بدعنوانی کے خلاف لڑائی کا وعدہ وفا نہیں ہوسکا
ہندتو قوتوں اور کارپوریٹ کی ملی بھگت۔ گیارہ برسوں میں بدعنوانی ادارہ جاتی شکل میں تبدیل
نور اللہ جاوید، کولکاتا
نظام میں عدم شفافیت کی وجہ سے معاشی عدم مساوات اب تک کی بلندترین سطح پر
ای ڈی، سی بی آئی اور این آئی اے: احتساب یا اپوزیشن کا استحصال؟
آج ملک میں بدعنوانی ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چھوٹی موٹی کرپشن کم ہوئی ہے۔ البتہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ مودی دور حکومت میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف لڑائی کے نام پر حکومت نے محض سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں کیں، مرکزی ایجنسیوں کو زیادہ سرگرم کر دیا۔
مودی حکومت اپنا بارہواں عام بجٹ اگلے چند دنوں میں پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ملک بھر کی نگاہیں اسی کی طرف مرکوز ہیں۔ کئی سوالات ہیں جو اس بجٹ کو لے کر کیے جا رہے ہیں، ہر ایک اپنے نقطہ نظر سے اس بجٹ سے امیدیں لگا رہا ہے۔ کئی سوالات بھی ہیں کہ اس بجٹ کا فوکس کیا ہوگا؟ انفراسٹرکچر اور عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی یا پھر ماضی کی طرح حکومت کا زیادہ فوکس ظاہری چمک دمک اور کارپوریٹ گھرانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے پر مرکوز ہوگا؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک طرف حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے ادارے نیتی آیوگ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ 9 سالوں میں ملک میں رہنے والے تقریباً 248 ملین افراد کثیر جہتی غربت سے نکل چکے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں کثیر جہتی غربت میں 18 فیصد کمی آئی ہے اور ملک میں غربت کی شرح 29 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد رہ گئی ہے۔ تاہم، دوسری طرف گلوبل ہنگر انڈیکس (GHI) کی رپورٹ اس کے برعکس ہے۔ 2023 کی رپورٹ میں کل 125 ممالک میں سے ہندوستان کا درجہ 111 واں تھا۔ GHI ممالک کی کارکردگی کو چار اجزاء کے اشارے پر تجزیہ کرتا ہے: غذائیت، بچوں کی بربادی، بچوں کی نشوونما اور بچوں کی اموات۔ لیکن حکومت نے غلط طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی خراب کارکردگی کا دفاع کیا ہے۔ جاری کردہ انڈیکس میں بھارت کا اسکور 28.7 ہے جو بھوک کی سنگین سطح کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ صورتِ حال صرف گلوبل ہنگر انڈیکس تک محدود نہیں ہے۔ حکومت کے ذریعے ہیومن ڈیولپمنٹ سے متعلق پیش کیے گئے بیشتر اعداد و شمار پر ماہرین کی کم و بیش یہی رائے ہے۔ پانچ سال گزر چکے ہیں اور حکومت ہر دس سال میں ہونے والی مردم شماری کو شروع نہیں کر سکی ہے۔ ایسے میں حکومت کے تمام دعوے اور اس کے پیمانے سوالوں کی زد میں ہی رہیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کے ذریعے پیش کی گئی رپورٹ کا ملک کی اقتصادی، سماجی اور معاشرتی زندگی پر کیا اثر مرتب ہو رہا ہے؟ دراصل اعداد و شمار کی ہیرا پھیری نے ملک میں بدعنوانی اور مالی لوٹ مار کے بازار کو گرم کر دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 میں مالی بدعنوانی کے خاتمے، غریب عوام پر ٹیکس میں کمی اور ان کے ذریعے لوٹے گئے روپے کو ملک واپس لا کر عوام میں تقسیم کرنے کے خوش کن نعرے دیے تھے۔ اگرچہ اس ملک میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ بدعنوانی کو انتخابی مہم کا مرکز بنا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی گئی ہو، بلکہ اس کی طویل تاریخ ہے اور اس ملک کے عوام نے کئی مرتبہ سیاسی نعروں پر یقین کر کے بدعنوانی کے خاتمے کے نام پر تبدیلی لائی ہے، مگر ہر بار انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مودی کی طرح وی پی سنگھ نے 1980 کی دہائی کے آخر میں سابق وزیرِاعظم راجیو گاندھی کو بدعنوان لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی انتہائی کامیاب مہم چلائی اور ایک بہت ہی دلکش نعرہ "گلی گلی میں شور ہے، راجیو گاندھی چور ہے۔” دیا۔ اس نعرے نے ووٹروں کو متاثر کیا، چنانچہ لوک سبھا میں اب تک کی سب سے بڑی اکثریت رکھنے والی کانگریس حکومت شکست سے دوچار ہوگئی۔ وی پی سنگھ بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں اس قدر آگے چلے گئے کہ انہوں نے اپنی سیکولر روایات اور اس پر یقین کو ایک طرف رکھتے ہوئے بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت سے اتحاد کرلیا۔
وی پی سنگھ نے الزام عائد کیا تھا کہ راجیو گاندھی نے بھارتی افواج کو فیلڈ گنز فراہم کرنے کے لیے سویڈن کی اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے نام پر بڑے پیمانے پر کمیشن لیا ہے۔ صاف ستھری شبیہ کے مالک راجیو گاندھی کے لیے یہ الزامات بڑا دھچکا ثابت ہوئے۔ مگر ان پر یہ الزامات کبھی ثابت نہیں ہوسکے اور وی پی سنگھ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس پر معذرت بھی کی اور اس پوری مہم کو اپنی سیاسی غلطی قرار دیا۔ بدعنوانی کے خلاف سیاسی لڑائی کا یہ بدترین انجام تھا۔
پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت پر ہرشد مہتا کے ماسٹر مائنڈ والے سیکیورٹیز اسکینڈل نے ملک کے مالیاتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اپنے بہترین معاشی فیصلوں کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والی نرسمہا راؤ حکومت پر بدعنوانی کا داغ اس قدر غالب آگیا کہ اگلے عام انتخاب میں اسے شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ منموہن سنگھ وزیرِ خزانہ تھے، مگر بدنامِ زمانہ حکومت میں بھی ان کے دامن پر بدعنوانی کے چھینٹے نہیں پڑے اور وہ بدنامی سے محفوظ رہے۔ اسی نیک نامی نے انہیں 2004 میں وزارتِ عظمیٰ تک پہنچا دیا۔ لیکن اس کے باوجود 2004 سے 2014 کے درمیان منموہن سنگھ کی حکومت پر متعدداسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوئے جن میں کوئلے سے چلنے والے بلاکس اور ٹیلی کمیونیکیشن اسپیکٹرم نمایاں ہیں۔
بھارت کے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی تیار کردہ رپورٹ میں حکومت کی بے عملی اور متعینہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چند کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ نئی دہلی میں دولتِ مشترکہ کھیلوں کے انعقاد میں فنڈز میں ہیرا پھیری کے الزامات نے حکومت کی بدنامی کو مزید گہرا کردیا ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کے متنازعہ زمین اور جائیداد کے سودے اور لالو پرساد کو سزا سنائے جانے کے بعد قانون کو تبدیل کرنے کی ناکام کوشش نے یہ تاثر قائم کردیا کہ منموہن سنگھ کی حکومت بدعنوانی میں ملوث ہے اور بدعنوانوں کی پناہ گاہ ہے۔
انہی الزامات نے بھارت کی سیاست میں مودی کی شکل میں ایک نئی سیاست کا آغاز کیا۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم بدعنوانی کے خلاف زوردار لڑائی کے عزم کے ساتھ چلائی۔ حیرت انگیز طور پر، مودی کی اس مہم کی حمایت میں وہ افراد اور کمپنیاں شامل تھیں جنہوں نے ٹو جی اسپیکٹرم، کوئلہ بلاک الاٹمنٹ اور دولتِ مشترکہ کھیلوں سے منافع حاصل کیا تھا۔ وہ میڈیا گروپس بھی شامل تھے جنہوں نے منموہن سنگھ کی حکومت کے دور میں بدعنوانی کی پشت پناہی کے لیے ٹیپ گھوٹالہ میں حصہ لیا تھا۔
مودی نے 5 جنوری 2014 (جب وہ گجرات کے وزیرِاعلیٰ تھے اور انہیں وزیرِاعظم کے عہدے کا امیدوار بنا دیا گیا تھا) ان کو ایک ٹرسٹ کی افتتاحی تقریب میں، جس میں بڑی تعداد میں کارپوریٹ گھرانوں کے نمائندے شریک تھے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر سطح پر بدعنوانی کا خاتمہ کردیں گے۔ اس تقریب میں پتنجلی گروپ کے سربراہ رام دیو نمایاں تھے۔
