بشار الاسد کا زوال: صہیونی خواب کی تعبیر یا خطے کا نیا بحران؟
بین الاقوامی طاقتوں کی کشمکش ۔اسرائیل، ایران اور روس کی چالیں۔ شام میں جنگ کا ایک نیا اور پیچیدہ باب
سید تنویر احمد
سکریٹری، مرکزی تعلیمی بورڈ
ترکیہ کی نظریاتی جنگ ۔ جنگ زدہ ملک میں اپنے اثرات کو مستحکم کرنے کی کوشش
شام، جو انبیاء و رُسل کی سرزمین ہے، پر بین الاقوامی سیاست کی شطرنج کی بساط بچھائی جا چکی ہے اور اس کھیل میں کئی مہرے اور ان کے پیچھے کئی کھلاڑی موجود ہیں۔ اس کھیل میں کون جیتے گا، یہ آنے والا وقت بتائے گا، لیکن فی الوقت جو واقعات سامنے آ رہے ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہو رہا ہے۔
صہیونی طاقتوں کا ایک اہم ایجنڈا "گریٹر اسرائیل” کا قیام ہے، اور اس کے حصول کے لیے ایک اہم حکمتِ عملی یہ ہے کہ اسرائیل کے پڑوسی ممالک کو نیوٹرلائز یعنی بے اثر کر دیا جائے۔ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں اپنے اس مقصد کو مؤثر انداز میں حاصل کیا ہے۔ اسرائیلی جنگی تاریخ میں پہلی بار ایک دن میں تقریباً 250 ہوائی حملوں کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ یہ حملے شام میں ان مراکز پر کیے گئے جو فوجی، انٹیلیجنس، اور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اسرائیلی صدر اور وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اسرائیل کے دفاع اور مستقبل کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہیں۔
اسرائیل کے پڑوسی ممالک پر اثرات
واضح رہے کہ اسرائیل نے اپنے پڑوسی ممالک میں سے اردن اور مصر کو بڑی حد تک اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ لبنان میں موجود حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کر کے اس گروپ کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ ان حملوں میں جدید ترین میزائل اور دیگر ہتھیار استعمال کیے گئے، جن کے نتیجے میں حزب اللہ کی قیادت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ لبنان کے بعد اسرائیل کی توجہ شام کی جانب مبذول ہو چکی ہے، جو طویل عرصے سے اسرائیل کے لیے ایک بڑا حریف رہا ہے۔
هيئة تحرير الشام (HTS) اور اسرائیل کی حکمت عملی
شام میں حالیہ تبدیلیوں کے دوران هيئة تحرير الشام (HTS) کے بڑھتے ہوئے اثرات کو اسرائیل ممکنہ خطرہ سمجھ رہا ہے۔ صہیونی طاقتوں کے "گریٹر اسرائیل” کے نقشے میں موجودہ شام بھی شامل ہے۔ دوسری طرف، هيئة تحرير الشام کی نظر میں شام کا مطلب صرف موجودہ ملک شام ہی نہیں، بلکہ وہ خطہ بھی ہے جس میں اسرائیل شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل هيئة تحرير الشام کو اپنے مستقبل کا دشمن تصور کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی اس خطرے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں اور خفیہ معلومات کو عسکری گروپوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں یہ ہتھیار اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
بشار الاسد کی پسپائی اور اسرائیلی کارروائیاں
بین الاقوامی میڈیا بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے اور حزبِ مخالف کے عسکری گروہوں کی پیش قدمی کو رپورٹ کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کی کارروائیوں کے نقصانات پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں نہ صرف 200 سے زائد ہوائی حملے کیے ہیں بلکہ گولان کی پہاڑیوں کے قریب اپنی فوج بھی تعینات کر دی ہے۔ ان پہاڑیوں سے دمشق تقریباً 30 کلومیٹر اور بیروت 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اگر ان پہاڑیوں پر اسرائیلی فوجی مستقل طور پر ٹھکانے قائم کر لیتے ہیں تو یہ مستقبل میں بیروت اور دمشق کی حکومتوں پر نظر رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
امریکہ کی شمولیت
شام کے حالیہ واقعات میں امریکہ کے ملوث ہونے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ شام "ریگستان اور موت” کی سرزمین ہے اور وہاں امریکہ کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ کا ڈیپ اسٹیٹ، بشمول خفیہ ایجنسیاں اور ہتھیاروں کے ڈیلرز، شام میں پوری طرح سرگرم ہیں۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح عراق میں صدام حسین کے زوال سے پہلے امریکہ نے عراقی فوجی افسروں کو ورغلایا تھا، اسی طرح شام میں بھی امریکی ایجنٹوں نے بشار الاسد کے قریبی حلقوں تک رسائی حاصل کی۔
ایران اور شام
ایران نے بشار الاسد کی حکومت کی طویل عرصے تک حمایت کی ہے۔ 2011 میں بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج اور 2013 کی خانہ جنگی کے دوران ایرانی افواج، پاسدارانِ انقلاب، زینبیہ بریگیڈ اور حزب اللہ کے جنگجوؤں نے بشار الاسد کا ساتھ دیا۔ ایران شام کو اسرائیل کے خلاف ایک اہم محاذ سمجھتا تھا، اور ایرانی نواز حزب اللہ کو شام کے ذریعے فوجی کمک فراہم کی جاتی تھی۔ حالیہ تبدیلیوں میں بشار الاسد کی شکست ایران کے لیے ایک بڑا دھکا ثابت ہو سکتی ہے۔
