!بے شرمی اور دوہرے معیار کی انتہا۔۔

امریکی صحافی مہدی حسن کا اسرائیلی سفارت کار سے مکالمہ

0

امریکہ کے معروف صحافی اور تیکھے سوالات کے لیے شہرت رکھنے والے مہدی حسن نے اسرائیل کے نامور سفارت کار، سیاست داں اور سابق نائب وزیر خارجہ ڈینی ایالون کو ان کے دُہرے معیار پر ایسا آئینہ دکھایا کہ وہ گھبراہٹ میں نظریں چرانے لگے اور کسی سوال کا سیدھا جواب نہ دے سکے۔
ایران پر ایٹمی خطرے کا شور مچانے والا اسرائیل خود اپنے خفیہ اور غیر قانونی ایٹمی پروگرام کا نہ اعتراف کرتا ہے نہ بین الاقوامی معائنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی جواب دہی قبول کرتا ہے ۔ گویا اس کے لیے دنیا کے اصول ہی کچھ اور ہیں۔
مہدی حسن کے چبھتے سوالات نے سچائی کی وہ پرتیں کھولیں، جن پر برسوں سے خاموشی کی گرد جمی تھی:
مہدی حسن: آج کی تاریخ تک ایران کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار ہیں؟
اسرائیلی سفارت کار: فی الحال میری امید کے مطابق ایک بھی نہیں۔
مہدی حسن: اچھا، تو اسرائیل کے پاس کتنے ہیں؟
اسرائیلی سفارت کار: کچھ اندازہ نہیں۔
مہدی حسن: اندازہ نہیں؟ آپ حکومت میں رہے ہیں، آپ کو یہ معلومات نہیں دی جاتیں؟
اسرائیلی سفارت کار: نہیں، بالکل بھی نہیں۔
مہدی حسن: تو پھر یہ معلومات کس کو دی جاتی ہیں؟
اسرائیلی سفارت کار: مجھے معلوم نہیں۔
مہدی حسن: کیا آپ کو اس بات میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا کہ اسرائیل کا ایک خفیہ اور غیر قانونی ایٹمی پروگرام ہے جسے کسی عالمی ادارے کے سامنے نہیں کھولا گیا، جس پر کوئی بات نہیں کی جاتی ، اور اسی اسرائیل کو پورے خطے کو اخلاقیات کا درس دینے کا دعویٰ ہے؟
اسرائیلی سفارت کار: ہرگز نہیں۔
مہدی حسن: جانتے ہیں کیوں؟ فرض کیجیے کہ کوئی ایرانی مہمان میرے شو پر آ کر یہی بات کہے کہ ’’مجھے نہیں معلوم، میں اس پر بات نہیں کروں گا‘‘ تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا آپ ناراض نہیں ہوتے؟
اسرائیلی سفارت کار: جی، بالکل۔
مہدی حسن: لیکن آپ خود ایک سابق اسرائیلی وزیر ہو کر کہہ رہے ہیں کہ’’مجھے نہیں معلوم، میں نے کبھی ایٹمی ہتھیاروں پر کسی سے بات نہیں کی۔‘‘
اسرائیلی سفارت کار (اصل سوال کو ٹالتے ہوئے) میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایران کے خلاف سیکیورٹی کونسل کی 16 قراردادیں ہیں۔
مہدی حسن :تو کیا اسرائیل کے بارے میں نہیں ہیں اقوام متحدہ کی قراردادیں؟
اسرائیلی سفارت کار:نہیں، قطعاً نہیں، (اسرائیلی) نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں کوئی قرارداد نہیں ہے ۔
مہدی حسن: اسرائیل کے خلاف بھی قراردادیں موجود ہیں — خاص طور پر آپ کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 487 سن 1981 کہتی ہے:
’’اسرائیل سے فوری طور پر مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی مراکز کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں دے۔‘‘
آپ نے آج تک ایسا کیوں نہیں کیا؟
اسرائیلی سفارت کار سے جب کوئی جواب بن نہ پڑا تو سامعین میں سے تاریخ کے ایک واقف کار نے کہا :
ایران نے کبھی کسی ہمسایہ ملک پر حملہ نہیں کیا۔
اسرائیل بارہا اپنے ہمسایوں پر حملہ کر چکا ہے۔
ایران نے نیوکلیئر عدم پھیلاو معاہدہ (NPT) پر دستخط کر رکھے ہیں۔
اسرائیل نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
ایران بین الاقوامی معائنے قبول کرتا ہے۔
اسرائیل انہیں تسلیم ہی نہیں کرتا۔
ایران کے پاس ایک بھی ایٹمی ہتھیار نہیں۔
اسرائیل کے پاس 75 سے 400 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
تو درحقیقت وجودی خطرہ ایران کو اسرائیل سے ہے، نہ کہ اسرائیل کو ایران سے؟
گزشتہ 40 برسوں سے اسرائیل ایک منظم جھوٹ اور گمراہ کن مہم چلا رہا ہے — ایران کے خلاف۔
کیوں؟
آخر یہ جھوٹ کیوں؟
یہ دُہرا معیار کیوں؟
یہ نفاق کیوں؟
اتنی منافقت کیوں؟
حقیقت کا چہرہ دکھانے والے ان سوالات پر سامعین کی تالیاں گونج اٹھیں اور ایرانی سفارت کار کو مسکراہٹ کے پردے میں اپنی خفت مٹاتے ہوئے دیکھا گیا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025