مگر اب جب کہ مودی کو اقتدار میں آئے ہوئے گیارہ برس ہو چکے ہیں تو اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ اس وقت ملک میں بدعنوانی کی سطح کیا ہے؟ اگر بدعنوانی کا خاتمہ ہوا ہے تو اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟ ان گیارہ برسوں میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات اور کارروائی کا بھی تجزیہ ضروری ہے۔
منموہن سنگھ کی حکومت میں ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) شاید ہی کبھی سرخیوں میں آئی ہو۔ ای ڈی کی بنیادی ذمہ داری منی لانڈرنگ اور غیر ملکی زرمبادلہ میں ہیرا پھیری کو روکنا ہے۔ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت (2004-2014) کے دوران، ای ڈی نے صرف 112 چھاپے مارے اور ایک بھی معاملے میں سزا نہیں ہوئی۔ مودی حکومت کے دور میں، ای ڈی سب سے زیادہ سرگرم رہی اور ملک کی سب سے خوف زدہ ایجنسیوں میں سے ایک بن گئی۔ ای ڈی نے منی لانڈرنگ کے 3,000 سے زیادہ چھاپے مارے اور 54 کو سزائیں دلائیں۔
اگر ای ڈی کے چھاپوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں زیادہ تر کارروائیاں سیاسی بنیادوں پر نظر آتی ہیں، اور کئی مرتبہ اعلیٰ عدالتوں میں ای ڈی کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ صرف ای ڈی ہی نہیں بلکہ مودی حکومت نے اپنی پیش رو حکومتوں کے مقابلے میں ملک کی تمام تحقیقی ایجنسیوں کو— انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI) نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (NIA) اور نارکوٹکس کنٹرول بیورو (NCB)— کو بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا ہے۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق گزشتہ حکومت کے دوران اپوزیشن لیڈروں کو تحقیقی ایجنسی ای ڈی کے ذریعے 54 فیصد اور سی بی آئی کے ذریعے 60 فیصد نشانہ بنایا گیا تھا، جب کہ مودی حکومت کے پہلے دس سال میں ان دونوں ایجنسیوں نے 97 فیصد اپوزیشن رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور بینکوں کی ڈیجیٹلائزیشن کی وجہ سے نچلی سطح پر، بالخصوص فلاحی اسکیموں کی ادائیگی میں بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔ ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم، 2023 میں مرکزی حکومت کی اقلیتی اسکالرشپ اسکیم میں گھوٹالے کی رپورٹ منظر عام پر آئی اور اگست 2023 میں سی بی آئی نے اس معاملے میں مقدمہ درج کیا مگر دو سال گزر جانے کے باوجود سی بی آئی اس گھوٹالے میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح جولائی 2024 میں ہماچل پردیش میں کروڑوں روپے کے اسکالرشپ اسکیم گھوٹالے کا معاملہ سامنے آیا، سی بی آئی نے جانچ شروع کی مگر کوئی بڑی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ کسان ندھی یوجنا سے متعلق بھی یہی دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن بدعنوانی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دیتا۔
کرپشن پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حالیہ سالانہ سروے میں کہا گیا ہے کہ انتہائی کرپٹ ممالک میں بھارت کی درجہ بندی 180 ممالک میں 101 سے گر کر 93 ہو گئی ہے جبکہ شفاف نظام رکھنے والے 100 ممالک کی فہرست میں بھارت کا اسکور 39 ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر مودی دورِ حکومت میں بدعنوانی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے معاملات سامنے کیوں نہیں آ رہے؟ عالمی اداروں کا ماننا ہے کہ میڈیا آؤٹ لیٹس پر حکومتی شکنجہ اور این جی اوز کو ہراساں کیے جانے کی وجہ سے بدعنوانی کے معاملات زیادہ اجاگر نہیں ہو پاتے۔
