بین مذہبی شادیوں کے تدارک کے لیے عقیدہ کی پختگی اہم

والدین اسلامی نقوش پر بچوں کی تربیت کریں اور نکاح کو آسان بنائیں

علمی سطح پر کیے جانے والے کام کو عملی زندگی میں لانے کی ضرورت
علی گڑھ میں قومی سمینار۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کلیدی خطاب۔ 25 سے زائد مقالے پیش کیے گئے
  علی گڑھ: (روید خان فلاحی) ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی میں ۲۶ تا ۲۷ ستمبر دو روزہ قومی سمینار بعنوان ”بین مذاہب شادیاں، پس منظر و پیش منظر“ منعقد ہوا، جس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر و جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بین مذاہب شادیوں پر غور کرنے کے چار پہلو، شرعی، قانونی،سماجی اور اصلاحی ہیں۔ اسلام نے نکاح کو عقد سے تعبیر کیا ہے اور ہر عاقل و بالغ کو اپنا اپنا جوڑا منتخب کرنے کی اجازت دی ہے۔ نہ کوئی ولی کسی لڑکی پر رشتہ تھوپ سکتا ہے نہ اس کے باپ کو اس کی رضامندی کے بغیر اس کا رشتہ طےکرنے کی اجازت ہے۔ اسلام رضامندی اور ہم آہنگی پر خصوصی زور دیتا ہے۔ سماجی پہلو کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ بین مذاہب شادیوں میں ازدواجی زندگی میں تلخیاں بڑھ جاتی ہیں اور خاندان کا شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے۔ بچوں کے رشتوں پر سوال اٹھتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کون ان سے شادی کرے گا، اس سے بچوں کی زندگی پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے، بچے کشمکش کا شکار ہو کر ذہنی اعتبار سے کمزور ہو جاتے ہیں۔اصلاحی پہلو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بچوں کی اسلامی نقوش پر تربیت کرنے،بچوں کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کے خدشات کو سننے کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ بچوں کی دینیات،ان کی سرگرمیاں اور ان کے عقائد کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے غیر مخلوط تعلیمی ادارے قائم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امت کے لیے یہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کا یہ دو روزہ قومی سمینار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے اشتراک سے منعقد ہوا تھا۔اس میں 25 سے زائد مقالہ نگاروں نے سمینار کے مرکزی اور ذیلی عناوین پر اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔ پروفیسر عبیداللہ فہد فلاحی نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اولاد کے درمیان کمیونیکیشن کو فروغ دینے اور ان کے خدشات کو سننے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مخلوط معاشرہ اللہ کے رسول (ﷺ) کے زمانے میں تھا۔ خواتین بلا جھجک آپ سے سوال کرتی تھیں اور مسجد میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ مغرب کے رد عمل میں ہم لوگ مخلوط معاشرے کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں جبکہ اخلاقی حدود و قیود کا پاس و لحاظ رکھا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔انہوں نے شادی کی تاخیر میں کفو کی بے جا تشریح کو ایک اہم وجہ بتایا اور کہا کہ فقہا نے اس تعلق سے بہت نامناسب تشریح کی ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ ذات پات کے نظام میں پڑ چکے ہیں۔پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے ’’سناتن دھرم میں شادی کا تصور‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔انہوں نے سناتن دھرم کی شادی کی آٹھ قسموں پر بحث کی اور شادی کے تصور کے خدو خال کو اجاگر کیا۔دوسرا مقالہ ڈاکٹر ندیم اشرف نے ”بین مذاہب شادی کے اسباب ومحرکات اور سد باب“، ڈاکٹر محی الدین غازی نے ’’تصور حیات اور شریک حیات میں ہم آہنگی‘‘، ڈاکٹر فضل الرحمن نے ”بین مذاہب شادیوں کا بڑھتا رجحان“، رفیق ادارہ مولانا محمد صادر ندوی نے ”بین مذاہب شادیوں کا جائزہ۔ اعداد وشمار کی روشنی میں“، ڈاکٹر محمد احمد نعیمی نے ”ہندوستانی سماج میں شادی :ایک تجزیہ ہندو دھرم کے حوالے سے“، ڈاکٹر شائستہ پروین نے ”ہندوستان میں بین مذاہب شادیاں ۔اعداد و شمار کی روشنی میں“ اور ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے ”ہندوستانی مذاہب میں شادی ایک تجزیہ“ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ مولانا صفدر علی ندوی، انچارج علمی امور اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور سمینار کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (صدر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ) نے افتتاحی خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے ادارہ تحقیق کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ کا مقصد اقامت دین، اشاعت اسلام، اصلاح معاشرہ، تطہیر افکار اور حالات کے مطابق علمی و فکری لٹریچر تیار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین مذاہب شادی کرنے والوں کی ازدواجی زندگی فلاح نہیں پاسکتی۔ جو اپنے مذہب کا وفادارنہ ہوگا اسے قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔انہوں نے بین مذاہب شادیوں کے ضمن میں غور فکر کے شرعی، قانونی اور سماجی پہلوؤں کا ذکر کیا۔ انہوں نے عصر حاضر کی ایک ناگزیر ضرورت کی طرف توجہ دلائی کہ امت کو اس وقت اچھے وکلا کی ضرورت ہے جو شرعی احکام میں درک رکھتے ہوں، اور کہا کہ نکاح کو آسان بنایا جائے، اسلامی تنظیمیں اس میدان میں کام کریں۔علمی سطح پر کام کرنے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،اسی کو میدان عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح غریبوں پر خرچ کرنا چاہیےاور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔
دوسرے سیشن میں بین مذاہب شادیوں کا رجحان اس کے اسباب و محرکات اور سد باب پر روشنی ڈالی گئی۔ مقالہ نگاروں نے اپنے مقالوں میں مختلف گوشوں سے بحث کی۔پروفیسر مفتی زاہد علی خاں نے”اہل کتاب سے شادی“ کے عنوان پر اور مولانا عبد البر اثری فلاحی نے ”غیر مذہب میں شادی کا رجحان اور بچوں پر اس کے اثرات“ رفقائے ادارہ مولانا محمد جرجیس کریمی نے ”بین مذاہب شادیوں کا سد باب“، مولانا کمال اختر قاسمی نے ”ہندوستان میں بین مذاہب شادیاں۔اسباب و علاج“، مولانا محمد انس فلاحی مدنی نے ’ارتداد حقیقت یا افواہ ۔بین مذہبی شادیوں کے تناظر میں اور مولانا سالم برجیس ندوی نے ”مغربی ممالک میں بین مذہبی شادیاں ۔ تحلیل و تجزیہ“ پر مقالات پیش کیے۔ڈاکٹر وارث مظہری نے ”معاصر اہل کتاب سے شادی۔جواز اور عدم جواز کی روشنی میں“ اور مولانا محفوط الرحمن ندوی نے ”بین مذاہب شادیوں کا محرک۔نکاح میں تاخیر“ پر مقالہ پیش کیا۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی (صدر ادارہ) نے صدارتی کلمات پیش کیے اور جملہ مقالات پر اپنا سرسری جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمر کی رعایت کرتے ہوئے والدین کو اپنی اولاد کی شادی پر توجہ دینی چاہیے ورنہ گناہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تیسرے اجلاس میں پہلا مقالہ ”طلاق اور گھریلو تشدد کے نتیجے میں سماج اور خاندان پر پڑنے والے اثرات“ کے عنوان پر ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس کا بشکل ویڈیو پیش کیا۔ پروفیسر محمد راشد اصلاحی نے”بین المذاہب شادیاں اور تعلیمات“، ڈاکٹر سکندر اصلاحی نے ”بین مذہبی شادیوں کے رجحان کا سد باب کیسےکیا جائے“، ڈاکٹر مبین سلیم ندوی ازہری نے ”بین مذہبی شادیاں -اسلامی نقطہ نظر“ ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی نے ”ہندو مت میں مسلم پرسنل لا“، مولانا عبید اللہ طاہر مدنی نے” کتابیہ سے نکاح اور کتابیہ کا قرآنی مفہوم“ اور ڈاکٹر ناصر نے ”بین مذاہب شادیوں کے نقصانات“ پر مقالہ پیش کیا۔
پروفیسر توقیر عالم فلاحی (ڈین فیکلٹی آف تھیلوجی) نے مقالہ نگاروں کی ستائش کی اور کچھ خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے بین مذاہب شادیوں کے تدارک کے لیے عقیدے کی پختگی کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ والدین اپنے بچوں کی ذہانت کو ایمانی جامہ پہنائیں اور اسلام کے مطابق ان کی تربیت کریں، دین صرف زندہ نہ ہو بلکہ متحرک اور بیدار ہو نیز، اپنی زندگی میں دین کو کلی طور پر نافذ کریں ۔
تاثراتی اجلاس پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ ڈاکٹر محی الدین غازی نے سمینار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سمینار کی پہلی خوبی یہ ہے کہ سب کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا وغیرہ پر اس موضوع پر ہمیں بہت زیادہ مبالغہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اس سمینار میں اعداد و شمار کے حساب سے بات کی گئی اور مستند و معتبر باتیں کہی گئی ہیں۔ سوال و جواب کا موقع بہت کم رہا۔ انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں میں دینی تعلیم کی کمی ہے اور دینی تعلیم کے مراکز کے قیام میں امت بہت پیچھے ہے۔انجینئر نسیم احمد خاں (ڈائریکٹر برج کورس اے ایم یو) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیاں اگر بین مذاہب شادیاں کریں تو بہت ہی تشویش ہوتی ہے لیکن اگر لڑکے کریں تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔مہمان خصوصی پروفیسر اقبال علی خاں نے منتظمین کو مبارکباد دی کہ انہوں نے اتنے اچھے موضوع کا انتخاب کیا جو ٹرینڈ میں ہے۔ انہوں نے Love کی تعریف کی اور جہاد کی اچھی طرح وضاحت کی کہ اس پاک اصطلاح کو بدنام کیا گیا ہے۔ مولانا صفدر علی ندوی نے قرارداد پیش کی۔ سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے کلمات تشکر پیش کیے۔ سیمینار میں شہر علی گڑھ کے عوام، یونیورسٹی کے طلبہ و اسکالرس اور دیگر اہل علم کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023