بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کے سامنے لاچارو بے بس۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کایہودی ریاست میں داخلہ ممنوع
تل ابیب کو فرانس سے اسلحے کی فراہمی معطل۔لبنان میں صہیونی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا،مزید ایک ڈویژن فوج طلب
مسعود ابدالی
7؍ اکتوبر: اسرائیل کی سفاکانہ جارحیت کا ایک سال۔ ’یکطرفہ تحمل‘ کا وقت گزرگیا!
اسرائیل کا جوابی حملہ؛تہران کی تیل تنصیبات، جوہری اثاثے اور قیادت نشانے پر !
ایران کے میزائیل حملے میں صہیونی ملک کو بھاری نقصانات
بیروت پر وحشیانہ حملے کے جواب میں یکم اکتوبر کو ایرانی میزائلوں کی یلغار سے تل ابیب کے ساتھ واشنگٹن بھی پریشان ہے۔صدر باییڈن اور نیتن یاہو دونوں نے ایرانی حملےکو ناکام و غیر موثر قراردیا لیکن اب جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ضرب بڑی کاری تھی۔ آپریشن وعدہ صادق دوم کے نام سے ہونے والی اس کارروائی میں 181 فتاح اور خیبر شکن منجنیقی (Ballistic) میزائل داغے گئے۔جدید میزائل شکن نظام سے لیس اردن، برطانیہ اور امریکی فضائیہ نے بہت سے میزائلوں کو اسرائیلی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کردیا اوراردن سے بچ نکلنے والے میزائلوں کا راستہ روکنے کے لیے اسرائیلی حدود میں تعینات امریکی ساختہ آئرن ڈوم اور ایرو (Arrow)دفاعی نظام بھی مستعد تھے۔
لیکن امریکہ، برطانیہ، اردن اور اسرائیل کے فضائی دفاع کو روندتے ہوئے چند ایرانی میزائل صحرائے النقب (Negev Desert) میں واقع انتہائی حساس اڈے نیواتم (Nevatim) تک پہنچ گئے۔ امریکی ساختہF-35بمبار اسی اڈے سے اڑان بھرتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے پہلے کہا کہ ایرانی میزائل اڈے کے باہر گرے جس سے بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا لیکن دو دن بعد جو تفصیلات سامنے آئیں اس سے انکشاف ہوا کہ حملہ آور میزائلوں نے F35کے ہینگر اور رن وے کو نشانہ بنایا۔اسرائیلی اب بھی مُصر ہیں کہ حملے کے وقت ہینگر میں کوئی طیارہ موجود نہ تھا لیکن سیٹلائٹ تصاویر پر اٹھنے والا دھواں بتارہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ نیواتم کے علاوہ سیٹلائٹ تصویروں پر دارالحکومت تل ابیب سے بارہ میل جنوب ضلع رہووتے (Rehovot) میں تل نوف (Tal Nof) کے فوجی ہوائی اڈے سے بھی دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔
تل نوف پر F-15 طیاروں کی مرمت و دیکھ بھال (Repair and Maintenance) کا کام ہوتا ہے۔ رہووتے ہی کے قریب ہدہشیران (Hod Hasharon)اڈے اور گدیرا (Gedera)عسکری ہائی اسکول پر بھی میزائل گرنے کی اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق ہد ہشران میں ایک سو گھر متاثر ہوئے۔ اسی کے ساتھ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب کے مضافات میں واقع خفیہ ایجنسی موساد کے مرکز اور فوج کے جاسوس ڈویژن المعروف Unit 8200کے ہیڈکوارٹر کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔موساد ہیڈکوارٹر کی دیوار کےساتھ زمین پر 50 فٹ چوڑے گڑھے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمارت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ دفاعی نظام سے گرائے جانے والے میزائل کے ملبے کی زد میں آکرغرب اردن کے شہر اریحا (Jericho)کا ایک 38 سالہ فلسطینی اسکول ٹیچر اپنی جان سے گیا۔
