بے لگام مرکزی جانچ ایجنسیاں جمہوریت کیلئے خطرہ

ای ڈی کو بے مہار اختیارات ! خود ادارے پر رشوت ستانی اور بدعنوانی کے الزامات!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

جانچ ایجنسیوں کا سیاسی مخالفین اور سرکاری مشنریوں کا اقلیتوں کے خلاف استعمال!
کیا ملک کو انارکی کی سمت دھکیلا جارہاہے؟ جمہوری اقدار اورقانون وانصاف کی پامالی پر میڈیا میں جشن کا سماں کیوں ہے؟
جھار کھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی ای ڈی کے ذریعہ ڈرامائی انداز میں گرفتاری کے محض چند دنوں بعد ممبئی کرائم برانچ کے ذریعہ بھتہ خوری کے ایک معاملے کی جانچ کے دوران ای ڈی کے زیر تفتیش 200 فائلوں کی برآمدگی اور ای ڈی کے ایک آفیسر کے نام پر رشوت لینے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔اس دوران چنڈی گڑھ میں میئر کے انتخاب کے دوران پریسائڈنگ آفیسر کی ڈھٹائی اور بے شرمی کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی اس پر ناراضگی اور ان کے سخت الفاظ بھی سننے کو ملے۔ یہ الگ بات ہے کہ دھاندلی سے جیتنے والا شخص میئر کی کرسی پر اب بھی فائز ہے۔ یہ تینوں واقعات اگرچہ الگ الگ ہیں اور ظاہری طور پر ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے ’طاقت کا غلط استعمال‘۔ گزشتہ دس برسوں میں جانچ ایجنسیوں ای ڈی ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس نے جس طریقے سے یکطرفہ کارروائیاں کی ہیں اس کی مثالیں اس سے قبل نہیں ملتیں۔ ہیمنت سورین کی جس معاملے میں اور جن حالات میں گرفتاری کی گئی ہے اس سے کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ایک قبائلی وزیر اعلیٰ کے ارد گرد جس طریقے سے ای ڈی نے گھیرا تنگ کیا اور اس پر میڈیا نے جس طریقے سے رپورٹنگ کی وہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ قانونی و اخلاقی ضوابط کی پاسداری کیے بغیر محض ایک وعدہ معاف گواہ کے بیان کی بنیاد پر ایک دہائی پرانے معاملے میں ایک قبائلی وزیر اعلیٰ کو نہ صرف کرسی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی، اگرچہ اس میں بی جے پی والوں کو کامیابی نہیں ملی۔ماضی میں بھی بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے کئی سابق وزرائے اعلیٰ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں مگر آج تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔انہیں اپنی صفائی کے مواقع ملے ہیں مگر سورین کے معاملے میں کچھ بھی رعایت نہیں دی گئی جیسا کہ سورین نے جھار کھنڈ اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ان کارروائیوں کا مقصد مجھے خوف زدہ کرنا تھا تاکہ میں انڈیا اتحاد سے الگ ہوجاوں ۔مجھے آخری دن تک آفر دیے گئے لیکن میں جھکا نہیں۔
بلاشبہ اپوزیشن کی قیادت والی ریاستی حکومتوں کی برطرفی اور اپوزیشن لیڈروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ماضی میں بھی جانچ ایجنسیوں پر حکومت کے اشارے پر کام کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں ۔2013میں سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو ’’پنجرے میں بند طوطا ‘‘ قرار دیا تھا ۔مگر اب نہ صرف سی بی آئی بلکہ ای ڈی اور انکم ٹیکس بھی پنجرے میں بند ہوگئے ہیں بس فرق یہ ہے کہ آج اس معاملے میں سپریم کورٹ بھی کوئی رد دعمل دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ایسے میں یہ سوال بھی لازمی ہے کہ جب ماضی میں بھی حکومتیں جانچ ایجنسیوں کا استعمال اپنے مخالفین کے خلاف کرتی رہی ہیں تو آج پھر اس پر ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ماضی کی کارروائی اور آج کی کارروائیوں میں فرق کیا ہے۔ماضی کی کاررائیوں کو عہدہ کے غلط استعمال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور آج جانچ ایجنسیوں کے استعمال کو جمہوریت کے لیے خطرہ یا پھر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔
