بہرائچ میں انکاؤنٹر اور بلڈوزر نا انصافی جماعت اسلامی ہند کی جانب سے عدالتی جانچ کا مطالبہ

آر ایس ایس کے پروگرام پر مسلم حملے کی حقیقت بہار میں شراب بندی کے باوجود درجنوں اموات، کیا قانون مذاق بن چکا ہے؟

محمد ارشد ادیب

اتراکھنڈ میں یوم تاسیس پر یو سی سی نافذ کرنے کی تیاری چمولی میں مسلمانوں کو الٹی میٹم
شمالی بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں ان دنوں کشیدگی کا ماحول ہے۔ مرحوم راحت اندوری نے ایک بار کہا تھا:
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
شمالی ہند میں اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے کہ جب بھی صوبے میں کسی انتخابات کی آہٹ سنائی دیتی ہے، ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے۔ مشرقی یو پی کے ضلع بہرائچ میں ہونے والے فرقہ وارانہ واقعات کی روداد بھی کچھ اسی طرح کی معلوم ہوتی ہے حالانکہ وہاں کوئی انتخابات نہیں ہو رہے ہیں محض بعض سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے اعلان سے ہی ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔ بہرائچ میں ابھی تک جنگلی بھیڑیوں کی دہشت تھی لیکن اب شہری فرقہ پرست بھیڑیے ان کی جگہ دندناتے پھر رہے ہیں۔
فساد، انکاؤنٹر اور بلڈوزر نا انصافی ضلع
بہرائچ سے پینتیس کلومیٹر دور قصبہ مہاراج گنج فرقہ وارانہ فساد کے بعد اجڑ سا گیا ہے۔ چاروں طرف خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ درجنوں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں جو باقی بچے ہیں ان کی آنکھوں میں خوف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلمان اس قدر سہم گئے ہیں کہ فساد کے بعد آنے والے پہلے جمعہ کی نماز مسجد غریب نواز میں ادا نہیں کی جا سکی۔ مقامی صحافیوں کے مطابق مورتی وسرجن کے جلوس میں اسی مسجد کے پاس سے فساد کی شروعات ہوئی تھی۔ عینی شاہدین نے بتایا جلوس کے دوران اشتعال دلانے والے گانے بجائے جا رہے تھے اس پر مسلمان خاموش رہے لیکن جب ہجوم نے چھتوں پر لگے ہوئے سبز رنگ کے پرچم اتار کر بھگوا جھنڈے لگانے کی کوشش کی گئی تو معاملہ بگڑ گیا۔ رام گوپال مشرا جسے ایک وائرل ویڈیو میں عبدالحمید صراف کے گھر پر سبز پر چم اتار کر بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے صاف دیکھا جا سکتا ہے اسے گولی لگی۔ کچھ میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ رام گوپال مشرا پر بھیڑ کی جانب سے گولی ماری گئی لیکن گولی کس نے چلائی اس کی تفتیش جاری ہے۔ فی الحال عبدالحمید اور ان کے بیٹوں کو کلیدی ملزم بنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ عبدالحمید کے دو بیٹوں کو انکاؤنٹر میں گولی لگی ہے جبکہ عبدالحمید کی بیٹی کا بیان وائرل ہوا ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ اس کے شوہر اور دیور کو ایس ٹی ایف گھر سے اٹھا کر لے گئی ہے جبکہ ان دونوں کا فساد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس اب تک 88 افراد کو فساد کے الزام میں جیل بھیج چکی ہے۔ مہاراج گنج میں اندھا دھند گرفتاریوں کے بعد بلڈوزر کارروائی کے لیے 23 مکانات و دکانات پر پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے انہدامی کارروائی کے نوٹس چسپاں ہو چکے ہیں۔ ان پر سڑک کی زمین پر ناجائز تجاوزات کا الزام ہے۔ مقامی باشندوں نے اس کارروائی میں بھی بھید بھاؤ اور امتیاز ی سلوک کا الزام لگایا ہے۔ جن دکانوں پر نوٹس لگائے گئے ہیں ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے صرف تین مکان غیر مسلموں کے ہیں جبکہ آس پاس کے ہندوؤں کے مکانوں و دکانوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مکانات اور دکانیں غیر قانونی تجاوزات کے دائرے میں آتے ہیں تو فساد سے پہلے نوٹسیں کیوں نہیں دی گئیں اور نوٹسیں سب کو کیوں نہیں جاری کیے گئے؟ نوٹس میں صرف تین دن کی مہلت دی گئی ہے جبکہ اکثر لوگ جو پولیس سے اپنی جان بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں وہ نوٹس کا جواب کیسے دیں گے؟ عبد الحمید کے وکیل نے نوٹس کا جواب دینے کے لیے مہلت میں توسیع کی مطالبہ کیا ہے۔ فساد کے دوران ایک ہسپتال کے ساتھ گاڑیوں کے شوروم کو بھی جلا دیا گیا۔ شوروم کے مالک سعید احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پارٹنر کا نام انوپ شکلا ہے اور وہ دونوں ہمیشہ سے مل جل کر رہتے آئے ہیں ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ مقامی باشندوں کے مطابق رام گوپال مشرا کی شو یاترا میں باہر سے آنے والے شرپسندوں نے توڑ پھوڑ اور آگ زنی میں اہم کردار ادا کیا۔ فی الحال قصبے میں پولیس کا پہرہ ہے۔ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ ٹیموں یا تنظیموں کو قصبے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علماء کے وفود نے بہرائچ کا دورہ کر کے کچھ لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ مقامی صحافیوں کے مطابق مہاراج گنج فساد میں مقامی انتظامیہ اور پولیس کی لاپروائی سامنے آئی ہے لیکن ابھی تک صرف چھوٹے افسروں پر کارروائی ہوئی ہے۔ سی ای او مہیسی رویندر گوڑ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ تحصیلدار روی کانت دویدی اور ضلع اطلاعات افسر غلام وارث کا تبادلہ کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری برائے ملکی اور ملی امور ملک معتصم خان نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ٹیم کو مہاراج گنج جانے کی اجازت نہیں ملی لیکن بہرائچ میں سماج کے ذمہ دار لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے ان سے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی لاپروائی سے صورتحال بگڑی ہے اور اب بھی مجرموں کے بجائے مظلوموں پر مقدمے دائر ہو رہے ہیں۔ انہیں بلڈوزر سے ڈرایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی اس معاملے کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بلڈوزر کارروائی کے خلاف اے پی سی آر بھی قانونی مدد فراہم کرے گی۔ انہوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے مہلوک رام گوپال مشرا کے گھر والوں کے لیے ایکس گریشیا کے اعلان کو نامناسب بتایا ہے کیونکہ کسی کے گھر میں گھس کر جھنڈا اتارنا یا لگانا دونوں ہی غلط ہیں اس طرح کسی مذہب کے جلوس میں کسی دوسرے سماج کو گالی دینا یا اس کے خلاف نعرے بازی کرنا کوئی مذہب نہیں سکھاتا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لکھنو میں ذمہ دار افسروں اور لیڈروں سے ملاقات کر کے مظلومین کو انصاف دلانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
راجستھان میں آر ایس ایس کے پروگرام پر حملہ، ذمہ دار کون؟
جے پور کے علاقے کرنی وہار کے شیو مندر میں آر ایس ایس نے شرد پورنیما کے موقع پر ایک پروگرام منعقد کیا جس میں مندر کے پڑوسیوں سے کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ اس خبر کو جے پور ٹائمز کے علاوہ کئی میڈیا چینلوں نے دکھایا کہ نصیب چودھری نے آر ایس ایس کے پروگرام پر حملہ کر دیا جس میں دس لوگ زخمی ہو گئے۔ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حملہ کرنے والے مسلمان تھے۔ ڈی ایف آر اے سی نے جب اس خبر کا فیکٹ چیک کیا تو پتہ چلا کہ نصیب چودھری اور ان کے بیٹے بھیشم چودھری پڑوس کے مندر میں دیر رات شور شرابے سے پریشان تھے۔ انہوں نے جب اس کی شکایت کی تو ان کے گھر پر بھیڑ نے حملہ کر دیا جس کے جواب میں نصیب اور ان کے بیٹے کے ساتھ مار پیٹ میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ اس خبر کو میڈیا نے ہندو مسلم بنا کر پیش کر دیا جبکہ نصیب چودھری جاٹ ہیں اور ان کے گھر والے مندر انتظامیہ میں شامل ہیں۔ جاٹ مہا سبھا کے صدر کلدیپ ڈھیوا نے اس کی تصدیق کی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ نے بہرائچ معاملے میں مارے گئے رام گوپال مشرا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے جھوٹی خبریں شائع کیں۔ یو پی پولیس کے ساتھ محکمہ صحت کے حکام نے اس کی تردید کی تب جھوٹی خبریں آنا بند ہوئیں۔ ان دونوں واقعات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ موجودہ ذرائع ابلاغ ہندو مسلم کے نام پر رائی کا پہاڑ بنانے کے کام پر لگے ہوئے ہیں بلا تصدیق ایسی خبریں چلائی جا رہی ہیں جو پورے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ خبر کے نام پر افواہ اور دھرم کے نام پر ادھرم ہمارے سماج کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے، حکومت کے ساتھ سماج کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اتراکھنڈ میں یو سی سِول کوڈ نافذ کرنے کی تیاری
پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی تیاری پوری ہو چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قانون ساز اور عمل در آمد کمیٹی نے یو سی سی کا مسودہ اور ضابطے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو پیش کر دیے ہیں۔ اسے ریاست کے یوم تاسیس نو نومبر کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کے محکمہ انصاف یو سی سی کو نافذ کرنے سے پہلے اس کے ضابطوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئی تو سب کے لیے ایک جیسا قانون یعنی یو سی سی نافذ کرے گی۔ اب قانونی ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آئین کی جن دفعات کے تحت مسلم پرسنل لاز کو تحفظ ملتا ہے ان کا کیا ہوگا؟ کیا صوبائی حکومتوں کو ایسے قوانین بنانے کی اجازت ہے جو بھارت کی آئینی دفعات سے ٹکراتی ہوں؟ اتراکھنڈ میں رہنے والے مسلم اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا کیا ہوگا؟ فی الحال جب تک یو سی سی کے تمام قوانین اور ضابطے منظر عام پر نہ آ جائیں تب تک حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ملی تنظیمیں پہلے ہی اس قانون کی مخالفت میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ ریاست کے ضلع چمولی میں مسلمانوں کو باہر نکلنے کے لیے 31 دسمبر تک کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ یہ الٹی میٹم اب مقامی ویاپار منڈل کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ اس الٹی میٹم میں مسلمانوں کے ساتھ ان مقامی باشندوں کے بھی بائیکاٹ کی دھمکی دی گئی ہے جو مسلمانوں کو اپنے مکانات اور دکانیں کرایے پر دے رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس ریاست میں یو سی سی لاگو ہونے سے پہلے یہ عالم ہے وہ مسلمانوں کو اپنے پرسنل لاز پر کیسے عمل کرنے دیں گے؟
بہار میں شراب بندی کا مذاق، درجنوں اموات
بہار میں شراب بندی کا قانون مذاق بن چکا ہے۔ ریاست میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی ہے اس کے باوجود شراب پینے سے درجنوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تازہ واقعات میں ریاست کے اضلاع سارن سیوان اور گوپال گنج میں زہریلی شراب پینے سے تقریباً چار درجن افراد مر چکے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے نتیش کمار کی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ شراب بندی سوپر فلاپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شراب بندی قانون نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس سے ہونے والی اموات ادارہ جاتی بدعنوانی کا ایک چھوٹا نمونہ ہیں۔ واضح رہے کہ ریاست میں اس سال سیلاب سے بھاری تباہی ہوئی ہے فصلیں برباد ہونے سے عوام بھی پریشان ہیں لیکن اس کے باوجود شراب کی اسمگلنگ جاری ہے۔ نیپال اور یو پی کے سرحدی علاقے شراب کے اسمگلروں کے اڈے بن چکے ہیں جو مقامی افسروں اور سیاسی سرپرستوں کی بغیر ممکن نہیں ہے۔
تو صاحبو یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024