
بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں میں اسلام پسندوں کی کامیابی اور بھارت کے لیے مستقبل کی راہ
فہیم الدین احمد، حیدرآباد
ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی سیاست اس وقت ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی اور جہانگیر نگر یونیورسٹی کے طلبہ یونین انتخابات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی طلبہ ونگ اسلامی چھاتر شِبر کی غیر معمولی کامیابی نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ کامیابی نہ صرف بنگلہ دیش کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے بلکہ بھارت جیسے بڑے ہمسایہ ملک کے لیے بھی سوچنے اور غور و فکر کے لیے کئی نئے سوالات پیدا کرتی ہے۔
اسلامی چھاتر شِبر کی کامیابی کے اسباب
ڈھاکہ یونیورسٹی کو ہمیشہ ایک ترقی پسند اور سیکولر دانش گاہ سمجھا جاتا رہا ہے اور یہاں اسلامی چھاتر شبر کو کبھی بھی نمایاں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ لیکن اب یہاں اسلامی چھاتر شبر کے امیدواروں کی کامیابی نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش کی طلبہ سیاست میں رجحان بدل رہا ہے۔ جائزہ لینے پر اس کامیابی کے جو اسباب سامنے آتے ہیں ان نمایاں اسباب درج ذیل ہو سکتے ہیں:
1- مرکزی دھارے کی جماعتوں کی ناکامی: پچھلے برسوں کے دوران عوامی لیگ اور بی این پی کی سیاسی ساکھ طلبہ کے درمیان بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان جماعتوں میں قیادت کا بحران، بد عنوانی اور عوامی مسائل سے ان کی مسلسل لاپرواہی نے طلبا و نوجوانوں کو ان جماعتوں سے بدظن کیا۔
2- اسلامی شناخت کی کشش: اس کامیابی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی نوجوان نسل میں مذہبی اور اخلاقی قدروں کی طرف رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چھاتر شِبر نے اس رجحان کو متحرک اور منظم سیاسی قوت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کی۔
3- طلبہ کے حقیقی مسائل کا اجاگر ہونا: تعلیمی اداروں میں بد عنوانی، سفارش اور بے روزگاری کے مسائل پر چھاتر شبر نے مؤثر آواز بلند کی جس سے طلبہ میں یہ یقین پیدا ہوا کہ یہ تنظیم ان کے مسائل کی حقیقی نمائندہ ہے۔
4- ڈیجیٹل اور سماجی رابطوں کی حکمت عملی: اسلامی چھاتر شبر نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مہم کو بڑے پیمانے پر وسعت دی۔ اس کے برعکس روایتی جماعتیں طلبہ تک اپنی بات پہنچانے میں ناکام رہیں۔
سیاسی صورت حال پر اثرات
یہ کامیابی محض یونیورسٹی سیاست تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بنگلہ دیش کی وسیع تر سیاسی صورت حال پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
• سیاسی خلا کی تکمیل: عوامی لیگ کے زوال اور بی این پی کی قیادت کے بحران نے جو خلا پیدا کیا ہے اسے جماعت اسلامی تیزی سے پُر کر رہی ہے۔
• اسلامی سیاست کا فروغ : 1971ء کے بعد پہلی بار اسلامی نظریات کو نمایاں عوامی حمایت ملی ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو قومی سیاست میں اس کے اثرات واضح اور نمایاں ہوں گے۔
• نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت: بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوان آبادی سب سے زیادہ ہے۔ اس آبادی کے رجحان میں تبدیلی پورے خطے کی سیاست کا رخ بدل سکتی ہے۔
بعض مبصرین نے اس کامیابی کو محض “بنیاد پرستی” یا “بیرونی اثرات” کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اسے ہندوستان مخالف ایجنڈے یا پاکستان نوازی سے جوڑا ہے۔ لیکن یہ تنقید یک رخی محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طلبہ نے چھاتر شبر کو محض نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا بلکہ بڑی جماعتوں کی ناکامیوں اور اپنے مسائل کے حل کی امید میں اسے ترجیح دی۔ اس کامیابی کو صرف بنیاد پرستی یا خارجی اثر و رسوخ کے تناظر میں دیکھنا مقامی سیاسی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا۔
بھارت کے لیے اسبابِ تشویش اور امکانات
