بنگلہ دیش کا بوجھ! میانمار کا فریب… روہنگیا کہاں جائیں؟

انصاف کے بغیر انضمام؟ واپسی کے منصوبے پر سوالیہ نشان

نور اللہ جاوید

روہنگیاؤں کی محفوظ واپسی میانمار میں قانون کو بدلنے تک ممکن نہیں ۔جو ملک نسل کشی کا مجرم ہو، کیا وہ پناہ دے سکتا ہے؟
بین الاقوامی تنظیم ”ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز“ کی ایک رپورٹ ”تار کے پیچھے“ (BEHIND THE WIRE) کے عنوان سے چند مہینے قبل منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس رپورٹ میں دنیا بھر میں روہنگیائیوں کو درپیش مسائل اور چیلنجوں پر تفصیلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2.8 ملین روہنگیاؤں میں سے صرف 32 فیصد اس وقت میانمار میں ہیں۔ اور ان 32 فیصد روہنگیائیوں کو بھی وحشیانہ جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ صرف ایک فیصد روہنگیا شہریوں کے پاس پاسپورٹ، شہریت یا شہری حقوق حاصل ہیں۔ چار ممالک — بنگلہ دیش، پاکستان، ملیشیا اور سعودی عرب — میں نقل مکانی پر مجبور روہنگیاؤں کی کل 75 فیصد آبادی آباد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تارکینِ وطن روہنگیا کی 99 فیصد آبادی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ بنگلہ دیش میں تو 1.2 ملین روہنگیائی کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ مگر پاکستان (4 لاکھ) سعودی عرب (3 لاکھ) اور ملیشیا (دو لاکھ) روہنگیائی جو وہاں رہتے ہیں، انہیں بھی کسی قسم کی شہری سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت میں 30 ہزار اور دیگر ایک درجن ممالک جن میں آسٹریلیا، سری لنکا، انڈونیشیا، ترکی اور خلیجی ممالک شامل ہیں، وہاں بھی اچھی خاصی تعداد میں روہنگیا آباد ہیں۔
2017 کے بعد سے ہی بنگلہ دیش 1.2 ملین روہنگیائی تارکینِ وطن کی میزبانی کر رہا ہے۔ رمضان کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کی مظلوم ترین آبادی کو نظر انداز کرکے دنیا جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے فوڈ پروگرام نے فنڈ کی قلت کی وجہ سے ایک روہنگیائی کو ملنے والی 12 ڈالر امداد کو کم کرکے 6 ڈالر کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش جیسے ممالک جہاں مہنگائی عروج پر ہے، وہاں محض 6 ڈالر سے مہینے بھر کا گزارا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ٹرمپ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یو ایس ایڈ میں کٹوتی کی وجہ سے صحت کے پروگرام بند ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا تھا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے ماہانہ خوراک کی امداد کو 12.50 ڈالر سے گھٹا کر صرف 6 ڈالر فی کس کرنے کے فیصلے کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ امدادی کارکنوں نے طویل عرصے سے یہ دلیل دی ہے کہ 12.50 ڈالر کی رقم بھی ناکافی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، 2023 میں کٹوتیوں کے ایک سابقہ دور میں خوراک کے راشن کو کم کرکے 8 ڈالر ماہانہ کر دیا گیا، جس کی وجہ سے بھوک اور غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مہینوں کے اندر کیمپ کی 90 فیصد آبادی "مناسب خوراک تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی” اور 15 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار تھے جو کہ سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی شرح ہے۔
