بہرائچ فساد کے سلسلے میں حکومت کی بے حسی ناقابل برداشت
وحشی بھیڑ کا حملہ ہو تو مظلوم آدمی کیا کرے؟ سرکاری وضاحت ضروری
قاسم سید، دلی
بہرائچ جلتا رہا، سارے نیرو بانسری بجاتے رہے۔ مرکزی حکومت خاموش رہی کیونکہ لا اینڈ آرڈر ریاست کا مسئلہ ہے مگر یہ اصول بنگال کے معاملہ میں نہیں چلتا، وہاں کوئی واقعہ رونما ہونے پر فوری طور پر گورنر سے رپورٹ منگوائی جاتی ہے اور ریاستی حکومت کو پے درپے وارننگ دی جاتی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ صابن ہمارا ہے کھائیں یا لگائیں!
بہرائچ فساد کے پس منظر میں ان بیانات کی گونج سنائی دے رہی ہے جو یوگی و مودی سے لے کر بھاگوت تک دیے گئے’ دیے جارہے ہیں جن کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا سیدھا سادا مفہوم یہی ہے کہ اکثریتی طبقہ کو آواز دی جارہی ہے کہ “بٹو گے تو کٹو گے” ہندو متحد ہو جائیں، بانٹنے کی سازش بین الاقوامی سطح کی ہے وغیرہ۔ بنگلہ دیشی ہندوؤں پر مبینہ مظالم کی داستانیں بیاں ہوئیں۔ وزیر اعظم نے تو باقاعدہ لال قلعہ سے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ تب کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اصول لاگو نہیں ہوتا! ہاں ہمارے یہاں کی اقلیت سے متعلق کسی کا بیان یا رپورٹ اندرونی امور میں مداخلت ہے اور ناقابل قبول ہے۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی مگر ضروری تھی۔
بہرائچ میں کیا ہوا کیسے ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔مورتی وسرجن کے جلوس کو مسجد کے پاس روک کر ڈی جے بجایا گیا اشتعال انگیز، اکسانے والے گانے میں مسلمانوں کو نیچا دکھانے والے الفاظ تھے، اس دوران کہیں سے پتھر چلے ایک مورتی کا ہاتھ ٹوٹا، ہجوم مشتعل ہوا وہاں کے ایک دبنگ مسلم کے گھر میں رام گوپال مشرا کے ساتھ بھیڑ گھسی اس کے گھر پر لگا اسلامی جھنڈا جو چھت کی ریلنگ پر لگاتھا ریلنگ سمیت گرا دیا گیا اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لگا دیا پھر گولی چلی اور یہ بہادری دکھانے والا بہادر مارا گیا۔ اس کے بعد انتقام کی آگ بھڑکی، گھروں میں آگ لگائی گئی، چن چن کر دکانیں نذر آتش کی گئیں، نرسنگ ہوم پھونک دیا گیا، بے قابو بھیڑ ہاتھوں میں دیسی اسلحے لیے لاٹھی ڈنڈوں، بلّم، طبل وغیرہ کے ساتھ سڑکوں پر جگہ جگہ گھومنے لگی۔ پولیس بھی ان کے ساتھ نظر آئی۔ گھر جلے، دکانیں خاکستر کی گئیں، کس کس کا نقصان ہوا یہ کھلا راز ہے کہ ظالم مظلوم بن گئے اور مظلوم ظالم۔ پانچ خوف زدہ خاندان گھروں کو قفل ڈال کر محفوظ مقام کی طرف نکل گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ رام گوپال مشرا گھر میں ہی تو گھسا تھا، ریلنگ ہی تو توڑی تھی، بھگوا ہی تو لہرایا تھا، اس فتح کے بعد جے شری رام کے نعرے ہی تو لگائے تھے۔ یہ اتنا بڑا قصور تو نہیں تھا کہ "معصوم” کی جان لے لی جائے۔ بالکل ٹھیک۔ اس کو ہرگز منصفانہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن قانون کے دیے ہوئے حق سیلف ڈیفینس میں کب قدم اٹھایا جائے اس کی توضیح ہونی چاہیے۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی آؤ بھگت کرتے، اسے صوفے پر بٹھاتے پھر چائے وغیرہ پیش کی جاتی آنے کا مقصد تو واضح تھا ہی، اس کو احترام کے ساتھ چھت پر لے جاتے، اسلامی جھنڈا اکھاڑنے اور اس کی جگہ بھگوا لگانے میں اس کی مدد کرتے، گھر کی چابیاں پیش کرتے اور فسادیوں سے مزید کسی خدمت کی گزارش کی جاتی اور عزت واحترام سے باہر تک چھوڑ کر آتے۔ نہ فساد بھڑکتا نہ پولیس کو اتنی زحمت کرنی پڑتی۔
بہرائچ کی آگ بھلے ہی دھیمی ہوگئی ہو مگر اس کے نتائج سماجی طور پر بہت خطرناک ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی سنگینی کو انتخابی نفع نقصان کے کارپٹ کے نیچے چھپا دیا جائے لیکن ناسور بنتے دیر نہیں لگے گی۔ سماجی انصاف اور ذات پر مبنی مردم شماری کے طاقتور بیانیہ سے خوفزدہ ہندوتو طاقتیں “ہندو ایک ہوں” کا بیانیہ دوبارہ سیٹ کرنے کی کوشش میں ہمیشہ کی طرح اس کا ایندھن مسلمانوں کو بنا رہی ہیں۔ کیونکہ یہ اس کا پسندیدہ چارہ ہے۔ اس سے مچھلی جلد کانٹا نگلتی ہے۔ وہ آسان ٹارگٹ ہے کیونکہ اس کی نہ مضبوط قیادت ہے نہ کوئی بھروسہ مند پارٹی۔