
بنگلہ دیش میں طلبا کی نئی سیاسی جماعت کا قیام
طلباکی قیادت والی سیاسی جماعت کا بنگلہ دیش کے نسلی، سماجی، صنفی، مذہبی اور ثقافتی تنوع کے تحفظ کا عزم
ڈھاکہ (دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو )
دو بڑی پارٹیوں کے بیچ کیا نیشنل سٹیزن پارٹی ملکی سیاست کا نقشہ بدلے گی؟
پانچ دہائیاں قبل طویل لسانی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آنے والا بنگلہ دیش ایک بار پھر نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے دو راہے پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ طویل مدت تک حکومت کرنے والی شیخ حسینہ ’مانسون انقلاب‘ کے نتیجے میں اپنا محل چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔
اگرچہ سرکاری سطح پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ "کوٹہ سسٹم” کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ تحریک جو بعد میں حسینہ کے زوال پر منتج ہوئی، کے دوران تین سو افراد کی ہلاکت ہوئی، تاہم اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم 1500 طلبا اور نوجوانوں کو حسینہ کے حکم پر ہلاک کیا گیا ہے۔
چنانچہ بنگلہ دیش کے دانشور طبقے میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ حسینہ کے 15 سالہ دورِ اقتدار کو "آمر فاشسٹ” حکومت کہا جائے یا "آمر جمہوری حکومت” قرار دیا جائے؟ دوسری طرف بنگلہ دیش میں آئینی اصلاحات کمیشن نے مجوزہ آئین کی تمہید میں بھی آمریت اور فاشزم کے خلاف جدوجہد کی عکاسی کی ہے۔
مجوزہ تمہید کے پہلے پیراگراف میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہم نے جمہوریت قائم کرنے کے لیے آمرانہ اور فاشسٹ حکم رانی کے خلاف متحدہ مزاحمت کی ہے۔ دوسرے پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ "2024 میں فاشسٹ حکم رانی کے خلاف ہماری مشترکہ جدوجہد جمہوریت اور امتیازی سلوک کے خلاف ہمارے نظریات کی عکاسی کرتی ہے”۔
بنگلہ دیشی سیاسی ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ 1971 میں جس وعدے اور یقین دہانی کے ساتھ جمہوریہ بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا وہ خواب اور وعدے ادھورے رہ گئے۔ بنگلہ دیش کی جمہوریت مخصوص طبقے کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی۔
اقتدار سے حسینہ کی رخصتی کو اگلے چند مہینے میں سال مکمل ہو جائے گا۔ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت کو اپنے وعدے کے مطابق اس سال کے اواخر تک عام انتخابات کرانے ہیں۔ اس سے قبل بنگلہ دیش میں آئینی اصلاحات پر بھی کام ہو رہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ چونکہ اس وقت عارضی اور غیر منتخب حکومت کام کر رہی ہے، کیا اس کے پاس بنگلہ دیش کے آئین میں تبدیلی کے اختیارات ہیں؟ دوسری طرف حسینہ کی رخصتی کے سات مہینے بعد بھی بنگلہ دیش سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔
عدم استحکام، مہنگائی، معاشی مشکلات اور امن و امان کی انتہائی نازک صورت حال ہے۔ بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے بھی اعتراف کیا کہ "ہم افراتفری کے دور سے گزر رہے ہیں اور مجرمین اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔”
آرمی چیف نے خبردار کیا کہ اگر ملک میں مسلح افواج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو کمزور کیا گیا تو بنگلہ دیش ٹوٹ جائے گا۔ آرمی چیف کے بیانات یہ واضح کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی صورتِ حال بہتر نہیں ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ قومیں بدترین حالات سے ابھر کر دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ امریکہ بھی طویل مدت تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ مگر جب وہ اس خانہ جنگی سے ابھرنے میں کامیاب ہوا تو اس نے غلامی کا خاتمہ کیا، شہریت کی نئی تعریف کی، سیاہ فاموں کو برابری کا حق دیا، ووٹ دینے کے اختیارات فراہم کیے اور وفاقی طاقت کو وسعت دی۔
فرانسیسی جمہوریہ بھی ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ پانچ مرتبہ بحران سے گزری ہے اور ہر ایک بحران سے وہ ابھرنے میں کامیاب رہی ہے۔
اس لیے ان تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بنگلہ دیش اس بحران سے نہیں ابھر پائے گا۔ بنگلہ دیش کے عوام بالخصوص طلبہ کے سامنے ایک تاریخی لمحہ ہے؛ وہ دوبارہ متحد ہو کر ایک جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کا آغاز کر سکتے ہیں۔
حسینہ کے 15 سالہ طویل اقتدار کے خلاف عوام کے ہر سطح اور طبقے میں ناراضگی تھی، مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ حسینہ کے زوال میں طلبہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
