بدعنوانی ایک آسیب

کرپشن فری انڈیا  کا خواب آخر کب شرمندۂ تعبیر ہوگا؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا والا نعرہ  صرف‘جملہ’ ثابت ہو رہا ہے
سی اے جی رپورٹ کی وجہ سے مودی حکومت سوالات کے کٹہرے میں مگر ایک بھی جواب ندارد!
’’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘‘ جیسا  نعرۂ دلبرانہ نے ہمیں یاد  دلایا تھا کہ ’’بدعنوانی سے پاک‘‘ بھارت کا خواب اب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے۔انصاف کے کٹہرے میں غریب و امیر، سیاست داں، صنعت کار سب کھڑ ے کئے جائیں گے۔ ہرایک سے جواب طلبی کی جائے گی۔ اقتدار کا سورج نصف النہار تک پہنچ چکا ہے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ نعرہ دلبرانہ شرمندہ تعبیر ہونے کے بجائے پرفریب نعرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بدعنوانی سے پاک بھارت کا خواب صرف سیاسی بیان اور جملہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ ’’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘‘ کا نعرہ دلبرانہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسی کو بھی کھانے نہ دیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر، تنقید کرنے والے سماجی لیڈر، میڈیا اور سول سوسائٹی مسلسل حملوں کی زد میں اس لیے ہیں کہ نہ انہیں کھانے کا موقع ملے اور نہ اس کے خلاف وہ آواز بلند کرسکیں۔پوری کوشش ہے کہ ناطقہ بند کردیا جائے ۔اور نہ کھاؤں گا کا نعرہ دراصل ’’صرف میں کھاؤں گا‘ میں تبدیل ہوچکا ہے۔
شاید مذکورہ بالا تمہید سیاست سے متاثر لگے مگر سی اے جی اور ملک کے سب سے بڑے صنعت کار اڈانی گروپ سے متعلق بین الاقوامی اداروں کے انکشافات پر اقتدار اعلیٰ کی مکمل خاموشی اور اس پورے معاملے کو دبانے کی کوشش، جانچ ایجنسیوں کی جانبدارانہ کارروائیاں، عدالتی رجحانات یہ یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بھارت میں بدعنوانی کی تعریف مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ عالمی پیمانے پر ’’بدعنوانی‘‘ کی تعریف اور اس کے معیار کو ’’نوآبادیاتی دور کی یادگار قرار دے کر ایک ایسی تعریف اور معیار کو وضع کیا گیا جس میں اپنوں کی بدعنوانی، بدعنوانی نہیں ہوتی ہے، جس میں اپنوں کے ذریعہ قانون اور اختیارات کا ناجائز استعمال بدعنوانی میں شامل نہیں ہے۔اخلاقیات، بدعنوانی کے معیارات صرف اور صرف غیروں کے لیے ہے۔ کوئلہ گھوٹالہ، ٹوجی اسیپکٹرم گھوٹالہ اور دولت مشترکہ کھیلوں میں گھوٹالہ کے معاملات سی اے جی کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی سامنے آئے تھے۔ سی اے جی کی رپورٹ کی بنیادوں پر بھارت کی سیاست لرزہ براندام ہوئی تھی۔پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک منموہن سنگھ کی قیادت والی حکومت کے خلاف نعرے گونج رہے تھے۔سیاست داں تو سیاست داں، سول سوسائٹی اور میڈیا بھی فرنٹ لائن پر بدعنوانی کے خلاف مہم چلارہی تھی۔ دولت مشترکہ کھیلوں کے انچارج اور کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ سریش کلماڈی کو یو پی اے کے دور حکومت میں ہی جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا۔ یو پی اے دور حکومت میں وزیر مواصلات اے راجہ کو استعفیٰ دے کر انہیں جیل جانا پڑا۔ کوئلہ گھوٹالوں میں گرفتاریاں ہوئیں مگر آج وہی سی اے جی اور اس کی  رپورٹیں ہیں مگر کوئی بھی اس رپورٹ کو نوٹس میں لینے کو تیار نہیں ہے ۔اپوزیشن کی تنقیدیں صدا بصحرا ثابت ہورہی ہیں کیوں کہ سول سوسائٹی اور میڈیا اس کو گھوٹالہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہائپر نیشنل ازم کے علمبرداروں کے نزدیک سی اے جی کی رپورٹ اور اس میں نشان زدہ کی گئی خامیاں قابل اعتنا نہیں ہیں۔
