
بنگلہ دیش میں بدھ مندر کی مبینہ توڑ پھوڑ کا گمراہ کن دعویٰ
فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش، لیکن گروک نے بھانڈا پھوڑ دیا
ڈھاکہ: (دعوت انٹر نیشنل نیوز ڈیسک)
بنگلہ دیش میں بدھ مندروں پر مبینہ حملوں کا ایک اور دعویٰ حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس نے ایک بار پھر عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ 19 جولائی 2025 کو ’’ایکس‘‘پلیٹ فارم پر امانتھی نامی صارف (@amanthi4) نے دعویٰ کیا کہ ایک بدھ مندر پر حملہ ہوا ہے اور حکومت کو اس پر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔
لیکن xAI کے تیار کردہ مصنوعی ذہانت کے ٹول گروک (@grok) نے اس دعوے کی حقیقت کی پول کھول دی۔ گروک نے اپنی تحقیق پر مبنی پوسٹ میں واضح کیا کہ جولائی 2025 کے دوران بنگلہ دیش میں بدھ مندروں پر کسی بھی حملے کی کوئی مصدقہ رپورٹ دستیاب نہیں ہے۔ غالب گمان ہے کہ یہ دعویٰ ماضی کے پرانے واقعات سے متاثر ہو کر پیش کیا گیا ہے۔
گروک نے لکھا:’’خبروں کے ذرائع کا تجزیہ کرنے کے بعد مجھے جولائی 2025 میں بنگلہ دیش میں بدھ مندر کی کسی توڑ پھوڑ کی تصدیق نہیں ملی۔ اگرچہ اقلیتوں کے مسائل پر رپورٹس موجود ہیں لیکن اس مخصوص واقعے کی کوئی قابلِ اعتماد تصدیق نہیں ہوئی۔‘‘(پوسٹ: 11:09 شب، 19 جولائی 2025)
یہ پہلا موقع نہیں جب اس نوعیت کا دعویٰ سامنے آیا ہو۔
2012 میں کاکس بازار کے علاقے رامو میں فیس بک پر مبینہ گستاخانہ پوسٹ کے بعد ہجوم کے ذریعے دس بدھ مندروں اور 2,100 مکانات کو نقصان پہنچانے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اگست 2024 میں شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد اقلیتوں پر حملوں کی خبریں آئیں لیکن بنگلہ دیش ہندو، بدھ اور عیسائی اتحاد کونسل کے مطابق ان میں سے 98.4 فیصد واقعات کا پس منظر سیاسی تھا نہ کہ مذہبی؟
دسمبر 2024 میں سراج گنج کے ایک صوفی مزار کی توڑ پھوڑ کو غلط طور پر ہندو یا بدھ مندر قرار دے کر افواہ پھیلائی گئی تھی۔
سوشل میڈیا: افواہوں کا آسان ہتھیار
اب حالیہ واقعہ اس حقیقت کو پھر نمایاں کرتا ہے کہ سوشل میڈیا، جہاں معلومات برق رفتاری سے بڑھتی ہیں وہیں افواہیں اور جھوٹے دعوے بھی آسانی سے پھیل جاتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں اقلیتیں پہلے ہی حساس صورتحال سے دوچار ہیں، ان افواہوں کا اثر نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں بدھسٹ، کل آبادی کا صرف 0.61 فیصد ہیں اور ان کی اکثریت چٹاگانگ ہِل ٹریکٹس میں مقیم ہے۔ عبوری حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کچھ قابلِ ستائش اقدامات بھی کیے گئے ہیں، جیسے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کا ڈھاکیشوری مندر کا دورہ اور چٹاگانگ کے طلبہ کی جانب سے ہندو مندروں کی حفاظت وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ دعووں کی افواہیں نہ صرف بے بنیاد اشتعال کو جنم دیتی ہیں بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
گروک کی تیز اور مؤثر تحقیق نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت جیسے جدید ٹولز کا درست استعمال کیا جائے تو وہ سچ اور جھوٹ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کو واضح کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں افواہیں لمحوں میں پھیل جاتی ہیں، یہ واقعہ ہمیں ایک اہم سبق دیتا ہے کہ ہر دعوے کو بلا تحقیق قبول کرنا دانشمندی نہیں۔ گروک جیسے تحقیقاتی ذرائع کی مدد سے معلومات کی تصدیق اب پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے تاکہ معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والی غلط اطلاعات کا سدباب کیا جا سکے اور امن و اتحاد کا ماحول فروغ پا سکے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025