بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ‘ بارش کا پہلا قطرہ

جنوبی افریقہ اور اسرائیل کا تاریخی تعلق منظر اور پس منظر

ندیم خان، کشمیر

نیلسن منڈیلا کے پیام کی باز گشت جنہوں نے کہا تھا ’’ہماری آزادی، فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‘ ‘
غزہ میں اسرائیلی حملوں اور امریکہ سمیت بعض مغربی طاقتوں کی جانب سے اس عالمی دہشت گردی کی کھلی حمایت نے نہ صرف انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں کے چہروں سے نقاب اتار کے رکھ دیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے کردار پر بھی سوالیہ نشانات لگ چکے ہیں۔ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ سمیت بااثر عالمی قوتوں نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے تحفظ اور غریب ممالک کو نشانہ بنانے کے ایک جواز کے طور پر باقی رکھا ہوا ہے۔ عالمی ٹھیکیدار جب اور جہاں چاہیں‘ اقوام متحدہ کے امن مشن کے نام پر فوج اکٹھی کر کے کمزور ممالک پر چڑھائی کر دیتے ہیں مگر جب حملہ آور اس عالمی ادارے کا کوئی سرپرست ہو اور نشانہ کوئی مسلم ملک بن رہا ہو تو پھر اقوام متحدہ کی بے بسی اس کے وجود ہی کو بے معنی بنا دیتی ہے۔ ادھر غزہ میں اسرائیل اور اس کی حامی عالمی طاقتوں کی جانب سے ہونے والی عالمی دہشت گردی پر بھی اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن اور افسوسناک قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس عالمی ادارے کا کردار ایک عام شہری کی طرح محض مذمتی بیانات تک ہی محدود ہے اور جنگ بندی تو کجا وہاں ادویات اور خوراک کی ترسیل بھی ممکن نہیں بنائی جا سکی ہے۔ غزہ پر جاری اسرائیلی وحشت و بربریت کے بعد اقوام متحدہ اپنا اعتماد اور وقار کھو چکا ہے۔ اگر اس طرح کے عالمی ادارے کو بھی محض مذمت یا اپیل ہی کرنا تھا اور اس کے پاس طاقتور ممالک کے خلاف کارروائی یا فیصلہ کرنے کی جرأت و ہمت نہیں تھی تو پھر اس کے وجود کی ضرورت ہی کیا ہے؟
جب اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین پر کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکا اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو رکوانے میں مکمل طور پر ناکام رہا تو جنوبی افریقہ نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کر لیا۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں اہلِ غزہ کی نسل کشی کے کیس کی حمایت کرنے والے ممالک میں ایران، ترکیہ، اردن، بنگلہ دیش، مالدیپ، ملائیشیا، بولیویا، کولمبیا، برازیل، نمیبیا اور وینزویلا شامل ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکدار مغربی ممالک میں سے کسی ایک نے بھی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی حمایت نہیں کی۔ جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال کے آخر میں اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں شکایت درج کرائی تھی۔ جنوبی افریقی صدر راما فوسا نے عالمی عدالت سے اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دینے اور اس کے جنگی جرائم اور نسل کشی کے اقدامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے جبکہ ہسپتالوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے اور ہزاروں فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔ یقین ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت 11 جنوری کو شروع ہوئی اور گزشتہ روز عدالت نے فلسطینیوں کی نسل کشی کیس کے فیصلے میں جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے کیس نہ سننے کی اسرائیلی درخواست مسترد کر دی۔ فیصلے کے وقت بین الاقوامی عدالت کے 17 رکنی پینل میں سے 16 ججز موجود تھے۔ عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ اسرائیلی فورسز نسل کشی کے اقدامات فوری روک دے اور حکم کے مطابق اپنے اقدامات کی رپورٹ جمع کرائے۔ اسرائیل غزہ میں انسانی امداد پہنچنے دے اور صورتحال بہتر بنائے اور ان اقدامات کی رپورٹ ایک ماہ کے اندر جمع کرائے۔ 15 ججوں نے اس فیصلے کی حمایت کی جبکہ 2 نے اس کی مخالفت کی۔ عالمی عدالت کے ہنگامی احکامات پندرہ-دو سے منظور کیے گئے۔ عدالت نے کہا کہ غزہ کے تنازع میں شامل تمام فریق عدالت کے احکامات کے پابند ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی اموات ہوئیں۔ عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے۔ جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات میں سے کافی درست ہیں۔ گزشتہ سماعت میں اسرائیل کے وکیل نے عدالت میں یہ جواز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا دفاع کیا تھا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے کارروائی کر رہا ہے اور فلسطینی آبادی سے نہیں بلکہ حماس سے لڑ رہا ہے۔ اسرائیلی وکیل نے بین الاقوامی عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس کیس کو بے بنیاد قرار دے کر خارج کر دے اور اسے نسل کشی نہ قرار دے کر مسترد کر دے مگر عالمی عدالت نے کیس معطل کرنے کی اسرائیلی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمے میں فیصلہ دینا عدالت کے دائرۂ اختیار میں ہے۔