آیوشمان بھارت وزیر اعظم مودی کے ترجیحی اسکیموں میں سے ایک ہے۔ سی اے جی کی رپورٹ میں اس اسکیم  کے تحت کئی بڑی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے مگر میڈیا مکمل طور پر خاموش ہے۔مدھیہ پردیش میں ویاپم گھوٹالہ نے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں کو تاریک کردیا ہے۔درجنوں افراد نے خودکشی کرلی مگر اس گھوٹالے میں ملوث ایک بھی سیاست داں جانچ ایجنسی کی زد میں نہیں آیا۔سوال یہ بھی اہم ہے کہ مغربی بنگال میں اساتذہ تقرری گھوٹالہ میں عدالت جس طریقے سے سرگرم ہے اور بسااوقات عدالتی اخلاقیات سے باہر جاکر جج صاحبان تبصرے کر رہے ہیں ۔عدالت کی یہی ایکٹوازم بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں نظر نہیں آتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کو اپوزیشن جماعتوں کی عرضیوں کو مسترد کرنے سے قبل مرکزی جانچ ایجنسیوں کی کارکردگیوں کا جائزہ نہیں لینا چاہیے کہ گزشتہ ایک دہائی میں  یہ سرگرمی کس طرح کی رہی ہے۔اس کے نشانے پر کون لوگ رہے ہیں ۔کیونکہ جانچ ایجنسیوں کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔مدھیہ پردیش، کرناٹک اور گجرات میں بی جے پی لیڈروں اور وزیروں پر الزامات کے باوجود جانچ ایجنسیاں نوٹس نہیں لے رہی ہیں۔راجستھان، چھتیس گڑھ، دہلی، مغربی بنگال میں جانچ ایجنسیاں سرگرم ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما جن کو بی جے پی میں شامل ہونے سے قبل چور اور ڈاکو کے القاب سے نوازا جاتا رہا، انکی بیوی پر مرکزی اسکیم سے ناجائز طریقے سے کروڑوں روپے کا منافع حاصل کرنے کا الزام لگتا ہے تو جانچ ایجنسیاں خاموش ہو جاتی ہیں۔
ایک طرف لالو پرساد یادو کے بیٹے کو آمدنی سے زائد اثاثے کے معاملے میں جانچ ایجنسیاں مسلسل پوچھ تاچھ کررہی ہیں ۔مگر امیت شاہ کے بیٹے اجے شاہ کی دولت پر اٹھنے والے سوالات پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا اس دوہرے پیمانے کے ساتھ ’’بدعنوانی سے پاک‘‘ بھارت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر بھی ہوگا؟
سی اے جی کی رپورٹ پر مودی حکومت سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟
سی اے جی کی حالیہ رپورٹوں میں عوامی فنڈز کے غلط استعمال کا پردہ فاش کرتے ہوئے احتساب اور نگرانی کے عمل کو مستحکم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے تین اہم پروجیکٹوں میں عوامی فنڈز کے غلط استعمال اور آڈٹ مالیاتی تضادات پر روشنی ڈالتے ہوئے عوامی حکمرانی میں شفافیت اور جوابدہی کویقینی بنانے پر زور دیا ہے۔ سی اے جی نے دوارکا ایکسپریس وے پروجیکٹ کی تعمیراتی لاگت سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اصل میں یہ پروجیکٹ 18.20 کروڑ فی کلو میٹر کے حساب سے منظور کیا گیا تھا مگر حیران کن طریقے سے اس پروجیکٹ کی لاگت 77 کروڑ روپے فی کلومیٹر تک پہنچ گئی۔سی اے جی کے مطابق پروجیکٹ کی تفصیلات کی عدم فراہمی کی وجہ سے کئی اہم خامیوں کی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے۔کئی قابل اعتراض فیصلے کیے گئے ہیں جس میں آٹھ لین ایلیویٹڈ مین کیریج وے اور چھ لین ایٹ گریڈ روڈ کی تعمیر میں مالی بے احتیاطی شامل ہے۔ ٹول کی شرحیں، ٹولنگ میکانزم اور مسابقتی انفراسٹرکچر پروجیکٹس جیسے ریپڈ ریل ٹرانزٹ سسٹم میں بڑے پیمانے پر خامیاں موجود ہیں۔ سی اے جی کی رپورٹ نے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں شفافیت لانے پر زور دیا ہے۔سی اے جی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنٹر بھارت مالا پروجیکٹ کے پہلے مرحلے میں اخراجات کا جو تخمینہ لگایا  گیا تھا اس میں 14 گنا اضافی خرچ کیا گیا ہے۔اسی طرح ایودھیا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ میں بھی عدم شفافیت کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ تخمینہ لاگت سے کہیں زائد خرچ کیا گیا ہے ۔اس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ لاگت میں اضافہ کے اسباب کیا تھے۔سی اے جی رپورٹ پر مرکزی وزات ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز پر کوئی جامع جواب نہیں دیا گیا ہے۔
