بنگال کے مہاجر مزدور بکثرت جنوبی ہند کا رخ کیوں کرتے ہیں؟
بالاسور ٹرین حادثہ کے بعد ممتا بنرجی نے غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جائے وقوع کا دو مرتبہ دورہ کیا۔ محض چند دنوں میں تقریب منعقد کرکے ورثا کے درمیان چیک تقسیم کر دیے۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ گزشتہ 12 سال سے اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟
دعوت نیوز بیورو، کولکاتہ
کورومنڈل ٹرین کے بالاسور اسٹیشن پر حادثہ کے بعد ممتا بنرجی نے غیر معمولی مستعدی کا مظاہر کرتے ہوئے جائے حادثہ کا دو مرتبہ دور کیا اور حادثے کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آئیں۔ حادثے کے پانچ ہی دنوں بعد انہوں نے مہلوکین کے ورثا اور زخمیوں میں معاوضے کی رقم تقسیم کر دی۔ ممتا بنرجی کی اس غیر معمولی مستعدی نے متاثرین کے تئیں ان کی ہمدردی، حساسیت اور احساس ذمہ داری کو واضح کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ متاثرین کے لواحقین کے اکاونٹ میں راست طور پر رقم منتقل کرنے کے بجائے انہیں اسٹیج پر بلا کر چیک تھمانے کی ضررورت کیا تھی۔ وہ بھی ایسے وقت جبکہ انہوں نے محض پانچ دن پہلے ہی اپنے عزیزوں کو کھویا ہے اور غم سے باہر نہیں نکل پائے؟ کئی لوگوں نے شکایت کی کہ بیشتر خواتین کو پروگرام میں شرکت کے لیے مجبور کیا گیا۔ ان میں کئی مسلم خواتین بھی شامل تھیں۔ مسلم پرسنل لا کے مطابق عدت کے دوران بیوہ خواتین کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔
بنگال کے سیاسی تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ دراصل ٹرین حادثہ کو ممتا بنرجی نے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے کیوں کہ محض تین ہفتے کے بعد بنگال میں پنچایت کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ممتا بنرجی پاپولر سیاست کی ماہر ہیں، انہیں اس طرح کے مواقع کا استعمال کرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ ٹرین حادثہ یقیناً ریلوے انتظامیہ کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ ریلوے امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ریلوے کی سیکیورٹی کے سوالات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ماہرین نے وزیر اعظم مودی کی وندے بھارت ٹرین میں غیر معمولی دلچسپی پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ ریلوے کی سیکیورٹی پر جتنے سوالات اٹھ رہے ہیں وہ سب اپنی جگہ مسلم ہیں تاہم، چند ایسے سوالات بھی ہیں جن کا جواب خود ممتا بنرجی کو بھی دینا چاہیے۔ اس ٹرین حادثہ میں اب تک 103 بنگالی شہریوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ سو سے زائد ایسی لاشیں ہیں جن کی ابھی تک شناخت نہیں ہوئی ہے۔
کورومنڈل ایکسپریس جو ہوڑہ کے شالیمار ریلوے اسٹیشن سے چنئی کے لیے ہر روز روانہ ہوتی ہے، اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بنگال کے مہاجر مزدوروں کے لیے امیدوں کی ٹرین ہے۔ ہر دن ہزاروں نوجوان جنوبی ہند میں بہتر روزگار کے لیے اس ٹرین کے ذریعہ رخت سفر باندھتے ہیں۔ کولکاتہ سے جنوبی ہند کی ریاستوں کے لیے روانہ ہونے والی ہر ٹرین کی صورت حال یہی ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بنگال میں معاشی ترقی اور ملازمتوں کی کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر بنگال میں بہتر مواقع ہوتے تو ہر دن سیکڑوں بنگالی نوجوانوں کو جنوبی ہند کی ریاستوں کی طرف ہجرت کرنا نہیں پڑتا۔
ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق بنگال کے ستر لاکھ سے زیادہ مزدور کیرالا اور جنوبی ہند کی دیگر ریاستوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں، جہاں وہ چار تا سات سو روپے یومیہ کماتے ہیں۔ کیرالا اور تمل ناڈو میں بنگالی مزدوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ مہاراشٹرا، دلی اور یہاں تک کہ جموں و کشمیر میں بھی بنگالی مہاجر مزدور کام کرتے ہیں۔ مغربی بنگال مائیگرنٹ لیبرس یونین کے صدر ایس ایم سدی کہتے ہیں کہ ستر لاکھ سے زیادہ تارکین وطن مزدور دوسری ریاستوں میں کام کرتے ہیں اور بہت سے حادثات میں مر جاتے ہیں۔ بنگالیوں کے پاس بنگال میں نوکریوں کی کمی کی وجہ سے دوسری ریاستوں میں معمولی ملازمتیں کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایس ایم سدی کہتے ہیں کہ حکومت نے آزادی کا امرت مہوتسو منایا، امرت کال کی نقاب کشائی کی اور وندے بھارت ایکسپریس ٹرینیں شروع کیں لیکن بنگال میں بے روزگاری کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے قائم مقام جج کے ذریعہ اس حادثے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ہماری یونین نے تمام مرنے والے مہاجر مزدوروں کے لواحقین کے لیے خصوصی معاوضہ کا مطالبہ کیا ہے۔ بنگال حکومت یا پھر مرکزی حکومت صرف ان لوگوں کو معاوضہ دے رہی ہے جن کی لاش کی شناخت ہوسکی ہے۔اس حادثہ کے لیے ریاستی حکومت اور مرکز کو یکساں ذمہ داری لینی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سینگور سے نینو کار کی فیکٹری کی منتقلی کے بعد بنگال میں با مقصد سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت نے منریگا اسکیم میں بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے گزشتہ دو سال سے منریگا ورکروں کو معاوضہ نہیں دیا ہے۔اس کی وجہ سے بنگال کے دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دیہی علاقوں کے باشندے بہتر معاش کے لیے دوسری ریاستوں کو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ممتا بنرجی جو گزشتہ 12 سالوں سے بنگال میں برسر اقتدار ہیں، انہوں نے دیہی علاقوں کے مزدوروں کی ہجرت روکنے اور انہیں بنگال میں ہی بہتر معاش فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ مرشدآباد کے ساگر دیگھی میں ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد ممتا بنرجی نے کورونا وائرس کے دور میں دیگر ریاستوں سے واپس آنے والے مہاجر مزدوروں کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کمیٹی کی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا مگر کئی مہینے گزر جانے کے باوجود اب تک یہ کمیٹی وجود میں نہیں آئی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023