روس کی حکمتِ عملی
روس نے جو شام میں اپنی بحری اور فضائی افواج کے ذریعے موجود رہا ہے، بشار الاسد کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اب روس خود ایک بین الاقوامی جنگ میں الجھا ہوا ہے اور شام سے اپنی ذمہ داریوں کو کم کرنا چاہتا ہے۔
خلیجی ممالک کا رویہ
خلیجی ممالک نے شام کے معاملے میں نہایت محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام میں برسرپیکار حزبِ مخالف کے عسکری گروہوں کا ریکارڈ خلیجی حکم رانوں کے لیے باعثِ تشویش رہا ہے۔ ان گروہوں کی آئیڈیالوجی خلیجی ممالک کے حکم رانوں کے طرزِ حکم رانی کے خلاف ہے، جو ان کے لیے ممکنہ خطرہ بن سکتی ہے۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاض میں منعقدہ عرب لیگ کے اجلاس میں بشار الاسد کو مدعو کیا، جو دس سال کے وقفے کے بعد کسی بھی عرب لیگ اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ اسد کو امید تھی کہ اس کانفرنس کے بعد خلیجی ممالک ان کی مدد کریں گے، لیکن حالات ان کی توقعات کے برعکس رہے۔
شام میں موجود عسکری گروہوں میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کا تعلق خلیجی ممالک سے ہے۔ یہ گروہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہیں جو جنگجو مزاج رکھتے ہیں، چاہے وہ چیچنیا، چین، ازبکستان یا ترکی سے آئے ہوں۔ ان جنگجو گروہوں کی کامیابی خلیجی ممالک کے حکم رانوں کو خوف زدہ کر سکتی ہے کہ یہ کامیابی ان کے اپنے ممالک میں بے چینی اور بغاوت کو ہوا نہ دے۔
بھارت کا رویہ
بھارت نے شام کے حالات پر محتاط رویہ اپنایا ہے۔ البتہ وہاں پھنسے ہوئے شہریوں کو سفارت خانے کے ذریعے نکال لیا گیا ہے۔ بھارت اور شام کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں، اور دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں ایک دوسرے کے سفارت خانے قائم ہیں۔
بھارت کے لیے شام کے موجودہ حالات پر کوئی واضح موقف اختیار کرنا مشکل ہے کیونکہ وہاں حکومت بنانے والے گروہوں کی سخت گیر نظریات بھارت کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن بھارت کو شام میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جلد اقدامات کرنے چاہئیں۔ بھارت کے پاس شام کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے، خاص طور پر اس کا سماجی ماڈل، جہاں مختلف اقلیتیں اور ثقافتیں ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ ماحول میں زندگی گزارتی ہیں۔
بھارت کو شام میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے، جیسا کہ ماضی میں اس نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ بھارت کی اقتصادی دلچسپیاں بھی شام سے جڑی ہو سکتی ہیں، اور تباہ حال شام کی تعمیر نو میں بھارت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ترکی کی دلچسپی
ترکی شام میں اپنی ہم نوا حکومت چاہتا ہے تاکہ تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ یہ تعمیر نو ایک بڑا اقتصادی معاملہ ہے اور موجودہ دور میں سیاست کے بجائے اقتصادیات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
شام میں جو عسکری گروہ تبدیلی کے لیے سرگرم ہیں، ان میں ایک اہم حیثیت "تحریر الشام” (HTS) کو حاصل ہے۔ HTS کے سربراہ ابو محمد جیلانی کا ماضی پیچیدہ اور متنازع رہا ہے۔ وہ پہلے ISIS اور القاعدہ سے وابستہ رہے لیکن اب ان دونوں تنظیموں سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں اور جمہوری اقدار کو اپنانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ HTS نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں جمہوریت ہوگی اور تمام اکائیوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
شام کا مستقبل
شام میں اقتدار کی تبدیلی کے اثرات مختلف طاقتوں اور گروہوں پر پڑ رہے ہیں۔ سنی مسلمان اکثریتی HTS کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے جو مسلم جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی رویے کی ستم ظریفی کو نمایاں کرتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ شام لبنان اور عراق کے راستے پر چلتے ہوئے ایک کمزور ریاست بن کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتا رہے گا یا 54 سال کے ظلم و ستم کے بعد شامی عوام کو جمہوریت اور ان کی تمناؤں پر مبنی حکومت نصیب ہوگی۔
روس کا کردار