نہ صرف مرکزی سطح پر بلکہ ریاستی سطح پر بھی بدعنوانی کے متعدد شکایات اور معاملات سامنے آئے ہیں، جن میں گجرات میں بی جے ڈی گھوٹالہ شامل ہے جس میں 6 ہزار کروڑ کے گھوٹالے میں ایک ٹیچر کی گرفتاری عمل میں آئی اور آنگن واڑی کے لیے ساز و سامان کی خریداری میں بھی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت پر الزام ہے کہ آنگن واڑی کے لیے خریدے گئے سامان میں بڑے پیمانے پر مالی ہیرا پھیری کی گئی ہے۔ حکومت کے فراہم کردہ تخمینے کے مطابق ایک چمچے کی خریداری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔
یہ کوئی ایک یا دو مثالیں نہیں ہیں، بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مودی دورِ حکومت میں بدعنوانی کے خلاف قوانین سخت کیے گئے ہیں یا پھر انہیں کمزور کیا گیا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ان برسوں میں متعدد گھوٹالے اور الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں عدلیہ بھی نشانے پر رہی ہے۔ رافیل سودے میں ہیرا پھیری کے الزامات براہ راست وزیرِاعظم مودی پر لگائے گئے، لیکن اس کی جانچ کرانے سے ہر ممکن گریز کیا گیا، اور عدالت نے بھی شفافیت قائم کرنے کے بجائے مودی حکومت کے پیش کردہ مہر بند لفافے کو من و عن قبول کر لیا۔ اس مقدمے کا فیصلہ کرنے والے ججوں میں سے ایک رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنا دیا گیا اور دوسرے ارون مشرا کو حقوقِ انسانی کمیشن کا چیئرمین بنا کر نواز دیا گیا۔
مودی حکومت نے شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف لڑائی کو کس طرح کمزور کیا، اس کی سب سے بڑی مثال اگست 2023 میں منظور شدہ ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 ہے۔ اس قانون کے ذریعے 2005 کے رائٹ ٹو انفارمیشن (RTI) ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ RTI متعدد معاملات میں بدعنوانی اور حکومت کی بالادستی کو بے نقاب کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ رہا ہے۔
ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 اور اس سے قبل RTI قوانین میں کی گئی متواتر تبدیلیوں کے ذریعے حکومت نے سیاسی رہنماؤں، یونیورسٹی قوانین، حکومتی مشاورت اور فیصلوں سے متعلق کسی بھی بنیادی ریکارڈ تک معلومات کی رسائی محدود کر دی ہے۔ RTI ایکٹ کے دائرے سے باہر مستثنیٰ اداروں کی فہرست میں بڑے پیمانے پر توسیع کی گئی اور اس وقت اس فہرست میں 26 ایجنسیاں شامل ہیں، جن میں:
کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (کمپیوٹر سیکیورٹی کے واقعات کی ذمہ دار)
انٹیلیجنس بیورو،
ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (RAW)
ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ (ED)
نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن،
ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) اور
بارڈر روڈز آرگنائزیشن شامل ہیں۔
یہ تمام ایجنسیاں انٹلیجنس معلومات جمع کرنے اور ملٹری انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ان ترامیم کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے متنازع زرعی قوانین پر اپنی مشاورت سے متعلق کوئی ریکارڈ فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
بدعنوانی سے نمٹنے کے قوانین کو کس طرح کمزور کیا گیا
پریوینشن آف کرولٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1988 (PCA) میں سرکاری ملازمین کو رشوت دینے کے جرم کا احاطہ کیا گیا تھا، لیکن جولائی 2018 میں حکومت نے اس قانون میں ترمیم کر دی۔ ان ترامیم کے ذریعے رشوت دینے اور رشوت دینے کے لیے مجبور کیے جانے کے درمیان فرق ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کے خلاف گواہی دینے والوں کو تحفظ فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا گیا جس کے نتیجے میں رشوت دینے والے عدالت میں گواہ کے طور پر پیش ہونے سے ہچکچانے لگے۔
