’’بڑھتے قدم نہ رک پائیں گے،کوئی روک سکے تو روک لے‘‘
’بھارت جوڑویاترا‘راہل گاندھی کی امیج سنوارنے میں معاون۔مخالفین کے داوپیچ الٹے ثابت ہورہے ہیں
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
کانگریس لیڈر نے ساورکر کا ذکر چھیڑ کر جانب دار میڈیا کی توجہ کھینچ لی
ڈر اور نفرت کے ماحول کے خلاف لڑائی ایک مثبت پیش رفت
بھارت جوڑو یا ترا نے راہل گاندھی کو سیاست سکھا دی ہے۔ کھیل کے ترمیم شدہ اصول و ضوابط جانے بغیر ماہر سے ماہر کھلاڑی بھی فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ راہل گاندھی کو سیاست کی مہارت تو وراثت میں مل گئی لیکن اس کھیل میں جو نت نئے تماشے رائج ہوگئے ہیں ان سے وہ واقف نہیں تھے ۔ یہ ایک فطری بات ہے کیونکہ انسان عام طور کتابوں سے یا اپنے ماحول سے زیادہ تر باتیں سیکھتا ہے ۔ راہل کے ماحول میں وہ چیزیں موجود نہیں تھیں۔ ان کے پاس اس ماحول سے باہر جانے کی نہ فرصت تھی اور نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے ۔ راہل کے لیے اقتدار کا راستہ بہت آسان تھا ۔ راہل نے ہوش سنبھالا تووزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سونیا گاندھی کی مرہونِ منت تھے ۔ کانگریسی منتظر تھی کہ جب مناسب موقع پر منموہن سنگھ خود آگے بڑھ اقتدار سے دستبردار ہوجائیں گے تو راہل گاندھی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سجا دیا جائے گا ۔ اسی لیے بی جے پی والے انہیں یووراج (ولیعہد )کہہ کر مذاق اڑاتے تھے لیکن درمیان میں اقتدار بدل گیا ۔ کانگریس کی یکے بعد دیگرے دومرتبہ انتخابی شکست نے یہ بات واضح کردیا کہ راہل کو کرسی اقتدار پر فائز کرنا سونیا گاندھی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اب انہیں اپنا کنواں خود کھود کر اس میں سے پانی نکالنا ہوگا ۔
راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا ‘ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ یاترا راہل گاندھی کے سیاسی تشخص کی تشکیل کررہی ہے اور ان پر لگنے والے ہر الزام کی تردید کررہی ہے۔ راہل گاندھی کو ایک زمانے میں ’پپو‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اب یہ کوئی نہیں کہتا کیونکہ کوئی ’ پپو‘ ببانگ دہل ’چوکیدار چور ہے‘ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا ۔راہل کی سیاسی پختگی صرف الزام تراشی تک محدود نہیں رہی بلکہ کورونا کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی ان کے کئی مشوروں پر حکومت نے عمل کیا ہے۔ راہل پر دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ جز وقتی سیاستداں ہیں اور انتخابی مہم کے بعد غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں ۔ ایسے رہنما کے لیے ہمہ وقت سیاست میں غرق رہنے والوں کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ راہل گاندھی نے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کے پیدل سفر کا اعلان کرکے اس الزام کا کچو مر نکال دیا۔ وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ان کا کوئی حریف ایسی ملک گیر مہم نہیں چلا سکتا ۔ راہل کو اب عوام کے ساتھ ملنے جلنے میں لطف آنے لگا ہے اور اس لیےمباداکہ پھر سے بیرونِ ملک چھٹی گزارنے کے لیے جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ یہ سیاسی شبیہ کی واضح تبدیلی ہے۔
راہل گاندھی کی ذات کے علاوہ ان کی کانگریس پارٹی پر یہ الزام لگتا تھا کہ وہ ایک خاندان کی پارٹی ہے کیونکہ سونیا گاندھی اس کی صدر اور راہل گاندھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ وقت ضرورت پرینکا گاندھی کارکنان کو پر جوش کرنے کی خاطر نمودار ہوجاتی ہیں ۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آتا حالانکہ بی جے پی میں تو دو ہی نظر آتے ہیں اگرچہ ان کا تعلق ایک خاندان سے نہیں ہے ۔ کانگریس نے ملک ارجن کھرگےکو پارٹی کا صدر منتخب کرکے اس الزام کی عملاً تردید کردی اور یہ پیغام دیا کہ ایک دلت رہنما بھی آزادانہ طور پر پارٹی کی کمان سنبھال سکتا ہے۔ بہت طویل عرصے کے بعد کسی پارٹی میں کارکنان کے رائے مشورے سے کوئی سربراہ منتخب ہوا ہے ورنہ چہار جانب نامزدگی کا دور دورہ ہے۔ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر پارٹی میں پتاّ بھی نہیں ہلتا ۔ وہ فون کرکے جس سے چاہیں استعفیٰ لے لیتے ہیں اور جس کو مرضی ہو نامزد فرمادیتے ہیں ۔ یہ تو نظریات کی حامل کیڈر والی پارٹی کا حال ہے اس کے علاوہ جہاں موروثی نظام رائج ہے ان کا کیا کہنا؟ اس لحاظ سے اب راہل کی پارٹی پر موروثیت کا الزام لگانا مشکل ہوگیا ہے۔
’ بھارت جوڑو یاترا ‘ کوئی انتخابی ہنگامہ آرائی نہیں بلکہ ایک بیداری مہم ہے ۔ اس لیے اس کے راستے میں نہ تو ہماچل پردیش آیا اور نہ وہ گجرات میں داخل ہوئی ۔ یہ بات ہرکوئی سمجھ سکتا ہے کہ نفرت سے سماج ٹوٹتا ہے اور اس کی بیخ کنی کے بغیر عوام کو جوڑا نہیں جاسکتا۔ راہل گاندھی اپنی تقاریر میں نفرت کے پھیلنے کی وجہ ’ڈر‘ کا ماحول بتاتے ہیں ۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کا ایک نکاتی ہدف ہندو سماج کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے اور کرسی کی خاطر انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر وہ متحد اور صف آرا نہیں ہوئے تو پھر سے ملک میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے گی اور ماضی کے مظالم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام پر جس قدر ظلم واستحصال موجودہ سرکاریں کررہی ہیں اس کا عشر عشیر بھی کسی مسلمان بادشاہ نے نہیں کیا تھا ۔ اس زمانے کی خوشحالی نے تو بھارت کو سونے کی چڑیا بنا دیا تھا۔ راہل کی منطق یہ ہے کہ موجودہ سرکار چونکہ عوام کے بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کو حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے وہ نفرت کی آگ بھڑکا کرخوف کا ماحول بناتی ہے۔ راہل کے خیال میں نفرت کے خاتمے کی خاطر ڈر کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ یاترا لوگوں کو آپس میں جوڑ کر باہمی اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہے تاکہ خوف و منافرت کا خاتمہ ہوسکے۔
اس بیداری کی مہم نے نہ صرف راہل گاندھی کو عام لوگوں سے جوڑ دیا بلکہ جہاں جہاں سے یاتراگزر رہی ہے وہاں کی عوام کو بھی ان سے جوڑ دیا ہے ۔ یاترا میں شامل لوگوں کے جنون کااندازہ ویڈیوز اور رپورٹوں سے نہیں لگایا جاسکتا ، اس کے لیے مشاہدہ لازمی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے لیے جاڑے میں صبح پانچ بجے لوگوں کا نکل کھڑا ہونا اور راستوں میں نوجوانوں ، خواتین اور بزرگوں کا گھنٹوں انتظار کرنا تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔نوجوان پیچھے سے دوڑ کر آگے نکلنے کے بعدجب راہل کو دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں ’نظر آ گیا‘۔ خواتین بچوں کو گود میں لے کر یاترا میں چلنا اپنے لیے سعادت سمجھتی ہیں۔ بزرگ راستوں پر کھڑے ہوکر دعا کرتے ہیں ۔ ایک تپسیا سمجھ کراس یاترا میں شامل ہونے وا لوں کا مشاہدہ جا بجا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسے مختلف حیلوں بہانوں سے روکنے کا اشارہ کررہے ہیں اور راہل کا جواب ہے:’ بڑھتے قدم نہ رک پائیں گے،کوئی روک سکے تو روک لے‘۔
بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اس لیے کنیا کماری سے کشمیر تک کے پیدل سفر کرنےکے باوجود ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت اس بے بہرہ ہے۔ عصر حاضر میں اس خلاء کو میڈیا کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے ۔ وہ ایک مقامی واردات کو عالمی سطح پر ساری دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔ بھارت میں قومی میڈیا کو چونکہ مرکزی حکومت نے اپنے گود لے لیا ہے اور اس کے منہ میں بچوں کی چسنی کے مانند اشتہارات لگے رہتے ہیں ہے ۔ سرکار کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کو چباتے چباتے اس کے دانت ٹوٹ گئے ہیں اس لیے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی ویسی تشہیرنا ممکن ہے کہ جو اس کا حق ہے۔ جانب دار میڈیا اگردانستہ طور پریاترا کو نظر انداز نہیں کرتا تو بڑی آسانی سے عوام کی بڑی تعداد اس سے جڑ جاتی لیکن نمک خواری اس کی مجبوری ہے۔ ابتداء میں جب بی جے پی والے مختلف انداز میں مخالفت کررہے تھے اس وقت ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ‘ کی مصداق یاترا کو شہرت مل رہی تھی ۔ آگے چل کر بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے اپنے اور میڈیا کی زبان پر بھی لگام لگا دی۔ مرکزی حکومت کی اس نئی حکمت عملی نے بھارت جوڑو یاترا کو سوشل میڈیا کی حد تک محدود کردیا۔ اب کچھ ایسا کرنا یا کہنا ضروری تھا کہ جس سے یہ لگام ٹوٹے اور مخالفین کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوجائے۔ اس کے لیے ایک تنازعہ کی ضرورت تھی۔ یہ احساس مہاراشٹر کے اندر ہوا جہاں یاترا کو زبردست کامیابی مل رہی تھی۔ ایک ایسے وقت میں اسے محسوس کیا گیا کہ جب صوبے کے اندر یہ کارواں اپنے آخری پڑاو میں داخل ہورہا تھا اور شے گاوں میں ایک زبردست جلسۂ عام کی تیاری ہورہی تھی۔ ایسے میں راہل گاندھی نے منصوبہ بند طریقہ پر ساورکر پر لب کشائی کی اورایک پریس کانفرنس میں ان کا معافی نامہ پڑھ کر سنایا۔یہاں بھی وہی منطق کارفرما تھی کہ ساورکر نے خوف کی وجہ سے معافی نامہ پر دستخط کیے اور جیل میں بند گاندھی ، نہرو اور پٹیل کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔ راہل نے اس رویہ کو غداری بتاتے ہوئے ساورکر اور ان کے پیروکاروں کے خلاف کانگریس پارٹی کے نظریاتی فرق کو واضح کیا ۔ موجودہ ابن الوقتی کی سیاست میں نظریہ کی بات ایک مثبت تبدیلی تھی۔
ساورکر پر راہل گاندھی کے بیان نے پورے مہاراشٹر کے اندر ایک زبردست کھلبلی مچا دی ۔ یہ قیاس آرائی ہونے لگی کہ شے گاوں میں راہل گاندھی کی تقریر کا مرکزی موضوع ونایک دامود ساورکر ہوگا ۔ بی جے پی والے اس کو بھنانے کی تیاری میں لگ گئے اور میڈیا کو گودی سے نکال کر میدان میں دوڑا دیا ۔ اس کو یقین تھا کہ خطاب عام کے اگلے دن شیوسینا مجبوراً مہاوکاس اگھاڑی سے الگ ہو جائے گی اور اسے بھارت جوڑو یاترا کی بہت بڑی ناکامی کے طور پر پیش کیا جاسکے گا ۔یاترا کو بدنام کرنے کے لیے ایک بڑی خبر میڈیا کے ہاتھ لگ جائے گی۔ بڑے ارمانوں کے ساتھ سارا میڈیا شے گاوں کے خطاب عام کو براہِ راست نشر کرنے کے لیے جلسہ گاہ پہنچا اور وہاں موجود عوام کے جم غفیر کی تصاویر نشر کرتا رہا لیکن راہل گاندھی سے ساورکر پر جس تنقید کی توقع تھی اس پر پانی پھر گیا یعنی غالب کا یہ شعر پھر سے زندہ ہوگیا ؎
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
شے گاوں کے خطاب عام میں راہل تو دور کسی بھی مقرر نے ساورکر کا ذکر کرنے کی زحمت نہیں کی یہ اس تنازعہ کے منصوبہ بند ہونے کا واضح اشارہ ہے۔ اس معاملے میں چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل ایک استثناء تھے جنہوں نے اس نظریاتی جنگ کی جانب اشارہ تو کیا مگر وہ اس قدر بلا واسطہ اور محتاط انداز میں تھا کہ اس پر تنقید کرنے کی گنجائش ہی نہیں نکلی۔ شے گاوں میں راہل گاندھی کی تقریر تو خیر خوب چلی اس میں ساورکر کادور دور تک اشارہ تک نہیں تھا لیکن بگھیل نے جو کچھ کہا وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے جیسے ہی کہا ’آزادی سے قبل ‘ تو میڈیا کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس کو محسوس ہوا کہ اب اپنی من مراد پوری ہونے والی ہے۔ کیمروں کے زوم جب بھوپیش بگھیل پر مرکوز ہوگئے تو انہوں نے بال گنگا دھر تلک کا ذکر کیا اور پھر ان کو گاندھی جی سے جوڑ کرآگے بولے آزادی سے قبل ملک کے تین کونے ہندو ، مسلمان اور انگریز تھے ۔ گاندھی جی جانتے تھے جب ہندو اور مسلمان یکجا ہوں گے تو انگریز بھاگ جائیں گے اس لیے انہوں نے ان دونوں کو جوڑ دیا لیکن اس وقت کچھ لوگ ہندووں کو انگریزوں سے جوڑنے کی سعی کررہے تھے ۔ وہ کون لوگ تھے ؟ یہ بگھیل نے نہیں بتایا مگر لوگ سمجھ گئے کہ وہ کون تھا اور کیا چاہتا تھا؟اس طرح سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔
خطاب عام سے قبل ساورکر کے ذکر شر سے کانگریس نے تو میڈیا کو اپنی جانب راغب کرکے تشہیر کروا لی مگر مخالفین کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا اور جو لوگ مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کے ٹوٹنے کی ’آس لگائے بیٹھے تھے ،ان کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے‘۔ اس لیے گودی میڈیا وفا کرکے بھی اپنے آقاوں کے ساتھ تنہا رہ گیا تھا ۔راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا 23 نومبر کو ضلع برہان پور سے مدھیہ پردیش میں داخل ہو کر 24 نومبر کو اندور پہنچے گی۔ اس دوران راہل گاندھی 24 نومبر کو خالصہ کالج کے اسٹیڈیم میں شب گزاریں گے۔ایم پی میں یاترا کے حوا لے سے کانگریسی رہنما اور کارکنان کافی پرجوش ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا سے تمام طبقات کے لوگ براہ راست جڑ رہے ہیں۔کانگریس کو توقع ہے کہ مالوا خطے میں یہ مہم اپنے پورے شباب پر ہوگی اور ہزاروں نوجوان اس کا حصہ بنیں گےاور اندور میں راہل گاندھی کے جلسہ عام میں بھی لاکھوں لوگوں کی شرکت کا امکان ہے۔
اس جوش و خروش کے دوران مدھیہ پردیش میں داخلہ سے قبل بھارت جوڑو یاترا میں شامل راہل گاندھی کو اندور میں بم سے اڑا دینے کی دھمکی نے ایک نیا ہیجان کھڑا کرکے عوامی بحث و مباحثے کا موضوع بنادیا ہے ۔راہل گاندھی کے لیے یہ دھمکی آمیز خط جونی اندور تھانہ علاقے میں ایک مٹھائی کی دکان پر موصول ہوا ۔ اس کے بعد مقامی پولیس اور کرائم برانچ کے اہلکار آس پاس نصب سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے خط چھوڑنے والے شخص کی تلاش میں لگ گئے ۔ اندور کے خالصہ کالج میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہل گاندھی کے رکنے پر بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی ہے۔ یہ خط غالباً اجین سے آیا ہےاور لفافہ پر خط بھیجنے والی کی جگہ رتلام کے بی جے پی رکن اسمبلی چیتن کشیپ کا نام لکھا ہے حالانکہ انہوں نے اسے ایک سازش قرار دے کر اس سے لاتعلقی ظاہر کی ہے ۔
اس خط میں 1984 میںہونے والے سکھوں کے قتل عام کاحوالہ دینے کے بعد یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اس ماہ اندور میں مختلف مقامات پر خوفناک بم دھماکے ہوں گے۔ پورا اندور بم دھماکوں سے لرز اٹھے گااور کمل ناتھ کو گولی مار دی جائے گی۔ راہل گاندھی کو بھی راجیو گاندھی کے پاس بھیج دیا جائے گا۔ مذکورہ دھمکی آمیز خط کے بعد ہر طرف افرا تفری پھیل گئی اور پولیس و انتظامیہ بھی سرگرم ہو گئی اور اس نے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے کرکسی خفیہ مقام پر پہنچا دیا۔ اس فرد کا تعلق سکھ طبقہ سے ہے۔ ویسے کمشنر کے خیال میں اس نے یہ خط نہیں لکھا۔مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے بھارت جوڑو یاترا کی سیکورٹی سخت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں وہ وزیر اعلیٰ سے مل چکے ہیں۔ کمل ناتھ کے مطابق بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے، اس لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے۔انہوں نے اس بابت غالباً مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے بھی رابطہ کیا ہے۔ یہ معاملہ بظاہر مضحکہ خیز نظر آرہا ہے لیکن اگر اس میں آر ایس ایس ملوث ہوتو اس کو ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس کے لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
