بٹو گے تو کٹو گے پر لکھنو میں ‘پوسٹر جنگ ’
یو پی میں ضمنی انتخابات کی تاریخ بڑھانے پر سیاست تیز۔ بی جے پی کی کمزوری اپوزیشن کے نشانے پر !
محمد ارشد ادیب
جھارکھنڈ میں روٹی، بیٹی اور ماٹی کے نام پر نفرت کی سیاست بلڈوزر نا انصافی پر یوگی حکومت کو سپریم کورٹ کی سرزنش
کمبھ میلہ میں ٹینٹ کی زمین پر سادھو سنتوں میں لڑائی اجودھیا میں رام للا کی مورتی ٹھنڈسے ٹھٹرنے لگی!
شمالی ہند کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ضمنی انتخابات کے لیے سیاسی گھمسان جاری ہے۔ برسر اقتدار جماعت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے رائے دہی کی تاریخ 20 نومبر تک بڑھا دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسے بی جے پی کی کمزوری بتا کر تنقید کی جا رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ووٹنگ کی تاریخ بدلنے پر طنز کرتے ہوئے کہا”بی جے پی اتنی کمزور کبھی نہیں تھی، پہلے ملکی پور کا الیکشن ٹالا اور اب الیکشن کی تاریخ ٹالیں گے تو اور بھی بری طریقہ سے ہاریں گے” بہوجن سماج آزاد پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ ہے بی جے پی میرا پور میں سیٹ ہار رہی ہے اس لیے الیکشن کی تاریخ بڑھا دی گئی ہے، صحافیوں پر بھی ظلم ہو رہا ہے لیکن ان کی پارٹی اس کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرے گی۔
بی جے پی نے تیوہاروں کے مد نظر کم ووٹنگ ہونے کے خدشے سے بچنے کے لیے تاریخ بدلوانے کا مطالبہ کیا تھا، اپوزیشن اس دلیل کو بودا قرار دے رہی ہے۔ اپوزیشن کے مطابق دیوالی اور چھٹ کے تیوہار پر دلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں سے مہاجر مزدور اپنے وطن آتے ہیں انہیں بھی رائے دہی میں شامل ہونے کا موقع ملنا چاہیے، کیونکہ کارتک پورنیما کے بعد ان کی واپسی شروع ہو جاتی ہے، تاریخ بدلنے سے وہ الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ اس سے پہلے بھی اپوزیشن جماعتیں ووٹروں کی فہرستوں میں گھپلے کے الزامات لگا چکی ہیں۔ ڈاکٹر لکشمن یادو نے ایکس پر لکھا "الیکشن کمیشن کے ثبوت مانگنے پر سماج وادی پارٹی نے اٹھارہ ہزار ووٹ کاٹنے کی فہرست پیش کی تھی لیکن اس کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔ جب ووٹنگ کا حق ہی غیر محفوظ ہے تو جمہوریت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟
ریاستی حکومت پر بی ایل او یعنی بوتھ لیول آفیسر سے لے کر ضلع کلکٹر اور پولیس کپتانوں کی منمانی تعیناتی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
یو پی میں چھڑی پوسٹر وار؟
یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے متنازعہ نعرے "بٹو گے تو کٹوگے” پر پوسٹر وار چھڑی ہوئی ہے، جوابی نعرے بھی اچھالے جا رہے ہیں۔ ایس پی لیڈر شیوپال سنگھ یادو نے کہا ’’نہ بٹیں گے نہ کٹیں گے بلکہ بانٹنے والے کو ہی پیٹیں گے‘‘ لکھنو میں کانگریس دفتر کے باہر پوسٹر لگایا گیا ’’بٹنے کا نعرہ دینے والوں کے منصوبے توڑیں گے محبت کی دکان کھولیں گے‘‘ سماجوادی پارٹی کے دفتر کے باہر پوسٹر لگایا گیا "ایک ہیں اور ایک رہیں گے بٹیں گے تو گیس سلنڈر بارہ سو روپے میں ملے گا اور ایک رہیں گے تو چار سو روپے میں ملے گا” یو پی کی یہ پوسٹر جنگ اب دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی اپنا سیاسی رنگ دکھا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کے دور کی سیاست عوامی فلاح و بہبود کے بجائے بانٹنے، کاٹنے اور لڑانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کانگریس کے صدر کھرگے نے اس نعرے کا جواب دیتے ہوئے کہا’’بانٹنے والے بھی تم کاٹنے والے بھی تم‘‘ مہاراشٹر میں این سی پی کے لیڈر اجیت پوار نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی ریاست میں بٹیں گے تو کٹیں گے والا نعرہ نہیں چلنے والا ہے۔ یہاں سبھی لوگ مل جل کر رہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اجیت پوار بی جے پی کی اتحادی ہونے کے باوجود بانٹنے والی نفرتی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتے۔
جھارکھنڈ میں روٹی بیٹی اور ماٹی کا سیاسی بیانیہ
جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات مہم میں بھی نفرتی بیان بازی اپنے عروج پر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ذو معنی بیان دے کر سیاسی تبصروں کا پٹارہ کھول دیا ہے۔ انہوں نے جھارکھنڈ کی سنکلپ یاترا میں اپوزیشن پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جھارکھنڈ میں روٹی بیٹی اور ماٹی محفوظ نہیں ہیں۔ جے این یو کے سابق پروفیسر وی کے ترپاٹھی نے وزیر اعظم کے اس بیان کو نفرتی بیان قرار دیتے ہوئے شدید نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ اس ملک میں نفرت ایک خاص لیول تک پہنچ چکی ہے جہاں کچھ لوگ ہجومی تشدد میں بھی خوشی محسوس کر رہے ہیں، ایسے ماحول میں اتنا زہریلا اور خطرناک بیان کوئی غدار یا ملک کا دشمن بھی نہیں دے سکتا، یہ صرف اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اکثریتی طبقے کا دماغ بھی پراگندہ ہو سکتا ہے۔
سماجی رابطے کی سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر چائے سموسہ جلیبی نام کے اکاؤنٹ پر وزیر اعظم کے بیان کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے تین الگ الگ خبریں پوسٹ کی گئی ہیں۔ پہلی خبر میں دکھایا گیا ہے کہ انہتر ہزار اساتذہ کی بحالی میں ریزرویشن بے ضابطگی کے سبب نوکری سے محروم رہ جانے والے امیدواروں پر یو پی پولیس لکھنو میں کس طرح لاٹھیاں برسا رہی ہے۔ دوسری خبر میں ایک ماں اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی ہراسانی کی شکایت پر پولیس کے مظالم کی داستان بیان کر رہی ہے اور تیسری خبر میں لکھنو کے چودھری چرن سنگھ ایئرپورٹ کے پاس رہنے والے ان باشندوں کی فریاد ہے جنہیں اڈانی کی کمپنی نے ایرپورٹ کی توسیع کے نام پر اجاڑ دیا یے۔ اطلاعات کے مطابق ایرپورٹ اتھارٹی نے ان کی زمینیں زبردستی چھین لی ہیں، نہ انہیں کوئی معاوضہ دیا گیا اور نہ ہی ان کی شکایت سنی گئی ہے بلکہ احتجاجی دھرنا دینے پر ان کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی ہے۔ ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے زمانے سے یہ زمین سرکاری ہے، ہائی کورٹ نے بھی اسے تسلیم کیا ہے البتہ کچھ کسانوں کے مسائل ہیں جنہیں جلد حل کر دیا جائے گا۔ کسان اس کے خلاف پچھلے پچیس دنوں سے زیادہ احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کسانوں نے الزام لگایا کہ سرکاری کارندے اڈانی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت اور اڈانی گروپ کے درمیان ہونے والے قرار کے مطابق دو نومبر 2020 سے چودھری چرن سنگھ انٹرنیشنل ایرپورٹ کی دیکھ بھال کا کام پچاس سال کے لیے اڈانی گروپ کو دیا گیا ہے۔ اڈانی کی کمپنی اس کی توسیع کے لیے باؤنڈری وال بنوا رہی ہے۔ ایرپورٹ کے جنوبی حصے میں تقریباً دو سو ساٹھ ایکڑ اراضی پر کسان کھیتی کر رہے ہیں، اس میں محمد پور بھکتی کھیڑا اور رحیم آباد گاؤں کی اراضی شامل ہے۔ اب مقامی کسان سوال کر رہے ہیں کہ جب مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر ووٹ حاصل کیے تھے تو اب وہ صرف سرمایہ کاروں کے لیے کام کیوں کر رہے ہیں؟
بلڈوزر کے ناجائز استعمال پر پھنسی یوگی حکومت
بلڈوزر بابا کے نام سے مشہور ہونے والے یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بلڈوزر کے ناجائز استعمال کے معاملے میں پھنس گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ضلع مہاراج گنج میں روڈ چوڑی کرنے کے نام پر ایک صحافی کا گھر گرایے جانے کو ظلم و انارکی قرار دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے متاثرہ شخص کو پچیس لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی بھی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ کے مشہور وکیل محمود پراچہ نے اس فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کئی اہم سوال اٹھائے ہیں، انہوں نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ ہر گھر کا معاوضہ پچیس لاکھ روپے نہیں ہو سکتا، کسی کا دو کروڑ روپے کا بھی ہو سکتا ہے۔ متاثرہ شخص کے گھر کی قیمت کے ساتھ اس کے دیگر نقصانات کی بھی بھرپائی ہونی چاہیے اور یہ معاوضہ سرکاری خزانے کے بجائے غلط کارروائی کرنے والے افسروں اور قصور واروں کی ذاتی املاک سے ہونا چاہیے کیونکہ سرکاری خزانے میں پیسہ عوام کے ٹیکس کا ہوتا ہے، اسے افسروں یا لیڈروں کی غلطیوں پر نہیں لٹایا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ بلڈوزر کے ذریعے انصاف یا حساب نہیں ہو سکتا، شہریوں کی جائیدادوں کو برباد کر کے ان کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا، قانون میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بہرائچ کے مہاراج گنج فساد میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ نے بلڈوزر کارروائی پر کئی اہم سوال کیے ہیں۔ کورٹ نے کہا ہے کہ ضابطے کی کارروائی پوری کیے بغیر کسی ذاتی مکان یا دکان کو نہیں گرایا جا سکتا، اس کے باوجود یو پی میں کئی مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں مقامی انتظامیہ اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مختلف بہانوں سے بلڈوزر کی انتقامی کارروائی کرتے ہیں۔ کانپور میں مامو-بھانجے کے نام سے مشہور مبین احمد کے ریسٹورنٹ کو منہدم کر دیا گیا کیونکہ بجرنگ دل نے ریسٹورنٹ کے مالک پر نام چھپانے اور نان ویج کھانا پکانے کا الزام لگایا تھا۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بلڈوزر نا انصافی پر طنز کرتے ہوئے ایکس پر لکھا جرمانہ لگانے والی حکومت پر ہی کورٹ جرمانہ لگا رہا ہے۔ بھاجپا کے راج میں یو پی میں پھیلی ہوئی بد انتظامی کا اور کیا ثبوت چاہیے؟
بدایوں میں دلت بیٹی کی شادی پر میریج ہال نہ دینے کا معاملہ
