بت کدہ میں اذاں

بھارت میں دعوت دین کے لیے نئی اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

داعی کا مقصد زندگی مخاطب کو شکست دینا اسے لاجواب کردینا یا اسے نیچا دکھانا نہیں ہے نہ اپنی برتری ثابت کرنا ہے، طاقت آزمائی بھی مقصد نہیں ہے بلکہ خاموشی سے دل میں اتر جانا اور دل کو اپنے ہاتھ میں لینا مقصد ہے۔
راقم السطور نے کئی بار لکھا ہے کہ بھارت میں پیغمبرانہ مشن ڈی ریلمنٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ مصلحین نے اور علماء کی قیادت نے اپنی زبان سے کبھی وہ بات نہیں کہی جو پیغمبروں نے اپنے زمانہ میں اپنی قوموں کو کہی ’’مالکم من الہ غیرہ‘‘ اے میری قوم بتوں کی پرستش مت کرو شرک مت کرو صرف اکیلے اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی خالق ہے وہی رازق ہے۔ وہی ذات واحد عبادت کے لائق ہے، وہی سب کی اطاعت کے لائق ہے۔ یہ وہ آوازہ ہے جسے ہر پیغمبر نے اپنے اپنے زمانہ میں بلند کیا ہے۔ یا قوم اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ أفلا تتقون یعنی اے قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ یہی وہی دعوت ہے جسے حضرت آدم سے لے کر آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے پیش کی ہے۔ یہ تمام انبیاء کرام کی مشترکہ دعوت تھی، یہی وہ کام ہے جس پر اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے اسی کام پر قدم جما دینے کا اور طاقتور بنا دینے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے۔ ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم لیکن ہم نے اس ملک میں اپنی پوری تاریخ میں اور دور حکومت میں یہی ایک کام ہے جو نہیں کیا ہے اور اس ایک کام کے سوا ہر کام کیا ہے۔ آزادی کے بعد ہم نے اپنے حقوق کی لڑائی لڑی ہے، ہم نے اپنے بقاء اور تحفظ کے لیے حکومت کے سامنے اور مختلف پارٹیوں کے سامنے سیاسی مطالبات رکھے ہیں، ہم نے معاشی محرومیوں پر احتجاج کیا ہے، ہم نے ہر ظلم وزیادتی کے خلاف آواز بلند کی ہے،ہم نے انتخابات میں بھی حصہ لیا ہے، حکومتوں کی تشکیل میں بھی رول ادا کرنے کی کوشش کی ہے،وفد بنا کر حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے اور شکایتیں بیان کی ہیں، جلوس بھی نکالے ہیں اور احتجاجی جلسے بھی کیے ہیں،اپنے مطالبات بھی رکھے ہیں۔ ہم نے ملک کے قائدین کے سامنے سارے مطالبات رکھے لیکن توحید کی دعوت نہیں دی،اسلام کا تعارف نہیں کرایا۔ ہم نے سیرت کے جلسے کیے تو غیر مسلم بھائیوں کو مدعو نہیں کیا۔ہم نے سارے کام محض اپنی بقاء اور تحفظ کے لیے کیے۔
ہر پیغمبر نے اپنے اپنے زمانہ میں توحید کی دعوت دی، اور اگر یہ روایت صحیح ہے کہ حضرت آدم ہندوستان میں اترے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید کا آوازہ سب سے پہلے ہندوستان میں بلند ہوا اور مولانا ارشد مدنی کا یہ بیان درست ہے کہ اصل گھر واپسی ہندوستان کے تمام باشندوں کا اسلام قبول کرنا ہے۔ اس اعتبار سے مولانا ارشد مدنی کا رام لیلا گراونڈ میں یہ اعلان کہ اسلام سب سے پہلا دین ہے جو ہندوستان میں آیا غلط نہیں ہے۔اور وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کے تمام باشندے توحید کی دعوت کو قبول کرلیں۔لیکن اس کے لیے مناسب طریقہ سے دعوتی مہم کا آغاز ہونا چاہیے۔