سیاسی مقدمات اور مخالفین کے خلاف چھاپوں کی کارروائیوں میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترمیم کے بعد ای ڈی کے چھاپوں میں 27 گنا اضافہ ہوا ہے ۔(جدو ل میں اس تفیصل دیکھی جاسکتی ہے) دوسرے یہ کہ اختلاف رائے اور جواب دہی کے تمام ذرائع کو ان چھاپوں اور کارروائیوں کے نام پر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ماضی میں جانچ ایجنسیوں کی کارروائیاں صرف چند اپوزیشن لیڈروں تک محدود ہوتی تھیں لیکن اب اس میں کافی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔ وہ سبھی لوگ حکومت کے نشانے پر آجاتے ہیں جوعوامی پلیٹ فارمس، انتخابی جلسے یا پھر پارلیمنٹ و اسمبلی کے فلور سے مخالفت میں آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ حقوق انسانی کے لیے سرگرم سول سوسائٹی کے ممبران ہوں یا پھر میڈیا کے وہ ادارے جو حکومت کی تنقید کرنے کی جرأت کرتے ہیں، انہیں جانچ ایجنسیوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر جو فیک نیوز اور جھوٹے دعوؤں کی حقیقت سامنے لانے کے لیے مشہور ہیں اور جن کی کئی رپورٹوں نے حکومت کو مشکلات میں ڈالا ہے، ان کو ایک جھوٹے مقدمے کے تحت ایک مہینے سے زائد عرصے تک جیل میں بند رکھا گیا اور سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد ہی وہ جیل سے باہر آسکے۔کورونا وبا کے دوران حکومت کے ناقص انتظامات کی وجہ سے سیکڑوں افراد کی موت اور ہزاروں افراد کے سڑکوں پر چلنے سے متعلق بے باکی کے ساتھ
رپورٹنگ کرنے والے ہندی اخبار بھاسکر گروپ کے پروموٹر کے خلاف جانچ ایجنسی نے کارروائی کی ۔حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کے لیے مشہور نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے سابق مالکین ڈاکٹر پرنب رائے اور رادھیکا رائے کے خلاف مرکزی جانچ ایجنسی سی بی آئی نے چھاپے مارے نتیجہ میں انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار انہیں چینل کی ملکیت سے ہی ہاتھ دھونا پڑگیا۔سماجی کارکن اور سابق آئی اے ایس ایس آفیسر ہرش مندر اور سماجی کارکن تیستا سیتلواد کو جانچ ایجنسیوں کی جانب سے کارروائیوں کا سامنا ہے۔ آکسفیم، ایمنسٹی، گرین پیس جیسے بین الاقوامی ادارے جو حکومت کے دعوؤں کے برخلاف رپورٹیں شائع کرتی رہی ہیں، ان کو بھی ان جانچ ایجنسیوں نے پریشان کیا اور انہیں آزادانہ رپورٹ شائع کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ بی بی سی جیسے بین الاقوامی نیوز ادارے بھی حکومت کے عتاب سے نہیں بچ سکے۔ بی بی سی کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے گجرات فسادات اور مودی حکومت کے کردار پر تفصیلی ڈاکیومنٹری جاری کی تھی۔پہلے اس ڈاکیومنٹری کو روکنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں بی بی سی کے دفتر پر انکم ٹیکس نے چھاپے مارے گئے ۔ماضی میں اور گزشتہ دس سالوں میں کی گئی کارروائیوں کے درمیان تیسرا سب سے بڑا فرق جانچ ایجنسیوں کا جانبدرانہ کردارہے ۔جانچ ایجنسیاں بی جے پی لیڈروں اور دوسری پارٹیاں چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والوں کے خلاف کارروائیاں روک دیتی ہیں ۔ڈھٹائی کے ساتھ بی جے پی لیڈر اپنے مخالفین کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ وہ انہیں دیکھ لیں گے۔ اس داستان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو ویاپم گھوٹالے میں سی بی آئی نے کلین چٹ دے دی جبکہ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 40 سے زیادہ گواہوں کی غیر فطری موت ہوئی اور اس کی جانچ کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ مدھیہ پردیش میں مڈ ڈے میل گھوٹالہ، کرناٹک میں بی جے پی لیڈروں کے خلاف رشوت خوری کے الزامات اور چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ اور ان کے بیٹے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں مگر ان کے خلاف جانچ ایجنسیاں خاموش ہیں۔ گزشتہ سال انڈیا اتحاد کی تشکیل سے محض تین سے چار دن قبل بہار میں نیتش کمار کی پارٹی لیڈروں کے قریبی تاجروں کے خلاف چھاپہ مار کی کارروائیاں شروع ہوئیں اور یہ اس وقت تک جاری رہیں جب تک نتیش کمار نے اتحاد سے علیحدگی اختیار نہیں کر لی۔ بنگال میں بی جے پی، ترنمول کانگریس کے کئی لیڈروں کو چور کہہ کر پکارتی تھی مگر آج ان میں سے کئی لیڈر بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان میں شوبھندو ادھیکاری کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کے خلاف کئی الزامات ہیں مگر جانچ ایجنسی ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے میں خاموش ہے۔ جبکہ شوبھندو ادھیکاری ایک دن قبل دھمکی دیتے ہیں اور اگلے دن جانچ ایجنسی سرگرم ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے خلاف بھی بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں ۔حال ہی میں ان کے خلاف سرکاری خزانے کا غلط استعمال اور ان کی بیوی کے خلاف بھی الزامات ہیں مگر وہ بہت سے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی حکومت کے سابق وزراء سوماشیکھرا ریڈی اور جی جناردھنا ریڈی 16500 کروڑ روپے کے کان کنی گھوٹالہ میں ملزم ہیں، ان کو 2018 کے کرناٹک قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے عین قبل سی بی آئی نے ’کلین چٹ‘ دی تھی۔نارائن رانے، اس وقت مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیا انڈسٹریز کے مرکزی وزیر، پہلے شیو سینا پھر کانگریس اور اب بی جے پی کے ساتھ ہیں۔جب وہ کانگریس میں تھے تو ان کے خلاف ایوگھنا ہاؤسنگ گھوٹالے کے معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ جانچ کی جا رہی تھی لیکن ان کے بی جے پی میں شامل ہونے اور مرکزی وزیر بننے کے بعد تحقیقات رکی ہوئی ہیں۔ جبکہ غیر بی جے پی والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے گرد آئے دن گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ ہیمنت سورین کے بعد دعویٰ کیا جارہا ہے کیجریوال کی باری ہے اور اس کے بعد کسی اور کی باری ہوسکتی ہے۔جیت پوار، پرفل پٹیل اور چھگن بھجبل سمیت کئی این سی پی اور شیوسینا سے منحرف ہونے والوں کے خلاف ایف آئی آر اور مقدمات درج تھے۔ اجیت پوار پر پچیس ہزار کروڑ روپے کے گھوٹالے اور پرفل پٹیل پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزام ہیں مگر انہوں نے اپنی پارٹی سے انحراف کرکے قانونی چارہ جوئی سے تحفظ حاصل کرلیا ہے۔
جانچ ایجنسیوں کی مدد سے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کی کوشش نے بھارت کی سیاست سے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں کارپوریٹ گھرانوں کا دبدبہ بڑھتا جارہا ہے۔جب سرکاری ادارے کمزور ہوتے ہیں اور اقتدار چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتا ہے تو ملک آمریت کی طرف بڑھتا ہے۔ چنانچہ مرکزی جانچ ایجنسی ای ڈی جسے مختلف ترامیم کے ذریعہ بہت زیادہ بااختیار بنادیا گیا ہے 2009، 2012 اور 2019 میں پی ایم ایل اے کی ترامیم نے منی لانڈرنگ کی کارروائی کادائرہ وسیع کر دیا ہے کیونکہ نئے شیڈول کے جرائم شامل کیے گئے ہیں (پہلے چھ قوانین کے تحت 40 جرائم کی ای ڈی کو جانچ کرنے کے اختیارات تھے اب 30 قوانین کے تحت 140 جرائم کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات ہیں)۔ منی لانڈرنگ کو ایک مسلسل جرم بنا دیا گیا تھا۔ منی لانڈرنگ کی تعریف کے دائرہ کار کو وسیع کر دیا گیا ہے۔ ای ڈی کو کارروائی شروع کرنے کے لیے دیگر ایجنسیوں کی طرح پیشگی ایف آئی آر/ چارج شیٹ تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ای ڈی کو بے لگام طاقت اور قابل اعتراضات ترامیم کے خلاف عدالت میں دائر عرضیوں پر گہرائی سے سماعت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ جمہوریت میں جب کوئی ادارہ غیر متوازن طریقے سے بااختیار ہوجاتا ہے تو پھر وہ پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔چنانچہ حالیہ دنوں میں ای ڈی کے افسروں کے خلاف کئی معاملات سامنے آئے ہیں۔ راجستھان اسمبلی انتخابات کے دوران ای ڈی کے ایک آفیسر کو رشوت لیتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔اس کے بعد تمل ناڈو میں بھی ایک آفیسر کے خلاف کارروائی ہوچکی ہے۔اب ممبئی کرائم برانچ کی کارروائی سے جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ حیران کن ہیں۔