بنگلہ دیش کی تاریخ میں طلبہ تحریک کا ہمیشہ ایک اہم کردار رہا ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب متحدہ پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تو اس وقت یہ طلبہ کی جماعت ہی تھی جس نے محمد علی جناح کے اس اعلان کی شدید مخالفت کی تھی۔
مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک کے پیچھے بھی طلبہ ہی تھے۔ ایوب خان ہو یا یحییٰ خان کی آمریت، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں سب سے زیادہ طلبہ نے ہی مخالفت کی تھی۔
بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کی سیاست میں مختلف مراحل پر طلبہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
جنوری 2024 میں تیسری مرتبہ جن حالات میں حسینہ اقتدار میں آئیں، وہ بنگلہ دیش کے جمہوری زوال کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اپوزیشن اور مخالفین کو سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر کنارے لگا دیا گیا تھا۔ حسینہ کو خود غیر مفتوح ہونے کا احساس قوی ہو گیا تھا مگر محض چھ مہینے بعد ہی "کوٹہ سسٹم” کے خلاف طلبہ تحریک شروع ہوئی۔
حسینہ نے گفت و شنید اور ڈائیلاگ کے ذریعے طلبہ کے مطالبات اور احتجاج کو حل کرنے کے بجائے طاقت کے بل پر کچلنے کا فیصلہ کیا اور محض چند دنوں میں ہزاروں نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
مگر آمریت اور فاشسٹ قوتوں کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ وہ بر وقت حالات کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ حسینہ کی آمریت بھی اسی کمزوری کی شکار ہوئی۔
بنگلہ دیش کی سیاست پر عوامی لیگ (شیخ حسینہ) اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (خالدہ ضیا) کا غلبہ رہا ہے یا پھر فوجی جنرلوں کی حکومت رہی ہے۔
حسینہ کی رخصتی کے بعد یہ سوال اہم ہے کہ بنگلہ دیش کا مستقبل کن ہاتھوں میں ہوگا۔
شیخ حسینہ کی قیادت والی عوامی لیگ اگر اقتدار میں نہیں آئی تو پھر کیا ایک بار پھر بنگلہ دیش کا مقدر نیشنلسٹ پارٹی کو سونپ دیا جائے گا؟
بنگلہ دیش کے عوام نے خالدہ ضیا کی قیادت والی حکومت کی بدعنوانی اور بد انتظامی کو ابھی تک فراموش نہیں کیا ہے۔
دوسری طرف سابق فوجی افسران اس سیاسی بحران کا فائدہ اٹھانے کے فراق میں ہیں۔
بنگلہ دیش کی تاریخ میں فوج کئی مواقع پر سیاست میں شامل رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے آرمی چیف کے بیان سے حوصلہ پاکر کچھ سابق فوجی افسر نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے فراق میں تھے۔
ان حالات میں گزشتہ مہینے کے آخری دن 28 فروری کو مانسون انقلاب کی قیادت والے طلبہ کی قیادت میں نیشنل سٹیزن پارٹی (NCP) وجود میں آئی۔
نیشنل سٹیزن پارٹی کا قیام بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ ہے۔
اس پارٹی کے قیام پر میڈیا کی توجہ، عوام کی بڑی تعداد میں شرکت، نوجوانوں کا جوش و خروش یہ بتاتا ہے کہ یہ صرف ایک اور سیاسی تنظیم نہیں ہے جس کا مقصد مبہم ہو۔
یہ ممکنہ طور پر ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہو سکتی ہے جو آنے والی دہائیوں تک بنگلہ دیش کی سیاسی رفتار کو بنیادی طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔
سب سے اہم بات اس پارٹی کی تشکیل کے مناظر تھے۔ ایک ہی اسٹیج پر قرآن کریم کی آیات اور بھگود گیتا کے شلوک پڑھے گئے۔
دراصل طلبہ کی قیادت والی نئی سیاسی جماعت نے تمام طبقات کو شمولیت کا اشارہ دیا۔
یہ دراصل اعلان تھا کہ بنگلہ دیش کا مستقبل تقسیم کی بجائے اتحاد، مذہبی یا نسلی تقسیم کے بجائے مشترکہ شہریت پر ہونا چاہیے۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ پوری شدت کے ساتھ یہ پروپیگنڈا کر رہی تھیں کہ یہ ترقی پسند بھیڑوں کے لباس میں ایک بنیاد پرست بھیڑ ہے اور اس تحریک کے پیچھے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا ہاتھ ہے، وہ یہ بھی کہتی رہی ہیں کہ جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم ہی مانسون انقلاب کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے اب جب کہ طلبہ نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی ہے تب بھی یہ پروپیگنڈا جاری ہے۔ نیشنل سٹیزن پارٹی بنگلہ دیش کی سیاست میں جماعت اسلامی کی حلیف جماعت ہوگی یا حریف، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ حسینہ کے دورِ اقتدار میں سخت ابتلا و آزمائش کا سامنا کرنے والی جماعت اسلامی کو ابھی تک دوبارہ سیاسی جماعت کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک قوت ایسی ہے جو اسلام پسندوں کی سیاست میں راہ روکنا چاہتی ہے۔