یہ ضرور ہے کہ ایک داعی کا مقصد زندگی مخاطب کو شکست دینا اسے لاجواب کردینا یا اسے نیچا دکھانا نہیں ہے نہ اپنی برتری ثابت کرنا ہے، طاقت آزمائی بھی مقصد نہیں ہے بلکہ خاموشی سے دل میں اتر جانا اور دل کو اپنے ہاتھ میں لینا مقصد ہے۔ مبلغین اسلام کو دلوں کو فتح کرنے کوشش کرنی چاہیے، مناظرہ سے بحث وتکرار سے گریز کرنا چاہیے، فطرت اپنی فتوحات حاصل کرنے کے لیے اپنا تعلق اور رشتہ دلوں سے قائم کرتی ہے۔ فطرت کھانے میں لذت پیدا کرتی اور انسان کھانا کھالیتا ہے۔پھولوں کا خوشنما منظر سامنے آتا ہے اور انسان کے قدم رک جاتے ہیں، ٹھنڈی ہوا کا دلنواز جھونکا آتا ہے اور انسان کو میٹھی نیند سلادیتا ہے،مبلغین اسلام کو چاہیے کہ اخلاق ومحبت کے پھولوں سے دلوں کو رام کریں ان کو اپنے اجتماعات میں بلائیں تو گفتگو کا انداز مشفقانہ اور خیر خواہانہ ہو نہ کہ مناظرانہ اور مجادلانہ۔ صحیح بات بھی اگر مخاصمانہ انداز میں کہی جائے گی تو وہ غیر حکیمانہ کہی جائے گی۔ برادران وطن سے گفتگو میں لب ولہجہ نرم ہونا چاہیے۔ موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے دعوت اسلام کے لیے یعنی توحید کی دعوت دینے کے لیے فرعون کے پاس بھیجا تو حکم ہوا کہ زبان کی نرمی اختیار کرنا (قولا لہ قولالینا) اکبر الہ آبادی کا شعر ہے
بنوگے خسروے اقلیم دل شیریں زبان ہوکر
جہاںگیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہوکر
ایک جدید شاعر نے کہا
تم اپنے لہجہ میں تازہ گلاب رکھ لینا
پھراس کے بعد سارا چمن تمہارا ہے
ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں جب بڑی تعداد میں برادران وطن موجود ہوں اور ان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہو تو وہاں مناظرہ اور مجادلہ کی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت نرمی کے ساتھ اوربموثر طریقہ سے دلائل کے ساتھ اسلامی عقائد کو پیش کرنا چاہیے۔ لسان قوم میں گفتگو کرنا چاہیے۔ (وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ) دینی مدارس کا نصاب ایسا ہو کہ طلبا میں لسان قوم میں مہارت اور ممارست پیدا ہو۔ ایک زمانہ سے مدارس کا ایک حلقہ یہ کہتا آیا ہے کہ نصاب میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ یہ غلط نقطہ نظر ہے۔
اسلام کے نظام عقائد کو، عقیدہ توحید کو، عقیدہ رسالت کو اور عقیدہ آخرت کو موثر طریقہ سے پیش کرنا حقوق کی لڑائی لڑنے سے زیادہ ضروری کام ہے۔ یہ وہ کام ہے جس پر اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے پیغمبرانہ مشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ یہ مشن مسلمانوں کی زندگی سے غائب ہوگیا ہے اور اسی لیے اللہ کی نصرت نازل نہیں ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی قیادت کی توجہ بھی اس طرف نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں توحید کے عقیدہ نے اور انسانی مساوات کے دلکش عقیدہ نے پھر اس کے بعد عدل اجتماعی کے نظام نے اور تہذیبی نفاست نے سب سے زیادہ بھارت کے باشندوں کی توجہ مبذول کرائی۔لیکن اب ایک صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا مسلمان صرف حقوق کی لڑائی میں مصروف ہیں اور پیغمبرانہ مشن ان کی زندگی سے نکل گیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے اپنی تقریر میں باتیں درست کہیں لیکن انداز گفتگو میں ایک داعی کی زبان کی شیرینی اور دلنوازی نہیں تھی۔ ہم نے دعوت سے ایک مدت ہوئی دست برداری اختیار کر لی ہے اور ہم لہجہ میں تازہ گلاب رکھنا بھول چکے ہیں۔ ہمیں دعوت کے لیے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023