وزارت ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے علاوہ سی اے جی نے وزارت دیہی ترقی کے کام کاج کے طریقے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ قومی سماجی مدد پروگرام میں بڑے پیمانے پر خامیاں ہیں۔ فنڈز کی منتقلی میں گڑبڑی کی نشاندہی کی گئی ہے۔2017-2021 کے درمیان 2 .83 کروڑ روپے قومی سماجی مدد پروگرام (نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام:این ایس اے پی) بشمول بڑھاپے کی پنشن اسکیمیں، دیگر سرکاری اسکیموں کو فروغ دینے کے لیے بھیجے گئے تھے مگر 6 ریاستوں میں 57.45 کروڑ روپے کی مالیاتی بے ضابطگی کا انکشاف ہوا ہے جو اصل مستحق تک پہنچنے کے بجائے فرضی افراد تک پہنچے ہیں۔ گزشتہ مہینے ہفت روزہ دعوت میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی اسکالرشپ میں بدعنوانی پر ہم نے تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اقلیت، پسماندہ طبقات اور دلتوں کے اسکالرشپ میں بڑے پیمانے پر خردبرد کی گئی ہے۔جھارکھنڈ، راجستھان، مدھیہ پردیش ، پنجاب اور دیگر ریاستوں میں بڑی تعداد میں فرضی موبائل نمبر اور ادھار کارڈ، فرضی تعلیمی اداروں اور بینک کے ساٹھ سانٹھ گانٹھ کر کے اسکالرشپ کی رقم میں غبن کردیا گیا ہے۔وزارت اقلیتی امور نے گزشتہ مہینے اس معاملے میں اپنی سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور سی بی آئی نے کیس درج کیا مگر جانچ ایجنسی نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔دراصل اس طرح کے گھوٹالے اور گڑبڑیاں مرکزی حکومت کے ڈیجیٹلائزیشن پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں ۔آدھار کارڈ کے لیے بائیو میٹرک کو محفوظ ہونے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں یو آئی ڈی آئی پر محفوظ ہونے پر سوال کھڑے کیے گئے ہیں ۔اگرچہ مرکزی حکومت نے شدت سے اس کی تردید کی ہے مگر جس طریقے سے اس کے غلط استعمالات کی خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں اس سے شک و شبہ کی گنجائش ضرور پیدا ہوتی ہے۔
پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے تحت صحت انشورنش اسکیم آیوشمان بھارت کے نفاذ میں سی اے جی نے بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ اسکیم کے ڈیٹا بیس میں جن افراد کو مردہ قرار دیا گیا تھا ایسے 3,446 افراد کے علاج پر 6.97 کروڑ روپے خرچ کیے جانے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔یہ آڈٹ سسٹم کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتی  ہے ۔اسی طرح فٹ کوئنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت رجسٹرڈ 750,000 افراد نے ایک ہی نمبر جیسے 999999999 نمبر رجسٹرڈ کرائے ہیں۔ اسی طرح 4,761 افراد جو آیوشمان بھارت سے فیضیاب ہونے والوں میں شامل ہیں ان تمام افراد کے رجسٹریشن صرف 7 آدھار کارڈ سے ہے۔ اس کے علاوہ 403 مرچکے افراد کے علاج پر 10کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں ۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ جب آن لائن رجسٹریشن ہوتے ہیں تو پھر سسٹم نے 7 آدھار کارڈ پر