اگست 2024 میں شیخ حسینہ کے زوال کے بعد چیف ایڈوائزر کا عہدہ سنبھالنے والے محمد یونس نے روہنگیائی پناہ گزینوں کے لیے تحریک شروع کی اور دنیا بھر میں مہم چلائی۔ اس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ میں نومبر 2024 میں ایک قرارداد پاس ہوئی، جس میں کہا گیا کہ 2025 کی دوسری سہ ماہی میں روہنگیائی بحران پر اعلیٰ سطحی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل مارچ کے اواخر میں میانمار نے بنگلہ دیش سے 180,000 روہنگیائی شہریوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر یہ نئی پیش رفت امید افزا ہے۔ میانمار بے وطن روہنگیائیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کو ہی سہی، واپس لینے کے لیے تیار ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ روہنگیائی شہریوں کے لیے ایک بہترین موقع ثابت ہو سکتا ہے؟ کیا واقعی میانمار اپنی ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی مخلصانہ کوشش کر رہا ہے؟ یا پھر بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کی یہ ایک چال ہے؟
دراصل یہ سوالات اس لیے بھی کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ میانمار اس وقت بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ایک طرف زلزلے کی وجہ سے مکمل طور پر انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ صوبہ راکھین کا بڑا حصہ — جو روہنگیاؤں کے آبائی اضلاع پر مشتمل ہے — کے اکثریتی علاقے پر باغی ارکان آرمی کا قبضہ ہے۔ میانمار کی فوجی جنتا کے کنٹرول سے یہ علاقہ تقریباً نکل چکا ہے۔ فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار افراتفری کا شکار ہے۔ فوجی جنتا کو مسلح نسلی گروہوں اور ملک بھر میں شہری تحریکوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ اے اے اب راکھین ریاست کے اہم علاقوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ میانمار کے بیشتر علاقوں میں فوجی حکومت کے پاس اب خدمات، تحفظ، یا یہاں تک کہ رسائی فراہم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ جب فوجی جنتا کے کنٹرول میں یہ علاقے نہیں ہیں، تو پھر ایک لاکھ 80 ہزار روہنگیاؤں کی وطن واپسی کیسے کرائی جائے گی؟
اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ میانمار میں جاری مسلح تصادم، تجارتی ناکہ بندیاں، آمدنی میں شدید کمی اور فوج کے اندھا دھند فضائی حملوں کے نتیجے میں بیس لاکھ افراد قحط سالی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ریاستِ راکھین کی بحالی میں برسوں لگیں گے اور اربوں روپے درکار ہوں گے۔ ایسے میں یہ سوال بجا ہے کہ حکومتِ میانمار روہنگیا پناہ گزینوں کی محفوظ اور رضاکارانہ واپسی کی ضمانت آخر کس بنیاد پر دے رہی ہے؟
یہ سوال بھی شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا روہنگیا باشندوں کی مجوزہ واپسی درحقیقت ایک نیا استحصال ہے؟ فوجی جنتا اس وقت اندرونی بغاوت اور بیرونی دباؤ کی زد پر ہے، اور اسے افرادی قوت کی شدید ضرورت ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو واپس بلاکر کہیں انہیں عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
یہ اندیشہ اس وقت مزید تقویت اختیار کر گیا جب نومبر 2024 میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا کہ 3000 سے 5000 روہنگیا پناہ گزینوں کو کاکس بازار کے کیمپوں سے اغوا کر کے شمالی راکھین لے جایا گیا، جہاں انہیں جنگ میں جھونک دیا گیا—اور یہ سب ان کی مرضی کے خلاف ہوا۔ کیمپوں سے اغوا کے یہ واقعات، خاص طور پر کاکس بازار جیسے حساس علاقے میں، بنگلہ دیشی سیکورٹی کی موجودگی اور رضامندی پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب روہنگیا کی وطن واپسی کی کوشش کی جا رہی ہو۔ 1978 اور 1992 میں بھی ان کی واپسی عمل میں آئی، مگر وہ تجربات کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھے۔ وطن واپسی کے بعد بھی ان کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہے۔ وہی ظلم، وہی تشدد اور وہی بے دخلی۔
