معاشی ترقی کے لیے ایم ایس ایم ای‏ (MSME)بہتر متبادل

چھوٹی اور متوسط صنعتوں کے بغیر ترقی کو رفتار دینا ممکن نہیں

(دعوت نیوز بیورو، کولکاتا)

فی الحال بھارت کی آبادی ایک سو چالیس کروڑ سے زائد ہو گئی ہے جس میں 65فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے جو 35سال سے کم عمر کے ہیں۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے یکم مارچ 2023کی رپورٹ کے مطابق 75فیصد ملک کے نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے اسی وجہ سے ملک کی 3.7ٹریلین ڈالر کی معیشت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ لہذا موجودہ حالات میں معاشی ترقی پر فخر کرنے کی بجائے نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں تاکہ لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو اور ملک کی اکثریت کو غربت کے عذاب سے نجات ملے۔ اس سمت میں بہت چھوٹی، چھوٹی اور اوسط صنعتوں (MSMEs) کے فروغ کے ذریعے کام کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا ملک زرعی شعبہ کے ذریعے 42 فیصد روزگار فراہم کرتا ہے۔ 32 فیصد شعبہ خدمات کے ذریعے اور صنعتی دور میں محض 25 فیصد ہی شعبہ صنعت سے روزگار کا نظم ہو پاتا ہے۔ حال یہ ہے کہ ہم سالہا سال سے زراعت اور خدمت کے شعبوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں جہاں اعلیٰ درجے کی ملازمت کا فقدان ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم صنعت کے فروغ کی باتیں کریں۔ رجسٹرڈ ایم ایس ایم ای انٹرپرینور پورٹل کے مطابق موجودہ مالی سال میں 18.4 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ گزشتہ سال محض دس ہزار ایم ایس ایم ای ہی بند ہوئے تھے۔ جاریہ مالی سال میں بند ہونے والے انکم ٹیکس ایم ایس ایم ای کی تعداد 2016-2020 کے دوران بند ہونے والے ایم ایس ایم ای کی تعداد سے بہت زیادہ ہے حکومت کی فکر مندی اور اٹھائے گئے اقدام کے باوجود کل رجسٹرڈ میں سے 0.59 فیصد یعنی 30997 کو اپنے رجسٹریشن رد کروانے پر مجبور ہونا پڑا۔ 67 فیصد نے اپنے انٹرپرینورشپ کو غیر معینہ وقت کے لیے بند کر دیا اور ایس آئی ڈی بی آئی کے سروے کے مطابق 50 ہزار سے زائد لوگوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ شعبہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرتا تھا مگر اب وہ مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے۔ آج سے پانچ سال قبل جی ایس ٹی ٹیکس نٹ ورک کے مالی سال 2021-22 کی ایک رپورٹ کے مطابق جی ایس ٹی کے لیے رجسٹر کی گئیں کمپنیوں کی تعداد 1.45 کروڑ تھی جن میں 78 فیصد ٹیکس نجی اور پبلک کمپنیوں، غیر ملکی اور دیگر سرکاری اداروں سے حاصل ہوا اس میں مالکانہ حقوق والی کمپنیوں سے جی ایس ٹی 13.28 فیصد اور شراکت والی کمپنیوں سے جی ایس ٹی محض 7.21 فیصد ہی مل پایا۔
دوسری طرف 69.8فیصد کل ٹیکس چھوٹی اور بڑی صنعتوں سے ملتا ہے۔ 16.67فیصد چھوٹی صنعتوں سے اور 3.53فیصد جی ایس ٹی مائیکرو اور چھوٹی اکائیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے وقت اور حالات کی اہم ضرورت ہے کہ مائیکرو اور چھوٹی صنعتوں کو جی ایس ٹی کی شرح میں راحت ملے۔ معاملہ جب بھی ہو ملک کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے ایم ایس ایم ای بہتر متبادل ہے۔ اس میں ہر آنے والے مسائل کو نظر انداز کرنے سے ہماری ترقی یکجہتی ہی رہ جائے گی۔ بھارت کے کل ایم ایس ایم ای میں سے 50 فیصد دیہی علاقے میں کام کرتے ہیں اور حصول روزگار میں اس کی حصہ داری 45 فیصد ہوتی ہے۔ ایم ایس ایم ای وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق کل روزگار کا 97 فیصد حصہ مائیکرو سیگمنٹ سے ملتا ہے۔ اس لیے ایم ایس ایم ای پر توجہ دیے بغیر معاشی ترقی کو رفتار دینا ممکن ہے خواہ حکومت کتنا ہی ترقی کے دعوے کرے۔ ہمارے ملک کا ایک المیہ یہ بھی ہے بڑی کمپنیوں کو کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کا فائدہ تو مل جاتا ہے مگر ایم ایس ایم ای کے ٹیکس میں کسی بھی طرح کی رعایت نہیں دی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا قہر کے وقت اور اس کے بعد کام میں لگنے والی پونجی اور کام کو چلانے کے لیے سرمایہ بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس طرح کا سرمایہ ایک قلیل تعداد صنعتوں کو ہی مل پاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرض کے ایم ایس ایم ای کو قرض کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کے بجائے سابقہ اور نئے قسطوں کا بوجھ بھی ان کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔
جاریہ سال کے عام بجٹ کے ٹیکس قانون میں ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت چھوٹے وینڈرس کو 45 دنوں کے اندر چھوٹی کمپنی اگر ادائیگی نہیں کرتی ہے تو اس رقم کو ٹیکس سے رعایت کے لیے نہیں دکھایا جاسکتا اور اس پر ٹیکس کی ادائیگی ضروری ہوگی، ویسے ٹیکس کے منشا میں کوئی کسر نظر نہیں آتی ہے۔ مگر اس ترمیم سے لوگوں کو فائدہ کے بجائے نقصان ہوسکتا ہے۔ اولاً ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے خوف سے کچھ بڑی کمپنیاں چھوٹی کمپنیوں اور انٹرپرینورس (منتظمین) سے خریداری بند کردیں گی۔ اس شعبہ کے علاوہ ہونے والی خریداری پر اس اس ترمیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا 2021 کے مادری تعطیل قانون کے ساتھ ہوا تھا۔ مگر اس سے ان کے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے۔ اگرچہ یہ قانون خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا۔ مذکورہ ترمیم کی مشکل یہ بھی ہے کہ اس میں ایک آڈیٹر کی ضرورت پڑتی ہے جو مالی سال کے اخیر تک بقایا کا حساب کرکے اس نظم میں بڑے خریدار کی ادائیگی کو آئندہ سال کے لیے موخر کردے گا اور اس مالی سال میں پورے ٹیکس کی ادائیگی پر پوری رعایت حاصل کرلے گا اور اسے کسی طرح کا جرمانہ بھی نہیں دینا ہوگا کیونکہ جو اس سال اس کا نقصان ہوگا آئندہ سال اس کی تلافی کرلے گا۔ چارٹرڈ اکاونٹنٹ اسوسی ایشن کے جرنل میں ترمیم کے اس اثر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال صحیح طریقہ یہی ہوگا کہ بڑے خریداروں کو جی ایس ٹی جمع کرنے میں ہر طرح کی رعایت کو ختم کیا جائے۔ چونکہ سبھی خریداروں کی تفصیلات جی ایس ٹی نیٹ ورک میں درج رہتی ہیں چھوٹے اور میڈیم انٹر پرینور کی شناخت رجسٹریشن نمبر سے ہوجاتی ہے تو کسی بڑی کمپنی کو آئندہ ماہ یا 45 دنوں کے دورانیہ کے بعد سے جی ایس ٹی ریٹرن دائر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کسی انٹرپرینور کو بڑی خریدار کمپنی کے ذریعہ کی گئی ادائیگی کی تصدیق آر بی آئی کے ٹریڈ ریسو پلیس پورٹل پر درج اندراج سے ہو جاتی ہے۔ یہ سبھی سرگرمیاں مختلف شعبہ جات کے ذریعے چلتی ہیں اس لیے کسی بھی طرح کے غیر اصولی عمل اور بدعنوانی پر قدغن لگا دیتی ہے۔ اس کا کچھ فائدہ ضرور ہوگا کہ چھوٹے اور میڈیم انٹرپرینور تباہ ہونے سے بچ جائیں گے اور اپنے بڑے خریداروں کو ناخوش کرنے کے خدشات سے خود کو محفوظ رکھ پائیں گے جس سے منتظم کو اپنی کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت ایم ایس ایم ای کے مفاد کے مد نظر اس کے تحفظ کے لیے ایسا قدم اٹھا سکتی ہے خواہ بڑے کارپوریشن اس اقدام کی کتنی ہی مخالفت کیوں نہ کریں۔ اس حالت میں انہیں ڈیڑھ ماہ کے اندر ادائیگی کرنی ہوگی۔ ویسے چھوٹے اور میڈیم انٹرپرینورس کو قوت فراہم کرنے کی حکومت کی کوشش قابل ستائش ہے لیکن مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
اس سمت میں وزیر اعظم نے ٹویٹ کرتے ہوئے مائیکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرینور کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے کریڈٹ گارنٹی منصوبہ میں حالیہ تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ چھوٹے اور جھولے انٹرپرینورس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کم شرح سود پر بروقت قرض کی دستیابی سے ہے کیونکہ اس شعبہ کے لیے بینکوں میں رقم کی تفویض بہت کم ہے۔ وہ اس لیے کہ اس شعبہ میں رقم کے ڈوب جانے کا خطرہ رہتا ہے تب بھی یہی وہ شعبہ ہے جو صنعتی میدان میں پیداوار روزگار اور برآمدات میں 50 فیصد تک ہاتھ بٹاتا ہے۔ ملک میں ایسے انٹرپرینورس کی تعداد تقریباً 6.40 کروڑ ہے۔ شعبہ خدمات میں بھی اس کی ساجھے داری ہے جس میں سیلون، پان کی دکان اور موچی کی دکان وغیرہ ہیں جہاں محض ایک ہی فرد کام کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ شعبہ میں تقریباً 12 لاکھ انٹرپرینور ہیں ان سبھوں کے مجموعے کو مائیکرو چھوٹا اور جھولا انٹرپرینور کہا جاتا ہے۔
***

 

***

 ہمارا ملک زرعی شعبہ کے ذریعے 42 فیصد روزگار فراہم کرتا ہے۔ 32 فیصد شعبہ خدمات کے ذریعے اور صنعتی دور میں محض 25 فیصد ہی شعبہ صنعت سے روزگار کا نظم ہو پاتا ہے۔ حال یہ ہے کہ ہم سالہا سال سے زراعت اور خدمت کے شعبوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں جہاں اعلیٰ درجے کی ملازمت کا فقدان ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم صنعت کے فروغ کی باتیں کریں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023