انگریزی اخبار مڈ ڈے میل میں فیضان خان کی شائع رپورٹ کے مطابق ممبئی کرام یونٹ کے بھتہ خوری گینگ کے خلاف کارروائی کے دوران ای ڈی کے زیر تفیش 200 ای ڈی کے دستاویز برآمد ہوئے ہیں۔ممبئی کرائم برانچ نے اس معاملے چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ممبئی کرائم برانچ نے اس معاملے میں ای ڈی کے ایک نامعلوم آفیسر کے خلاف کیس درج کیا ہے۔اخبار نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ تحقیقات کے دوران افسران نے 200 سے زیادہ فائلوں اور کیس کے کاغذات کا پردہ فاش کیا ہے جن کی ای ڈی کے ذریعہ جانچ کی جارہی ہے۔ کرائم برانچ کو شبہ ہے کہ اس گینگ نے ای ڈی کے زیر تفتیش مختلف تاجروں اور بلڈروں سے سو کروڑ روپے سے زیادہ رقم کی رشوت لی ہے۔اخبار کے مطابق کرائم برانچ کو شبہ ہے کہ گرفتار شدہ مشتبہ افراد سے برآمد کی گئی فائل ایجنسی کے زیر تفتیش تھی۔ اس بات کی جانچ کی جارہی ہے کہ یہ فائلیں ان کے پاس کیسے پہنچیں؟ ممبئی کرائم برانچ کو شبہ ہے کہ رشوت خوری کی رقم سو کروڑ روپے سے زائد ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابھی اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ رشوت کی یہ رقم لی جاچکی ہے یا پھر کچھ رقم لینا باقی ہے۔رپورٹ کے مطابق ملزمین ایک سنڈیکیٹ چلاتے ہیں اور اندرونی مدد سے ای ڈی کے زیر تفتیش تمام دستاویزات تک رسائی حاصل کی جاتی ہے ۔اس کی بنیاد پر ای ڈی کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے بلڈروں اور تاجروں سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ جب جانچ ایجنسی ہی سوالوں کی زد میں آجائے اور اس پر ہی رشوت خوری کے الزامات لگیں تو شفافیت کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔
منی لانڈرنگ کے کن معاملات کی ای ڈی جانچ کرے گی؟ اس کے لیے کچھ حدود مقرر کیے گئے ہیں ۔ای ڈی کے اپنے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ’’دہلی این سی آر ،ممبئی، کولکاتا، احمد آباد، چنئی، بنگلورو حیدرآباد اور باقی شہروں میں ایک کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کا بینچ مارک مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم، کئی ایسے معاملات جہاں ایک کروڑ سے بھی کم روپے کی لین دین کا معاملہ ہے وہاں ای ڈی اپنی کارروائی شروع کر دیتی ہے۔ مگر کرناٹک لوک آیوکت پولیس نے بنگلورو میں مبینہ طور پر لیے گئے رشوت کے 8 کروڑ روپے ضبط کیے، ای ڈی یا سی بی آئی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔کیوں کہ بی جے پی کے ممبر اسمبلی اور ان کے بیٹے جو سرکاری ملازم بھی ہیں، زد میں آرہے تھے۔ یہ سوال کہ منشیات سے متعلق منی لانڈرنگ کی جانچ ای ڈی کب کرے گی تو اس سے متعلق ای ڈی کے ہی سرکلر میں کہا گیا کہ 500 گرام کوکین یا 5 کلو بھنگ یا 100 کلو گرام گانجے کے ساتھ کوئی پکڑا جاتا ہے تو اس صورت میں ای ڈی حرکت میں آئے گی۔ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی دوست ریا چکرورتی سے متعلق نارکوٹکس کنٹرول بیورو نے اپنی چارج شیٹ میں کہا تھا کہ ریا چکرورتی نے منشیات فروشوں سے چرس کی ڈیلیوری لی تھی۔ این سی بی کے چارج شیٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ریاچکرورتی منشیات کے خرید و فروخت میں ملوث ہے۔ اس کے باوجود ای ڈی نے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
