاسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔دیکھنا ہوگاکہ آئی ایس ایف کو کچلنے کی مہم ممتا بنرجی کو فائدہ پہنچائے گی یا الٹا نقصان۔
ممتابنرجی مغربی بنگال کے 27 فیصد مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دلا کر مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کی صورت حال خراب ہے۔اردو اسکولوں میں اساتذہ کا بحران ہے۔اقلیتی عالیہ یونیورسٹی بدنظمی کا شکار ہے اور ممتا بنرجی نے یونیورسٹی کی توسیع کےلیے جتنے وعدے کیے تھے ان میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا ہے۔اگر مسلمانوں میں محرومی کے احساس میں اضافہ ہواتو اس کا خمیازہ انہیں پنچایت انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔
***
***
ممتابنرجی مغربی بنگال کے 27 فیصد مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دلا کر مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کی صورت حال خراب ہے۔اردو اسکولوں میں اساتذہ کا بحران ہے۔اقلیتی عالیہ یونیورسٹی بدنظمی کا شکار ہے اور ممتا بنرجی نے یونیورسٹی کی توسیع کےلیے جتنے وعدے کیے تھے ان میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا ہے۔اگر مسلمانوں میں محرومی کے احساس میں اضافہ ہواتو اس کا خمیازہ انہیں پنچایت انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023