بنگلہ دیش کی نئی سیاسی جماعت کے کنوینر ناہید الاسلام کا خطاب کئی حوالوں سے اہم اور تاریخی تھا، جس میں انہوں نے گزشتہ حکومتوں کی ناانصافیوں اور ظلم و زیادتی کا حساب لینے پر زور دینے کے بجائے آئین، بنیادی حقوق، مساوات اور یکساں مواقع کے نام پر ایک نئے قوم کی تعمیر کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے منتخب آئین ساز اسمبلی کے ذریعے نئے جمہوری آئین کے مسودے کی تیاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’میرٹ پر مبنی قیادت کے حق کو ترجیح دی جائے گی اور خاندانی نظام پر مبنی سیاسی کلچر کا خاتمہ کیا جائے گا۔‘ بدقسمتی سے آزادی کے بعد سے ہی بنگلہ دیش کی سیاست پر خاندانی نظام پر مبنی سیاسی کلچر حاوی رہا ہے۔ ناہید الاسلام نے وعدہ کیا کہ ”ہماری سیاست میں بدعنوانی اور اقربا پروری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ہماری معاشی ترقی کے ثمرات سیاسی اشرافیہ اور ان کے ساتھیوں تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ سماج کے تمام طبقات تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔“ ناہید الاسلام نے بنگلہ دیش کے نسلی، سماجی، صنفی، مذہبی اور ثقافتی تنوع کے تحفظ کا عزم بھی دہرایا۔ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کا عہد کرتے ہوئے ناہید الاسلام نے کہا کہ ہم ایک بہترین پڑوسی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں مگر بھارت کو ہماری خود مختاری اور حقِ خود ارادیت کا احترام کرنا ہوگا۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی این سی پی کی راہیں آسان ہیں؟ بلاشبہ حسینہ کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے طلبہ کی یہ تنظیم اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے مگر مقبولیت اپنی جگہ، سیاسی جماعت، سیاسی عمل اور انتخابات صرف مقبولیت کے سہارے نہیں جیتے اور چلائے جا سکتے۔ اس کے لیے سیاسی حکمت عملی، سیاسی کارکن، انتخابی عمل اور دیگر ضروری وسائل درکار ہوتے ہیں۔ عوامی لیگ اپنے اتحادیوں کے ساتھ واضح طور پر ان طلبہ لیڈروں اور ان کی پارٹی کو دشمن تصور کرتی ہے اور ممکنہ طور پر ان کو کمزور کرنے کے لیے اپنے وسیع حربی ذخیرے میں ہر ہتھیار کا استعمال کرے گی۔ بی این پی کو، جسے حسینہ کے زوال کے بعد ایک بار پھر اقتدار میں آنے کا یقین تھا، اس نئی پارٹی کے قیام سے سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی سیاسی جماعت بنگلہ دیش کی ان دونوں روایتی پارٹیوں کا مقابلہ کر سکے گی؟ کیوں کہ ان دونوں پارٹیوں کے پاس ہر حلقے میں مقامی سطح پر متحرک ہونے کے لیے نیٹ ورکس اور زمینی سطح پر موجود کارکن دستیاب ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ انتخابی فنڈز اکٹھا کرنا بھی ایک مشکل امر ہے، خاص طور پر جب کہ پرانے دور کی طرح غنڈہ گردی اور بھتہ خوری کے ہتھکنڈوں سے بچنا مقصود ہو۔
طلبہ کی قیادت والی اس نئی سیاسی جماعت کے مستقبل اور امکانات پر بنگلہ دیش کے دانشوروں کی آراء مختلف ہیں۔ کچھ تجزیہ نگار اس جماعت کو مسترد کرتے ہیں مگر سنجیدہ تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ یہ بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک مثبت پیش رفت ہے اور اس سے بنگلہ دیش کی دو روایتی پارٹیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے صدر ایم ہمایوں کبیر کہتے ہیں کہ ’طلبہ رائے دہندگان پر مثبت اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ زیادہ تر عوام عوامی لیگ یا بی این پی کی حکم رانی سے تنگ آ چکے ہیں اور شدت سے ایک نئے آپشن کی تلاش میں ہیں۔‘ بنگلہ دیش کے کثیر الاشاعت انگریزی اخبار ”دی ڈیلی اسٹار“ کے ایڈیٹر محفوظ انعم کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ نئی سیاسی جماعت اگلے انتخابات میں اقتدار حاصل کر لے گی، قبل از وقت ہوگا، مگر ان کی موجودگی ہی بنگلہ دیش کی سیاست کے لیے کافی اہم ہے۔ شرط یہ ہے کہ انہیں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
***
بنگلہ دیش کی نئی سیاسی جماعت این سی پی کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ بنگلہ دیش کی سیاست میں کیا کردار ادا کریں گے؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اگر وہ اپنے بانی فلسفے پر وفادار رہتے ہیں، مساوات اور انصاف کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں، عام شہریوں کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں، داخلی جمہوریت پر عمل پیرا رہتے ہیں، اور بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی برقرار رکھتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بنگلہ دیش کی سیاست کے اہم اسٹیک ہولڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025