ای ڈی کی ویب سائٹ کے مطابق ایجنسی کی سزا کی شرح 96 فیصد ہے، تمام مقدمات میں صرف 3 فیصد سیاستدان شامل ہیں اور 99 فیصد مقدمات میں سرچ وارنٹ جاری کیے گئے۔ آئی اے این ایس نے وزارت خزانہ کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2018-19 اور 2021-22 کے درمیان ای ڈی کے ذریعہ درج کیے گئے مقدمات میں 505 فیصد کا اضافہ ہواہے ۔2018-19 میں 195 مقدمات سے 2021-22 میں 1,180ہو گئے۔ 2004-14 اور 2014-22 کے درمیان ای ڈی کی جانب سے کی جانے والی تلاشیوں کی تعداد میں 2,555 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا ہے۔ وزارت خزانہ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ای ڈی نے 2004-14 کے درمیان 112 مرتبہ سرچ آپریشن کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں 5 ,346 کروڑ روپے کی رقم کو ضبط کیا گیا ہے۔
ایک طرف سریع الحرکت کارروائی تو دوسری طرف ای ڈی کی فائلیں گینگ کے پاس سے برآمدگی اور سو کروڑ روپے کی رشوت خوری کے معاملات، مگر جانچ ایجنسی خاموش ہے۔قومی میڈیا اس پر کوئی رپورٹنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب جانچ ایجنسیاں حکومت کے اشاروں پر کام کریں گی تو سوال ہے کہ کیا ممبئی کرائم برانچ آزادانہ طریقے سے اس معاملے کی تحقیقات کرے گی؟ کیا اتنی ساری فائلیں عام کرنے میں صرف ایک آفیسر کا ہاتھ ہے؟ آخر اس راز کا پردہ چاک کون کرے گا؟
چنڈی گڑھ میں میئر کے انتخاب میں دھاندلی سے متعلق مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے جو تبصرے کیے گئے ہیں وہ انتہائی سخت ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ جمہوریت کو اس طرح پٹری سے اترنے نہیں دیں گے، یہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ دھاندلی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہیمنت سورین نے جب جب آرٹیکل 63 کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل کی کہ ان کے معاملے کی فوری سماعت کی جائے مگر سپریم کورٹ نے دو رکنی بنچ تشکیل دی جس نے پورے معاملے کی سماعت کیے بغیر کیس رانچی ہائی کورٹ کو منتقل کردیا ۔کپل سبل کہتے ہیں کہ آرٹیکل 63کے تحت فوری سماعت بنیادی حقوق ہے۔ اسی سپریم کورٹ نے کئی معاملات میں فوری سماعت کی ہے۔ جبکہ ایک وزیر اعلیٰ دہائی دے رہا ہے کہ اس کی عرضی سنی جائے مگر سپریم کورٹ نے اس پر توجہ نہیں دی۔کپل سبل کہتے ہیں کہ اب جانچ ایجنسیاں وعدہ معاف گواہوں کے بنیاد پر گرفتاریاں کر رہی ہیں اور گرفتاری کے بعد متعدد مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف ’ٹارگیٹڈ کارروائیوں‘ کے نقصانات کیا ہیں اور جمہوری عمل کو کس طرح نقصان پہنچتا ہے۔ آئی ایم ٹی میں مارکیٹنگ اور بھارتی جمہوریت کے مبصر پرنیت پاٹھک اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی سے سیاسی آزادی پر قدغن لگتا ہے، قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچتا ہے، بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے اور جمہوریت بھی عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہے۔جمہوریت اپنے شہریوں کو حکمرانوں کی مخالفت کرنے پر سزا نہیں دیتی۔تنقید، اختلاف رائے اور بحث اپنے آپ میں ناقابل تسخیر حقوق میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ احتساب کو یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ لیکن مرکزی جانچ ایجنسیوں کی مدد سے اس طرح کی کارروائی کا واضح پیغام ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق سے دست بردار ہوجائیں اور تنقید و احتساب کی کوشش نہ کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔جب سیاسی مخالفین کے خلاف ٹارگیٹڈ چھاپوں کی تعریف کی جاتی ہے تو درحقیقت ہم اپنی جمہوریت کے زوال کا جشن مناتے ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہلائے جانے والا میڈیا بھی شامل ہے۔اس طرح کے چھاپے عام شہریوں کو اپنی حکومت کو آزادانہ طور پر منتخب کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔سیاست میں بحث و مباحثہ کے ذریعہ حکمرانی کی بجائے طاقت کے ذریعے حکمرانی کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور یہ آمریت پر ختم ہوتا ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ قانون کی حکمرانی کا مقصد شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرکے منظم معاشرہ کی تشکیل دینا ہے مگر جب قانون کی حکمرانی ہی ختم ہوجاتی ہے تو ایک بڑے طبقے میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں دو طبقے پیدا ہوتے ہیں، ایک وہ جو حکومت کی حمایت کرتا ہے جس کو جرم کرنے کے بعد بھی استثنیٰ کا اضافی حق حاصل ہوتا ہے، دوسرا وہ جو حکومت کے مخالفت کرتا ہے جس کو بغیر کسی جرم کے بھی ظلم و ستم کا خطرہ رہتا ہے۔