روس کے لیے شام کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہی ہے، خاص طور پر اس خطے میں امریکی اثر و رسوخ کے مقابلے میں۔ روس نے بشار الاسد کے علاوہ ان کے والد حافظ الاسد کی بھی طویل عرصے تک حمایت کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کا تعلق "بعث پارٹی” سے تھا، جو نظریاتی طور پر روس اور کمیونسٹ بلاک کے قریب سمجھی جاتی تھی۔
روس نے گزشتہ تبدیلی کے دوران بشار الاسد کو بچانے کی کوشش کی، لیکن روس خود ایک بین الاقوامی جنگ میں پھنسا ہوا ہے، اس لیے وہ یہاں سے جلد جان چھڑانا بھی چاہتا تھا۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایران اور روس نے چند سال پہلے بشار الاسد کو یہ وارننگ دی تھی کہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں، لیکن تمام آمر حکم رانوں کا یہی رویہ ہوتا ہے، چاہے وہ صدام حسین ہو، قذافی ہو یا بشار الاسد۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی انہیں ہلا نہیں سکتا اور وہ اپنی بے رحمانہ پالیسیوں کے ذریعے عوام کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ بشار الاسد نے بھی یہی روش اپنائی تھی۔
اب جو ظلم و ستم کی داستانیں منظر عام پر آ رہی ہیں، وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ بشار الاسد کے والد، حافظ الاسد، نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ 1980 کی دہائی میں حافظ الاسد نے اخوان المسلمین کے ہزاروں کارکنوں کو ایک ہی دن میں حماہ اور دوسرے شہروں میں قتل کر دیا تھا۔ ظلم کی داستان زیادہ طویل نہیں ہوتی، کیونکہ خالقِ کائنات کا قانون ہے
کہ جب ظالم حد سے بڑھتا ہے تو وہ زوال کو پہنچتا ہے اور دنیا میں ہی اس کا انجام دیکھنے کو ملتا ہے۔
ترکیہ کا کردار
شام کے موجودہ حالات میں ایک اہم طاقت ترکیہ بھی ہے۔ 2017 میں شام کی خانہ جنگی پر قابو پانے کے لیے حکومت اور حزب مخالف کے جنگجوؤں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا اہم کردار تھا۔ اردگان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ اول تو یہ کہ ترکی میں کرد باغیوں، جو شورش برپا کیے ہوئے ہیں اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان پر قابو پانے کے لیے اردگان نے ان عسکری گروہوں کا تعاون کیا جو کردوں کے خلاف محاذ بنا سکتے تھے۔ بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ ان جنگجوؤں کو ترکی کے راستے ہی مدد فراہم کرتا رہا، اور اس میں ترکی کی رضامندی شامل تھی۔
ترکیہ کا سیاسی ایجنڈا
اردگان کا دوسرا مقصد ان کے اس خواب سے جڑا ہوا ہے جسے وہ شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ چند برس پہلے انہوں نے کہا تھا کہ ہم دمشق کی جامع مسجد میں نماز پڑھیں گے اور صلاح الدین ایوبی کے مزار پر فاتحہ خوانی کریں گے۔ حالیہ دنوں میں دیے گئے ایک اور بیان میں اردگان نے کہا کہ دنیا میں اب صرف دو بڑے لیڈر ہیں، ایک وہ خود اور دوسرے پوتن۔ اردگان کی خواہش ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کی عظمت کو دوبارہ بحال کیا جائے اور خلافتِ عثمانیہ میں شامل تمام علاقے یا تو ترکی میں شامل ہوں یا کم از کم ترکی کے اثرات کے تحت آ جائیں۔
انہی مقاصد کے تحت ترکیہ نے حزب مخالف کے جنگجوؤں کی مدد کی۔ ترکیہ کا اثر و رسوخ شام میں کافی زیادہ پایا جاتا ہے۔ شام میں شامی کرنسی کے ساتھ ترکیہ کی کرنسی بھی چلتی ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ترکیہ شام میں اپنے سیاسی اور اقتصادی اثرات قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
***
تا دم تحریر جو اطلاعات بین الاقوامی میڈیا سے سامنے آرہی تھیں اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ایچ ٹی ایس کے سربراہ ابو محمد جولانی اور شام کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم محمد البشیر نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حدوں کو پھلانگ رہا ہے اور عبوری حکومت کے صبر کو للکارتے ہوئے ان کے حقوق کی پامالی کر رہا ہے۔ عبوری حکومت نے اور اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے نے بھی اسرائیلی جارحیت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے یو این او سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ شام پر حملوں کو بند کردے، اسرائیل کے شام پر بے تحاشا حملوں کا نوٹس امریکہ نے بھی لیا ہے۔
اس دوران دمشق کی تاریخی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد امڈ پڑی، نماز کی قیادت وزیر اعظم شام نے کی۔ یہ نظارہ گزشتہ برسوں ایک مسلم ملک میں ہوئی تبدیلی کے بعد اس ملک میں ادا کی گئی نماز جمعہ سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ یقیناً جمعہ کے بعد نمازیوں نے ان کے ملک میں خدا ترس حکومت کی اور امن کی دعا کی ہوگی ہم بھی اس دعا پر آمین کہتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024