برباد غزہ میں آباد اسکولس

تل ابیب پر ہائپر سونک میزائیلی حملہ۔ فوجی جرنیل کی جانب سے ناکامی کا اعتراف

مسعود ابدالی

اسرائیلی وزیر اعظم کی بد دیانتی پر دستاویزی فلم۔عالمی فوج داری عدالت کو متاثر کرنے کی سازش طشت ازبام
‘نیتن یاہو قیدیوں کی ہلاکت چاہتے ہیں’۔بزور طاقت رہائی کی کوشش میں فوت ہونے والے اسرائیلی قیدی ‘الیکس’کا تأثر
غزہ نسل کشی وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے اعصاب کی جنگ بن گئی ہے۔دو انتہا پسند وزیروں کے سوا ان کی پوری کابینہ اور فوجی قیادت تسلیم کر چکی ہے کہ سارے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیل اپنا عسکری ہدف نہیں حاصل نہیں کرسکا اور مستقبل قریب میں ایسا ممکن نظر بھی نہیں آتا۔ سارے ملک میں جنگ بندی کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر کے گھیراؤ کے دوران مظاہرین جو بینر لیے کھڑے ہوئے تھے ان میں کچھ پر لکھا تھا :’’فوجیو!! تمہارے پاس (جنگ سے) انکار کا راستہ موجود ہے‘‘۔
اتوار 15 ستمبر کو یمن سے پھینکے جانے والے منجنیقی (Ballistic) میزائیل نے اسرائیلیوں کو سراسیمہ کر دیا ہے۔ صبح چھ بجکر اکیس منٹ پر جیسے ہی یہ میزائیل یمن سے روانہ ہوا امریکی ساختہ دفاعی نظام نے اسے پہچان لیا اور اس کے ’استقبال‘ کے لیے ایرو (Arrow) میزائیل شکن گولہ داغ دیا گیا۔ گیارہ منٹ بعد یمنی میزائیل کے اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی ایرو میزائیل نے اس کا راستہ روکا لیکن اسرائیل کا یہ تیر یمنی میزائیل کو فضا میں مکمل طور پر تحلیل نہ کرسکا اور اس کے دامن میں چپھے راکٹ بن گوریان ائیرپورٹ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر گرے جس سے کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔ ایرو نظام کا ناکام ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ میزائیل کچھ ایسے حساس آلات سے لیس تھا جس نے ایرو کا راستہ کھوٹا کر دیا اور وہ یمنی میزائیل کو جزوی نقصان پہنچا سکا یا یہ آواز سے پانچ گنا تیز Hypersonic میزائیل تھا کہ اسرائیلی تیر کے پہنچنے سے پہلے ہی میزائیل کا سامنے والا حصہ آگے نکل چکا تھا جس نے زمین پر اپنے ہدف کا نشانہ بنایا لیکن کنٹرول سسٹم ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے راکٹ اپنے ممکنہ ہدف یعنی بن گوریان ائیر اپورٹ تک نہ پہنچ سکے۔ کچھ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ ایرانی ساختہ Hypersonic میزائیل کی آزمائش تھی جس کے لیے اسرائیل کو بطور ہدف چناگیا۔
عسکری کم زوری کے ساتھ نیتن یاہو کے ذاتی کردار پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ملک میں ان کی خیانت کے قصے تو مشہور تھے ہی، ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹول (TIFF24) میں The Bibi Files کے نام سے ایک دستاویزی فلم بھی منظرِ عام پر آگئی۔ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں 5 ستمبر سے شروع ہونے والا یہ فلم میلہ اس مہینے کی 15 تاریخ تک جاری رہا۔ سوا گھنٹے کے دوارنیے پر مشتمل یہ دستاویزی فلم امریکہ کی مشہور ہدایت کار و فلمساز الیکسس بلوم (Alexix Bloom)کی زیر ہدایت تیار ہوئی۔ امریکی فلم ساز الیکس گبنی (Alex Gibney) اوراسرائیلی صحافی رویوڈرکر (Raviv Drucker) فلم سازوں میں شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کو ان کی اہلیہ پیار سے بی بی کہتی ہیں اور یہ دستاویزی فلم بی بی، ان کی بیگم اور صاحبزادے یار نیتن یاہو کی بے ایمانی، مالی خردبرد اور سرکاری خزانے میں لوٹ مار کے دل چسپ قصوں پر مشتمل ہے۔ جہاں اس میں اسلحے کی خریداری، تعمیراتی منصوبوں اور بھرتی کے بھتوں کی ہوش ربا داستانوں کا ذکر ہے وہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ کے مالیاتی آڈٹ کے دوران چھوٹی موٹی چوریوں کی دل چسپ وارداتوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ جیسے خاتون اول سارہ نیتن یاہو نے ایوان وزیر اعظم کی مختص رقم سے اپنے ذاتی گھر کے لیے فرنیچر خریدا، ایک لاکھ ڈالر ان کے ضعیف والد کے علاج پر خرچ ہوئے اور چھ ہزار تین سو ڈالر محترمہ نے اپنے پرس میں ڈال لیے۔خوش خوراک سارہ ایوان وزیر اعظم میں آنے والے مہمانوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر لکھواتی تھیں اور اسے بنیاد بناکر انہوں نے سرکاری مطبخ کے لیے دو تین اضافی باورچی بھرتی کروالیے جو دراصل خاتون اول کے پسندیدہ پکوان کے ماہر تھے۔ موصوفہ ونیلا اور پستے کی آئسکریم بہت شوق سے کھاتی ہیں۔سارہ نیتن یاہو کی فرمائش پر سالانہ بجٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کے لیے آئس کریم کی خریدرای کی مد میں دو ہزار سات سو ڈالر مختص کیے گئے تھے لیکن محترمہ مئی تک دو ہزار ڈالر کی آئس کریم چٹور گئیں جس کے بعد آئس کریم کے لیے ضمنی بجٹ منظور ہوا۔
نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات پر کئی پرچے کٹ چکے ہیں لیکن وزیر اعظم ہونے کے ناطے موصوف کو عدالت میں اصالتاً پیشی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ غزہ خوں ریزی بند نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جنگ ختم ہوتے ہی نئے عام انتخابات ہوں گے جس میں نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی پر جیسے ہی استثنیٰ کی چھتری ہٹی، جوڑہِ اول کو کرپشن کے الزام میں جیل جانا ہوگا۔ یعنی جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔
مالی بدعنوانی پر مبنی دستاویزی فلم کے ساتھ اسرائیلی میڈیا پر بھی ان کے مکر و فریب کا شرم ناک انکشاف ہوا ہے۔ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ وزیر انصاف یاریف لیون (Yariv Levin) نے اٹارنی جنرل محترمہ غالی باہراومیارا (Gali Baharav-Miara) سے غزہ جنگ میں انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف وزیوں اور اس میں وزیر اعظم نیتن یاہو و وزیر دفاع سمیت دوسرے ملوث افراد کے خلاف مجرمانہ (criminal) تحقیقات کی درخواست کی۔ بادی النظر میں یہ بات بڑی خوش آئند لگی بلکہ مسلم دنیا کے اسرائیل نواز روشن خیالوں نے اسے خود احتسابی کی عظیم مثال بھی قرار دینا شروع کر دیا۔ لیکن اس کے دوسرے ہی دن اسرائیلی ٹیلی ویژن کے چینل 12 نے اسرائیلی جمہوریت کے پھولتے غبارے میں انکشاف کی سوئی چبھو دی۔ چینل نے وزارت انصاف کے اعلیٰ حکام کے حوالے سے بتایا کہ اپنے خلاف تحقیق کی فرمائش وزیر اعظم نے خود کی ہے جس کا مقصد عالمی فوج داری عدالت (ICC) میں چلنے والے مقدمے پر انداز ہونا ہے۔ منصوبے کے مطابق چھان بین شروع ہونے پر ICC کو درخواست دی جانی تھی کہ اسرائیلی عدلیہ نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں لہذا اس کے نتائج کے انتظار تک ICCکی کارروائی معطل کردی جائے۔ وزیر اعظم کی سیاست طشت از بام ہوجانے سے پہلے ہی اٹارنی جنرل صاحبہ نے وزیر انصاف کے نام یادداشت میں قانونی رائے دے دی تھی کہ اسرائیلی وزارت انصاف کی تحقیق سے ICC مطمئن نہیں ہوگی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تحقیقات کا ڈول ڈال کر نیتن یاہو ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ یعنی ایک طرف تو ICC کی تحقیقات کو معطل کراکے نئے پینترے کے لیے مہلت حاصل کی جائے تو دوسری طرف طوفانِ اقصیٰ کی تحقیق کے لیے جو اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا جائے کہ وزارت انصاف نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ وزیر انصاف کی درخواست پر اپنے جوابی مکتوب میں فاضل اٹارنی جنرل نے لکھا کہ 7 اکتوبر کا سانحہ حد درجہ سنگین اور وزارت انصاف کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔اٹارنی جنرل صاحبہ اس کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ریاستی کمیشن بنانے کی تجویز پہلے ہی دے چکی ہیں۔خبر سامنے آنے پر اسرائیلی حزب اختلاف نے نیتن یاہو کی سستی سیاست گری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اپنے ذاتی مفاد ات کے تحفظ کے لیے اسرائیل کی ساکھ کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
فتح مبین کے بلند و بانگ دعوے کے ساتھ فوج میں بےچینی بھی بڑی واضح ہے۔ جمعرات 12 ستمبر کو اسرائیلی انٹیلیجنس کور (Intelligence Corps) کے سربراہ بریگیڈیر جنرل یوسی ساریل (Yossi Sariel) نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یونٹ 8200 کہلانے والی اس کور کے سربراہ نے اپنے افسروں اور ماتحتوں کے نام خط میں کہا کہ ‘میں اپنا مشن پوراکرنے میں ناکام رہا ہوں، لہذا اس منصب پر برقرار نہیں رہنا چاہتا۔ خفت مٹانے کے لیے فوجی قیادت نے وضاحت کی کہ 7 اکتوبر کے حملے سے بے خبری کی بنا پر جنرل صاحب کی سبکدوشی کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔
قیدیوں کو بزور چھڑانے کی کوششوں میں ہلاک ہونے والے الیکس لوبانوو (Alex Lobanov)کے سمعی و بصری پیغام نے وزیراعظم کے لیے مزید شرمندگی کا سامان کردیا۔ الیکس ان پانچ قیدیوں میں شامل تھا جو اس زور زبردستی میں مارا گیا۔ تیرہ ستمبر کو الیکس کی بیوی نے وہ پیغام اشاعتِ عام کے لیے جاری کردیا جو آنجہانی نےاپنی موت سے چند روز پہلے ریکارڈ کرایا تھا۔ویڈیو میں دوسالہ بچے کا یہ باپ سسکیاں بھرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو 7 اکتوبر کو ہماری حفاظت میں ناکام رہے اور اب لگتا ہے کہ وہ ہمیں زندہ واپس لانے میں بھی ناکام رہیں گے‘اپنی حاملہ بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ‘شاید خاندان میں اس خوبصورت نئے اضافے کا دیدار میری قسمت میں نہیں ہے’۔بہت ہی دوٹوک لہجے میں الیکس نے کہا ’حکومت چاہتی ہے کہ ہم یہیں مرجائیں تاکہ انہیں امن معاہدہ نہ کرنا پڑے۔‘
اس ویڈیو کے بعد وزیراعظم پر تنقید میں اضافہ ہوگیا توحالات کا رخ موڑنے کے لیے نیتن یاہو نے قومی حکومت کی تجویز پیش کردی۔ نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز کے نام ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے قومی حکومت کی ضرورت ہے۔ ان کی اس پیشکش کو بینی گینٹز اور قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے فوراًمسترد کریا۔ کنیسہ (پارلیمان) میں تقریر کرتے ہوئے بینی گینٹز نے کہا کہ اتحاد و یکجہتی کے لیے قومی حکومت نہیں بلکہ منتخب حکومت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اور ان کا انتہاپسند جتھا حق حکم رانی کھو چکا ہے۔نااہل حکومت میزائیلوں کی بارش روک سکی نہ غزہ پر قابو ان کے بس کی بات ہے۔ اب غرب اردن میں بھی شورش برپا ہے۔ بی بی (وزیراعظم) کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔
اسرائیلی حکومت کو ملک کے اندر سخت پریشانی کا سامنا ہے لیکن صدر بائیڈن، بربریت، نسل کشی اور قتل عام کی پشتیبانی کے لیے اب تک پرعزم ہیں۔گزشتہ ہفتے واشنگٹن نے ٹینکوں کی حمل و نقل کے لیے اسرائیل کو ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ڈالر مالیت کے ٹریلر فراہم کرنے کا اعلان کیاہے۔چند ہفتہ پہلے صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لیے بیس ارب ڈالر کے F15 بمبار طیاروں کی منظوری دی تھی۔
جہاں اسرائیل کے اتحادی اس کی وحشت و خوں ریزی میں سہولت کاری کے لیے پرجوش ہیں وہیں دنیا بھر میں مستضعفین کی سیاسی و اخلاقی حمایت میں بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ جامعات، سیاسی اجتماعات، نمائش و میلہ ہر جگہ فلسطیینوں کی نصرت اور ظالموں کی مذمت کے لیے تحریکی عناصر موجود ہیں۔امریکہ میں صدارتی مباحثے کے دوران بھی ہال کے باہر زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران ایک تقابلی کتبہ لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنا رہا جس میں بتایا گیا تھا کہ نسل کشی، ماحول دشمنی اور تارکینِ وطن سے تضحیک آمیز برتاؤ کےحوالے سے ڈونالڈ ٹرمپ اور کملا ہیریس بالکل ایک ہیں اور ان دونوں نے سیاست و ایوان حکومت کو بڑی کارپوریشنوں کےپاس گروی رکھ دیا ہے۔
آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر ملبورن میں 11 سے 13 ستمبر تک آسٹریلین آرمز کنونشن کے عنوان سے اسلحے کی نمائش ہوئی۔ اس موقع پر ‘طلباء برائے فلسطین’ اور ‘جنگ بند کرو محاذ’ نے زبردست مظاہرہ کیا۔ گھڑ سوار پولیس نے لوگوں کو رگیدا، جواب میں مظاہرین نے پولیس پر ٹماٹر اورانڈے پھینکے۔متانت اور باوقار صبر کے ساتھ پولیس تشدد کا سامنا کرتے ہوئے طلباء نے نمائش کے آخری دن تک مظاہرہ جاری رکھا۔
اخراج، اجرائے اسناد سے انکار اور گرفتاریوں کے باوجود موسم گرما کی تعطیلات کے بعد امریکی جامعات کھلتے ہی غزہ نسل کشی کے خلاف طلباء کے مظاہرے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہارورڈ، ایم آئی ٹی، جامعہ پنسلوانیہ (Upen) جامعہ جنوبی کیلیفورنیا جیسے انتہائی موقر ادارے اس تحریک کا مرکز ہیں۔ گزشتہ ہفتے طبی تحقیقات کے لیے مشہور جامعہ جان ہاپکنس میں زبردست مظاہرہ ہوا۔
دوسری طرف ایک لاکھ ٹن بارود برسا دینے کے بعد بھی مزاحمت باقی ہے۔ بارہ ستمبر کو عسکری قیادت نے نوید سنائی کہ اہلِ غزہ کا رفح بریگیڈ نیست و نابود کر دیا گیا۔ اس پر مبارک سلامت کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ دوسرے دن رفح میں اسرائیلی ہیلی کاپٹر گرجانے سے اس پر سوار دو فوجی ہلاک اور سات شدید زخمی ہوگئے۔یہ حادثہ تھا یادشمن کی کارروائی؟ عسکری ترجمان نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا لیکن ملبے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسے میزائیل مار کر گرایا گیا ہے۔
مکمل تباہی کے باوجود غزہ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے اسکولوں کو چن چن کر نشانہ بنایا لیکن ایک دن کے لیے بھی غزہ میں تعلیم کا سلسلہ بند یا معطل نہیں ہوا اور ملبے پر چادروں سے بنے ‘اسکول’ شاد و آباد ہیں۔ یعنی حسرت کی طرح آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں بھی ‘مشق سخن’ جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں شمالی اسرائیل کے چاروں اضلاع عکا، یزرعیل، كينيرت اور صفد کے علاوہ مقبوضہ جولان کے اسکول گزشتہ سال اکتوبر سے بند پڑے ہیں۔
شوق و انہماک سے قلم و قرطاس کے اسلحے کو صیقل کرتے ہوئے فلسطینی بچے سفاک حملہ آوروں کو اپنے معصوم لیکن پرعزم لہجے میں پیغام دے رہے ہیں کہ
اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024