بیت المقدس لہو لہو

حرم الشریف کی جوں کی توں حیثیت برقرار رکھنے کے معاہدہ کی صریح خلاف ورزی

مسعود ابدالی

اس سال843 یہودی زائرین ٹیمپل ماونٹ آئے جو گزشتہ سال سے 43 فیصد زیادہ ہے۔ فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اگر اسلامی دنیا نے حرم الشریف کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیےسخت موقف اختیار نہ کیا تو ٹیمپل ماونٹ پر انتہا پسندو ں کا قبضہ چند سالوں کی بات ہے۔
تقسیم ہندوستان سے قبل 1946 میں بہار مسلم کش فسادات کا شکار ہوا۔ تلہاڑہ و دنّیاواں مسلمانوں کے لہو سے سرخ ہو گئے۔ ہمارے والد حضرت رخشاں ابدالی نے ان علاقوں کا مشاہدہ کر کے ایک مرثیہ لکھا جس کے دو اشعار کچھ اسطرح ہیں
ہے حشر کا منظر کہ قیامت کا ہے عالم
اِن آنکھوں سے اللہ یہ کیا دیکھ رہے ہیں
یہ عید کے دِن اور ہیں عاشورہ سے بد تر
مجبور ہیں جو حکمِ قضا دیکھ رہے ہیں
یہ فسادات غالباً عید الاضحیٰ کے دوران ہوئے تھے۔ اب کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا فلسطینیوں کو ہے کہ عید کی آمد آمد ہے اور بیت المقدس، دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور غزہ مظلوموں کے خون سے لہو لہان ہے۔ اسرائیلی فوج کا جوتوں سمیت مسجد اقصیٰ میں داخلہ روز کا معمول ہے۔
ہر فلسطینی کی یہ خواہش ہے کہ رمضان میں وہ کم از اکم ایک وقت کی نماز مسجد اقصٰی میں ادا کرے۔ ان کے یہاں روزہ مسجد میں کھولنے کا رواج ہے لہذا عصر کے بعد سے مسجد آباد ہو جاتی ہے۔ اس کے باب دمشق پر خوانچہ فروشوں کا بازار لگا رہتا ہے جہاں سے لوگ افطار کا سامان خریدتے ہیں۔ افطار حرم شریف کے فرش پر ہوتا ہے جہاں ہر روز 75 ہزار اور جمعہ کو ایک لاکھ نمازی جمع ہوتے ہیں۔ تراویح کے بعد قریبی علاقوں کے لوگ تو گھر لوٹ جاتے ہیں لیکن دور دراز سے آنے والے افراد سحری اور نماز فجر کے بعد واپس ہوتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ ہر مسلمان کو محبوب ہے لیکن فلسطینی اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں حتیٰ کہ وہ افراد جو باقاعدہ نماز نہیں پڑھتے وہ بھی کم ازکم جمعہ کو یہاں ضرور آتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ فلسطینی مسجد اقصیٰ کو آباد و پُر رونق رکھنا اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے مسجد اقصیٰ حوصلے اور امید کا مرکز ہے۔ فوجی چھاپوں، شناختی پریڈ، فائرنگ، بمباری، پیاروں کی گرفتاری اور قید وبند کی صعوبتوں میں انہیں مسجد اقصٰی آکر ایک خاص سکون ملتا ہے۔ فائرنگ سے شہید ہونے والے بچوں کے والدین اپنے جگر گوشوں کی تدفین کے بعد آہ وزاری اور اللہ سے مناجات کے لیے سیدھا مسجد اقصیٰ آتے ہیں۔ گویا اللہ کا یہ قدیم گھر فلسطینیوں کے لیے ماں کی گود کی طرح ہے۔ یہ شوق اور قبلہ اول سے دیوانگی کی حد تک عشق ان کے دشمنوں کو پسند نہیں۔ اسرائیلی اہلکار اکثر یہ کہتے پائے گئے کہ ہر فلسطینی محلے میں مساجد موجود ہیں تو پھر انہیں لمبا سفر کر کے مسجد اقصیٰ آنے کا خبط کیوں ہے۔
فلسطینی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو پُر خطر بنا کر یہاں ان کی آمد کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ عرب اور مسلمان دنیا کی سرد مہری سے ان کا احساس محرومی اور بڑھ چکا ہے۔ تقریباً تمام عرب ممالک فلسطینیوں کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے کافی قریب آگئے ہیں۔ جن ممالک نے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا ان کی فضائی حدود اب اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولی جا چکی ہیں۔ بحر احمر سے اسرائیل آنے والے بحری جہازوں کے لیے بھی سعودی بندرگاہوں سے ایندھن لینا اب کچھ مشکل نہیں رہا۔
