!بدعنوانیوں کا شجر ِزقوم

امریکی و یوکرینی صدور یعنی ٹرمپ۔ زیلینسکی چپقلش نئی بات نہیں

0

مسعود ابدالی

ڈونالڈ ٹرمپ کی بدگمانیوں کا عملی اظہار متکبرانہ طبیعت کے سبب ،جھڑپ میں تبدیل
قصرِ ابیض کے بیضوی دفتر (Oval Office)میں جمعہ 28 فروری کو ہونے والی جھڑپ کی بازگشت اتوار کو یورپی رہنماؤں کے ہنگامی اجلاس میں بھی سنائی دی۔ بدمزگی کا آغاز صدر زیلنسکی کی قصرِ مرمریں آمد سے ہی ہوگیا تھا۔ یوکرینی صدر سوٹ کے بجائے عام لباس میں تھے۔ صدر ٹرمپ نے انھیں دیکھتے ہی پھبتی کسی کہ ’نائس ڈریس‘۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے جناب زیلینسکی نے کہا کہ میرا ملک حالت ِجنگ میں ہے اس وقت سوٹ پہننے اور شیو کرنے کی کہاں فرصت؟ بات چیت شروع ہوتے ہی تلخی واضح تھی۔ صدر ٹرمپ حسب عادت اپنے مریکہ کے احسانات جتاکر صدر زیلنسکی کوروس سے امن معاہدے پر مائل کرنا چاہتے تھے لیکن یہ شرائط جناب زیلنسکی کیلئے قابل قبول نہ تھیں۔اسی دوران نائب صدر جے ڈی وانس نے یوکرینی صدر کو ناشکرا کہہ دیا۔جواب دیتے ہوئے ولادیمر زیلنسکی بولے کہ آواز بلند کرنے سے بات میں وزن پیدا نہیں ہوتا جس پر صدر ٹرمپ نےغصے سے کہا ‘اس نے آواز تو بلند نہیں کی’ جب وضاحت کیلئے یوکرینی صدر نے منہ کھولا تو ٹرمپ نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ‘آپ بہت بول چکے، جب آپ امن کیلئے تیار ہوجائیں تو یہاں دوبارہ تشریف لے آئیے گا’۔اسی کےساتھ قصرِ مرمریں کی پروٹوکول افسر نے یوکرینی صدر کو انکی گاڑی تک پہنچادیا۔
امریکی قیادت کے سامنے یوکرینی صدر کا یوں پھٹ پڑنا بےوجہ و بے سبب نہیں تھا۔ یوکرین سے واشنگٹن کی بیوفائی و وعدہ خلافی کا سلسلہ قیام یوکرین سے جاری ہے۔ جب 1991 میں یوکرین نے آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اس وقت نہ صرف سوویت دور کی جوہری تنصیبات وہاں موجود تھیں بلکہ بھاری مقدار میں ایٹمی اسلحہ بھی یوکرینی فوج کے ہاتھ لگا۔دنیا کے پانچ بڑوں کو جوہری ہتھیاروں پر سخت تشویش تھی لہٰذا یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرکے جوہری ہتھیار سے دستبردار ہوجائے۔ ایسی ہی ‘تلقین’ قازقستان اور بلارس کو بھی کی گئی جن کے پاس سوویت دور کے جوہری ہتھیار موجود تھے۔ تاہم تینوں ہی اپنی سلامتی کے خوف سے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے پر تیار نہ تھے۔
ان ملکوں کے خدشات دور کرنے کیلئے دفاع اور تعاون کی یورپی تنظیم (OSCE)کے بینر تلے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ایک اجلاس ہوا۔ جہاں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان نے یقین دلایا کہ اگر یوکرین، قازقستان اور بیلارس اپنے جوہری پروگرام ختم کردیں تو برطانیہ، روس اور امریکہ انکے تحفظ اور سلامتی کے ذمہ دار ہونگے۔ طویل مذاکرات کے بعد 5 دسمبر 1994 کو ضمانتِ تحفط کی ایک یادداشت پر دستخط ہوئے جسے Budapest Memorandum on Security Assuranceکہا جاتا ہے۔ اس چھ نکاتی یادداشت میں برطانیہ، روس اور امریکہ نے بہت صراحت کیساتھ ضمانت دی کہ اگر قازقستان، یوکرین اور بیلارُس اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے ایٹمی اسلحہ روس کے حوالے کردٰیں تو:
بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کی سلامتی، خودمختاری اور سرحدوں کا مکمل احترام کیا جائیگا
بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کو دھمکی یا انکے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائیگا
بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کے خلاف کسی قسم کی معاشی پابندی نہیں لگائی جائیگی
بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کیا جائیگا
اگر یہ ملک دھمکی یا طاقت کا نشانہ بنے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انکے دفاع کی ذمہ دار ہوگی
اگر اس عہد سے متعلق کبھی کوئی شک یا ابہام پیدا ہوا تو تینوں ضامن مشورے کے بعد ان ملکوں کو اعتماد میں لینگے
