بنگال کے بی جے پی لیڈر کا متنازعہ بیان،حالات کی سنگینی کا عکاس

’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کے بجائے ’جوہمارے ساتھ ہیں ہم انہی کے ساتھ ہیں‘

شبانہ جاوید ،کولکاتہ

ملک میں برسراقتدار جماعت اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی راہ پر؟
’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ وزیراعظم نریندر مودی کا ایک ایسا نعرہ ہے جسے ملک بھر میں مقبولیت ملی۔ اس نعرے کو سامنے رکھ کر بی جے پی نے پارٹی کی اقلیت مخالف امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک میں بھی اس نعرے کو کافی مقبولیت ملی۔ حالانکہ اس نعرے کو سامنے رکھ کر وزیراعظم اور مرکزی حکومت کو کئی معاملوں میں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ سماجی تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں اقلیتی اسکیموں کے تعلق سے مرکز کی فیصلے پر وزیراعظم نریندر مودی کے اس نعرے کو یاد دلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ لیکن ان سب سے آگے بڑھتے ہوئے بنگال سے بی جے پی کے لیڈر شوبھیندو ادھیکاری نے صاف طور پر کہا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس نہیں بلکہ اب ہمارا یہ نعرہ ہوگا کہ جو ہمارے ساتھ ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس بیان سے ملک بھر میں سیاسی ہلچل تیز ہو گئی ہے کیونکہ بی جے پی پر اقلیتی مخالف ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ ایسے میں بنگال اسمبلی میں بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر شوبھیندو ادھیکاری کا یہ بیان بی جے پی کی اقلیت مخالف امیج کو سامنے لاتی ہے جبکہ بی جے پی کے ریاستی صدر سوکانت مجمدار نے اس بیان سے پارٹی کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ شوبھیندو ادھیکاری کا اپنا ذاتی بیان ہے۔ بعد میں انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی سماج کے ہر طبقے کے لیے کام کرتی ہے ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس بیان کے سامنے آنے کے بعد بی جے پی کے کئی لیڈروں نے شوبھیندو ادھیکاری کی حمایت کی ہے تاہم اکثریت ایسے لیڈروں کی ہے جنہوں نے اس بیان کو حیران کن بتایا ہے۔ شوبھیندو ادھیکاری نے پارٹی کے اقلیتی مورچہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کے اقلیتی ونگ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد بھی سیاسی ہنگامہ آرائیاں ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی دانشوروں کے ایک بڑے طبقے نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس بیان کے بعد اقلیتی طبقے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے اس طرح کے بیانات لوگوں میں تقسیم اور بھید بھاؤ کی سوچ کو بڑھاوا دیں گے۔ شوبھیندو ادھیکاری بنگال کے جس اسمبلی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں وہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ ترنمول کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہونے والے شوبھیندو ادھیکاری مدنی پور کے ایک مضبوط لیڈر ہیں جو کبھی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے کافی قریبی تھے۔ مدنی پور میں ان کو ترنمول کانگرس کا ایک مضبوط لیڈر مانا جاتا تھا جن کا اقلیتوں میں بھی کافی اثر تھا۔ ممتا بنرجی سے ناراضگی کے بعد بنگال میں 2021 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شوبهیندو ادھیکاری نے ممتا بنرجی کا ساتھ چھوڑتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور ان کے خلاف کھل کر سامنے آئے تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ بی جے پی میں آنے کے باوجود بھی وہ مسلم ووٹ بینک کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم، بعد میں مسلم ووٹرز ان کے ساتھ زیادہ دنوں تک نہیں ٹک پائے۔ ان کے مطابق ان کے علاقے میں انہوں نے جتنے بھی ترقیاتی کام کیے اور مرکزی اسکیموں کو نافذ کیا ہے اس میں دونوں ہی طبقوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد انہیں مسلمانوں کی جانب سے وہ مقبولیت نہیں ملی جو انہیں حاصل تھی۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات اور چار حلقوں کے اسمبلی ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو بنگال میں کافی نقصان پہنچا۔ الیکشن کے بعد ریاستی بی جے پی کی پہلی میٹنگ میں شوبھیندو ادھیکاری نے یہی متنازعہ بیان دے کر کئی اندیشوں کو جنم دیا۔ گرچہ انہوں نے بعد میں واضح کیا کہ ان کا مطلب وزیر اعظم کے نعرے کی مخالفت کرنا نہیں تھا بلکہ پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے انہوں نے سیاسی طور پر جو محسوس کیا وہ کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میں اپنے حلقے میں جاتا ہوں تو وہاں پر ہونے والے ترقیاتی کاموں سے ہندو اور مسلمان دونوں مستفید ہوتے ہیں۔ اب بھی ہم سنتے ہیں کہ بی جے پی ایک ہندو پارٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کالے جھنڈے دکھائے جاتے ہیں اور ہماری گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے۔ ہم نے اب تک جو کچھ بھی کیا ہے وہ ملک کے ہر شہری کے لیے ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور میرے بیانات ذاتی ہیں ان کا پارٹی کی سوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے حلقے میں اقلیتی مورچہ تھا جس کے بینر تلے ہم نے ملن اتسو پروگرام میں سات سو لوگوں کے ساتھ عید منائی۔ اس کے باوجود لوک سبھا انتخابات کے دوران یہاں سے بی جے پی امیدوار ابھیجیت گنگولی کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ ووٹنگ نے بی جے پی کو کافی متاثر کیا ہے جبکہ بی جے پی کے ریاستی سوکانت مجمدار نے اس بیان سے پارٹی کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا ذاتی بیان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے کسی بھی طبقے کے لوگوں کے درمیان تفریق کرنے کے لیے نہیں کہا۔ ان کا مطلب تھا کہ ہمیں بحیثیت پارٹی اس حصے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جہاں سے ہمیں لوگوں کی حمایت مل رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اقلیتوں کی حمایت بی جے پی کو نہیں ملی۔
پارٹی کی ریاستی ایگزیکٹو میٹنگ میں جے پی کے کئی لیڈروں نے شوبھیندو ادھیکاری کی حمایت کی۔ پارٹی کے سابق ریاستی صدر، تتھاگتا رائے کے مطابق، سیاست میں بہت سے لوگوں میں سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے۔ شوبھیندو، نے جو کہا وہ بی جے پی کے ہزاروں کارکنوں کے دل کی بات ہے۔ بی جے پی کے سابق ایم پی ارجن سنگھ نے بھی کہا کہ اس نے جو کہا میں یقینی طور پر اس کی حمایت کرتا ہوں۔
سماجی کارکن مختار احمد کے مطابق شوبهیندو ادھیکاری کے بیان کی حمایت اور اس جیسی سوچ رکھنے والے بی جے پی لیڈر ریاست کے مسلم طبقے کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سماجی کارکن اور پیشے سے پروفیسر نیلنجنا چودھری نے کہا کہ بی جے پی کے پاس سوائے نفرت کی سیاست کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف ممتا بنرجی نے مسلم ووٹ بینک پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے جب کبھی انہیں لگتا ہے کہ مسلم ووٹ بینک ان سے دور ہو رہا ہے وہ بی جے پی کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو احساس دلاتی ہیں کہ بی جے پی ان کے ساتھ بہت کچھ غلط کرسکتی ہے۔ وہیں بی جے پی بھی اپنی اس امیج کو ٹھیک نہیں کر پائی ہے تو مسلمان بی جے پی پر بھروسہ کیوں کریں۔ بی جے پی لیڈر کے اس طرح کے بیانات مسلمانوں کے اندیشے بڑھا سکتے ہیں۔ نیلنجنا نے مزید کہا کہ بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات میں بنگال میں اچھے ووٹ حاصل کیے ہیں بشمول کولکاتا، جہاں عملی طور پر بی جے پی کی کوئی تنظیمی طاقت نہیں ہے۔ بی جے پی کو جادو پور، ڈمڈم، بشیرہاٹ یا مرشد آباد جیسے حلقوں میں حاصل ہونے والے ووٹوں کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ترنمول کانگریس کے ‘اقلیتی انحصار’ کے برعکس، بی جے پی کو ہندوؤں کے ردعمل سے کچھ فائدہ ہوا ہے۔ شوبھیندو ادھیکاری اس رجحان کو تیز کرنا چاہتے ہیں۔
ترنمول لیڈر فرہاد حکیم نے شوبھیندو ادھیکاری کے بیان کو افسوسناک بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بی جے پی کی سیاست کا اصلی چہرہ ظاہر کر دیا ہے۔ اگر انہوں نے پارٹی کے نظریے کے خلاف کچھ کہا ہے تو بی جے پی ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی ہے؟ آل بنگال اقلیتی یوتھ فورم کے چیرمین قمرالزماں نے کہا کہ بی جے پی کا مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا اور انہیں مایوس کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ہر طبقے کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے لیکن بی جے پی نے مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس سوچ کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔
بنگال کے لوک سبھا اور ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی سیٹیں گنوائی ہیں۔ ایسے میں 2021 میں مضبوط اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے والی بی جے پی کے لیے 2026 کے اسمبلی الیکشن میں اپنے مضبوط دعوے کو برقرار رکھنا ایک بڑا چلینج ہوگا ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024