بے جا تنقید سم قاتل

تنقید سے انساں کی تقدیر سنورتی ہے

سہیل بشیر کار؛ بارہمولہ کشمیر

اعتراض کرنے کااصل حق اسی کو حاصل ہے جس کو اصلاح کا سلیقہ آتا ہو
اسلام میں حسنِ ظن رکھنے کی بڑی تاکید ملتی ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ مثبت فکر و سوچ کے حامل مزاج کو پروان چڑھاتا ہے۔ لوگ جب آپس میں حسنِ ظن رکھیں گے تو وہ بے جا تنقید سے باز رہیں گے۔ مولانا مودودی نے جو دستور بنایا تھا؛ اس میں لکھا گیا: ’’محمد (ﷺ) کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسولِ خدا کے سوا کسی انسان کو معیارِ حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے؛ کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو‘‘۔ کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھنے سے ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی کہ ہر معاملے میں تنقید کرنا ضروری ہے۔ ایسے میں معمولی معمولی چیزوں پر  زبردست تنقید کی گئی بلکہ کچھ لوگوں کا مزاج ہی تنقیدی بن گیا۔ جس وقت مولانا مودودی نے یہ عبارت لکھی تھی اس وقت سب کو معلوم تھا کہ تنقید سے کیا مراد ہے۔ تنقید کے کیا حدود ہیں اور کیسے تنقید تنقیص بن جاتی ہے۔ یہ بے جا تنقید ہی ہے جس کی وجہ سے جماعت کے بڑے لوگوں کو وہ درجہ نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کے برعکس باقی جماعتوں میں معمولی لوگ اکابر بن گئے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تنقید ہی نہ کی جائے بلکہ راقم الحروف کے مطابق جو چیز معیوب ہے، وہ بے جا تنقید ہے۔ سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ تنقید سے کیا مراد ہے۔
تنقید کے لفظی معنی ہوتے ہیں پرکھ، چھان بین، کھوٹا کھرا جانچنا وغیرہ۔ اصطلاحی معنی کے حساب سے ایسی رائے جو برے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرا دے وہ تنقید کہلاتی ہے۔ تنقید کا مطلب دو برابر حصوں میں بانٹ دینے میں بھی لیا گیا ہے۔ جس میں کسی کی جتنی اچھائی بیان کرتے ہیں اتنے ہی اسکے منفی پہلو بھی بیان کردیتے ہیں، یعنی کہ پورا پورا انصاف کردینا۔
اردو میں اس لفظ کا استعمال بعض اوقات منفی معنوں میں بطور اعتراض بھی لیا جاتا ہے، حالانکہ بنیادی طور پر یہ مثبت مفہوم کا حامل ہے۔پروفیسر آل احمد سرور اپنے مضمون ’تنقید کیا ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے۔ تنقید وضاحت ہے، تجزیہ ہے، تنقید قدریں متعین کرتی ہے، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے، تنقید انصاف کرتی ہے،ادنی اور اعلیٰ، جھوٹ اور سچ، پست اور بلند کے معیار کو قائم کرتی ہے‘‘۔
یاد رہے کہ تنقید افکار پر کی جاتی ہے لیکن افسوس کی اکثر لوگ ذات پر تنقید کرکے مسائل پیدا کرلیتے ہیں۔ تنقید کا مقصد مسائل کا حل بتانا ہوتا ہے نہ کہ مسائل پیدا کرنا؟ اگر تنقید کرنے والے کے پاس حل ہی نہیں ہے تو یہ بے جا تنقید شمار ہوگی۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے ’’بھلے وقتوں میں ایک شخص مصوری کیا کرتا تھا اور اس نے اپنی عمر کا ایک حصہ صرف اپنی تصویر بنانے میں لگا دیا۔ وہ تصویر اس شخص کے لیے ایسی تھی کہ جیسے اس کی ساری عمر کی کمائی! جب تصویر مکمل ہو گئی تو اس نے ایک چوراہے پر لٹکا دی اور اس کے نیچے لکھ دیا کہ جہاں غلطی نظر آئے اسے پوائنٹ آؤٹ کریں۔