بنگال میں پنچایت انتخابات انسانی خون سے لہو لہان کیوں ہیں؟

آئی ایس ایف کے بڑھتے قدم۔ ترنمول کانگریس کو مسلم ووٹوں سے محرومی کا خوف

نوراللہ جاوید، کولکاتا

تشدد، ہنگامہ آرائی، قتل و غارت گری اور لوٹ مار مغربی بنگال کی سیاست کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ انتخابی موسم ہو یا غیر انتخابی موسم یہاں بہر صورت سیاسی ماحول اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ تاہم انتخابی موسم آتے ہی سیاست گری تشدد و محاذ آرائی میں اس طرح سے تبدیل ہوجاتی ہے کہ انسانی جانوں کی بھی پروا نہیں کی جاتی۔ عام ورکرس جنہیں سیاست سے کچھ خاص ملنے والا نہیں ہوتا وہ بھی سیاسی وفاداری کی خاطر مرنے اور مارنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس وقت پنچایت انتخابات کے دوران تشدد، مارپیٹ اور انسانی جانوں کے ضیاع کے جو مناظر ہم دیکھ رہے ہیں اس کے لیے صرف وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی قصور وار نہیں ہیں کہ سیاسی تشدد اور قتل وغارت گری انہیں ورثے میں ملی ہے۔ وہ اور ان کی پارٹی اسی سیاسی ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مگر بنگال کو سیاسی تشدد، نا انصافی اور عام لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کا وعدہ کرنے والی ممتا بنرجی کا یہ قصور بھی کوئی کم نہیں ہے کہ انہوں نے سیاسی تشدد کی وراثت کا خاتمہ کرنے کی بجائے تشدد اور سیاسی تقسیم کو ایک نئی سطح تک پہنچا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر بنگال میں سیاسی تشدد کے واقعات اس قدر بڑے پیمانے پر کیوں ہوتے ہیں؟ سیاسی وفا داری کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے جان کے دشمن کیوں ہوجاتے ہیں؟ حکومتیں اس پر کنٹرول کرنے کے بجائے اس سے فائدہ کیوں اٹھانے لگتی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ہر کوئی جاننا چاہتا ہے۔ دراصل آزادی کے 70سال بعد بھی بنگال کے دیہی علاقے غربت، پسماندگی اور مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ چنانچہ سیاسی تشدد کا شکار ہونے والوں کا اگر سماجی مطالعہ کیا جائے تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات میں مسلمان، دلت اور قبائلی ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بنگال میں پارٹی کی وفاداری کی بنیاد پر شناخت کی سیاست ہوتی ہے۔ جس علاقے میں جس پارٹی کا دبدبہ ہوتا ہے وہ پورا علاقہ اس پارٹی کے پرچم سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اس علاقے میں اگر کوئی دوسری سیاسی جماعت پنپنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر تشدد کے واقعات کا ہونا لازمی ہے۔
1960 کی دہائی میں پہلی مرتبہ بائیں بازو اور علاقائی پارٹیوں نے کانگریس کے غلبے کو چیلنج کیا تو سیاسی محاذ آرائی تشدد میں تبدیل ہوگئی تھی اور یہی بعد میں بنگال کی شناخت بن گئی۔ 1970 کی دہائی میں کانگریس، سی پی آئی ایم اور اس کے حامیوں، مخالفین اور نکسل تحریک کے عروج سے بنگال میں سیاسی تشدد الگ سطح پر پہنچ گیا تھا ۔1990 کی دہائی میں کانگریس میں ممتا بنرجی کا عروج اور ان کی جارحانہ سیاست نے دونوں پارٹیوں کو آمنے سامنے کر دیا۔ 2008 میں بنگال میں ایک بار پھر ماو نواز سرگرم ہوئے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ترنمول کانگریس نے نندی گرام میں سی پی آئی ایم کے پرتشدد حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور عوامی ہمدردی حاصل کی۔ کھجوری، لال گڑھ، سینگور اور کھاناکول تشدد کے نئے مراکز کے طور ابھر کر آئے۔ سیاسی تشدد، قتل وغارت گری اور بم اندازی کے باوجود بنگال میں انتخابات کو لے کر ووٹروں میں جوش و خروش کم نہیں ہوا ہے۔ تشدد کے باوجود بنگال میں کبھی کبھی 75 فیصدسے کم ووٹنگ نہیں ہوئی۔ انتخابات میں دھاندلی کے لیے مغربی بنگال کی شہرت کے باوجود، ووٹر لسٹوں میں ہیرا پھیری اور بوتھ مینجمنٹ یا مکمل طور پر قبضہ کرنے کے باوجود لوگ بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہیں۔دراصل سیاسی جماعتیں بالخصوص حکمراں جماعت اور ابھرتی ہوئی متبادل یا بنیادی چیلنجر سیاسی جماعت منظم انداز میں ووٹروں کو گھر سے نکال کر بوتھ تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مشہور سابق الیکشن کمشنر ٹی این سیشن نے 1990 کی دہائی میں مغربی بنگال میں آزادانہ، منصفانہ اور سب سے بڑھ کر پرامن انتخابات کو یقینی بنایا لیکن اس کے باوجود سی پی ایم کے علاقے پر قبضے میں کمی نہیں آئی ہے۔
