بنگال میں مدرسہ سرویس کمیشن کوعدالت کی پھٹکار،تین ہزاراسامیوں پر تقرر کی راہ ہموار

14سال پہلے ہونے والے امتحانات کے نتائج ابھی تک زیرالتواء

شبانہ جاوید، کولکاتا

روداد مشرق
کلکتہ ہائی کورٹ نے پچھلے دنوں ریاست کے مدرسہ سرویس کمیشن کو پھٹکار لگائی ہے۔ کورٹ نے بنگال مدرسہ سروس کمیشن سے سوال کیا کہ  2010 میں ہونے والے امتحان کے بعد تقرری کا عمل 2024 تک کیوں مکمل نہیں ہوا؟ کورٹ نے کہا کہ کمیشن کو کوئی اضافی وقت نہیں دیا جائے گا۔
مغربی بنگال میں 507 سرکاری مدارس ہیں ان مدارس میں گروپ ڈی کے عہدے پر تقرری کے لیے مدرسہ سرویس کمیشن نے 2010 میں امتحانات منعقد کیے تھے۔ اس کے بعد 2024 تک یعنی 14 سال گزر جانے کے بعد بھی امتحان پاس کرنے والوں کو اب تک نوکری نہیں ملی ہے اور نہ ہی بھرتی کا کوئی عمل مکمل ہوا۔ مدارس میں اس وقت 3000 خالی اسامیاں ہیں۔ گزشتہ 14 برسوں میں ان خالی عہدوں پر تقرری نہ کرنے کے حوالے سے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اسی معاملے میں ہائی کورٹ نے ریاست کو پھٹکار لگائی۔ دو ججوں کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ ریاست کو بھرتی کے عمل کے لیے کوئی اضافی وقت نہیں دیا جائے گا۔ ان تین ہزار خالی عہدوں پر بھرتی کا عمل آئندہ تین ماہ میں مکمل کیا جائے۔ اس کے علاوہ تقرری نہ کرنے پر مدرسہ سرویس کمیشن کو دو لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔
بتادیں کہ سال 2010 میں یعنی لیفٹ کے اقتدار میں مدارس میں گروپ ڈی کے عہدوں پر بھرتی کے لیے ابتدائی تحریری امتحان کا انعقاد کیا گیا تھا لیکن سال 2011 میں حکومت میں تبدیلی آگئی۔ لیفٹ اقتدار کے شکست کے بعد ترنمول کانگریس سپریمو ممتا بنرجی نے اقتدار سنبھالا اور لیفٹ اقتدار میں ہونے والے مدرسہ سرویس کمیشن کے امتحان کے بعد تقرری کا عمل ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا اس کے بعد تقریباً 14 سال گزر گئے لیکن آج تک امیدواروں کو نتیجہ معلوم نہیں ہوسکا۔ سب سے پہلے امتحان میں بے ضابطگیوں کے الزامات کی وجہ سے نتائج کو روک دیا گیا۔ بعد ازاں کئی مقدمات عدالت میں دائر ہوئے۔ مقدمات کو نمٹانے سے پہلے نتائج جاری نہیں کیے جا سکے کیونکہ یہ معاملات زیر التوا تھے۔ لہٰذا تقرری کا عمل بھی بند کر دیا گیا.
فریقین کے وکیل فردوس شمیم ​​کے مطابق حکومت نوکریاں نہیں دینا چاہتی یہی وجہ ہے کہ حکومت اس معاملے سے لاتعلق رہی اور حکومت کی اسی بے حسی کی وجہ سے تقرریاں نہ ہو سکیں۔
درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ 2019 میں جسٹس راج شیکھر منتھا کی سنگل بنچ نے حکم دیا تھا کہ خالی عہدوں کو 14 دنوں کے اندر پُر کیا جائے۔ لیکن مدرسہ سرویس کمیشن نے اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ڈویژن بنچ میں اپیل کی ڈویژن بنچ نے گزشتہ سال سنگل بنچ کے ہی حکم کو برقرار رکھا۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کی تقرری نہیں ہوئی۔ اس وقت کمیشن نے کوویڈ 19  کی صورتحال کے پیش نظر حکم پر عمل درآمد کے لیے عدالت سے چھ ماہ کا وقت مانگا تھا۔ اس کے بعد مزید چھ ماہ کوویڈ کی بنیاد پر وقت لیا گیا ۔ اس طرح مدرسہ سرویس کمیشن کئی بار مہلت لینے کے باوجود گروپ ڈی کے 3000 عہدوں پر تقرری نہیں کرسکی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ مدرسہ سرویس کمیشن کو کئی بار عدالت کے حکم پر عمل نہ کرنے اور وقت لینے کے باوجود حکم کی تعمیل نہ کرنے پر دو لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ان 3000 خالی عہدوں پر بھرتی کی تصدیق تین ماہ کے اندر کرنی ہوگی۔ کورٹ کے فیصلے پر امیدواروں میں خوشی دیکھی جا رہی ہے ان کے اندر نوکری ملنے کی امید جاگی ہے۔ احمد حسین نے کہا کہ وہ نوکری کی امید میں ٹوٹ گئے ہیں۔ انہوں نے امتحان دیا تھا امید تھی کہ نوکری ملے گی لیکن یہ امید ایک خواب ثابت ہوئی۔ وہیں ایک اور امیدوار قمرالزماں نے کہا کہ اگر دوبارہ امتحان منعقد ہوا تو وہ اس امتحان میں شریک نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ان کی عمر چالیس سال سے زائد ہو چکی ہے۔ نوکری حاصل کرنا ان کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے گھر والوں کا سہارا بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ کے فیصلے نے ان کے حوصلے کو مضبوط کیا ہے۔ وہیں روبینہ خاتون بھی امتحان دینے والوں کی فہرست میں شامل ہیں، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے جب امتحان دیا تھا ان کے والد زندہ تھے اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں انہیں اس بات کا ملال زندگی بھر رہے گا کیونکہ اس لڑائی میں میرے والد ہمیشہ میرے ساتھ تھے۔ مجھے مایوسی کے بجائے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے تھے۔ ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج کورٹ نے ہمارے درد کو سمجھا ہے۔ بہرحال یہ دیکھنا اہم ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کمیشن تقرری کے عمل کو کیسے مکمل کرتی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024