اس طرح بدعنوانی اور جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ پرنیت پاٹھک کہتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے سیاسی استعمال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سیاست کو کرو یا مرو کی جنگ میں تبدیل کردیا جاتا ہے، مخالفین دشمن بن جاتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اور مرکز اور ریاستوں کے درمیان تعاون اور اعتماد کو شدید نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ تعاون اور جنگ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سیاسی بقا اور اقتدار ہر لحاظ سے آگے بڑھتا ہے، کیونکہ ہارنے کی قیمت صرف اقتدار سے باہر ہونا ہی نہیں بلکہ ظلم و ستم کا سامنا کرنا بھی ہے۔ آمریت میں شاذو نادر ہی اقتدار کی پرامن منتقلی ہوتی ہے ۔آمریت یہ سمجھتی ہے کہ اقتدار کی منتقلی سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس لیے اس سے بچنے کے لیے ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔جبکہ جمہوریتیں اقتدار کی معمول اور پرامن منتقلی کے ساتھ بہت زیادہ مستحکم ہوتی ہیں۔
ان حالات میں سول سوسائٹی ہی جمہوریت کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ محض احتجاج، بیانات اور سیمینار کے ذریعہ جمہوریت کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ ملک کے عام شہریوں کو جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی، حکومتوں سے احتساب کرنے اور سوال پوچھنے کے حق کی اہمیت کا احساس دلانا ہوگا۔آج ملک میں مذہبی اور فرقہ واریت کے ذریعہ اس طرح کا پولرائزیشن کر دیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے خلاف اگر جانچ ایجنسیاں کارروائیاں کرتی ہیں تو عام شہری بھی اس کے جشن میں شامل ہوجاتا ہے۔اسی طرح قانون سے ماورا مذہبی منافرت پیدا کرنے کے لیے مخصوص مذہبی طبقات کے خلاف سرکاری مشنریوں کا استعمال کیا جاتا ہے تو ملک کے اکثریتی طبقے میں جشن کا ماحول پیدا کردیا جاتا ہے۔اتراکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں بغیر کسی نوٹس کے ایک مدرسے کو منہدم کرنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے وہ انتہائی تشویش ناک ہیں ۔دہلی کے مہرولی میں ایک قدیم ترین مسجد کو غیر قانونی تجاوزات کے تحت منہدم کردیا گیا۔ اس کے لیے کسی بھی قانونی عمل سے گزرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ انارکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ممکن ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے اکثریتی طبقے کے لوگوں کے جذبات کو تسکین پہنچتی ہو مگر یہ بات یاد رکھنا ہوگا کہ معاشرہ جب انارکی کا شکار ہوتا ہے تو پھر اس کی زد میں وہ بھی آتے ہیں جو کل تک جشن منانے میں شامل ہوا کرتے تھے۔

 

***

 اتراکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں بغیر کسی نوٹس کے ایک مدرسے کو منہدم کرنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے وہ انتہائی تشویش ناک ہیں ۔دہلی کے مہرولی میں ایک قدیم ترین مسجد کو غیر قانونی تجاوزات کے تحت منہدم کردیا گیا۔ اس کے لیے کسی بھی قانونی عمل سے گزرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ انارکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ممکن ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے اکثریتی طبقے کے لوگوں کے جذبات کو تسکین پہنچتی ہو مگر یہ بات یاد رکھنا ہوگا کہ معاشرہ جب انارکی کا شکار ہوتا ہے تو پھر اس کی زد میں وہ بھی آتے ہیں جو کل تک جشن منانے میں شامل ہوا کرتے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024