بدایوں کے سہسوان قصبے میں بالمیکی سماج کے ایک شخص نے شادی ہال کے مالکوں پر بیٹی کی شادی کے لیے میرج لان نہ دینے کا الزام لگایا ہے، اس نے سہسوان کے ڈپٹی کلکٹر کو ایک شکایتی عرضی دی ہے کہ ذات برادری کے منفی جذبے سے متاثر ہو کر انہیں شادی ہال نہیں دیا جا رہا ہے۔ اچھن لال نے چار میریج ہالوں کے نام بھی دیے ہیں۔ سوشل میڈیا میں اس خبر کو اس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہندوؤں کی طرح مسلمان بھی دلتوں سے نفرت کرتے ہیں۔ جبکہ اقبال میریج ہال کے مالک ایڈووکیٹ جاوید اقبال نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنا شادی ہال ٹھیکے پر دے رکھا ہے، ٹھیکے دار نے بتایا کہ چار فروری کے لیے ان کا شادی ہال پہلے سے بک تھا جس کی اطلاع شکایت کرنے والے شخص کو دی گئی ہے۔ ان کے مطابق زیادہ تر شادی ہال پہلے سے بک ہیں صرف نارائن شادی ہال کے بارے میں جانکاری ملی ہے کہ بکنگ اماؤنٹ پر اتفاق نہ ہونے کے سبب شادی ہال دینے سے انکار کیا گیا تھا جسے چھوت چھات سے جوڑ کر شکایت کی گئی ہے۔ بہرحال ضلع انتظامیہ اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔
بہار میں ریل ملازم کی حادثے میں درد ناک موت
بہار کے برونی ریلوے جنکشن پر ایک ریل ملازم کی دردناک موت ہو گئی۔ اطلاعات کے مطابق امر کمار ٹرین کی کپلنگ کھول رہا تھا کہ ٹرین ڈرائیور کی لاپروائی سے وہ کپلنگ کے بیچوں بیج دب گیا اور دو گھنٹے تک دبا رہا۔ ٹرین ڈرائیور اسے بچانے کے بجائے موقع سے فرار ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر صارفین ریلوے کے وزیر اشونی کمار سے سوالات پوچھ رہے ہیں۔ ایکس پر ایک صارف نے ریل منتری کو رِیل منتری کے طور پر مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ واقعہ بھی چھوٹا اور عام سا حادثہ ہے؟ دراصل پچھلے کچھ برسوں میں ریلوے کی خدمات بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں۔ ٹرین حادثے متواتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن ریلوے وزیر ان کی ذمہ داری لینے کے بجائے رِیلیں بنانے اور میڈیا مینجمنٹ میں لگے رہتے ہیں جس کے سبب ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
کنبھ میلہ میں ٹینٹ کی زمین حاصل کرنے پر سادھوؤں و سنتوں میں لڑائی
پریاگ راج سے خبر وائرل ہوئی ہے کہ دنیاوی مہامایا چھوڑ کر رہبانیت اختیار کرنے والے سادھو سنت کنبھ میلا علاقے میں زمین الاٹ کرانے کے لیے آپس میں ہی لڑنے لگے اور افسروں کے سامنے ہی ایک دوسرے پر لاتیں اور گھونسیں برسانے لگے۔ اس پر ایک ایکس صارف نے تبصرہ کیا کہ واقعی یہ عجیب بات ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ مذہبی اور روحانی راستے پر چلنے کے باوجود انسان کو اس کے ذاتی مفادات اور لالچ اسے تنازع اور تشدد کے راستے پر لے جاتے ہیں۔
آخر میں ایک دلچسپ خبر۔ شمالی ہند میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی ایودھیا میں بھی سردی شروع ہو گئی ہے، نتیجے میں رام للا کی مورتی کو بھی ٹھنڈ لگنے لگی ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق مورتی کو گرم پانی سے اشنان کروایا جا رہا ہے ساتھ ہی گرم کپڑے بھی پہنائے جا رہے ہیں۔ رام مندر کے پجاری اشوک اپادھیائے نے بتایا کہ رام للا کو ایک بچے کی طرح گرم و سرد موسم میں بچایا جاتا ہے۔ اس پر مکیش موہن نام کے صارف نے ایکس پر دلچسپ تبصرہ کیا انہوں نے لکھا "کسی دن یہ نہ کہہ دے کہ رام للا کو لگنے لگی چناؤ لڑنے کی طلب، ایودھیا کی سیٹ سے اتریں گے میدان میں!
تو صاحبو یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024