اتنی بڑی تعداد کے رجسٹریشن کرانے پر پکڑا کیوں نہیں؟
2012-13میں بھارت میں بدعنوانی کی شرح میں اضافے کے بعد 2014 میں یہ  85پوائنٹ تک پہنچ گیا مگر گزشتہ ایک دہائی کے اندر  اس میں کوئی گراوٹ نہیں آئی ہے بلکہ شفافیت، اداروں کی آزادی اور بدعنوانی پر قابو پانے والے اداروں پر حکومت کی گرفت مضبوط ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں بھارت سے متعلق لکھا کہ بدعنوانی پر قابو پانے میں مدد کرنے والے کچھ میکانزم کمزور ہوئے ہیں۔کرپشن پرسیپشن انڈیکس رپورٹ میں 180 ممالک میں ہندوستان کو 85 ویں نمبر پر رکھا گیاہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ملک کا اسکور گزشتہ دہائی کے دوران جمود کا شکار ہے تاہم وہ میکانزم جو بدعنوانی پر قابو پانے میں معاون ہوسکتا تھا وہ کمزور ہوا ہے۔جمہوریت میں اداروں کا استحکام اور آزادی و خودمختاری اور ادارہ جاتی چیک اینڈ بیلنس لازمی ہیں مگر گزشتہ ایک دہائی میں یہ تمام چیزیں تسلسل کے ساتھ زوال پذیر ہیں۔ پبلک سیکٹر میں بدعنوانی کے معاملے میں بھارت کی صورت حال مزید خراب ہے۔کرپشن پرسیپشن انڈیکس دنیا کے 180ممالک کے کاروباری افراد اور پبلک سیکٹر میں بدعنوانی کی بھی درجہ بندی کرتا ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) کی درجہ بندی کے لیے 0 سے 100 کے پیمانے کا استعمال کیا جاتا ہے، جہاں 0 انتہائی کرپٹ اور 100 بہت صاف افراد کو دیے جاتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ہندوستان کو 40 کا سی پی آئی اسکور دیا ہے۔2021 میں، بھارت 40 کے اسی سی پی آئی اسکور کے ساتھ 86 ویں نمبر پر تھا۔ رپورٹ میں صحافیوں اور کارکنوں کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ کئی غیر جانبدار صحافی اہل سیاست کو بدعنوانی سے بے نقاب کرنے پر سیاسی عسکریت پسندوں، جرائم پیشہ گروہوں اور بدعنوان مقامی اہلکاروں کے حملوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف بولنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کو سیکیورٹی، ہتک عزت، بغاوت، نفرت انگیز تقریر اور توہین عدالت کے الزامات اور غیر ملکی فنڈنگ کے ضوابط کے تحت پریشان کیا جاتا ہے۔
سی اے جی کی رپورٹ اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس کا تجزیہ کرنے سے منظر نامہ صاف ہوجاتا ہے کہ بھارت میں بدعنوانی کا عفریت نہ صرف زندہ بلکہ اس کے خلاف لڑائی کمزور ہوچکی ہے۔مشہور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف نے 18ستمبر 2023کے شمارے میں  Glare on central government’s accounts over ‘Cash diversion ” to unknown repositories کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔اس رپورٹ میں سی اے جی کی رپورٹ 2023کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ رپورٹ نمبر 21 میں اکاؤنٹس کے معیار اور مالیاتی رپورٹنگ پریکٹسز کے عنوان سے 27 صفحات پر مشتمل ایک باب شامل ہے جس میں پرائیوٹ گروپ کی مالی مدد سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے۔یعنی حکومت کے فنڈز کو نامعلوم کمپنیوں کی طرف منتقل کیا گیا ہے اس کے علاوہ بیرونی قرضوں کا بھی تخمینہ کم لگایا گیا ہے۔اس پوری رپورٹ کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سی اے جی نے اپنی رپورٹ کے ذریعہ مودی حکومت کے کھاتوں میں مالی دھوکہ دہی کے ایک چونکا دینے والے جال سے پردہ اٹھایا ہے۔ خفیہ ذخیرے، پوشیدہ ذمہ داریاں، اور کم قیمت پر قرض اور عوام کے پیسے کی ہول سیل لوٹ مار کی گئی ہے۔سی اے جی کی یہ رپورٹ حیرت انگیز ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہائبرڈ نیشنل ازم کا شکار کارپوریٹ میڈیا اس کے خلاف آواز بلند کرے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب میڈیا مالکین پر ہی سوال اٹھ رہے ہیں تو پھر کون سا میڈیا اس پر رپورٹ شائع کرنے کی جرأت کرسکے گا۔المیہ یہ ہے کہ جب بین الاقوامی میڈیا اس طرح کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کو بھارت کی جمہوریت، ترقی اور خود مختاری پر حملہ قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
