بنگلہ دیشی معیشت متعدد چیلنجس سے نبردآزما
ماہرِ اقتصادیات کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑ ۔مثبت نتائج متوقع
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے دور کا خاتمہ ہوا۔ کیونکہ ملک گیر ریزرویشن مخالف مظاہروں نے اس میں رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردی ہیں۔ 2022سے معیشت میں اونچا افراط زر (Inflation) 8.5فیصد سے زائد ہونے کی وجہ سے غذائی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس کی خاص وجہ روس و یوکرین اور فلسطین و اسرائیل جنگ کے حالات بھی ہیں۔ اس سے ملک کا تجارتی خسارہ بہت بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے غیرملکی کرنسی کے ذخیرہ پر دباؤہے اور قرض کی ادائیگی میں پریشانی ہورہی ہے۔ قرض میں راحت کے لیے بنگلہ دیش، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا دروازہ بھی کھٹکھٹارہا ہے۔ مالی شعبہ پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سبھی بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور ووٹ ڈالنے کا فیصد 40فیصد ہی رہا تھا۔ اس کی وجہ سے شیخ حسینہ پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا اور وہ انتخابی کامیابی سوالوں کے گھیرے میں تھیں۔ اس طرح 15سالوں سے مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے وہ ڈکٹیٹر بن گئیں۔ لہٰذا اپنے پڑوسی ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور سماجی حالات کے بگڑتے ہوئے منظر نامےکو سامنے رکھنا اہم ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی جمہوری ملک کا رہنما آمرانہ طور پر حکومت کرنے لگتا ہے تو اس کے ساتھ وہاں کے عوام کا رویہ بالکل ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ جمہوری حکومت سے لوگوں کو یہ توقع ہوتی ہے کہ انہیں دستور کے مطابق آئینی حقوق میسر ہوں گے لیکن جب عوام کو لگتا ہے کہ ہمارا قائد جمہوریت کا مکھوٹا لگا کر ایک ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو ایسے لوگوں کے غصہ کا سامنا شیخ حسینہ جیسے لوگوں کو کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک عرصے سے بنگلہ دیش کے سرکاری ٹیلی ویژن اور اخبارات عوام کے مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تو اس انقلاب کے دوران عوام نے وہاں کے ذرائع ابلاغ کے خلاف مظاہرہ ہی نہیں کیا بلکہ مقامی اخبار اور ڈیلی اسٹار کے دفتر کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بھی بنایا۔
یاد رہے کہ 1971 کے مجاہدین آزادی کے خاندانوں کے لیے ریزرویشن کے قانون کو پھر سے لاگو کرنا پرتشدد مظاہرہ کی فوری وجہ بنی ہے۔ یہ ریزرویشن 1972 میں نافذ ہوا تھا جو 30فیصد تھا۔ اور اب کئی سالوں کے بعد بڑھ کر یہ56فیصد ہوگیا ہے۔ اسے لے کر لوگوں کے اندر بے چینی بھی بڑھتی گئیں۔ اسے بہت سارے باصلاحیت امیدواروں کے مفاد کے لیے ایک قد غن کے طور پر سمجھا جانے لگا۔ 2018میں بڑی مخالفت کے باعث اس تحفظ کو ہٹانا پڑا۔ لیکن اس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن ڈال دی گئی جس پر ریزرویشن کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ اسی کے بعد بڑے پیمانے پر ایک قومی احتجاجی تحریک چھڑ گئی ۔ اس بار افراط زر اور بے تحاشا اونچی بیروزگاری کے مسائل بھی ریزرویشن مخالف مسئلے کے ساتھ جمع ہوگئے۔ مظاہرے پرتشدد ہونے پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ان مظاہروں میں اب تک چھ سو سے زائد لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں۔ حکومت نے بے رحمی سے تحریک کو کچلنے، کرفیو کے ذریعہ اجتماعات پر پابندی اور انٹرنیٹ خدمات کو معطل کرکے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ حکومت نے بات چیت کے بجائے مظاہرین کو پاکستانی، غدار ، رضاکار (پاکستانی فوج کا وفادار جو ایک طرح کی گالی ہے) دی۔ اسی درمیان وہاں کی سپریم کورٹ نے جلد بازی میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کو رد کردیا۔ حسینہ کو غلط فہمی تھی کہ یہ پرتشدد مظاہرہ اصلاً اسلامی شدت پسند تنظیمیں مثلاً جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور چھاتر شیبر والے کروارہے ہیں کیوں کہ حسینہ نے جماعت اسلامی کے درجنوں رہنماؤں کو تختہ دار پر پہنچادیا تھا ۔ اس لیے کہ اسلام پسند لوگ ہمیشہ ’’کھٹکتا ہوں دلِ شیطان میں کانٹے کی طرح‘‘ کے مصداق ہوتے ہیں۔
حسینہ کے متعدد اقدامات کی وجہ سے ریزرویشن مخالف تحریک، حکومت مخالف تحریک بن گئی۔ اس بگڑتی حالت کا فائدہ سیاسی مخالفین نے اٹھایا۔ گزشتہ سال بھی حسینہ اور ان کی پارٹی’ عوامی لیگ‘ کے خلاف بڑی بڑی بدعنوانویوں کو لے کر پرتشدد مظاہرے ہوچکے تھے۔ شیخ حسینہ آخر تک فوج اور پولیس کے ذریعے اس مظاہرے کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا ارادہ رکھتی رہیں مگر فوجی سربراہ وقار الزماں نے مظاہرین پر طاقت کے استعمال سے معذرت کرلی۔ مظاہرین نے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور اپنے ماضی کے مظالم اور کالے کرتوتوں کا ریکارڈ رکھنے والی حسینہ نے پون گھنٹے کے اندر استعفی دے کر ملک سے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ آج کل وہ ہمارے ملک بھارت میں پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہیں۔
شیخ حسینہ نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں اپنے ملک کو دنیا کے دیگر ڈکٹیٹروں کی طرح خوب لوٹا۔ تحریک آزادی کے مجاہدین کے رشتہ داروں کے لیے بڑی مقدار میں ریزرویشن کی وجہ سے باصلاحیت نوجوانوں کو صحیح مواقع نہیں مل رہے تھے۔ ریزرویشن کے لیے سرٹیفکیٹ بنانے میں ہمارے ملک کی طرح وہاں بھی بڑی دھاندلی ہوتی رہی۔ ویسے ہمارے ملک میں محروم طبقات کے لیے ریزرویشن کا نظم ہے۔ ہمارے ملک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی پندرہ سال سے 29سال تک کے ایسے تقریباً 40فیصد نوجوان ہیں جو روزگار، تعلیم و تربیت (ٹریننگ) سے محروم ہیں۔ اس طرح وہاں دو کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں ۔ شماریاتی بیورو کے ڈیٹا کے مطابق 2023میں تقریباً 3.75کروڑ لوگ غذائی عدم سلامتی کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ حکومت نے ایک ہی سال میں گیس بجلی و دیگر برتنے والی اشیا کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ کردیا تھا جس سے عوام الناس کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ ہوا ۔ مہنگائی نے ان کی کمر توڑکر رکھ دی ۔ حکومت پر بدعنوانی کے بے پناہ الزامات کے ساتھ عدم مساوات بھی بڑھ رہی تھی۔ ملک کے دس فیصد سب سے امیر لوگ قومی آمدنی کے 41فیصد پر قابض ہیں۔ جبکہ نچلی سطح کے دس فیصد کے پاس محض 1.3فیصد ہی پہنچ پاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش بینک اسکیموں میں بھی لگاتار اضافہ ہوا ہے۔ قرض لے کر نہ لوٹانے والے (Loan Defaulters) جن کی قربت عوامی لیگ سے رہی ہے ان کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔ سی ایل سی پاور۔ میرن شیپ یارڈ اور ریٹکس فٹ ویئر جیسی کمپنیاں ڈیفالٹرس کی لسٹ میں سب سے اوپر تھیں۔ خراب قرض (Bad Loan) 955کروڑ سے 1649کروڑ بنگلہ دیشی ٹکا ہوگیا اس طرح کی معاشی نابرابری اور بے تحاشا بدعنوانی نے لوگوں کے غصہ کو مزید بھڑکا دیا تھا۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں کچھ معاشی بہتری بھی آئی۔ اولاً مظاہرین کا مطالبہ سیول سروسز میں ریزرویشن کا خاتمہ رہا جو ڈھاکہ یونیورسٹی سے پرامن طریقے سے شروع ہوکر ملک کے دیگراداروں تک پھیلتا گیا۔ پھر عام شہری بھی اس میں شامل ہونے لگے۔ تحریک نے اس وقت مضبوطی پکڑی جب عوامی لیگ کی طلبا تنظیم بنگلہ دیش چھاتر لیگ کے غنڈوں نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا، جس نے غیر سیاسی تحریک کو پرتشدد مظاہروں میں تبدیل کردیا۔ اسی وجہ سے شیخ حسینہ کے فرار ہونے کے بعد سے عوامی لیگ کے رہنما اور پارلیمنٹیرین موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں۔
ویسے بنگلہ دیش ایک مثال ہے کہ اس نے کیسے ایک دہائی قبل بہتر مظاہرہ کرتے ہوئے غربت کی سطح میں کمی، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس اور سماجی پونجی میں ترقی کی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک نے 2010سے مسلسل اور بے مثال ترقی کی جس کی سالانہ شرح نمو چھ تا آٹھ فیصد تک رہی۔ کورونا وبا کے دور میں ہماری جی ڈی پی منفی ہوگئی تو بنگلہ دیش میں 3.5فیصد رہی تھی جو 2021میں پھر 6.9فیصد ہوگئی۔ ملک میں خط افلاس 2010میں 31فیصد سے کم ہوکر 20فیصد پر آگیا اور 2026میں بنگلہ دیش عالمی بینک کی کم ترین ترقی یافتہ ملک کی فہرست سے اوپر آجائے گا۔ ریڈی میڈ کپڑوں کی پیداوار میں اسے بڑی کامیابی ملی ہے، وہ ہمارے ملک سے آگے نکل کر دوسرا سب سے بڑا برآمد کرنےوالا ملک بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے کل برآمدات میں اس علاقہ کی حصہ داری 80فیصد ہے۔ اس علاقے میں اچھی خاصی راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ہوتی ہے۔ جی ڈی پی میں اس کی معاونت گیارہ فیصد ہے۔
ماہر اقتصادیات پروفیسر محمد یونس آٹھ اگست کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ بنائے گئے۔ انہوں نے اپنے عہدہ کا حلف لیا۔ ان کی معاونت کے لیے ملک کی پندرہ ممتاز شخصیات کا انتخاب عمل میں آیا۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر یونس نے کہا کہ اللہ کی طرف سے ملک کو ایک سنہرا موقع عطا ہوا ہے۔ ملک کو ڈکٹیٹر شپ سے آزادی ملی ہے۔ ہمیں خود کے لیے اور آئندہ نسلوں کے لیے ملک کی حفاظت کرنی ہوگی۔ نوبل انعام یافتہ 84سالہ محمد یونس نے کہا کہ ہمارا ملک بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے، اس مصیبت سے نکالنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ تشدد بند ہونا چاہیے۔ اگر اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں ہوتی ہے تو مجھے یہاں رہنےکا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جن ممتاز شخصیات نے حلف برداری میں شمولیت اختیار کی وہ بنگلہ دیش کے مختلف طبقہ فکر کے افراد ہیں۔ ساتھ میں دو اقلیتی فرقے کے نمائندے بھی ہیں۔ ان پندرہ افراد کے نام ہیں: اے ایف حسن عارف، بریگیڈیر جنرل محمود سخاوت حسین، محمد توحید حسین، عبدالرحمن خان، فریدہ اختر، شرمین مرشد، سیدہ رضوانہ حسن، ڈاکٹر آصف نذرل، نور جہاں بیگم، اے ایف ایم خالد حسین، ناہید اسلام ، آصف محمود ، فاروق زماں، بدھان رنجن رائے اور سپرا دیپ چکما۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش ہمہ جہتی معاشی اور سیاسی بدعنوانیوں کی وجہ سے اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ پروفیسر یونس ماہر اقتصادیات ہیں اور وہ غریبوں کے بینکر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مائیکرو فائنانس کا ایسا نظام قائم کیا جس کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی۔ 2006میں انہیں امن کا نوبیل انعام ملا۔ 2009میں جب شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں وہ انہیں عوام دشمن بتاتی رہیں۔ 2011میں شیخ حسینہ نے محمد یونس کو ڈھیر سارے الزامات لگاکر گرامین بینک کے مینجنگ ڈائرکٹر کے عہدہ سے ہٹادیا تھا۔ 2013کے بعد ان پر مالی بدعنوانی کی وجہ سے ٹرائل شروع ہوا۔ حسینہ کے دس سالہ دور اقتدار میں 174مقدمات ان کے خلاف دائر کئے گئے جن میں بدعنوانی، لیبر قوانین کی خلاف ورزی اور غلط طریقے سے مال جمع کرنا شامل ہے۔ پروفیسر یونس کو ڈکٹیٹر وزیراعظم دشمن بتاتی رہیں اور ان کو لٹیرا بھی کہا کیونکہ وہ اس بینک کے ذریعہ غریب عوام سے بہت زیادہ شرح سود وصول کرتے تھے۔ اسی سال جنوری میں ملک کی عدالت نے انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی اور مارچ میں انہیں ضمانت دے دی گئی۔ یہ تمام شیخ حسینہ کی حرکتیں سیاسی محرکات کی وجہ سے تھیں۔ پروفیسر یونس کے خلاف شیخ حسینہ اپنے تیور دکھاتے ہوئے انہیں پدما ندی میں ڈبو دینے کا عہد کیا اوریہاں تک کہا کہ اگر سانسیں اکھڑنے لگے تو پل سے اٹھا کر پھینک دیا جائے تاکہ وہ سبق سیکھیں۔ آج محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ ہیں اور ڈکٹیٹر حسینہ ایک فراری مجرم۔ اسی طرح قرآن کے الفاظ بھی صادق ہی: تلک الایام نداولہا بین الناس (یہ تو زمانے کے نشیب فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں)
***
***
بنگلہ دیش ہمہ جہتی معاشی اور سیاسی بدعنوانیوں کی وجہ سے اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ پروفیسر یونس ماہر اقتصادیات ہیں اور وہ غریبوں کے بینکر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مائیکرو فائنانس کا ایسا نظام قائم کیا جس کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی۔ 2006میں انہیں امن کا نوبیل انعام ملا۔ 2009میں جب شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں وہ انہیں عوام دشمن بتاتی رہیں۔ 2011میں شیخ حسینہ نے محمد یونس کو ڈھیر سارے الزامات لگاکر گرامین بینک کے مینجنگ ڈائرکٹر کے عہدہ سے ہٹادیا تھا۔ 2013کے بعد ان پر مالی بدعنوانی کی وجہ سے ٹرائل شروع ہوا۔ حسینہ کے دس سالہ دور اقتدار میں 174مقدمات ان کے خلاف دائر کئے گئے جن میں بدعنوانی، لیبر قوانین کی خلاف ورزی اور غلط طریقے سے مال جمع کرنا شامل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024