سابق وزیراعظم منموہن سنگھ حکومت کے آخری دور میں منظور کیا گیا ایک اہم قانون "وہسل بلورز پروٹیکشن ایکٹ (WPA)” تھا جسے 9 مئی 2014 کو صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے منظوری دی تھی۔ اس قانون کا مقصد حکومتی کرپشن کو بے نقاب کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آئیں اور سرکاری دفاتر میں ہونے والی بدعنوانی کو بے نقاب کریں۔
2015 میں مودی حکومت نے WPA میں کئی ترامیم بھی کیں جس کی وجہ سے یہ قانون بے اثر ہو گیا۔ ان ترامیم کے بعد وہسل بلورز کو آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 کے تحت قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل نہیں رہا جس کے نتیجے میں بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو خاموش کر دیا گیا۔
اسی طرح دی فیوجیٹو اکنامک آفینڈرز ایکٹ 2018 کے ذریعے حکومت نے ملک کی دولت لوٹنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اس قانون کے تحت نیرو مودی، میہول چوکسی اور وجے مالیا جیسے فرار ہونے والے مجرموں کو ملک واپس لانے کے بجائے ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔
مودی حکومت میں بدعنوانی کیسے پروان چڑھی؟
مودی حکومت کے ایک سینئر وزیر پیوش گوئل 2010 تک ممبئی کی شرڈی انڈسٹریز کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے اپنی پرائیویٹ کمپنی کا پورا اسٹاک تقریباً 1000 گنا زیادہ قیمت پر پیرامل گروپ (جو امبانی کے داماد کی کمپنی ہے) کو فروخت کر دیا حالانکہ کمپنی 8 پبلک سیکٹر بینکوں کی 650 کروڑ روپے کی مقروض تھی۔
یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ بدعنوانی کے خاتمے کے نام پر مودی حکومت نے درحقیقت اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی کی ہے، مرکزی ایجنسیوں کو بے دریغ استعمال کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بدعنوانی کے خلاف سرگرم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے بدعنوانی کے خلاف لڑائی کو سیاسی رنگ دے کر اسے بے اثر کر دیا ہے، نتیجتاً ملک میں بدعنوانی ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔
پچھلے 11 برسوں میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ چھوٹی سطح پر کرپشن کم ہوئی ہو لیکن بڑے پیمانے پر کرپشن میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
• آمدنی اور دولت کی عدم مساوات میں اضافہ ہوا،
• چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں،
• اڈانی اور امبانی جیسے صنعتکار اپنی کارپوریٹ سلطنتیں مزید بڑھانے میں کامیاب ہوئے
• حکومت ڈھٹائی سے ان کارپوریٹ گھرانوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
مودی حکومت نے ان 11 سالوں میں ان تمام اداروں کو کمزور کر دیا جو حکومت کے کام کاج پر نظر رکھتے ہیں۔ عدلیہ سمیت کوئی بھی حکومتی ادارہ محفوظ نہیں رہا۔اس کا اثر یہ ہوا کہ ملک دو متضاد سمتوں میں بڑھ رہا ہے:
ایک طرف دعوے کیے جا رہے ہیں کہ بھارت دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں شامل ہو رہا ہے۔دوسری طرف غذائی قلت، بچوں کی اموات اور کمزور نشوونما جیسے سنگین مسائل بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
2021 کی رپورٹ کے مطابق:
بھارت کی 15.3 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
5 سال سے کم عمر کے 34.7 فیصد بچے نشوونما میں کمی کا شکار ہیں۔
3.4 فیصد بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں۔
یہ رپورٹ 135 ممالک کے ڈیٹا پر مبنی تھی لیکن صرف 116 ممالک کے پاس مکمل ڈیٹا موجود تھا۔
یہ تمام حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ مودی حکومت نے بدعنوانی کے خاتمے کے بجائے الٹا اسے مزید فروغ دیا۔ ادارہ جاتی کرپشن کو مضبوط کیا گیا، عدلیہ، میڈیا اور نگرانی کے دیگر اداروں کو کمزور کیا اور کارپوریٹ مفادات کی سرپرستی کی۔ نتیجتاً، عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ اور دولت مندوں کو فائدہ ہوا۔
بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ عوام کی کیا ذمہ داریاں ہیں
اب جب کہ مودی حکومت کی تیسری مدت کا پہلا سال مکمل ہونے کے قریب ہے اور حکومت اپنا 12واں بجٹ پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے، تو یہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ہوگا، حکومت کو کس طرح جواب دہ بنایا جا سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر عوامی بیداری کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں۔ تیسری مدت کا پہلا سال واضح طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ مودی حکومت کی تیسری مدت ان کے گزشتہ دو ادوار سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔ اس مدت میں بھی اقلیتوں کی توہین، حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں، اختلاف رائے رکھنے والوں اور نقادوں پر کریک ڈاؤن، سیاسی جبر، سنسرشپ قوانین کی سختی اور آزادانہ تقریر کی ضمانتوں کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کے عوام کو آئین میں شامل بنیادی حقوق کی یاد دہانی کرائی جائے، کیونکہ آئین میں اظہارِ رائے کی آزادی، مذہب پر عمل کرنے کی آزادی، معاشی تحفظ کی ضمانت اور شہریوں کے چھ بنیادی حقوق شامل ہیں۔ گزشتہ 75 سالوں میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ان بنیادی حقوق کے دائرے میں توسیع کر کے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے کی کوشش کی ہے لیکن مودی حکومت میں ان میں سے ہر ایک حق کی بار بار خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عوامی حقوق چھیننے کی تمام کوششوں کے خلاف کھل کر بات کی جائے اور جب تک اظہارِ رائے کی آزادی، معلومات کا حق اور مساوات کے حق کی حفاظت نہیں کی جائے گی اس وقت تک چور دروازوں سے لوٹ مار کا بازار گرم رہےگا۔ اس لیے ہر شہری کو ملک کی نیک نامی، معاشی مفادات اور ملک میں انصاف و مساوات قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے۔
کسی بھی مہم کو سیاسی بنانے سے پہلے اسے سماجی مہم کے طور پر تبدیل کرنا ہوگا، کیونکہ ماضی میں بدعنوانی کے خلاف سیاسی بیانیے ناکام ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے بدعنوانی کو سیاسی موضوع بناتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اسے فراموش کر دیتی ہیں اور خود بد عنوانی میں ملوث ہو جاتی ہیں۔ مودی حکومت نے بھی یہی کیا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بدعنوانی، معاشی لوٹ مار، عوام کے حقوق کی حفاظت اور معاشی عدم توازن کا خاتمہ سماجی اور معاشرتی مہم کا حصہ بنے اور ہر سطح پر اس پر بات چیت کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک پر چند کارپوریٹ گھرانوں کا قبضہ ہو جائے گا اور حکومتیں ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کریں گی۔ شہروں میں رونق تو ہو گی، مگر ملک کے دیہی علاقے تاریک ہوں گے اور ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔”
***
اب وقت آ گیا ہے کہ عوامی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ جب تک اظہارِ رائے، معلومات اور مساوات کے حقوق کی حفاظت یقینی نہیں بنتی، معاشرتی انصاف اور شفافیت کے اصولوں کو مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شہری کو علم و شعور کی بنیاد پر ملک کی نیک نامی، معاشی استحکام اور انصاف قائم کرنے کی جدوجہد میں شریک ہونا ضروری ہے۔ بدعنوانی، معاشی تفاوت اور عوامی حقوق کے تحفظ کو ایک اجتماعی سماجی مہم کا حصہ بنا کر اس پر ہر سطح پر گفتگو کی جانی چاہیے ورنہ ملک میں چند طاقتور حلقوں کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی اور عوام کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے جائیں گے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025