اسرائیل نے ایرانی حملے کا عبرتناک انتقام لینے کا اعلان کیا ہے۔قوم سے اپنے جذباتی خطاب میں وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ایران نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی اسے بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ غربِ اردن ، غزہ، لبنان، یمن، شام اور ایران "برائی کا محور” ہیں۔ نیکی کی عالمی قوتوں کو برائی کے محور کے خلاف اسرائیل کی پشت پناہی کرنی چاہیے۔
آجکل وہاں عبرانی سالِ نو روش ہشنا (Rosh Hashanah) کی تعطیات ہیں اس لیے جوابی کارروائی یوم کپر کے بعد متوقع ہے۔ استغفار و احتساب کا یہ دوروزہ تہوار 11 اکتوبر کو منایا جائے گا۔ اسرائیلی جنگجو زور دے رہے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرکے اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا وقت آچکاہے۔ سابق صدر ٹرمپ کی بھی خواہش ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے جوہری اثاثے پھونک دیے جائیں لیکن امریکی قیادت کو یہ خوف بھی ہے کہیں اس سے میدانِ جنگ مزید وسیع نہ ہوجائے؟ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ’یکطرفہ تحمل‘ کا وقت گزرگیا، اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیاجائے گا۔ چار اکتوبر کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کے پشت پناہوں کو متنبہ کیا کہ ایران کے خلاف کارروائی میں اگر کسی ملک گروہ یا قوت نے اسرائیل کا ساتھ دیا تو جوابی قدم میں اسرائیل کے سہولت کار بھی تہران کا ہدف ہوں گے۔
صدر بائیڈن نے اسرائیل کو شروع میں مشورہ دیا تھا کہ جوہری تنصیبات کے بجائے ایرانی تیل اور گیس کے میدانوں اور ٹینکرز کو نشانہ بنایا جائے۔ ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینٹر لنڈسے گراہم کا بھی یہی خیال ہے کہ تیل صاف کرنے کے کارخانوں اور برآمدی بندرگاہوں کو تباہ کرکے تہران پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ برا ہو حرص و ہوس کا کہ بڑی تیل کمپنیوں کے ساتھ خلیجی ممالک بھی یہی خواہش کررہے ہیں تاکہ ایرانی تیل کے غائب ہونے سے پیدا ہونے والے خلا کومنہ مانگے دام پر پورا کیا جائے۔ ایرانی پیداوار کا تخمینہ 40 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے لیے اپنی پیداوار میں پندرہ لاکھ بیرل یومیہ اضافہ کچھ مشکل نہیں۔ایرانی مال کے بازار سے غائب ہونے پر تیل کی قیمت میں کم از کم 20 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
چار اکتوبر کو قصر مرمریں میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ تیل کی تنصیبات پر حملہ مناسب نہیں ہوگااور اسرائیل کو اس کے متبادل ہدف کا انتخاب کرنا چاہیے۔ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کے لیے مرکزی امریکی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا تل ابیب پہنچ چکے ہیں۔
صدر بائیڈن امن کے بارے میں کتنے سنجیدہ اور مخلص ہیں اس سے قطع نظر اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیل نے امریکی صدر کو کسی بڑے قدم سے پہلے اعتماد میں لینا تو دور کی بات انہیں مطلع کرنا بھی ترک کردیا ہے۔ دو دن پہلے وال اسٹریٹ جنرل میں سینئر صحافی لارا سلائگمین (Lara Seligman) اور ہفت روزہ ٹائم کی نمائندہ ویرا برگنگرن (Vera Bergengren) کے شایع ہونے والے مضمون کے مطابق یروشلم پر واشنگٹن کے اثر و رسوخ کا اب خاتمہ ہوچکا ہے اور اسرائیل اپنے دشمنوں کے خلاف امریکی رائے اور موقف کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے کارروائی کررہا ہے۔ فاضل کالم نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرنے سے ڈیموکریٹک پارٹی کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے یا یوں کہیے کہ سیاست کے جبر نے صدر بائیڈن کو مدد لینے والے اتحادی کے سامنے کاٹھ کا اُلو بنادیا ہے۔