1982 کا متنازع شہریت قانون، جو روہنگیا کو شہری حیثیت سے محروم کرتا ہے، آج بھی برقرار ہے۔ جب تک اس قانون کو ختم نہیں کیا جاتا اور شہریت کا مسئلہ بنیادی سطح پر حل نہیں ہوتا، کسی بھی واپسی کو پائیدار یا محفوظ نہیں کہا جا سکتا۔
روہنگیا کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں صاف کہہ چکی ہیں کہ قوانین میں بنیادی اصلاحات کے بغیر وطن واپسی ایک اور جبر کے مترادف ہوگی۔ اس وقت بھی ایک لاکھ سے زائد روہنگیائی اپنے ہی ملک میں بے گھر ہیں اور عارضی کیمپوں میں انتہائی محدود سہولیات کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
میانمار حکومت نے جن پناہ گزینوں کی واپسی کی بات کی ہے، وہ 2018 اور 2020 کے درمیان بنائی گئی ایک فہرست پر مبنی ہے، جس میں ان کے وہ بچے شامل نہیں ہیں جو 2020کے بعد پیدا ہوئے۔ کیا ایسے میں والدین تو واپس چلے جائیں گے اور بچے رہ جائیں گے؟ یہ ایک نہایت غیر انسانی منظرنامہ ہوگا جو خاندانی وحدت اور بنیادی انسانی اقدار کے منافی ہے۔
ادھر کاکس بازار کے پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک وطن واپس نہیں جانا چاہتے جب تک ان کے تمام مطالبات پورے نہ ہوں۔ ان میں مکمل شہریت، تحفظ کی ضمانت، آزاد نقل و حرکت، تعلیم، صحت اور روزگار تک رسائی شامل ہیں۔ وہ میانمار کے بجائے بنگلہ دیش میں رہنا بہتر سمجھتے ہیں، اگرچہ بنگلہ دیش اب بھی انہیں مکمل تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔
بلاشبہ، بنگلہ دیش نے 2017 سے اب تک بارہ لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے، لیکن اس سے بنگلہ دیش کی معیشت اور سماجی توازن پر بھی بوجھ بڑھا ہے۔ عالمی امداد میں کمی نے مسائل کو اور گمبھیر کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش بھی چاہتا ہے کہ روہنگیا جلد از جلد وطن واپس جائیں، لیکن ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ جبراً وطن واپسی مزید پیچیدگیاں پیدا کرے گی۔
اگر واقعی روہنگیا کی پائیدار اور باعزت وطن واپسی مطلوب ہے، تو اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
1. 1982 کے شہریت قانون کو منسوخ کیا جائے اور میانمار کی فوجی حکومت پر بین الاقوامی دباؤ ڈال کر شہری حقوق کی ضمانت حاصل کی جائے۔
2. وطن واپسی کا عمل اقوامِ متحدہ کے اداروں (UNHCR, IOM) کی نگرانی میں ہو تاکہ اس کی شفافیت اور انصاف پر یقین قائم رہے۔
3. خاندانوں کی مکمل واپسی کو یقینی بنایا جائے—کوئی بچہ والدین سے جدا نہ ہو اور ہر نوزائیدہ کو بھی حقِ شہریت حاصل ہو۔
4. روہنگیا کے خلاف جرائم کا اعتراف کیا جائے، مجرموں کو سزائیں دی جائیں اور متاثرین کو معاوضہ فراہم کیا جائے تاکہ اعتماد بحال ہو۔
5. واپسی کے بعد روہنگیا کو کیمپوں میں نہیں بلکہ ان کی زمینوں، روزگار اور تعلیم و صحت کی سہولیات کے ساتھ بسایا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر بے دخلی کا شکار نہ ہوں۔
وطن واپسی تبھی باعزت اور دیرپا ہو سکتی ہے جب یہ انتخاب، وقار، انصاف اور مساوی حقوق کے اصول پر مبنی ہو۔

 

***

 بنگلہ دیش نے 2017 سے اب تک بارہ لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے، لیکن اس سے بنگلہ دیش کی معیشت اور سماجی توازن پر بھی بوجھ بڑھا ہے۔ عالمی امداد میں کمی نے مسائل کو اور گمبھیر کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش بھی چاہتا ہے کہ روہنگیا جلد از جلد وطن واپس جائیں، لیکن ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ جبراً وطن واپسی مزید پیچیدگیاں پیدا کرے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025