2021 کے اسمبلی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے بڑی تعداد میں مرکزی فورسیس تعینات کیے تھے اس کے باوجود تشدد کے واقعات رونما ہوئے اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ ممتا بنرجی تیسری مرتبہ کامیاب رہیں۔ انتخابات کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات ہوئے۔ سیاسی تشدد میں قتل اور عصمت دری کے الزامات کی سی بی آئی جانچ کر رہی ہے جبکہ تشدد کے دیگر واقعات کی ایس آئی ٹی جانچ کر رہی ہے۔ پنچایت انتخابات 2023 ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہے ہیں جب لوک سبھا انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقفہ رہ گیا ہے اس لیے پنچایت انتخابات کے دوران تشدد اور ہنگامہ خیزی کی توقع تھی مگر مختلف گھوٹالوں اور مرکزی حکومت سے ٹکراو کی وجہ سے مالی بحران کی شکار ترنمول کانگریس سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ 2018 کی طرح 2023 کے پنچایت انتخابات میں، کم از کم پرچہ نامزدگی کے دوران ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی اور اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو پرچہ نامزدگی داخل کرنے دیا جائے گا مگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی 8 جون سے 15 جون کے درمیان پرچہ نامزدگی کے دوران جو کچھ ہوا اس سے یہ ثابت ہوا کہ بنگال میں سیاسی تشدد سے پاک انتخاب کروانا اگر ناممکن نہیں ہے تو مشکل ترین کام ضرور ہے۔ ریاستی الیکشن کمیشن مکمل طور پر ناکام ثابت ہو چکا ہے۔اب جب کہ کلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایت پر 800 سے زائد مرکزی فورسیس کی موجودگی میں پولنگ ہونی ہے تو دیکھنا یہ ہوگا کہ پولنگ کے دوران کتنا تشدد برپا ہوتا ہے اور کتنی جانیں جاتی ہیں۔
پنچایات انتخابات میں 22 اضلاع میں 928 ضلع پریشد ممبران، 9730 پنچایت سمیتی ممبران، 63,229 گرام پنچایت ممبران اور تقریباً 73000 پنچایت نمائندوں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا۔ حکمراں جماعت کے ورکروں کے ذریعہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے روکنے کے لیے بم، بندوقیں، پائپ، کرکٹ اسٹمپ، لاٹھیاں، بانس کی لاٹھی اور مختلف قسم کے مہلک آلات کا استعمال کیا گیا ہے۔ کھلم کھلا ترنمول کانگریس کے ورکروں کی غنڈہ گردی کیمرہ میں قید ہو گئی۔ مرشد آباد، شمالی 24 پرگنہ، بیر بھوم، مشرقی مدنا پور اور ریاست کے تقریباً ہر ضلع میں دیگر پارٹیوں کو پرچہ نامزدگی داخل کرنے سے روکنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی کافی فائر پاور اور افرادی قوت سے جوابی کارروائی کی ہے۔ حیران کن انداز میں محض تین سال قبل تشکیل پانے والی آئی ایس ایف نے جس طریقے سے حکمراں جماعت کا مقابلہ کیا ہے اس نے ممتا بنرجی کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ ممتا بنرجی کو یہ خوف ستانے لگا ہے کہ اگر آئی ایس ایف نے اسی طریقے پیش قدمی جاری رکھی تھی تو مسلم ووٹ انتشار کا شکار ہو سکتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں اگلے لوک سبھا انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ پنچایت انتخابات میں ترنمول کانگریس نے 34 فیصد سیٹوں پر بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا دعوٰی ہے کہ ترنمول کانگریس نے یہ کامیابیاں خوف و ہراس اور غنڈہ گردی کے ذریعہ حاصل کی تھیں تاہم، اس مرتبہ حالات بدل گئے ہیں۔ عدلیہ سخت اور گورنر ہاوس بھی روایات سے کہیں زیادہ سرگرم ہے۔ ایسے میں ترنمول کانگریس کے ورکرس اگر بے لگام ہوتے ہیں تو اس کا نقصان اپوزیشن جماعتوں سے کہیں زیادہ خود ترنمول کانگریس کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ یہ سوالات بھی کیے جارہے ہیں کہ ایک طرف ممتا بنرجی، بی جے پی پر جمہوریت کا گلا گھوٹنے کا الزام عائد کر رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی پارٹی بنگال میں اپوزیشن جماعتوں کو پنچایت انتخابات میں پرچہ نامزدگی داخل کرنے سے روک رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت میں یہ دہرا رویہ نہیں چلے گا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023