رہی بات زمینی صورتحال کی تو وحشیانہ بمباری کے باوجود اسرائیلی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ کارروائی کا آغاز گزشتہ ہفتے جنوبی لبنان کے شہر العدیسۃ پر چڑھائی سے ہوا جسے مزاحمت کاروں نے پسپا کردیا۔ لبنانیوں نے ایک درجن اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت اور کئی ٹینک تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ اسرائیل نے اپنے دوافسروں سمیت 8 فوجیوں کی موت کا اعتراف کیا ہے۔
شدید بمباری کے بعد اسرائیلیوں نے دوسرے دن جنوبی لبنان کے کوہ عامل کے دامن میں مارون الراس کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی لیکن شدید لڑائی کے بعد انہیں وہاں سے بھی پسپا ہونا پڑا۔ عسکری نامہ نگاروں نے علاقے سے ٹینک اور بکتر گاڑیاں اسرائیل کی طرف واپس آتی دیکھیں۔ مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ دشمن کے 17 سپاہی مارے گئے۔اسرائیل نے اس جھڑپ میں اپنے ایک فوجی کے مارے جانے کا اعتراف کیا ہے۔اسی کے ساتھ مقامی کمانڈر نے کمک طلب کرلی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 98th بکتر بند ڈویژن کو میدان جنگ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیاگیاہے۔ آپریش کے آغاز پر اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ اس محدود و مختصر آپریشن کے لیے چند سو فوجی کافی ہوں گے لیکن اب لبنان کے محاذ پر دوڈویژن یا 20 ہزار فوجی جھونک دیے گئے ہیں۔ زمین پر ناکامی سے تلملا کر اسرائیلی فوج نے بیروت کے رہائشی علاقوں پر شدید بمباری کرکے دل کا بوجھ کم کیا۔موسلادھار بارش کی طرح برستے بموں سے اب تک 1400 لبنانی شہری جاں بحق، 30ہزار زخمی اور دس لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔
لبنان سے راکٹ حملے بھی جاری ہیں۔ دواکتوبر کوتل ابیب کا ساحلی علاقہ بت یام ڈرون حملے کا نشانہ بنا اور نئے عبرانی سال پر غسلِ آفتابی سے لطف اندوز ہونے والوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ اسی دن صحت افزا پہاڑی مقام صفد پر چالیس راکٹ داغے گئے۔ چار اکتوبر کو عراق سے مقبوضہ گولان پر ڈرون حملہ ہوا جس میں دو اسرائیلی سپاہی ہلاک اور 24 شدید زخمی ہوگئے۔ گزشتہ اتوار، ساحلی شہر حیفہ پر حملے کے دوران فضائی دفاعی نظام پراسرار طور پر مفلوج ہوگیا اور لبنانی راکٹوں نے اسرائیل کے اس تیسرے بڑے شہر میں تباہی مچا دی۔ اسی دوران سرحدی شہر کریات شمعونہ بھی نشانہ بنا
ایران کے میزائل حملے اور لبنان و غزہ میں مزاحمت سے جھنجھلاکر اسرائیل سفارتی جارحیت پر اترآیا ہے۔ وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے معتمد عام انتونیو گوئتریس کو “ناپسندیدہ شخص” قراردے دیا یعنی وہ تاحکم ثانی اسرائیل نہیں آسکتے۔ اس بات کا اعلان کرتے ہوئے وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز نے کہاکہ میزائل حملے کے بعد مسٹر گوئتریس نے ایران کا بطور جارح نام نہیں لیا جو صریح ناانصافی ہے۔ جناب گوئتریس پرتگالی شہری ہیں.
