بڑھتی ہوئی مہنگائی ، عام آدمی کو راحت کے کوئی آثار نہیں

جنوری میں شرح مہنگائی6.52فیصد پرپہنچ گئی

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

افراط زر کو روکنے کے لیے امریکی ریزرو بینک کی طرح ریزرو بینک آف انڈیا بھی اس پر قابو پانے کے لیے ریپوریٹ مسلسل بڑھا رہا ہے۔ مہنگائی میں جزوی کمی کے باوجود مانیٹری پالیسی کی بیٹھک میں آر بی آئی نے ریپوریٹ میں 0.25 فیصد کا اضافہ کردیا ہے۔ صارفین قیمت اشاریے (سی پی آئی) کی بنیاد پر شرح مہنگائی دسمبر میں کم ہوکر 5.72 فیصد ہوگئی تھی جو نومبر میں 5.88 فیصد تھی۔ اکتوبر میں یہ 6.77 اور ستمبر میں 7.42 فیصد تھی۔ فی الحال یہ آر بی آئی کے ذریعے طے شدہ شرح مہنگائی کی بالائی حد چھ فیصد سے نیچے ہے۔ وزارت تجارت و صنعت کے مطابق تھوک قیمت اشاریے (WPI) کی بنیاد پر مہنگائی بھی دسمبر میں کم ہوکر 4.95 فیصد پر آگئی اب تو یہ اور کم ہوکر جنوری میں 4.73 فیصد ہوگئی ہے۔ ڈبلیو پی آئی گزشتہ مئی میں 15.88 فیصد کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ واضح رہے کہ امریکہ میں شرح مہنگائی نومبر میں 7.1 فیصد رہی تھی جبکہ مئی میں یہ 8.6 فیصد کی اونچی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں شرح مہنگائی قوت برداشت سے دو فیصد زیادہ تھی۔ وہاں اس طرح کی مہنگائی بے قابو سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح فیڈرل ریزرو بینک نے کل ملا کر مانیٹری پالیسی کے ذریعہ 450 بیسک پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے، ٹھیک اس طرح بینک آف کناڈا نے بھی گزشتہ دنوں مانیٹری پالیسی کے ذریعہ شرح سود میں اضافہ کیا ہے جس سے یہ شرح 4.5 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ بینک اس شرح میں بارہ ماہ میں کم از کم آٹھ بار اضافہ کرچکا ہے۔ برطانیہ کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ قومی شماریاتی آفس (این ایس او ) کے ذریعہ جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق اکتوبر میں صارفین قیمت اشاریے (سی پی آئی) کی بنیاد پر افراط زر 11.1 فیصد ہوگیا تھا جو 1981 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آر بی آئی نے مئی 2022 سے ریپوریٹ بڑھانا شروع کیا تھا۔ اس وقت چار فیصد تھی۔ تین مئی کو ریپوریٹ میں 0.4 فیصد، 8 جون کو 0.50 فیصد، اگست میں 0.50 فیصد، ستمبر میں 0.50 فیصد، دسمبر میں 0.35 فیصد اور گزشتہ فروری کو 0.25 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ آر بی آئی کی مالی رپورٹ کے مطابق 16 دسمبر 2022 سے نصف ماہ میں جمع میں اضافہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے 9.9 فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ 16 دسمبر سے اخیر دسمبر تک بینکنگ سسٹم میں کل جمع رقم 173.53 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اس مدت میں بینکنگ سسٹم میں قرض کی طلب 17.4 فیصد بڑھی ہے جس سے جمع اور لیے گئے قرض کے درمیان زیادہ فرق ہونے سے بینکوں کی رقیقیت (Liquidity) کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس طرح مہنگی شرح قرض ہونے سے چھوٹے، مجہول اور بڑی صنعتیں قرض لینے سے خود کو الگ رکھ سکتے ہیں جس سے معاشی سرگرمیاں سست پڑسکتی ہیں۔ یہ بینک اور معیشت دونوں کے لیے پر خطر ہوسکتا ہے، اس لیے 2023 میں شرح نمو کو تحریک دینے، معیشت کی مضبوطی اور بینکوں کی حالت ٹھیک رکھنے کے لیے مرکزی بینکوں کو آئندہ ریپوریٹ بڑھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ریپوریٹ میں اضافہ سے بینکوں کی شرح قرض میں اضافہ ہونا فطری ہے جس سے قرض داروں کو زیادہ قسطوں میں زیادہ سود کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ اگر کسی نے بیس سالوں کے لیے 7.90 فیصد کی شرح سود پر تیس لاکھ روپے کا امکنہ قرض لے رکھا ہے تو شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ کے بعد اسے تقریباً 467 روپے اضافی ماہانہ قسط کے حساب سے بیس سالوں میں 1.13 لاکھ روپے زائد ادا کرنے ہوں گے۔
اس کے علاوہ ریپوریٹ میں اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شرح سود پر تمام بینکس آر بی آئی سے قرض لیتے ہیں اور پھر اس سے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور یہ تمام بینک مرکزی بینک کی شرح سود سے کچھ زیادہ ہی رکھتے ہیں۔ اس طرح گھر، گاڑی، کاروبار وغیرہ کے لیے بینکوں میں پیسہ جمع کرایا ہے یا لگایا ہے۔ ریپوریٹ میں اضافہ کا اثر پر مہنگائی پر پڑتا ہے۔ گزشتہ اضافہ کا اثر بھی بازار میں نظر آرہا ہے۔ اس کے بعد عالمی بازار میں شرح سود کے پیش نظر آر بی آئی اپنی شرحوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ امریکی فیڈرل بینک نے مہنگائی کو دیکھتے ہوئے اپنی شرحوں میں لگاتار اضافہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھارتی بازار سے روپے نکال کر کہیں اور سرمایہ کاری کرنا شروع کردیا ہے نتیجے میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے، مگر یہ دعویٰ کرنا فی الحال مشکل ہے کہ اس سے افراط زر پر اثر ہوگا۔ آر بی آئی نے خود کہا ہے کہ مالی سال کی چوتھی سہ ماہی میں شرح مہنگائی 5.5 فیصد تک محدود ہوگی مگر اگلے مالی سال میں دوبارہ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ریپوریٹ میں اضافہ سے ہی مہنگائی پر بریک لگایا جا سکتا ہے۔
مہنگائی بڑھ کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگی ہے۔ جنوری 2023 میں خردہ مہنگائی بڑھ کر 6.52 فیصد ہوگئی جو تین ماہ کے سب سے اونچی سطح پر ہے۔ ویسے خردہ مہنگائی دسمبر میں 5.72 فیصد تھی اور گزشتہ سال جنوری میں 6.01 فیصد تھی۔ تین ماہ قبل اکتوبر 2022 میں 6.77 فیصد تھی۔ خوردنی اشیاء، سبزیاں، گیہوں، دال، چاول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ جنوری میں فوڈ انفلیشن 5.94 فیصد پہنچ گیا ہے جو دسمبر میں 4.19 فیصد تھا۔ واضح رہے کہ مہنگائی کا براہ راست تعلق لوگوں کی قوت خرید سے ہے۔ مثلاً مہنگائی سات فیصد رہتی ہے تو حاصل شدہ سو روپے کی قیمت ترانوے روپے ہوجاتی ہے۔ قومی شماریاتی آفس (این ایس او) کے اعداد و شمار کے مطابق خوردنی اشیا کی جنوری میں شرح مہنگائی 5.94 فیصد تھی اور یہ دسمبر میں کم ہوکر 4.11 فیصد ہوگئی تھی جو گزشتہ سال اسی مہینہ میں 5.43 فیصد تھی۔ سبزیوں کی قیمتیں جنوری میں کم ہوئی ہیں حالانکہ ایندھن و دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ حکومت کے ذریعہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سبزیوں کی شرح مہنگائی 11.70 فیصد رہی۔ ایندھن اور توانائی شعبہ میں 10.84 فیصد۔ ہاوسنگ شعبہ میں 4.62 فیصد اور دالوں کی شرح مہنگائی بڑھ کر 4.24 فیصد پر آگئی۔ اصلاً آر بی آئی مانیٹری پالیسی پر غور و خوض کے وقت خردہ مہنگائی پر غور کرتا ہے۔ مرکزی بینک کو مالیاتی خسارہ کو ±2 سابقہ چار فیصد پر مستحکم رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے مگر آر بی آئی نے گزشتہ ہفتہ ریپوریٹ 0.25 فیصد بڑھا کر 6.5 فیصد کر دیا ہے۔ مہنگائی کے مذکورہ عوامل کے علاوہ مہنگائی میں کمی و بیشی پروڈکٹ کی طلب اور سپلائی پر بھی منحصر کرتی ہے۔ اگر عوام کے ہاتھ میں پیسے زیادہ ہوں گے تو زیادہ سامان خرید سکیں گے۔ زیادہ خریداری میں سامان کی طلب بڑھے گی اور طلب کے مطابق سپلائی نہ ہونے پر ان اشیا کی قیمتیں بڑھتی جائیں گی۔ اس طرح بازار مہنگائی کے زد میں آجاتا ہے۔ بازار میں پیسوں کا زیادہ بہاو یا اشیاء کی کم دستیابی مہنگائی کا سبب ہوجاتی ہے، جبکہ اگر طلب کم ہوگی اور سپلائی زیادہ تو مہنگائی کم ہو جاتی ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بازار میں پیسوں کے بہاو یعنی رقیقیت کو کم کیا جاتا ہے۔ اس لیے آر بی آئی رپوریٹو میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ دنیا کی اکثر معیشت مہنگائی کو ناپنے کے لیے ڈبلیو پی آئی کو اپنی بنیاد بناتی ہے۔ مگر بھارت میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ڈبلیو پی آئی کے ساتھ سی پی آئی کو بھی مہنگائی چیک کرنے کا اسکیل سمجھا جاتا ہے۔ آر بی آئی کے مالی اور کریڈٹ سے متعلق پالیسیاں طے کرنے کے لیے تھوک قیمتوں کو نہیں بلکہ خردہ شرح مہنگائی کو اصل اسٹینڈرڈ تسلیم کیا جاتا ہے۔ معیشت کی فطرت میں ڈبلیو پی آئی اور سی پی آئی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس طرح ڈبلیو پی آئی بڑھتا ہے تو سی پی آئی بھی بڑھتا ہے۔ کموڈیٹی کی قیمتیں خام تیل، مینوفیکچرڈ کاسٹ کے علاوہ کئی دیگر اشیاء بھی ہوتی ہیں جن کی خردہ شرح مہنگائی طے کرنے میں اہم رول ہوتا ہے۔ تقریباً 299 اشیا ایسی ہیں جن کی قیمتوں کی بنیاد پر خردہ شرح مہنگائی طے ہوتی ہے۔ اس لیے اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی شعبدہ بازی چھوڑ کر خوردنی تیل، چاول، دال، گیہوں، پکوان گیس اور پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کمی لاکر عوام الناس کو مہنگائی سے راحت دلانے کی کوشش کرے۔
***

 

***

 ریپوریٹ میں اضافہ کا اثر پر مہنگائی پر پڑتا ہے۔ گزشتہ اضافہ کا اثر بھی بازار میں نظر آرہا ہے۔ اس کے بعد عالمی بازار میں شرح سود کے پیش نظر آر بی آئی اپنی شرحوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ امریکی فیڈرل بینک نے مہنگائی کو دیکھتے ہوئے اپنی شرحوں میں لگاتار اضافہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھارتی بازار سے روپے نکال کر کہیں اور سرمایہ کاری کرنا شروع کردیا ہے نتیجے میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے، مگر یہ دعویٰ کرنا فی الحال مشکل ہے کہ اس سے افراط زر پر اثر ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023