ان کو اکثریتی سماج کے لیے بوجھ، ناقابل قبول بنانے کی حکمت عملی، لا علاج بیماری، نفرت کی علامت، راشٹر دروہی، دیش دروہی، تشدد پر اکسانا، ان کو ملک کے لیے لعنت بتانا، ان کی وفا داری، حب الوطنی پر لگاتار حملے کرنا، ان کی لیڈر شپ (جیسی بھی ہے) کو بی ٹیم بتانا، اعتماد کے رشتے کو کمزور کرنا، مسلکی اختلافات کی آگ میں گھی ڈالنا اور ان کو پاکستان بھیجنے کا مشورہ دینا یا مطالبہ کرنا۔ اکثریتی سماج کی ان سے بے زاری کو نفرت میں بدلنے کی مسلسل کوشش کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس حالت میں لوک سبھا الیکشن سے پہلے کا فرقہ وارانہ ماحول واپس لایا جائے۔ بہرائچ کا فساد اسی سوچ کا ایکسٹینشن ہے۔اس کے نفرتی سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنا ہے۔صرف ایک پتھر یہ کام کر جاتا ہے۔ اس فساد کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ سفاک،بے رحم اور سنگ دل ہے، وہ وہاں کے اکثریتی سماج کا زہر میں بجھا رویہ ہے۔ میڈیا سے عام آدمی نے جو گفتگو کی اس سے لگتا ہے کہ نفرت کی کھیتی کرنے والے بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔انتقام کی آگ میں شکار کی تلاش میں گھومتا ہوا پاگل ہجوم میڈیا سے ٹکرایا تو اس نے سرکار کو برا بھلا کہا۔ سو الگ ان کے معصومانہ مطالبے اور انکشافات دل دہلانے والے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ مشرا کے قاتلوں کا انکاؤنٹر کیا جائے، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جائے، مارکیٹ میں ان کی دکانوں پر بھی بلڈوزر چلایا جائے،ان کے گھروں اور مسجدوں کی تلاشی لی جائے، وہاں سے ایک ٹرک اسلحہ نکلے گا وغیرہ۔
یہی نہیں مین اسٹریم میڈیا نے جو کھیل کھیلا بلکہ حسب عادت اپنی خبیث فطرت کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ پوسٹ مارٹم کی جھوٹی رپورٹ کو پورے ملک میں پھیلا کر نفرت کے ایسڈ کو مسلمانوں پر چھڑکا وہ قابل معافی نہیں۔ کیا کوئی تنظیم یا این جی او اس معاملہ کو عدالت میں لے جائے گی؟ بہرائچ میں انکاونٹر کی گونج سنائی دی جیسا کہ ہندو اکثریت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ سرکار یہ اشارہ دینا چاہتی ہے کہ ہم چوڑیاں کسنے میں کوئی کمی نہیں کر رہے ہیں بس سارے ہندو ایک پیچ پر آجائیں۔
بہرحال بہرائچ کی فساد زدہ زمین سے آنے والی آوازیں مستقبل کی تشویش ناک صورت حال کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد انتظامیہ اور حکومت کا رویہ ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک سیاسی پارٹیوں کا طرز عمل ہے جو چین سے بیٹھی ہیں۔ وہیں مسلم جماعتیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں۔ نوجوانوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے کہ وہ ردعمل دیں تاکہ منافرت کی آگ بھڑکانے میں مدد ملے اور ‘بٹو گے تو کٹو گے’ کا پیغام دور دور تک جائے۔
اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اپنی لڑائی خود لڑنی پڑے گی، کوئی ساتھ دے تو ٹھیک ورنہ رونے کے لیے بھی دوسرے کا کندھا ڈھونڈنے کی روایت ختم کرنی ہوگی۔ حیرت ہے کہ ملت اسلامیہ کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود خود کو مجبور وبے بس سمجھ رہی ہے بہرائچ میں قتل کے واقعہ کی حمایت نہیں کی جا سکتی مگر ان کو یہ تو بتائیں کہ جس وقت بہرائچ جیسے حالات پیش آئیں، سر پر موت ناچ رہی ہو تو دفاع کے لیے کیا کریں؟ گھر میں گھس کر من مانی کرنے کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس طرح کا معاملہ دوبارہ نہ ہو اس کی کون ضمانت دے گا؟ جب پولیس تماشائی ہو تو فریادی کہاں جائے؟
پریس ریلیز ہر مرض کی دوا نہیں ہے۔ کیا ہم یقین کرسکتے ہیں کہ اجتماعی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے گی؟ اس منظر کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ کیا بہرائچ نقطہ اشتراک (اتحاد نہیں) بن سکتا؟
***
***
بہرحال بہرائچ کی فساد زدہ زمین سے آنے والی آوازیں مستقبل کی تشویش ناک صورت حال کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد انتظامیہ اور حکومت کا رویہ ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک سیاسی پارٹیوں کا طرز عمل ہے جو چین سے بیٹھی ہیں۔ وہیں مسلم جماعتیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں۔ نوجوانوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے کہ وہ ردعمل دیں تاکہ منافرت کی آگ بھڑکانے میں مدد ملے اور ‘بٹو گے تو کٹو گے’ کا پیغام دور دور تک جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024