ندیم خان،بارہمولہ کشمیر
اقوام متحدہ نے 2023ء کو تاریخ کا سب سے گرم سال قرار دیا، یہ بات موسمیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں تھی۔ جہاں تک دنیا کے سیاسی درجہ حرارت کا تعلق ہے تو یہ بھی ناقابلِ برداشت حد تک بلند رہا ہے۔ ابھی روس- یوکرین تنازع کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکامی منہ چڑا رہی تھی کہ اسرائیل- حماس جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اس سے نہ صرف مغرب کی انسان دوستی کا پردہ چاک ہوا بلکہ پرامن دنیا کا خواب بھی دھندلا گیا۔ چین اور امریکہ کے سربراہان کی ملاقات سے وابستہ توقعات کا محل بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔ رواں سال مشرق وسطی کے لیے ایک خوشگوار خبر سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی تھی جسے دنیا بھر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔
روس یوکرین تنازع کا حل تلاش نہ کیا جاسکا:
رواں برس 24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو ایک سال پورا ہوا۔ اس دوران درجنوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے، ہزاروں زندگیاں موت کی نذر ہو گئیں اور لاکھوں افراد بھوک اور بے گھری کے عذاب کا شکار بن گئے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اس جنگ کے شعلے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں لیکن نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
امریکہ اور چین کے صدور کی ملاقات:
گزشتہ برس انڈونیشیا کے شہر بالی میں تین گھنٹے پر مشتمل ملاقات کے بعد رواں برس 16 نومبر کو پہلا موقع تھا جب امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے آمنے سامنے بیٹھ کر تبادلہ خیال کیا۔ یہ چین کے صدر شی جن پنگ کا گزشتہ چھ برس کے دوران امریکہ کا پہلا دورہ تھا۔ وہ سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ آئے تھے۔ دونوں کی ملاقات کا خوش آئند ترین پہلو روابط کی بحالی اور اس بات پر اتفاق ہے کہ ’اگر دونوں رہنماؤں میں کسی کو کسی بات پر تشویش ہو تو ٹیلی فون اٹھائیں اور ایک دوسرے کو کال کریں اور ایک دوسرے کی کال سنیں‘۔ امریکہ اور چین کے تعلقات فروری میں اس وقت خراب ہوئے تھے جب امریکہ نے اپنی فضائی حدود میں ایک مبینہ جاسوس چینی غبارہ مار گرایا تھا۔
غزہ ‘بچوں کا قبرستان’ بن گیا:
رواں سال کا سب سے تکلیف دہ واقعہ فلسطین -اسرائیل جنگ ہے جس میں گزشتہ 75 روز کے دوران تقریباً 20 ہزار انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہسپتال اور عبادت گاہیں تک بمباری سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ زخمیوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ جنگ جارحیت اور درندگی کا بدترین نمونہ ہے۔ تصور کیجیے کہ مائیں اپنے بچوں کی ٹانگوں پر نام لکھ رہی ہیں تاکہ لاشیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے؟ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس غزہ کو ’بچوں کا قبرستان‘ قرار دے چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی کارکردگی پر ایک نظر:
جنگ کی روک تھام، بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے، مختلف اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنے اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں تعاون جیسے مقاصد کے ساتھ وجود میں آنے والا ادارہ اقوام متحدہ رواں سال مؤثر کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 دیگر اراکین سلامتی کونسل کے مستقل پانچ رکن ممالک کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان پانچ میں سے کسی کا بھی انکار باقی سب کو صفر کر دیتا ہے۔اقوام متحدہ کو رواں برس یوکرین روس تنازع اور پھر اسرائیل حماس تنازع، یہ دو بڑے چیلنجز درپیش تھے، یہ دونوں محاذوں پر ناکام رہا۔ امریکہ بیک وقت سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور دونوں جنگوں میں فریق ہے۔ وہ کھل کر یوکرین اور اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔ ایسے میں اس سے غیر جانبداری کی توقع حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اور اگر امریکہ خود فریق ہے تو عملی طور پر سلامتی کونسل کی غیر جانبداری بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
انڈیپینڈنٹ کے لیے اپنے مضمون میں بین الاقوامی امور کی ماہرہ کاملیا انتخابی فرد لکھتی ہیں کہ ’’دنیا کے تین اہم اور طاقتور ممالک یعنی امریکہ، فرانس اور برطانیہ اور مغرب کے دیگر بڑے ممالک یعنی جرمنی اور اٹلی نے بھی اس تنازع میں اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود کو اس تنازع کا فریق بنا لیا ہے اور بحران کے حل اور غیر جانبدارانہ ثالثی کا راستہ بند کر دیا ہے۔‘‘
غزہ پر جنگ بندی کے خلاف اقوام متحدہ ابھی تک دو قرار دادیں پاس کر چکا ہے جو عملی طور پر نتیجہ خیز نہیں کیونکہ رکن ممالک پر ان کی پابندی لازمی نہیں۔ فائدہ اس قرار داد کا ہے جو سلامتی کونسل سے منظور ہو۔ ایسی قرارداد کا فیصلہ تسلیم کرنا ’لازمی‘ ہوتا ہے۔
دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ:
دستور کا دفعہ 370 اب قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس دفعہ کو منسوخ کردیا گیا تھا اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی ۔ بالآخر 11 دسمبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے اس دفعہ کی برخواستگی کو درست قرار ہے اور کہا کہ اس سلسلہ میں صدر جمہوریہ کی جانب سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا وہ درست تھا ۔ عدالتی فیصلہ کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ یہ توقعات کے مطابق ہی ہے کیونکہ مرکزی حکومت کی جانب سے تمام تر تیاریاں کرتے ہوئے ہی یہ احکام جاری کیے گئے تھے ۔ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور کچھ تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ دفعہ 370 کو برقرار رکھا جانا چاہیے جس کے ذریعہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف حاصل تھا ۔ مرکز کا استدلال تھا کہ ملک کی تمام ریاستوں کو یکساں موقف حاصل رہنا چاہیے ۔ عدالت نے بھی یہ واضح کردیا کہ جیسے ہی جموں و کشمیر کا ہندوستان میں الحاق ہوا ویسے ہی جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کا وجود بھی ختم ہوگیا ۔ اس کے باوجود ریاست کو خصوصی موقف وہاں کی صورتحال کے مطابق برقرار رہا تھا ۔ عدالتی فیصلے پر کشمیر کی عوام نے غصے کا اظہار کیا اور کئی سیاسی جماعتوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا۔
غرض یہ کہ سال 2023 بہت سارے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساحل مراد تک پہنچ ہی گیا ۔اب ہم ایک نئے سال کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں اس موقع پر دعا یہی ہے کہ سال رواں گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ بہتر پُرامن اور انسانیت کی ترقیوں کا سال رہے اور ہم سب کو بھی اپنا اپنا محاسبہ کرلینا چاہیے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ نیز اب اس نئے سال کے لیے ہمارے پاس کیا منصوبہ بندیاں ہیں اس پر غور کرنا بھی ہماری حقیقی ذمہ داری ہے ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024