بنگال میں بھی بلڈوزر والی سیاست کی گونج ۔بی جے پی کا دفتر زد میں

ہاکروں کی حمایت میں رہنے والی وزیر اعلیٰ کی جانب سے ایک ماہ کی نوٹس قابل تشویش

شبانہ جاوید، کولکاتا

ممتا حکومت روزگار فراہم کرنے میں ناکام ۔ساتھ ہی بلڈوزر سے کمزور طبقہ پریشان
مغربی بنگال میں بھی بلڈوزر چلنا شروع ہو گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بنگال کا غیر قانونی عمارتوں اور دکانوں کے خلاف کارروائی کا اعلان۔ کئی جگہوں پر دفاتر اور دکانیں بلڈوز بی جے پی کا ایک دفتر بھی شامل۔
لوگوں میں بے چینی
وزیر اعلیٰ بنگال ممتا بنرجی نے گزشتہ دنوں صاف طور پر کہ دیا ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں و دکانوں کے خلاف ان کی حکومت سخت کارروائی کرے گی۔ انہوں نے کولکاتا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے ہاکروں کو پولیس کے ذریعہ نوٹس جاری کروائی اور کہا کہ ایک مہینے کے اندر انہیں جگہ خالی کرنی ہوگی۔ حکومت کے اس نئے اقدام سے لوگوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال میں تجاوزات سے چھٹکارا پانے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ہائی پاور کمیٹی قائم کی تھی اور اس میٹنگ میں کولکاتا کے میئر فرہاد حکیم، مغربی بنگال کے وزیر پاور اروپ بسواس، وزیر قانون ملائے گھٹک، شہری ترقی محکمے کے پرنسپال سکریٹری ونود کمار، کولکاتا پولیس کمشنر ونیت گوئل اور ایڈیشنل پولیس کمشنر سنتوش پانڈے نے شرکت کی تھی۔ اس میٹنگ میں ممتا بنرجی نے غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اپنی پارٹی کے کئی لیڈروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ جو لوگ پیسوں کے لیے شہر کو برباد کر رہے ہیں، غیر قانونی علاقے و کاروباری مراکز بسائے جا رہے ہیں انہیں سخت سزا دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر ریاستوں سے لوگ یہاں آکر بس رہے ہیں اور کاروبار کے لیے غیر قانونی طور پر دکانیں بنا رہے ہیں، اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔
ممتا بنرجی کی میٹنگ کے بعد پولیس اور شہری انتظامیہ نے ریاست بھر میں بے دخلی کی مہم شروع کی اور ہزاروں ہاکروں کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے کہا کہ ہم بیس تیس سال سے سڑکوں پر بیٹھ کر کاروبار کرتے ہیں، ایسے میں اگر ہمیں بے دخل کیا گیا تو ہم کہاں جائیں گے کیا کھائیں گے؟ ہماری زندگی بدتر ہو جائے گی۔ کولکاتا کا نیو مارکیٹ علاقہ شہر کے سب سے زیادہ مصروف اور پرہجوم شاپنگ مرکزوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ کئی دنوں سے ویران نظر آرہا ہے۔ کارپوریشن اور پولیس کی بے دخلی مہم نے دکانداروں میں خوف پیدا کر دیا ہے۔ مقامی ہاکرس اپنے اسٹالوں کو بند کر کے یونین کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگیں کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے کاروبار کو بچا سکیں۔ نیو مارکیٹ کے ایک ہاکر محمد فاروق نے کہا کہ ان کے والد نے کاروبار سنبھالنے سے پہلے دو دہائیوں تک سڑکوں پر زیورات بیچے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دکانیں ایک دن کے لیے بند رکھنے سے گلیوں کے کنارے کاروبار کرنے والے خاندانوں پر اثر پڑتا ہے۔ "پچھلے کچھ دنوں سے ہم سب کارپوریشن کی جانب سے ٹھوس لائحہ عمل کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم روزی روٹی سے محروم ہو جائیں گے۔ شہر کے دھرمتلہ علاقے میں ایک چھوٹی چٹائی پر کاسمیٹکس فروخت کرنے والی 27 سالہ پوجا رائے نے کہا کہ منگل سے اسے پولیس کی ہدایات کا انتظار کرتے ہوئے اپنا سامان ایک طرف رکھنا پڑا۔ "میں اپنا کاروبار برسوں سے سے چلا رہی ہوں میں نہیں چاہتی تھی کہ میری بیٹی میرا کاروبار جاری رکھے، اس لیے میں نے اسے ایک اچھے اسکول میں داخل کرایا ہے، لیکن اگر میں راتوں رات اپنی روزی روٹی کھو بیٹھوں تو میں اس کی تعلیم کا خرچہ کیسے برداشت کر سکتی ہوں، یہ سوچ کر میں پریشان ہوں” شہر کے گریاہاٹ میں بھی مشہور اسٹریٹ شاپنگ مرکز ہے اور وہاں بھی ہاکروں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایک ہاکر ذاکر منڈل نے کہا کہ حکام نے سروے کے لیے ہماری دکانوں کا دورہ کیا۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہمیں یہاں سے ہٹا دیں گے، مگر ابھی انہوں نے صرف ہمارے دستاویزات کی جانچ کی ہے۔ گریاہاٹ اندرا ہاکر یونین کے جنرل سکریٹری دیبراج گھوش نے کہا کہ ہاکروں کو "ریٹیل مارکیٹ اور مالز سے اتنے مقابلے کا سامنا ہے کہ وہ حکومت کی بے دخلی سے پہلے ہی کاروبار سے باہر ہو جائیں گے” دیبراج گھوش نے مزید کہا کہ انہیں وزیر اعلی کے اچھے کام پر بھروسا ہے، انہوں نے کہا کہ کولکاتا میں دو لاکھ سے زیادہ ہاکرز ہیں حالانکہ آخری سروے میں یہ تعداد 61,000 بتائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں اتنے منظم بازار اور فٹ پاتھ نہیں ہیں کہ اتنے زیادہ ہاکروں کو وہاں بسایا جا سکے۔
سیاسی تجزیہ نگار حسین رضوی بنگال میں شروع کی گئی بلڈوزر کے سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممتا بنرجی کی حکومت بنگال میں تیسرے معیاد کے لیے اقتدار سنبھالے ہوئے ہے لیکن وہ اپنے طویل اقتدار میں لوگوں کو نوکری دینے اور روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیفٹ کے دور اقتدار میں جب ہاکروں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی تھی تب ممتا بنرجی ہاکروں کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھیں اور انہیں روزگار سے محروم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے بعد ہاکرز ایسوسی ایشن نے بھی ممتا بنرجی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ممتا بنرجی نے اپنے دس سالہ اقتدار میں ان ہاکروں کو پھلنے پھولنے کا موقع بھی دیا انہیں کارڈس اور باقاعدہ دستاویزات بھی فراہم کیے گئے تھے لیکن اب اچانک ان کے خلاف کارروائی حیران کن ہے۔ اس کاروائی کے پیچھے دو مقاصد ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ لوک سبھا الیکشن میں بھلے ہی ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن اگر جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کئی شہری علاقوں میں بی جے پی دوسرے نمبر پر رہی۔ ممتا بنرجی کو محض چند ووٹوں سے ہی کامیابی مل سکی ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ یہ باہر کے لوگ ہیں جو بنگال میں آ کر بس گئے ہیں اور انہوں نے ہی بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاکرس ایسوسی ایشن کی جانب سے دی جانے والی چندے کی رقم میں کمی بھی کارروائی کی وجہ ہو۔ حسین رضوی نے مزید کہا کہ ان کارروائیوں سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ممتا بنرجی جو ہمیشہ غریبوں کے حق میں بات کرتی ہیں، وہ ان ہاکروں کے خلاف شاید کوئی بڑی کارروائی نہیں کریں گی کیونکہ ایسی صورت میں ان کی عوامی امیج کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کارروائی سے ایسے لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جو غیر قانونی طور پر کاروبار نہیں کر رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو جلد بازی کے بجائے ہاکروں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہیے۔
جوائنٹ ہاکر فورم، نیو مارکیٹ کے ممبران سنی شا، محمد امتیاز، محمد شاہنواز اور محمد سیف علی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’دیدی ہماری روزی روٹی کو تباہ نہیں کریں گی۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ منظم طریقے سے ہاکروں کو دوبارہ آباد کرنے کا کوئی منصوبہ لے کر آئیں گی”
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024