اس بار یہودیوں کا تہوارِ نجات Passover رمضان کے دوران آیا ہے۔ عرب نژاد یہودیوں کے خیال میں یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے بحفاظت گزار کر ان کے سامنے فرعون اور اس کے پورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کردیا تھا۔ یہ عبورِ عظیم Passover کہلاتا ہے۔دوسری طرف یہودیوں کے سوادِ اعظم کے خیال میں قصہ کچھ اس طرح ہے کہ اللہ نے اہل مصر کو 10 آفتوں میں مبتلا کیا جو دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے اللہ کی نشانیاں تھیں۔ قرآن میں 9 نشانیوں کا ذکر ہے (سورہ بنی اسرائیل )
آخری عذاب سے پہلے اللہ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا کہ فلاں رات کو تمہارے دشمن یعنی ہر مصری کا سب سے بڑا بیٹا مر جائے گا اور سزا صرف انسانوں تک ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کے جانوروں اور مویشیوں کا پہلا بچہ بھی اس رات ہلاک ہوگا۔ اسرائیلوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ شناخت کے لیے قربان کی گئی بھیڑ کا خون اپنے گھروں کے دروازوں اور دہلیز پر لتھیڑ دیں تاکہ موت کا فرشتہ انہیں چھوڑ کر (Passover) آگے بڑھ جائے۔
اس تہوار کی سب سے اہم عبادت ہر خاندان کی طرف سے ایک بھیڑ یا بکرے کی قربانی ہے۔ ان کی مذہبی کتابوں میں کہیں درج نہیں لیکن انتہا پسندوں کا اصرار ہے کہ Passover کی خصوصی عبادت وہ ہرہابیت (پہاڑی پر مقدس گھر) یا Temple Mount پر کریں گے جو عملاً مسجد اقصیٰ کا دالان ہے۔ اس پورے حصے کو مسجد الاقصیٰ کمپاونڈ یا الحرم الشریف کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ شرپسند قربانی بھی وہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کی خواہش ہے کہ دالانِ مسجد کو مذبح خانہ بنا دیا جائے۔
ہر سال اس تہوار سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا جاتا ہے لیکن بیت المقدس پر قبضے کے وقت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی حیثیت برقرار رکھنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کی لاج رکھتے ہوئے انتہا پسندوں کو اب تک اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب 1967 میں سقوط مسجد اقصیٰ کا سانحہ پیش آیا اس وقت اسرائیل نے اقوامِ عالم کو القدس شریف کی حیثیت برقرار رکھنے کا یقین دلایا تھا جو Status Quo معاہدے کے نام سے مشہور ہے۔ معاہدے کے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہے اور زیارت کے لیے آنے والے غیر مسلم یہاں عبادت نہیں کر سکتے۔
گزشتہ سال کے اختتام پر جب انتہا پسند حکومت نے اقتدار سنبھالا، اسی وقت وزیر اندرونی سلامتی المعروف وزیر پولیس اتامر بن گوئر نے کہا کہ ٹمپل ماونٹ پر عبادت ہر یہودی کے لیے باعث سعادت ہے اور حلف اٹھانے کے تیسرے ہی دن موصوف وہاں پہنچ گئے۔ تاہم ضابطے کے مطابق انہوں نے اقصیٰ اوقاف ٹرسٹ کو قبل از وقت مطلع کیا اور وہ چند منٹ چہل قدمی کر کے عبادت کیے بغیر وہاں سے واپس آگئے۔ اس بات پر متحدہ عرب امارات نے سلامتی کونسل میں احتجاج کیا تو اسرائیل کے سفیر جیلاڈ آرڈن نے ڈھٹائی سے کہا کہ Status Quo کا وعدہ غلط تھا۔ مسلمانوں کے لیے مسجد اقصیٰ کا درجہ مکہ اور مدینہ کے بعد ہے جبکہ ہرہابیت یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔
اس ماہ کے آغاز پر وزیر پولیس نے یہودیوں کو پاس اوور کے دوران ٹمپل ماونٹ یعنی الحرم الشریف جانے کی دعوت دی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اشتعال دلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ انتہا پسندوں نے کہا کہ وہ قربانی کی بھیڑیں وہیں ذبح کریں گے۔ مویشیوں کے تاجروں نے قربانی کے جانور بابِ دمشق پہنچانے کی پیشکش کی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا باب دمشق مسلمانوں کی بیٹھک ہے جہاں خوانچہ فروش سحر و افطار کا سامان و مشروبات فروخت کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کچھ متمول اسرائیلیوں نے اعلان کیا کہ مذبح خانوں سے باہر جانور ذبح کرنے کے الزام میں میونسپلٹی کا جرمانہ یہ سیٹھ ادا کریں گے۔ مسجد آنے کی حوصلہ شکنی کے لیے جگہ جگہ ناکے لگا دیے گئے جہاں تلاشی کے نام پر تذلیل کی جاتی ہے۔ پردہ دار خواتین سے بدتمیزی بلکہ دست درازی کے واقعات عام ہیں جس پر تصادم میں کئی فلسطینی مارے گئے۔
ان حرکات پر مسلمانوں کا اشتعال فطری تھا چنانچہ چار اپریل کو افطار کے بعد تراویح سے پہلے مسلمانوں نے القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے روایتی نعرے لگائے۔ اس پر پہلے تو پولیس نے دالان میں آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ بزرگ، اِن جوشیلے نوجوانوں کو سمجھا بجھا کر مسجد کے اندر لے آئے اور احتیاطاً مسجد کے دروازے اندر سے بند کر دیے گئے تاکہ تصادم نہ ہو لیکن مسلح پولیس مسجد اقصیٰ کے اندر گھس گئی۔ آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے علاوہ اعصاب کو وقتی طور پر ماوف کر دینے والے Stun Grenade پھینکے گئے۔ مسلح سپاہیوں نے سیکڑوں نوجوانوں کو ہاتھ پیر باندھ کر مسجد کے فرش پر لٹا دیا، بعد میں یہ بندھے ہوئے نوجوان بھیڑ بکری کی طرح گاڑیوں میں ٹھونس کر جیل پہنچا دیے گئے۔ صرف ایک رات میں 500 سے زیادہ بچے گرفتار ہوئے۔ جمعہ 7 اپریل تک ہر روز تراویح سے پہلے پولیس آپریشن معمول بنا رہا۔ پولیس کا اصرار ہے کہ نماز صرف مسجد کے اندر ہوگی لیکن آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے چنانچہ گنبدِ صخرا تک سارے کمپاونڈ میں صفیں بنی ہوتی ہیں۔ سحری و افطار بھی دالان ہی میں ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ بصری تراشے دیکھے جاسکتے ہیں جس میں اسرائیلی سپاہی جماعت میں کھڑے نمازیوں کو لاٹھیاں مار رہے ہیں۔
دوسری طرف غرب اردن کے مختلف شہروں میں اسرائیلی فوج کا آپریشن اپنے عروج پر ہے۔ مکانوں کے انہدام اور چھاپوں میں کئی نوجوان فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ بیت المقدس اور فلسطینی آبادیوں پر حملوں کے ساتھ غزہ پر فضائی حملے جاری ہیں اور گزشتہ ہفتے سے اس کا دائرہ جنوبی لبنان اور شام تک بڑھا دیا گیا ہے۔
اس ساری وحشت کے دوران امریکہ پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہوا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ اور لبنان سے راکٹ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہمارا عزم آہنی ہے۔گزشتہ ہفتے جب چین اور متحدہ عرب امارات کے مطالبے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تو امریکہ کا اصرار تھا کہ غزہ سے راکٹ بازی کی مذمت کی جائے جبکہ دوسرے ارکان کا کہنا تھا کہ راکٹ بازی کے ساتھ اسرائیلی بمباری اور مسجد اقصیٰ میں پرتشدد کاروائیاں بھی قابل مذمت ہیں۔ اسرائیلی جریدے ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جیلاڈ آرڈن نے بائیڈن انتظامیہ سے مداخلت کی درخواست کی چنانچہ کونسل کے صدر نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ سلامتی کونسل میں کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی جب تک پانچوں مستقل نمائندے یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین متفق نہ ہوں، یہی اصول بیان کے اجرا کے لیے بھی ہے۔