راہل گاندھی کو یہ دھمکی مہاراشٹر کے اندر قیام کے دوران موصول ہوئی۔ یہی وہ صوبہ ہے جہاں ونایک دامودر ساورکر پیدا ہوئے اور انہوں نے ہندو مہا سبھا کی بنیاد رکھی ۔ یہیں پر ڈاکٹر ہیگڑے وار نے آر ایس ایس قائم کی اور اسی صوبے کے ہندوتوا دی ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کیا ۔ اس لیے یہ بھی دہشت گردی کا ایک بہت بڑا اڈہ ہے۔ یہاں پر تروڈا گرام پنچایت کے پاٹ بندھارے نگر کے اندر 2006ء میں ایک بم دھماکہ ہوا تھا ۔ اس میں2؍ افراد مارے گئے تھے ۔ اس کی سماعت ہنوز جاری ہے۔ امسال 22؍ ستمبر کو معاملہ کی اگلی سماعت سےقبل متعلقہ کیس میں آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے ایک سابق رکن نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئےملزمین اور دھماکے کی سازش کے علم ہونے کا اہم انکشاف کیاتھا ۔یشونت شندے نامی اس شخص نےحلفیہ بیان درج کروا کر مذکورہ بم دھماکہ میں اسے گواہ بنانے کی اپیل کی ۔اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بم دھماکہ میں ملوث ملزمین اور انہیں دی جانے والی بم سازی کی ٹریننگ دینے والوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے ۔ یشونت شندے کے انکشافات سے آر ایس ایس ،وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے کئی چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں اس لیے سی بی آئی نے اس گواہی کی مخالفت کی ہے تاکہ انہیں بچایا جاسکے۔ جہاں حکومت دہشت گردوں کی پشت پناہ ہو وہاں ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔
راہل گاندھی کو مدھیہ پردیش میں مارنے کی دھمکی ملی ہے ۔ وہاں پر ساورکر کے شاگرد ِ خاص و گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈ کی مداح اور مالیگاوں دھماکوں کی ملزم رکن پارلیمان ہے۔ بی جے پی کے زیر انتظام ریاست میں ویسے بھی اس یاترا کا گزرنا مشکل ہے کیونکہ شرپسند عناصر کو سرکاری تحفظ حاصل ہوتا ہے۔آر ایس ایس پر یہ کوئی خیالی الزام نہیں ہے ۔ ابھی حال میں کیرالا کی نیاٹنکارا ایڈیشنل سیشن عدالت نے 2013 میں کیےگئے اناوور نارائنن نائر کے قتل پر اپنا فیصلہ سنایا۔5 نومبر 2013 کو نارائنن نائر کے بیٹے شیوا پرساد پر حملہ کرنے کے لیے آر ایس ایس کے کارکنان ان کے گھر میں گھس گئے تھے۔ اس وقت شیو پرساد سی پی ایم کی طلبہ ونگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کے فیلڈ سکریٹری تھے۔ اپنے بیٹے شیوا پرساد کو حملہ سے بچانے کی خاطر نائر درمیان میں آئے تو حملہ آوروں نے انہیں بھی ہلاک کر دیا ۔ قاتلوں کی سفاکی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے نارائنن نائر کو ان کی بیوی اور دو بیٹوں کے سامنے قتل کیا تھا۔ اس الزام میں آر ایس ایس کے 11 کارکنوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ قتل کے 9 سال بعد عدالت نے مجرموں پر ایک ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ۔ اس مقدمہ کی روشنی میں انداز لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس قدر سفاک دہشت گرد ہیں۔ یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ فی الحال راہل گاندھی ریاستِ کیرالا سے رکن پارلیمان ہیں اس لیے ان پر حملہ آور چاہے جس نام سے دھمکی دیں لیکن ان کا تعلق کیرالا سے بھی ہوسکتا ہے۔ راہل گاندھی کو دی جانے والی دھمکی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کیونکہ ان کے والد اور دادی دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہوچکے ہیں اور اب تو راجیو گاندھی کے قاتلوں کو بھی رہا کیا جاچکا ہے۔ اس لیے ’نفرت چھوڑو اور بھارت جوڑو‘ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
راہل کی منطق یہ ہے کہ موجودہ سرکار چونکہ عوام کے بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کو حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے وہ نفرت کی آگ بھڑکا کرخوف کا ماحول بناتی ہے۔ راہل کے خیال میں نفرت کے خاتمے کی خاطر ڈر کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ یاترا لوگوں کو آپس میں جوڑ کر باہمی اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہے تاکہ خوف و منافرت کا خاتمہ ہوسکے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022