اس تحریری معاہدے کے باوجود 2014 میں روس نے کریمیا اور یوکرین کےدو مشرقی صوبوں کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا یعنی ایک ضامن نے خود ہی معاہدے کو ہوا میں اڑادیا اور دوسرے ضامنوں سمیت ساری دنیا خاموش رہی۔ اسکے بعد 24 فروری 2022 کو روس ایک بار پھر یوکرین پر چڑھ دوڑا۔ اس یادادشت پر روس کے سابق صدر بورس یلسٹن، امریکی صدر بل کلنٹن، اور برطانیہ کے وزیراعظم جان میجر نے دستخط کئے تھے۔ان میں سے بورس یلسٹن آنجہانی ہوچکے لیکن جان میجر اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔ اپنے دستخطوں سے جاری ہونے والی ضمانت کی دھجیاں بکھرتی دیکھ کر انھیں ذرا شرم نہ آئی۔یوکرینیوں میں یہ احساس شدت اختیار کرچکا ہے کہ اگرانکے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو اسکے عوام اس بے بسی کے عالم میں نہ مارے جاتے۔بھولی یوکرینی قیادت نے ‘بھیڑیوں’ کو معصوم سمجھنے کی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کیا جسکی قیمت آج ساڑھے چار کروڑ یوکرینی ادا کررہے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں سے دستبراری اور اب یوکرین کے معدنی وسائل پر صدر ٹرمپ کی للچائی نظروں نے شکوک و بدگمانی کی خلیج کو مزید گہرا کردیا۔ اسی کےساتھ ذاتی سطح پر ان دونوں رہنماؤں کے درمیان چپقلش کا سلسلہ خاصہ پرانا ہے۔حالیہ جھڑپ کو 2020 کے امریکی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بے اعتمادی نئی نہیں ہے۔
جس زمانے میں جو بائیڈن امریکی نائب صدر تھے، ان دنوں یوکرین کی تیل اور گیس کمپنی Burisma نے انکے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن کو اپنے بورڈ آف ڈائریکٹر کا رکن بنایا، اورمشاہرے و مراعات کی مدمیں 80 ہزار ڈالر ماہانہ ادائیگی طئے پائی۔ہنٹر بائیڈن کی تقرری سے دوسال پہلے یعنی 2012 سے بورسما کے خلاف بدعنوانی و رشوت ستانی کی تحقیقات شروع ہوچکی تھیں۔ تین سال بعد وکٹر شوکن (Victor Shokin)نئے مستغیث اعلیٰ (Prosecutor General)مقرر ہوئے اور بورسما کے خلاف تحقیقات میں تیزی آگئی۔
امریکی وفاقی ادارہِ تحقیق یا FBIکے ایک جاسوس نے اپنے افسران کو بتایاکہ تحقیقات سے جان چھڑانے کیلئے بورسما کے مالک نے ہنٹر بائیڈن کو 50 لاکھ ڈالر رشوت پیش کی تاکہ وہ اپنے والد کے ذریعے یوکرینی حکومت پر دباؤ ڈال کر مستغیث اعلیٰ کو برطرف کروادیں۔الزام کے مطابق جو بائیڈن نے یوکرینی حکومت کو دھمکی دی کہ اگر وکٹر شوکن کو برطرف نہ کیا گیا تو وہ یوکرین کیلئے منظور شدہ ایک ارب ڈلر کی امداد رکوادینگے۔یہ الزام امریکی تحقیقات کاروں نے جھوٹ قراردیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوکرینی پارلیمان نے مارچ 2016 میں مستغیث اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرکے انھیں برطرف کردیا۔
مئی 2019 کو ولادیمر زیلنسکی نے یوکرین کی صدارت سنبھال لی۔اس وقت امریکہ میں صدر ٹرمپ کی حکومت تھی اور 2020 کی انتخابی مہم شروع ہوچکی تھی۔ رائے عامہ کے جائزے سے لگ رہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن ہونگے۔ جولائی 2019 میں صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر اپنے یوکرینی ہم منصب ولادیمر زیلنسکی کو فون کیا اور ان سے درخواست کی کہ بورسما کرپشن اور اس میں ہنٹر بائیڈن کے ملوث ہونے کے بارے میں اگر کوئی ٹھوس مواد انکے پاس ہو تو وہ جناب ٹرمپ کو فراہم کریں۔ ساتھ ہی امریکی صدر نے یہ بھی باور کرادیا کہ امریکہ کا فوجی تعاون اور مالی امداد اس معاملے میں صدر زیلنسکی کے تعاون سے مشروط ہے۔ صدر ٹرمپ نے موقف اختیار کیا کہ وہ امریکی ٹیکس دہندگان کی کمائی کرپشن کی نذر نہیں ہونے دینگے۔ یوکرینی صدر نے ڈانلڈ ٹرمپ کو کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کئے لیکن امریکی و یوکرینی صدور کی گفتگو پر ڈیموکریٹک پارٹی نے ہنگامہ برپا کردیا اور بات صدر ٹرمپ کے مواخذے تک آگئی تاہم سینیٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ملنے کے سبب مواخذے کی تحریک ناکام ہوگئی۔
ڈانلڈ ٹرمپ 2020 کا انتخاب ہارگئے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ولادیمر زیلنسکی نے دہرا کھیل کھیلا یعنی ایک طرف تو ہنٹر بائیڈن کے خلاف کوئی مواد فراہم نہیں کیا تو دوسری جانب فون کے بارے میں ٹرمپ مخالفین کو اطلاع بھی انھوں نے ہی فراہم کی۔
رائے عامہ کے جائزے دیکھ کر صدر زیلینسکی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ 2024 میں ڈانلڈ ٹرمپ انتخاب جیت جائینگے چنانچہ گزشتہ برس ستمبر میں جب انھوں نے امریکہ کاسرکاری دورہ کیا تو وہ ڈانلڈ ٹرمپ سے ملنے نیویارک کے ٹرمپ ٹاور آئے جہاں روس یوکرین امن معاہدے پر بات ہوئی۔ تاہم صدر ٹرمپ کی بدگمانی دور نہ ہوئی۔ واشنگٹن میں گزشتہ ہفتے جو ہوا وہ اسی بدگمانی کا عملی اظہار تھا جسے جناب ٹرمپ کی متکبرانہ طبیعت نے جھڑپ میں تبدیل کردیا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025