کچھ دنوں کے بعد اس نے دوبارہ چوراہے پر اپنی تصویر پر نظر ڈالی تو اس پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جس میں کوئی غلطی نہ نکالی گئی ہو ۔مصور بہت پریشان ہوا اور اسی تذبذب میں تصویر اٹھائے ہوئے اپنے استاد کے پاس پہنچا اور بولا؛ استاد جی یہ دیکھو میں نے ساری زندگی لگادی اور اتنی خوبصورت تصویر بنائی تھی لیکن لوگوں نے کیا حال کر دیا ہے۔ استاد کے پوچھنے پر اس نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ استاد نے کہا تم دوبارہ تصویر بناو اور اس پر لکھو کہ جہاں غلطی نظر آئے اسے ٹھیک کر دیا جائے۔ اس شخص نے ویسا ہی کیا اور دوبارہ چوراہے پر تصویر لگا دی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے پھر چوراہے پر جاکر تصویر کو دیکھا تو وہ تصویر ویسی ہی تھی جیسی وہ لٹکا کر گیا تھا۔ وہ دوبارہ اپنے استاد کے پاس گیا اور اس کے سامنے روداد سنائی تو استاد نے جواب دیا کہ دیکھو اس دنیا میں لوگ تنقید کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن حل کسی کے پاس نہیں ہوتا اور وہ ان کی کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ قرنِ اول میں تنقید ہوتی تھی اور تنقید کو encourage کیا جاتا تھا لیکن وہاں صرف ان اصحاب کی تنقید معنی رکھتے تھی جو صاحب عزیمت تھے۔ عبداللہ بن ابی کی تنقید کو کبھی بھی encourage نہیں کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب جب بےجا تنقید پر روک نہیں لگائی گئی امت مسلمہ کو نقصان اٹھانا پڑا۔ تنقید کرنا کا مقصد اصلاح ہونا ضروی ہے۔ سب سے پہلے اس کو اپنے آپ کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وہ خود اس معیار پر اترتا ہے؟ ساتھ ہی کیا وہ تنقید ہر ایک کے لیے کرتا ہے یا اس کی تنقید صرف چند افراد یا چند گروپوں پر ہی ہے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کی ذات اور افکار پر ہونے والے نقد پر تاویلیں کرکے انہیں بچانے کی تو کوشش کرتا ہے لیکن اس کا یہ معیار دوسروں کے لیے نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس کو چاہیے کہ ہر ایک کے ساتھ حسنِ ظن رکھے۔ اگر وہ تنقید صرف مخصوص افراد پر کرتا ہے تو یہ نفس پرستی ہے۔ جب کوئی تنقید کرے تو اسے جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی تنقید سے واقعی کوئی فائدہ ہوگا یا لوگ بہت زیادہ discourage ہو جائیں گے۔ بہتر ہے کہ پہلے انفرادی ملاقات کے ذریعہ اصلاح کی جائے۔ اگر خلوص دل سے ایسا کیا جائے تو تنقید کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ جدید تحقیق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بے جا تنقید شخصیت کی تعمیر میں رکاوٹ ہے۔ بار بار کسی کو ٹوکنے سے شخصیت کی تعمیر نہیں ہوتی۔ تنقید کرتے وقت ہمیں اللہ کا خوف دل میں رکھنا چاہیے کہ ہمارے اس رویہ کو اللہ دیکھ رہا ہے جو دلوں کا حال بھی جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ ہماری تنقید کا مقصد کیا ہے۔ امت مسلمہ کے افراد آپس میں بھائی بھائی ہیں، جس طرح ہم اپنے بھائی کے ہر عمل کی تاویل کرتے ہیں؛ ہمیں چاہیے کہ دوسرے دینی بھائیوں کے عمل کی بھی تاویل کریں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023