بدعنوانی کے خلاف یک طرفہ کارروائی جمہوریت کے لیے سم قاتل۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن لیڈروں کی بدعنوانی کے خلاف جانچ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں ترقی پذیر ممالک یا پھر تیسری دنیا کی جمہوری ممالک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ نریندر مودی کے دور حکومت میں ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ اس پر قدر ہنگامہ برپا کیا جاتا ہے۔ ’’جمہوریت اور بھارت‘‘ کے عنوان سے تحقیق کرنے والے ریسرچ اسکالر نوین پاٹھک کہتے ہیں ماضی میں سیاسی مخالفین کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور مودی دور حکومت کی کارروائیوں میں کسی بھی طرح کی یکسانیت اور مماثلت نہیں ہے۔ ماضی کے مقابلے میں مودی دور حکومت میں مرکزی جانچ ایجنسی ای ڈی کے ذریعہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے خلاف کارروائی میں ناقابل یقین حدتک 27 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ماضی کی حکومتیں صرف چند اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کو نشانہ بناتی تھیں مگر اب وہ ہر شخص اور ادارے نشانے پر ہیں جو حکومت کے خلاف یا پھر حکومت کی منشا کے خلاف کام کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے علاوہ حکومت کی تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اصل حقائق پیش کرنے والے آلٹ نیوز کے محمد زبیر کو ایک مہینے سے زائد عرصے تک مختلف عدالتوں کے چکر لگانا پڑا۔ کورونا سے نمٹنے کے طریقے کار پر سوال کھڑا کرنے والے بھاسکر گروپ کے پروموٹروں کے خلاف جانچ ایجنسی اور انکم ٹیکس کے چھاپے مارے گئے۔ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے این ڈی ٹی وی کا ناطقہ بند کرنے کے بعد پوری کمپنی کو ہی اڈانی (جن کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات کی طویل فہرست  ہے) کے ذریعہ ہائی جیک کرلیا گیا۔ سماجی کارکنان میں ہرش مندر، تیستا سیتلواد اور ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔حکومت کی خامیوں اور ان کے ترقیاتی دعوؤں کے برعکس رپورٹیں شائع کرنے والے بین الاقوامی ادارے جس میں بی بی سی ،این جی اوز میں آکسفیم، ایمنسٹی، گرین پیس جیسے ادارے بھی حکومت کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔سی بی آئی، ای ڈی، نارکوٹکس کنٹرول بیورو اور نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی ایجنسیاں مرکز کے لیے پولیسنگ کا کام کر رہی ہیں۔ مگر دوسری طرف پوری ڈھٹائی سے ان افراد کے خلاف کارروائیوں سے گریز کیا جاتا ہے جو حکومت کے ساتھ ہیں۔ اس طرح کی ڈھٹائی ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔آج جانچ ایجنسیوں سے بچنے کے لیے واحد راستہ بی جے پی میں شمولیت رہ گیا ہے ۔ایسے لوگوں کے نام گنوانے کی یہاں ضرورت ہی نہیں ہے جنہوں نے اب تک  یہ فارمولا اختیار کیا ہوا ہے۔