بنگلہ دیش کی سیاست میں یہ تبدیلی بھارت کے لیے کئی پیغامات اپنے اندر رکھتی ہے۔ ایک طرف یہ بات مختلف تجزیہ نگاروں کے نزدیک تشویش کا باعث ہے کہ اگر جماعت اسلامی مستقبل میں قومی سطح پر اثر انداز ہوتی ہے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ تو دوسری طرف بھارت کے لیے یہ ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنے رویے کو زیادہ حقیقت پسند اور عوامی سطح پر دوستانہ بنائے۔ اس سلسلے میں درج ذیل امور کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے:
1- خارجہ پالیسی اور سیکورٹی خدشات: اگر بنگلہ دیش میں یہی سیاست فروغ پاتی ہے اور ملک کی خارجہ پالیسی میں یہی رجحان غالب آتا ہے تو اس کے اثرات بھارت کے ساتھ تعلقات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ سرحدی تعاون، تجارت اور سلامتی کے معاملات میں کچھ نئی صورت حال پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ بھارت کو اس تبدیلی کو نظر انداز کرنے کے بجائے پیش بندی کرنی چاہیے اور ایسے مکالمے کی راہ ہموار کرنی چاہیے جس سے غلط فہمیاں کم ہوں۔
2- عوامی رابطوں کی ضرورت: بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ محض حکومتی سطح پر تعلقات کافی نہیں ہیں بلکہ تعلیمی، ثقافتی اور سماجی سطح پر عوامی روابط کو بڑھانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے لیے طلبہ و اساتذہ کے تبادلے، تعلیمی اسکالرشپ، مشترکہ تحقیقی منصوبے اور ثقافتی پروگرام مؤثر ذرائع ہو سکتے ہیں۔ اگر بھارت یہ روابط مضبوط کرتا ہے تو بنگلہ دیشی عوام میں بھارت کا تاثر بہتر ہوگا اور اسلام پسندوں کے فروغ کو ایک یکطرفہ خطرہ سمجھنے کے بجائے اسے باہمی مکالمے کا موقع بنایا جا سکے گا۔
3- جمہوری اصولوں کی پاسداری: بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ اسے بنگلہ دیش کے طلبہ انتخابات کے نتائج کو ایک جمہوری فیصلے کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر بھارت محض تشویش یا مخالفت ظاہر کرے گا تو بنگلہ دیشی عوام اسے اپنی رائے کے انکار کے مترادف سمجھیں گے۔ اس کے برعکس اگر بھارت جمہوری اقدار کے احترام کا مظاہرہ کرے گا تو تعلقات میں اعتماد بڑھے گا اور ایک مثبت سفارتی ماحول قائم ہوگا۔
الغرض اسلامی چھاتر شبر کی کامیابی بنگلہ دیش کی سیاست کا ایک نیا رخ ہے۔ اسے صرف بنیاد پرستی یا بیرونی اثرات کے چشمے سے دیکھنا مناسب نہیں ہے بلکہ اسے مقامی سیاسی حقائق، طلبہ کے مسائل اور بڑی جماعتوں کی ناکامیوں کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ بھارت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ضرور ہے مگر اس کا مثبت جواب یکطرفہ تنقید نہیں بلکہ حقیقت پسند پالیسی، عوامی روابط کے فروغ اور جمہوری اصولوں کے احترام میں پوشیدہ ہے۔ اسلام پسندوں کے فروغ کو بھارت اپنے لیے خطرے کے بجائے ایک خوش آئند تبدیلی سمجھے جسے وہ خطے میں مثبت سفارت کاری اور بہتر تعلقات کے لیے ایک موقع میں بدل سکتا ہے۔
اس سے قبل ایک اور پڑوسی ملک مالدیپ میں بھی بھارت مخالف لہر چلی اور 17 نومبر 2023 کو اقتدار میں آنے والے صدر ڈاکٹر محمد معزو نے بھارتی افواج کے انخلا کے لیے "انڈیا آوٹ” کا نعرہ دیا تھا۔ اس کے جواب میں صدر معزو کے خلاف بھارت میں منفی سوچ پنپتی رہی، یہاں تک کہ مالدیپ کی سیاحت کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلی لیکن زیادہ دن نہیں گزرے کہ وزیر اعظم مودی نے اسی سال مالدیپ کی آزادی کی ساٹھویں سالگرہ کے جشن میں شرکت کی اور 26 جولائی کو مالے کے مقام پر صدر معزو سے ملاقات کی اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات کی بحالی اور باہمی گرم جوشی کے مظاہرے کے ساتھ سب کچھ معمول پر لایا گیا، جو کہ ہم سایہ ممالک کے حق میں ہے۔
سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے تو کہا بھی تھا کہ "دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کیے جا سکتے” تو کیوں نہ ہم سب مل کر جنوبی ایشیا کے خطے میں تمام چھوٹے بڑے پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت باہمی تعاون و اعتماد کی فضا میں استوار کرنے کی کوشش کریں!
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025