وزیر پولیس کی دعوت پر ہفتہ 15 اپریل کو مسلح سپاہیوں کے ساتھ کئی درجن انتہا پسند زیارت کے لیے ٹمپل ماونٹ آگئے۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ زائرین کی آمد سے پہلے اوقاف بورڈ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ زائرین کو قربانی کے جانور لانے کی اجازت نہ تھی اور یہ لوگ عبادت کیے بغیر ’ترانہ داودؑ‘ اور مناجات پڑھ کر وہاں سے چلے گئے۔
اس بار کافی عرصے بعد ایران نواز حزب اللہ نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اہل غزہ کی طرح اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پر راکٹ برسائے۔ اکثر راکٹ اور میزائیل تو امریکہ کے فراہم کردہ آئرن ڈوم میزائیل شکن نظام نے ناکام بنا دیے لیکن لبنان سے داغے جانے والا ایک راکٹ شمالی اسرائیل کے شہر سلامی (عبرانی تلفظ شلومی) میں سرکاری بینک پر گرا جس سے عمارت بالکل تباہ ہوگئی۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران سعودی عرب کشیدگی کم ہونے سے حزب اللہ اور حماس کے درمیان عسکری تعاون دوبارہ بحال ہو رہا ہے۔
فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حالیہ دنوں میں شام اور لبنان سے حماس کو جو کمک فراہم کی گئی ہے وہ عارضی و اتفاقی ہے یا اب حزب اللہ نے حماس کی ویسی ہی پشت پناہی کا فیصلہ کرلیا ہے جیسی وہ شام کی خانہ جنگی سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اسرائیل نے یہ خطرہ بھانپ لیا ہے چنانچہ شامی راکٹ بازی کے بعد مصر کے ذریعے حماس سے امن بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہودی زائرین کو بیس بیس کے گروپ میں ٹمپل ماونٹ آنے کی اجات دی جارہی ہے اور زیارت کا وقت بھی نماز فجر کے ایک گھنٹے بعد سے ظہر تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس دوران جب فلسطینیوں نے القدس لنا کے فلک شکاف نعرے لگائے تو پولیس مسجد میں داخل ہوئی اور باہر لگے ہوئے لاوڈ اسپیکر کو منقطع کیا۔ بیت المقدس آنے والے راستوں پر لگے کچھ ناکے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔
4 سے 13 اپریل تک تشدد، قبلہ اول کی بے حرمتی اور نمازیوں کو عبادت سے روکنے کے جو واقعات ہوئے اس تناظر میں موجودہ صورتحال کچھ بہتر محسوس ہورہی ہے، لیکن حرم الشریف کی حیثیت یا Status Quo برقرار رکھنے کا اسرائیل نے اقوام عالم کے سامنے جو تحریری وعدہ کیا تھا اس کی صریح خلاف ورزی قابل تشویش ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس سال پاس اوور کے دوران 843 یہودی زائرین ٹمپل ماونٹ آئے جو گزشتہ سال سے 43 فیصد زیادہ ہے۔ فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اگر اسلامی دنیا نے حرم الشریف کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے سخت موقف اختیار نہ کیا تو ٹمپل ماونٹ پر انتہا پسندوں کا قبضہ محض چند سالوں کی بات ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 فلسطینی خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو پُر خطر بنا کر یہاں ان کی آمد کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ عرب اور مسلمان دنیا کی سرد مہری سے ان کا احساس محرومی اور بڑھ چکا ہے۔ تقریباً تمام عرب ممالک فلسطینیوں کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے کافی قریب آگئے ہیں۔ جن ممالک نے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا تھا ان کی فضائی حدود اب اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولی جا چکی ہیں۔ بحر احمر سے اسرائیل آنے والے بحری جہازوں کے لیے بھی اب سعودی بندرگاہوں سے ایندھن لینا کچھ مشکل نہیں رہا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023