نوین پاٹھک کہتے ہیں کہ مخالفین کے خلاف ٹارگیٹیڈ کارروائیاں نہ صرف جمہوری اور اخلاقی اعتبار سے غلط ہیں بلکہ سیاسی چھاپے اور مقدمات ہماری جمہوریت کے لیے بھی خطرہ ہیں۔جمہوریت میں مخالفین کو تنقید کرنے پر سزا نہیں دی جاتی ہے بلکہ تنقید، اختلاف رائے اور اصلاح کے لیے مشورے اپنے آپ میں ناقابل تسخیر حقوق ہونے کے علاوہ احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اس طرح کی سیاسی کارروائیاں احتساب، شفافیت اور نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ خاموش رہیں یا پھر جیل میں جانے کے لیے تیار رہیں۔ اس طرح کی کارروائیوں سے مساوات اور یکسانیت لانے کے بجائے ملک میں دو طبقات پیدا کردیے ہیں ایک طبقہ وہ ہے جو حکومت کی حمایت میں ہے، جن کو جرم کرنے کے بعد بھی استثنیٰ کا اضافی حق حاصل ہے، اور حکومت کے مخالفین کو بغیر کسی جرم کے بھی ظلم و ستم کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے۔یک طرفہ کارروائیاں نہ صرف سیاسی آزادی پر قدغن لگاتی ہیں بلکہ قانون کی حکمرانی، عدالتی بالادستی کو نقصان پہنچاتا ہے اور بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے، بلکہ یہ ہماری جمہوریت کے استحکام کے لیے بھی اچھا نہیں ہے اور اگر اسے نہیں روکا گیا تو طویل مدت تک جمہوریت کے وجود کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
بدعنوانی اس وقت ملک میں ایک عفریت بن کر کھڑی ہے اور اس کے لیے صرف حرص اور بے ایمانی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ملک میں ناخواندگی، عدم بیداری اور اصل حقائق سے لاعلمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک کو بدعنوانی سے پاک ملک بنانا راتوں رات ممکن نہیں ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ جن ممالک میں بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں پایا جاتا بلکہ نظام میں شفافیت اور جواب دہی پائی جاتی ہے وہاں کس طرح نظام کی تشکیل کی گئی ہے۔بدعنوانی کے خلاف جنگ میں عوام کی شمولیت، جواب طلبی اور خود بدعنوانی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، عالمی انسداد بدعنوانی اتحادTransparency International the Global Coalition Against Corruption نے بدعنوانی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مالی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ نجی فائدے یا پھر اقتدارکے دوام کے لیے عوامی عہدوں کا غلط استعمال بھی بدعنوانی میں شامل ہے۔اگر بدعنوانی کی اس عالمی تعریف کے تناظر میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ملک میں بدعنوانی اوپر سے نیچے تک اس درجے میں سرایت کرچکی ہے کہ آج عہدوں کے ناجائز استعمال میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہوجاتا ہے کہ بدعنوانی سے پاک بھارت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوگا بھی یا نہیں!
***

 

***

 سی اے جی کی رپورٹ اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس کا تجزیہ کرنے سے منظر نامہ صاف ہوجاتا ہے کہ بھارت میں بدعنوانی کا عفریت نہ صرف زندہ بلکہ اس کے خلاف لڑائی کمزور ہوچکی ہے۔مشہور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف نے 18ستمبر 2023کے شمارے میں  Glare on central government’s accounts over ‘Cash diversion ” to unknown repositories کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔اس رپورٹ میں سی اے جی کی رپورٹ 2023کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ رپورٹ نمبر 21 میں اکاؤنٹس کے معیار اور مالیاتی رپورٹنگ پریکٹسز کے عنوان سے 27 صفحات پر مشتمل ایک باب شامل ہے جس میں پرائیوٹ گروپ کی مالی مدد سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے۔یعنی حکومت کے فنڈز کو نامعلوم کمپنیوں کی طرف منتقل کیا گیا ہے اس کے علاوہ بیرونی قرضوں کا بھی تخمینہ کم لگایا گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023