لبنان کے ساتھ غزہ اور غربِ اردن پر بمباری بھی جاری ہے۔جامعات، مساجد اور مدارس کے بعد اب خیمے اور چادریں گھیر کر بنائےگے اسکول اسرائیلیوں کا ہدف ہیں جس کا مقصد بچے کچھے اساتذہ کو ٹھکانے لگانا ہے۔ تین اکتوبر کو شمالی غربِ اردن میں طولکرم پر شدید بمباری کی گئی جس سے معصوم بچوں سمیت اٹھارہ فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ چھ اکتوبر کو غزہ کی جبالیہ خیمہ بستی پر بمباری میں الجزیرہ کا19 سالہ صحافی حسن حماد جاں بحق ہوگیا۔حماد کو اسرائیلی فوج ایک عرصے سے متنبہ کررہی تھی کہ وہ واقعات کی فلم بندی سے اجتناب کرے۔ غزہ میں اب تک قلم کے 175مزدور دنیا کو سچ بتانے کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔
ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ پیجر ٹائم بم پر گفتگو اب بھی جاری ہے۔ اس ہفتے امریکہ کے سابق وزیر دفاع اور سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پانیٹا (Leon Panetta) نے لبنان میں پیجر ٹائم بم واردات کو دہشت گردی قراردیا۔ امریکی CBS ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ یہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔دوسری طرف برطانیہ کے بعد فرانس نے بھی اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کردی ہے۔ پانچ اکتوبر کو قومی ریڈیو France Interپرباتیں کرتے ہوئے صدر ایمیونل میکراں نے کہاکہ غزہ اور لبنان میں خونریزی فوری طور پر بند ہونی چاہیے۔ اس تنازعے کا سفارتی و سیاسی حل وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے چنانچہ فرانس غزہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کی فراہمی تاحکم ثانی معطل کررہا ہے۔
اور اب آخر میں یہودیوں کی مردم شماری کا ذکر ملاحظہ کیجیے کہ دو اکتوبر کو نئے عبرانی سال پر جو اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ان کے مطابق دنیا میں یہودیوں کی کل تعداد ایک کروڑ 58 لاکھ ہے۔ایک سال کے دوران آبادی میں ایک لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا۔ اسرائیلی یہودیوں کی تعداد 73لاکھ ہے جبکہ 63لاکھ امریکہ میں آباد ہیں۔ چار لاکھ اڑتیس ہزار 500فرانس اور چارلاکھ یہودی کینیڈا میں رہتے ہیں۔ویسے تو ہندوستان، پاکستان اور ایران سمیت ساری دنیا میں یہودی آباد ہیں لیکن اسرائیل، امریکہ، فرانس اور کینیڈا کے بعد ان کی بڑی تعداد برطانیہ، ارجنٹینا، جرمنی، روس، آسٹریلیا، برازیل، جنوبی افریقہ ہنگری، میکسیکو اور ہالینڈ میں رہائش پزیر ہے۔ ہندوستانی ریاست منی پور میں یہودی کئی صدیوں سے آباد ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انتہا پسندوں نے وہاں ان کی عبادت گاہ کو آگ لگادی تھی جو دنیا کے قدیم ترین معبدوں (Synagogue) میں سے ایک ہے۔
حملے کے خوف، ہیجان اور غیر متوقع صورتحال کے پیش نظر ایک چوتھائی اسرائیلی ملک چھوڑنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق 24 فیصد افراد نے بیرون ملک رہائش کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اکیس فیصد شہری اسرائیل کے باہر ملازمت ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ دُہری شہریت والے اپنے غیر ملکی پاسپورٹ کی تجدید کرارہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل چھوڑنے کے خواہشمندوں میں 36 فیصد سیاسی اعتبار سے حزب اختلاف کے حامی ہیں۔
حوالہ: Ken Broadcasting Israel
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
لبنان کے ساتھ غزہ اور غربِ اردن پر بمباری بھی جاری ہے۔جامعات، مساجد اور مدارس کے بعد اب خیمے اور چادریں گھیر کر بنائےگے اسکول اسرائیلیوں کا ہدف ہیں جس کا مقصد بچے کچھے اساتذہ کو ٹھکانے لگانا ہے۔ تین اکتوبر کو شمالی غربِ اردن میں طولکرم پر شدید بمباری کی گئی جس سے معصوم بچوں سمیت اٹھارہ فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ چھ اکتوبر کو غزہ کی جبالیہ خیمہ بستی پر بمباری میں الجزیرہ کا19 سالہ صحافی حسن حماد جاں بحق ہوگیا۔حماد کو اسرائیلی فوج ایک عرصے سے متنبہ کررہی تھی کہ وہ واقعات کی فلم بندی سے اجتناب کرے۔ غزہ میں اب تک قلم کے 175مزدور دنیا کو سچ بتانے کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔
`
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024