عالمی عدالت نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ کے پاس اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس دائر کرنے کا اختیار ہے۔ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں، اسرائیل کے خلاف الزامات نسل کشی کنونشن کی دفعات میں آتے ہیں، غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا، 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس میں سات ہزار سے زائد افراد شہید اور 63 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ (یہ خبر مقدمے کی سماعت کے وقت کی ہے) اسرائیلی کارروائیوں سے 17 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اس کے حملوں کی وجہ سے غزہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں، تباہی اور نقل مکانی ہوئی ہے۔
غزہ میں ہسپتالوں پر بھی حملے کیے گئے، غزہ کی 20 لاکھ سے زائد آبادی نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہے۔ عدالت نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے حق کو عدالت تسلیم کرتی ہے‘ جنوبی افریقہ کے مطالبات میں وزن ہے۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے۔ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اسرائیل کو چاہیے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکے۔ فیصلے کے وقت عالمی عدالت کے باہر فلسطینیوں اور اسرائیلی مظاہرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ بیشتر افراد فلسطین کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد اسرائیل کی سرکاری ایئرلائن نے جنوبی افریقہ کے لیے براہِ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی ایئرلائن کا کہنا ہے کہ جوہانسبرگ کے لیے پروازیں مارچ کے آخر سے معطل رہیں گی۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی افریقہ ہی کیوں؟ دنیا کے 195 ممالک میں سے صرف جنوبی افریقہ ہی کیوں ہے جو مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے کر گیا ہے؟ مسلم اور عرب ممالک کے برعکس جنوبی افریقہ کی فلسطین کے ساتھ کوئی اخلاقی، ثقافتی یا مذہبی وابستگی نہیں ہے۔ وہ عرب ممالک کے مقابلے میں فلسطین سے تقریباً 7 ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ تو پھر جنوبی افریقہ نے ہی کیوں صیہونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی حالانکہ دیگر ممالک جو فلسطین سے ہر لحاظ سے زیادہ قریب ہیں، ان کے قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملتا ہے کیونکہ فلسطین کی طرح جنوبی افریقی باشندے بھی سفید فام آبادکاروں کے ظلم کا شکار ہوچکے ہیں جو کہ اپنے خونی جبر اور نسل پرستی پر فخر کیا کرتے تھے۔ اسرائیل 1948ء میں بنا، اسی سال ہی جنوبی افریقہ میں نسل پرست نوآبادیاتی دور نے اپنے قدم جمائے۔ اس اتفاق سے قطع نظر دونوں ریاستوں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ مقامی آبادی کی قیمت پر ان کی سفید فام آبادکاروں کی نوآبادی کی حیثیت ان میں ایک تعلق پیدا کرتی ہے۔ یوں ان دونوں ریاستوں کے ناپاک اتحاد کا باقاعدہ آغاز 1953ء میں تب ہوا جب جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم ڈینیئل ملان نے جنوبی افریقہ کا سرکاری دورہ کیا۔ اس طرح ان دونوں آبادکار حکومتوں کے درمیان ایک قریبی اتحاد کی ابتدا ہوئی۔ آنے والے برسوں میں ان دونوں آبادکار قوتوں کا اتحاد مضبوط ہوتا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے سیکھا اور اپنے اپنے زیرِ قبضہ ریاستوں میں مظلوم عوام کو دبا کر رکھنے میں ایک دوسرے کی حمایت بھی کی۔ فلسطینی آبادی کا بھی مرکز سے تعلق منقطع کردیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کے لیے ’بنتوستان‘ بنائے گئے تاکہ انہیں ملک کے سیاسی نظام سے دور رکھا جاسکے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان مماثلت کو حکومتی سطح پر بھی مانا گیا جیسے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم ہینڈرک ویرورڈ جو بنتوستان پروجیکٹ کے معمار کے طور پر جانے جاتے ہیں،انہوں نے خود کہا ’یہودیوں نے عربوں کے ہاتھ سے اسرائیل لے لیا حالانکہ وہ اس زمین پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کی طرح اسرائیل بھی ایک نسل پرست ریاست ہے‘۔ اور جہاں اسرائیل بین الاقوامی فورمز پر نسل پرستی کی مذمت کرتا تھا، حقیقت یہ تھی کہ وہ جنوبی افریقہ کو اپنا قریبی سمجھنے لگا ہے جبکہ اسرائیل کے جنرل رافائل ایتان نے جنوبی افریقی سیاہ فاموں کے بارے میں کہا کہ ’وہ سفید فام اقلیت پر قابض ہونا چاہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے عرب ہمیں اپنے زیرِ کنٹرول لانا چاہتے ہیں۔ ہم جنوبی افریقہ میں موجود سفید فام اقلیت کی طرح ہیں اور ہمیں ان لوگوں کو روکنا ہے جو ہمیں اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں زیرِ تسلط آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھنا دونوں آباد کار حکومتوں نے اپنی ترجیح بنالیا۔ اسی مقصد کے تحت اسرائیل نے جنوبی افریقی سفید فاموں کو مظاہرین کو کنٹرول کرنے والی گاڑیاں اور ہتھیار فراہم کیے اور ان کی افواج کو تربیت دی۔ 1980ء کی دہائی میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ میں تعینات کیے جبکہ جنوبی افریقہ کے فوجی اسرائیل میں تربیت حاصل کررہے تھے۔اسرائیل نے جوہری پروگرام میں بھی اپنےنظریاتی ساتھیوں کی مدد کی۔ ان کی مدد سے جنوبی افریقہ نے 6 جوہری بم تیار کیے لیکن ان تمام بموں کو اس وقت تلف کردیا گیا جب جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک نے اپنے ملک کی عالمی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش میں جوہری پروگرام کو ترک کر دیا تھا۔ ساکھ کی بات کی جائے تو اسرائیل نے اپنے اتحادی کو عالمی دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے اکثر مداخلت کی پھر چاہے وہ 1975ء میں ’پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ‘ کے لیے ’جوائنٹ سکریٹریٹ فار پولیٹیکل اینڈ سائیکالوجیکل وارفیئر‘ کا قیام ہی کیوں نہ ہو جو جنوبی افریقہ کی عالمی ساکھ کو بحال رکھنے کے لیے مالی امداد کے ساتھ ہونے والی دو طرفہ مہم کا حصہ تھا۔ لیکن ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے، جہاں ایک جانب اسرائیل اور نسل پرست جنوبی افریقی حکومت ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی تھیں وہیں دوسری جانب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نیلسن منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس سے اپنے تعلقات استوار کر رہی تھی۔ جس وقت سفید فام برتری پر یقین رکھنے والے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا وہیں جنوبی افریقہ کے رہنماؤں میں سے ایک نیلسن منڈیلا نے 1990ء میں جیل سے اپنی رہائی کے بعد یاسر عرفات سے ملاقات کی جنہوں نے اوسلو معاہدے سے قبل منڈیلا سے اس معاملے پر مشورہ طلب کیا۔ نیلسن منڈیلا بذاتِ خود قضیہِ فلسطین کے بہت بڑے حمایتی تھے جن کا اس حوالے سے مذکورہ قول بھی کافی مقبول ہے ’ہماری آزادی، فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‘۔ یہ صرف کوئی نعرہ نہیں تھا بلکہ اپنی پوری زندگی میں نیلسن منڈیلا نے اخلاقی اور مادی بنیادوں پر ان کی حمایت کی، بالکل اسی طرح جس طرح پی ایل او اور فلسطینیوں نے ہر موقع پر سیاہ فام جنوبی افریقی لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً جب بات نیلسن منڈیلا اور افریقی نیشنل کانگریس کو پسپا کرنے کی آئی تو اسرائیلی لابی نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اسرائیل کی حمایت یافتہ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ نے افریقی نیشنل کانگریس کو ’جابر، انسانیت مخالف، جمہوریت مخالف، اسرائیل مخالف اور امریکا مخالف‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکا نے بھی اس معاملے میں مکروہ کردار ادا کیا۔ شواہد سے ثابت ہوا کہ سی آئی اے نے نیلسن منڈیلا کی نقل وحرکت پر نظر رکھی اور معلومات جنوبی افریقہ کی نوآبادیاتی حکومت تک پہنچائی جس کے نتیجے میں انہیں گرفتاری کے بعد 27 سال قید میں گزارنے پڑے۔ نیلسن منڈیلا 2008ء تک امریکا کے مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ جنوبی افریقی قوم جس نے تسلط اور ناانصافی کا سامنا کیا اب وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کو قاتل اور قابض قوت کے شکنجے سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ یہ فیصلہ فلسطینیوں کے لیے بارش کا پہلا قطرہ اور امید کی ایک نئی کرن ثابت ہوا ہے۔
***

 

***

 فلسطینی آبادی کا بھی مرکز سے تعلق منقطع کردیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کے لیے ’بنتوستان‘ بنائے گئے تاکہ انہیں ملک کے سیاسی نظام سے دور رکھا جاسکے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان مماثلت کو حکومتی سطح پر بھی مانا گیا جیسے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم ہینڈرک ویرورڈ جو بنتوستان پروجیکٹ کے معمار کے طور پر جانے جاتے ہیں،انہوں نے خود کہا ’یہودیوں نے عربوں کے ہاتھ سے اسرائیل لے لیا حالانکہ وہ اس زمین پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کی طرح اسرائیل بھی ایک نسل پرست ریاست ہے‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024